unique-new-years-eve-traditions-from-around-the-world

جشن سال نو منانے کے منفرد انداز

”بیٹی! ذرا،دوبارہ بھائی کو فون کرنا، دیکھو نا،کتنی رات گزرچکی لیکن کامران ابھی تک گھر لوٹ کر نہیں آیا“۔صفیہ بیگم نے بیٹی کو آواز لگائی۔
”اماں،گزشتہ ایک گھنٹے میں آپ کے کہنے پر میں کوئی بیسیوں مرتبہ بھائی کے نمبر پر کال کرچکی ہوں، جب وہ فون اُٹھا ہی نہیں رہا تو میرے مسلسل کال کرنے سے آخر ہو گا بھی کیا“۔انعم نے صفیہ بیگم کو جھنجھلاتے ہوئے جواب دیا۔
”بیٹی! مجھے تو فکر ہورہی ہے رات کے تین بج رہے ہیں اور تمہارے بھائی کا کوئی اَتا پتا نہیں ہے۔ اللہ خیر کرے، میرے دل میں تو ہزار طرح کے وسوسے پیداہورہے ہیں“۔صفیہ بیگم نے گھبراتے ہوئے کہا۔
”اماں! میں نے آپ کو کتنا منع کیا تھا،آج ہیپی نیو ائیر نائٹ پر بھائی کو باہر جانے ہی نہ دو، کیونکہ جس بھونڈے اور خطرناک انداز میں ہماری نوجوان نسل سالِ نو کا جشن مناتی ہے۔بس! الامان والحفیظ۔لیکن اُس وقت تو آپ کو بھائی پر بڑا لاڈ آرہا تھا اور مجھے ڈانٹ کر بھائی کو نیو ائیر نائٹ منانے کے لیئے دوستوں کے ساتھ جانے کی اجازت دے دی تھی“۔بیٹی کا ناصحانہ جواب سُن کر صفیہ بیگم کچھ اور پریشان ہوگئی۔ ابھی ماں بیٹی کی بحث و تکرار جاری تھی کہ گھر کے دروازے پر زور زور سے دستک ہوئی۔ صفیہ بیگم نے تیزی سے بھاگ کر دروازے کھولا تو تین،چار اجنبی افراد چند پڑوسیوں کے ہمراہ خون میں لت پت ایک لاش لیئے گھر میں داخل ہوگئے۔
”یہ کس کی لاش ہے؟میرا کامران کہاں ہے؟اور تم سب لوگ کون ہو؟“ صفیہ بیگم نے چیختے ہوئے کہا۔
”اماں! صبر کریں، نئے سال کی خوشی میں شہر بھر میں ہونے والی ہوائی فائرنگ کی ایک اندھی گولی نے آپ کے بیٹے کی جان لے لی ہے“۔ہجوم میں سے دلاسے دیتی یکے بعد دیگرے کئی آوازیں بلند ہوئیں۔

یکم جنوری سے نئے عیسوی سال کا آغاز ہوتاہے اور دنیا بھر میں اس موقع پر جشنِ سالِ نو منانے کا اہتمام کیا جاتاہے۔ لیکن المیہ ملاحظہ ہو کہ ہمارے ہاں! نئے سال کی خوشیاں منانے کے خطرناک اور جان لیوا، انداز و اطوار تیزی سے مقبولیت حاصل کرتے جارہے ہیں۔ مثلاً نوجوانوں کے نزدیک ہوائی فائرنگ، ون ویلنگ، سڑکوں و بازاروں میں ٹولیوں کے شکل میں ہنگامہ آرائی اور دھماچوکڑی کرنا ہی،جشن سالِ نو کی معراج بن کر رہ گئی ہے۔ بدقسمتی سے ہیپی نیو ائیر منانے کے یہ مذموم”اندازِ مسرت“ ہر برس بے شمار گھرانوں میں صفِ ماتم بچھادیتے ہیں۔ اگرچہ ہرخطے اور ملک میں نت نئے انداز میں سالِ نو کا استقبال کیا جاتاہے لیکن کہیں بھی ہیپی نیو ائیر کی آڑ میں وہ طوفان بدتمیزی بپا نہیں ہوتاجو چند برسوں سے من حیث القوم ہماری بدترین شناخت بن کر رہ گیا ہے۔ واضح رہے کہ دنیا بھر میں سالِ نو کا استقبال عجیب وغریب طریقوں، انوکھی روایات،منفرد رواجوں اور مضحکہ خیزانداز میں تو ضرور کیا جاتاہے لیکن اِن میں سے کوئی بھی ”اندازِ جشن“ خطرناک اور جان لیوا ہرگز نہیں ہوتا۔ یقین نہ آئے خود ہی پڑھ کر دیکھ لیں۔

نئے سال کی پلیٹ توڑ خوشیاں
ڈنمارک میں لوگ نئے سال کی آمد پر اپنے پیاروں کو تحفے، تحائف،مٹھائیاں یا تہنیتی پیغامات بھیجنے کے بجائے اُن کے دروازوں کے باہر پلیٹیں وغیرہ پھینک کر توڑنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ یعنی جیسے ہی31 دسمبر کی شب 12 بجے کے بعد سالِ نو کی پہلی ساعت شروع ہوتی ہے،ڈنمارک کے باسی اپنے دوست،احباب، رشتہ داروں کے دروازوں کے باہر تام چینی یا کانچ کی پلیٹیں،چائے کے کپ اور گلاس وغیرہ پھینکنے کے لیئے اپنے اپنے گھروں سے نکل پڑتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اگلی صبح جس شخص کے گھر کی دہلیز پر جس قدر زیادہ تعداد میں ٹوٹے ہوئے برتنوں کے ٹکڑے پائے جاتے ہیں،اُسے آس پڑوس کے لوگ اتنا ہی مجلسی اور زندہ دل شخص سمجھتے ہوئے، قابل رشک نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ نیز ڈنمارک میں نئے سال کے پہلے دن گھر کے دروازے کے باہر کثیر تعداد میں ٹوٹی ہوئی پلیٹوں کا پایا جانا،اس بات کی علامت بھی خیال کیا جاتاہے کہ مذکورہ شخص کے لیئے آنے والا برس زبردست خوش بختی کا باعث ثابت ہوگا۔

سال نو پر جانوروں سے باتیں کریں
جی ہاں! رومانیہ میں قدیم زمانے سے ہی اِس عجیب و غریب عقیدے پر پختہ یقین پایا جاتاہے کہ پالتو جانور نہ صرف انسانوں کی باتیں سُن سکتے ہیں بلکہ وہ انسانوں سے سنی سنائی باتیں آسمانی دیوتاؤں کے گوش گزار کرنے کی بھی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ لیکن مصیبت یہ ہے کہ دیوتاؤں کی جانب سے پالتو جانوروں کو یہ جادوئی خوبی اور معجزاتی طاقت صرف نئے سال کے آغاز پر اور وہ بھی فقط چند گھنٹوں کے لیئے عطا کی جاتی ہے۔ لہٰذا سال ِ نو کے آغاز پر رومانیہ میں لوگوں کی اکثریت آپ کو ایک دوسرے سے کم اور اپنے پالتو جانوروں کے ساتھ راز و نیاز کرتی ہوئی زیادہ دکھائی دے گی۔ یوں رومانیہ میں نئے برس کی پہلی ساعت شروع ہوتے ہی، وہاں کے باسی اپنے مسائل و مصائب، مستقبل کے منصوبے اور اپنی خواہشات انتہائی تفصیل کے ساتھ پالتو جانوروں کے کان میں کہہ دیتے ہیں، اس وہم و گمان کے ساتھ کہ اُن کی کہی گئی تمام بات چیت یہ پالتوجانور آسمانی دیوتا ؤں تک پہنچادیں گے اور اس سلسلہ جنبانی کے نتیجے میں اُن کا نیا برس بہت اچھا گزرے گا۔ واضح رہے کہ رومانیہ کے لوگوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ بعض پالتو جانور مخصوص خواہشات کو پوری توجہ سے سننے اور اُنہیں آگے پہنچانے میں خاص مہارت یا غیر معمولی صلاحیت رکھتے ہیں۔ مثلاً کتا،بلی اور توتا کے کان میں کہی گئی شادی بیاہ، لاٹری اور اولاد کی خواہشات زیادہ جلدی پوری ہوجاتی ہیں جبکہ گائے اور بھیڑ وغیرہ کاروبار میں ترقی،ملازمت اوراچھی فصل جیسی تمنائیں، انسانوں سے سن کر آسمانی دیوتا تک پہنچانے میں یدطولیٰ رکھتے ہیں۔

آئس کریم کا سال نامہ
آئس کریم کے زمین پر گرجانے سے کیا ہوتاہے؟۔ یقینا اس سوال کے جواب میں اکثر قارئین یہ ہی کہیں گے کہ اگر اُن کے سامنے کسی بچے کی آئس کریم زمین پر گرے گی،تواُس بچوں کو لازماً ایک اور نئی آئس کریم خرید کر دینا ہوگی،وگرنہ وہ بچہ رو،رو کر آسمان سر پر اُٹھا لے گا اور اگر کسی بالغ شخص سے بے دھیانی میں آئس کریم زمین گر جائے گی تو وہ بغیر کسی خاص تاثر کا اظہار کیئے صبر کر جائے گا۔ لیکن اگر آپ حسن اتفاق سے سوئزرلینڈ میں ہوں اور سال کا پہلا دن ہو اور آپ کے ہاتھ سے اچانک بے دھیانی میں آئس کریم پھسل کر زمین پر گر جائے تو یقین مانیے،آپ کے اردگرد موجود افراد نہ صرف اس واقعہ پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے، آپ کو ڈھیروں مبارک باد دیں گے بلکہ آپ کی خوش قسمتی پر رشک کا بھی اظہار بھی کریں گے۔ کیونکہ سوئزرلینڈ میں سالِ نو آغاز ہونے کے بعد آئس کریم کا زمین پر گرنا،اگلا پورا سال عافیت اور خوشیوں بھرا گزرنے کی نوید سمجھا جاتاہے۔ شاید یہ ہی وجہ ہے کہ نئے سال کے موقع پر سوئزر لینڈ میں لوگوں کی اکثریت آئس کریم خرید کر جان بوجھ کر زمین پر گردا دیتی ہے اور پھر اُسے خوشی خوشی زمین سے صاف بھی کرتی ہے۔ کیونکہ اُن کا ماننا ہے کہ نئے برس کے ابتدائی لمحات میں زمین پر گری ہوئی آئس کریم صاف کرنے سے اگلے برس پیش آمدہ تمام مشکلات،مصائب اور پریشانیاں بھی لوحِ تقدیر کی پیشانی سے یکسر صاف ہوجاتی ہیں۔

پنجہ آزمائی اور مکا بازی
پیرو میں سالِ نو کے تہوار کو مقامی زبان میں ”تاکانا کیوی“(Takanakuy) کہا جاتاہے، جس کا مطلب ہے ”جب خون اُبل رہا ہے“۔پیرو میں ”تاکاناکیوی“کے تہوار کو ”دیرینہ دشمنی اور ناچاکیوں کے خاتمہ کا دن سمجھ کر منایا جاتاہے۔ اِس تہوار کی تقریبات ملک بھر میں نئے سال کی پہلی صبح طلوع ہوتے ہی شروع ہوجاتی ہیں اور لوگ زرق برق،بھڑکیلے اور رنگ برنگے کپڑوں میں ملبوس ہوکر ”تاکاناکیوی“ کی منعقدہ تقریبات میں شریک ہونے کے لیئے اپنے گھروں سے نکل پڑتے ہیں۔”تاکانا کیوی“ تقریب میں شرکاء خوب کھاتے،پیتے ہیں،پسندیدہ موسیقی پر ایک دوسرے کے ساتھ دل کھول کر ناچتے اور گاتے ہیں اور تقریب کے اختتامی لمحات میں معاشرے کے معزز اور بزرگ افراد ایک اعلان فرماتے ہیں کہ”اس تقریب میں موجود جس شخص کی بھی اپنے کسی دوست،عزیز یا رشتہ دار دشمنی،پرخاش یا مخاصمت جاری ہے،وہ دونوں میدان میں آجائیں اور ایک دوسرے کے ساتھ پنجہ آزمائی، مکابازی اور دھکم پیل کر کے اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرلیں“۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اعلان سنتے ایک دوسرے کے ساتھ رقابت و عناد، رکھنے والے افراد باری باری شرکائے محفل اور معززین کے سامنے آکر اپنے اپنے مخالف کے ساتھ پنجہ آزمائی یا مکا بازی وغیرہ کرتے ہیں۔بعد ازاں بزرگ افراد ”تاکاناکیوی“ مقابلہ کے فاتح کا باضابطہ اعلان کر کے دونوں فریقین کو ایک دوسرے کے ساتھ گلے ملاتے ہیں اور انہیں نصیحت کرتے ہیں کہ ”تم دونوں نے ایک دوسرے کے ساتھ جتنی لڑائی کرنی تھی، وہ ہوچکی،اَب آئندہ سارا سال صاف نیت، ذہن اور دل کے ساتھ ایک دوسرے سے ملنا جلتا اور خوش رہنا“۔ یوں پیرو میں سال نو کی آمد پر لوگ”تاکا نا کیوی“ کی وساطت سے اپنے سارے جھگڑے اور گلے شکووں سے خلاصی حاصل کرلیتے ہیں۔

قبرستان میں شب بسری
چلی کے علاقے ٹیلکا(Talca) میں رہائش پذیر افراد کا مذہبی اعتقاد ہے کہ نئے سال کی پہلی ساعت شروع ہوتے ہی اُن کے آنجہانی یعنی انتقال کرجانے والے تمام دوست،احباب اور عزیز رشتہ داروں کی ارواح نئے سال کی خوشی منانے کے لیئے اپنی قبروں سے رات بھر کے لیئے باہر آجاتی ہیں۔ لہٰذا ٹیلکا کے باسی سال ِ نو کی خوشیاں اپنے گھر، گلی،محلے یا شہر کے کسی بارونق مقام پر منانے کے بجائے قبرستان میں مناتے ہیں اور وہ اس کے لیئے خوب اہتمام بھی کرتے ہیں۔مثلاً وہ پہلے نئے لباس میں پوری طرح سے سج دھج کر اپنے پیارے کی قبر پر جاتے ہیں،پھر خاندان کے سارے افراد اپنے دادا،دادی یا بزرگ کی قبر پر بیٹھ کر رات کا پرتکلف کھانا کھاتے ہیں۔ بعدازں مرنے والے کے ساتھ گزرے لمحات کا ایک دوسرے کے ساتھ تبادلہ خیال کرتے ہیں اور جب رات کا آخری پہر شروع ہوجاتا ہے تو پھر اپنے پیارے کی قبر کے بغل میں ہی بستر بچھا کر محو خرام ہوجاتے ہیں۔ کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اُن کے سوجانے کے بعد اُن کا عزیز اُن کے خواب میں آکر انہیں نیا سال خیرو عافیت سے گزرنے کے لیئے ڈھیر ساری دُعائیں دے گا۔ حیران کن طور پر ٹیلکا کے لوگ یہ عقیدہ بھی رکھتے ہیں کہ اگر مرنے والے کا کوئی عزیز مسلسل دو برس تک اُ س کی قبر پر شب بسری کے لیئے نہ آسکے تو پھر تیسرے سال اُس مرحوم پرسالِ نو کا جشن منانے کے لیئے قبر سے باہر آنے پر ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے پابندی لگ جاتی ہے۔ اس منفرد موضوع پر2017 میں ہالی ووڈ میں ”کو کو“(Coco) کے نام سے ایک بلاک بسٹر اینی میشن فلم بھی بنائی گئی ہے۔

اگلے برس کا پیمانِ سفر
سیر سپاٹے کر نے اور نت نئی جگہیں دیکھنے کی دیرینہ خواہش کسے نہیں ہوتی؟۔یقیناً ہر شخص ہی سفر کو وسیلہ طٖفر بناناچاہتا ہے لیکن سفر کے لیئے وسائل، فرصت اور مواقع ہر کسی کو آسانی سے نہیں دستیاب ہوپاتے۔یوں سیاحت کا شوق رکھنے والے اکثر افراد سفرنامے پڑھ کر ہی اپنے دل کے ارمان کسی حد تک پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کولمبیا میں بسنے والے افراد اپنی سیاحت کی خواہش کرنے کے لیئے نئے سال کی آمد کا بڑی بے چینی سے انتظار کرتے ہیں اور جیسے ہی گھڑی کا پنڈولیم نئے سال کی آمد کا بگل بجاتاہے، تو سیاحت کے شوقین، ٹولیوں کی شکل میں خالی بریف کیس، صندوق، اٹیچی کیس،یا کسی بھی نوعیت کا سفری بیگ اپنے ہاتھ میں تھام کر شہر بھر کا مٹر گشت کرنے کے لیئے نکل پڑتے ہیں اور چند گھنٹے شہربھر کی گلیوں کی آوارہ گردی کرنے کے بعد واپس اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں اور جہاں سے سفری بیگ اُٹھایا تھا،وہیں حفاظت سے رکھ دیتے ہیں۔ قارئین سوچ رہے ہوں گے کہ جب کولمیبا کے باسیوں نے کہیں جانا نہیں ہوتاتو پھر وہ سفر سامان اُٹھا کر شہر بھر کی خاک کیوں چھانتے ہیں؟۔ دراصل کولمبیا کی عوام سمجھتی ہے کہ نئے سال کے آغاز پر فقط سفری بیگ لے کر گھومنے پھرنے سے آئندہ برس اچھے اور کامیاب سفر کے لیئے غیب سے مواقع اور زادِ راہ کا انتظام ہوجاتاہے۔ اس لیے وہ سال نو کا جشن ”سیاح“ کی صورت دھار کر مناتے ہیں۔

سال ِ نو کا ”انگوری“جشن
اسپین میں لوگ نہ ایک کم اور نہ ایک زیادہ پورے 12 عدد انگور یک مشت اپنے منہ میں ڈال کر نئے سال کا استقبال کرتے ہیں۔ یعنی منہ میں ڈالا جانے والا انگور کا ہرخوشہ نئے برس کے کسی ایک مہینہ سے منسوب ہوتاہے۔اگر منہ میں ڈالے جانے والے انگوروں کا ذائقہ مجموعی طور پر میٹھا اور اچھا محسوس ہو تو اسے آئندہ سال بھر کے لیئے نیک شگون خیال کیا جاتاہے جبکہ انگور کھانے والاانگوروں کی کھٹاس سے بدمزہ ہوجائے تو اسے بدشگونی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ اسپین میں لوگ اِس روایت پر 1895 سے عمل پیرا ہیں۔ کہا جاتاہے کہ نئے سال کی آمد پر اس رسم کی شروعات سب سے پہلے کسانوں نے کی تھی کیونکہ اُس وقت اسپین میں سب سے زیادہ کاشت کی جانے والی فصل انگور کی ہوتی تھی اور کسانوں کی خوش حالی اور بدحالی کا زیادہ تر انحصار انگور کی فصل پر ہی تھا۔شاید یہ ہی وجہ ہے کہ اسپین کے کسانوں میں سال کے پہلے روز، سب سے پہلے انگور کے 12 عدد خوشے کھانے کا رواج بطور ایک شگون مقبولیت پا گیا۔ گوکہ آج کل اسپین کی معیشت کا دارمدار انگو ر کی فصل کے علاوہ بھی بے شمار ذرائع پر ہے۔لیکن اِس کے باوجود اسپین کی عوام نئے سال کو خوش آمدید انگور کے 12 خوشے کھا کر ہی کہتے ہیں۔

نئے سال کی جلتی بجھتی خوشیاں
نئے سال کا آغاز ہوتے ہی منفرد،دل کش اور خوب صورت ”آتش بازی“سے آسمان کو روشن کرنے کا اہتمام کم و بیش دنیا کے ہر ملک میں کیا جاتا ہے۔جبکہ نیا سال کے موقع پر ہونے والی آتش بازی دیکھنے کے لیے سیاح سڈنی،لندن،پیرس اور نیویارک تک کا خصوصی سفر بھی کرتے ہیں۔ لیکن ایکواڈور میں نئے سال کے آغاز کے وقت جس انداز میں آسمان کو روشن اور منور کیا جاتاہے وہ منفرد تو ہے، ساتھ ہی انتہائی مضحکہ خیز اور عجیب بھی ہے۔ ایکواڈور کی عوام سالِ نو کا جشن اپنے مخالفین اور حریفوں کے پتلے جلا کر مناتے ہیں۔ یعنی سالِ نو کی شب کوئی اپنے بے وفا عاشق کا پتلہ لے کر سڑک کنارے کھڑا ہوتا ہے توکسی نے بانس پر اپنے دشمن کی شبیہ چڑھائی ہوتی ہے،نیز کوئی اپنے ناپسندیدہ فلم اسٹار، کھلاڑی یا سیاست دان کا پتلہ اُٹھائے اِدھر اُدھر گھوم رہا ہوتاہے اور جیسے ہی رات کے بارہ بجتے ہیں سب اپنے اپنے پتلوں کو آگ لگادیتے ہیں۔ جشن سالِ نو کی اس رسم کے متعلق ایکواڈر کی عوام کا یہ کہنا ہے کہ ”ہم سال کے پہلے روز اپنے مخالفین اور دشمنوں کو علامتی طور پرہی سہی آگ لگا کر اس لیے اپنی نفرت کا اظہار کرتے ہیں تاکہ سال کے باقی 364 دن اَمن و آشتی کے ساتھ گزار سکیں“۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے روزنامہ جنگ کے سنڈے میگزین میں

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں