روس اور یوکرین جنگ میں بظاہر نیٹو اتحاد کا دُور،دُور تک کوئی عمل دخل دکھائی نہیں دیتا اور نیٹو اتحاد میں شامل تمام رُکن ممالک تماشائیوں کی حیثیت سے میدان جنگ میں روسی اور یوکرینی افواج کو ایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما ہوتے ہوئے ملاحظہ کر رہے ہیں۔لیکن اگر بہ نظر غائر جائزہ لیا جائے تو منکشف ہوگا کہ روس اور یوکرین جنگ کا بنیادی سبب ہی نیٹو اتحاد تھا۔
دراصل یوکرین بہر صورت نیٹو اتحاد میں شمولیت کے لیئے کوشاں تھا،جبکہ روس ہر حال میں یوکرین کو نیٹو اتحاد میں شامل ہونے سے روکنا چاہتا تھا۔روس کا یوکرینی قیادت سے صرف ایک مطالبہ تھا کہ اگر یوکرین نیٹو اتحاد میں شامل ہونے سے دستبردار ہوجائے تو وہ اُس کے ساتھ اپنے تمام تصفیہ طلب تنازعات مذاکرات کی میز پر حل کرنے کے لیئے پوری طرح سے تیار ہے۔ مگر افسوس! یوکرینی صدر، ولادی میر زیلنکسی اپنے روسی ہم منصب کی پیشکش قبول کرنے سے مسلسل انکا ر کرتے ہوئے کہتے رہے کہ ”یوکرین نیٹو اتحاد میں شمولیت کے لیئے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے“۔
یوں نیٹو اتحاد میں شمولیت کی دیرینہ خواہش نے یوکرینی افواج کو روسی افواج کے مدمقابل میدانِ جنگ میں اُترنے پر مجبور کردیا۔شاید یوکرین کی آخری حد یہ ہی تھی۔آج یوکرین جنگ کو شروع ہوئے تقریباً 9 ماہ ہونے کو آئے ہیں اور جنگ کے عفریت نے یوکرین کو مکمل طور پر تباہ و برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ لاکھوں یوکرینی عوام پڑوسی ممالک میں پناہ گزین کی حیثیت سے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ جبکہ روسی افواج نے یوکرین کے کئی علاقے ریفرنڈم کروا کر روس میں شامل کرلیئے ہیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یوکرینی صدر،زیلنسکی نے جس نیٹو اتحاد میں شمولیت کے لیئے اپنے ملک کو جنگ کا ایندھن بنا دیا ہے،کیاوہ نیٹو اتحاد اَب یوکرین کو اپنا حصہ بنانے پر آمادہ دکھائی دیتاہے؟۔تو اس سوال کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ کم ازکم پانچ ایسی وجوہات ہیں جن کی بنیاد پر یہ یقین سے کہا جاسکتاہے کہ یوکرین کا نیٹو اتحاد میں شمولیت کا قطعی کوئی امکان نہیں ہے۔
پہلی سب سے سنگین وجہ تو یہ ہے کہ اگر یوکرین کو نیٹو اتحاد میں شامل کیا گیا تو فوری طور پر تیسری عالمی جنگ چھڑجائے گی۔ جی ہاں! نیٹو دفاعی معاہدہ کی شق نمبر 5 کے تحت،اگر نیٹو اتحاد کے کسی رُکن ملک پر حملہ کیا جاتاہے تو وہ نیٹو اتحاد میں شامل تمام ممالک پر حملہ تصور ہوگا اور نیٹو اتحاد کو حملہ آور ملک کے خلاف مشترکہ جنگ کرنا ہوگی۔ اس کا سادہ سا مطلب یہ ہوا کہ اگر روس کے ساتھ جنگ میں رہتے ہوئے یوکرین نیٹو اتحاد میں شامل ہوا تو نیٹو دفاعی معاہدہ کی شق نمبر 5 ازخود ہی متحرک ہوجائے گی اور نیٹو اتحاد میں شامل تمام رُکن ممالک کو روس کے خلاف جنگ کرنا ہوگی۔نیٹو اتحاد اور روس کے درمیان شروع ہونے والی براہ راست جنگ سے دنیا میں ایٹمی جنگ کا آغاز بھی ہوسکتاہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ روسی صدر،ولادی میر پیوٹن نیٹو اتحاد پر پہلے ہی اچھی طرح سے واضح کرچکے ہیں ”اگر کسی بھی ملک نے یوکرین کے ساتھ جنگ میں شامل ہونے کی جسارت کی تو روس اُس کا جواب بھرپور عسکری قوت کے ساتھ دے گا اور اگر نیٹو اتحاد میں شریک تمام ملک مل کر بھی روس کے ساتھ جنگ کرنے کی خواہش رکھتے ہیں تو روسی افواج اُس کے لیئے پوری طرح سے تیار ہے“۔ روسی صدر کے مذکورہ بیان سے عسکری ماہرین یہ نتیجہ اخذ کررہے ہیں کہ ماسکو نیٹو اتحاد سے مقابلہ کرنے کے لیئے روایتی جنگ کرنے کے بجائے، ایٹمی جنگ کرنا چاہے گا۔
یقینا ایٹمی جنگ جس قدر ماسکو کے لیئے مہلک ثابت ہوسکتی ہے،اُس سے کہیں زیادہ دنیا بھر کے لیے باعث ہلاکت ہوگی۔ اس لیئے نیٹو اتحاد میں شامل تمام ممالک اس بات پر متفق ہیں جب تک روس اور یوکرین کے درمیان جنگ جاری ہے،اُس وقت تک یوکرین کو نیٹو اتحاد کا رُکن نہیں بنایا جاسکتاہے۔ہاں! جنگ ختم ہونے کے بعد یوکرین کی نیٹو اتحاد میں شمولیت پر غور و فکرکیا جاسکتاہے۔ لیکن اُس کے لیئے ضروری ہے جنگ کے بعد یوکرین اپنا وجود برقرار رکھنے میں کامیاب رہے کیونکہ جس رفتار کے ساتھ روسی ولادی میر پیوٹن یوکرینی علاقوں میں ریفرنڈم کرواکر اُسے روس کاحصہ بناتے جارہے ہیں، اُسے دیکھتے ہوئے کم ہی امکان ہے جنگ کے خاتمہ کے بعد یوکرین کا اتنا ریاستی تشخص بچ پائے گا کہ وہ نیٹو اتحاد میں شامل ہوسکے۔
نیٹو اتحاد میں شمولیت کی راہ میں دوسری بڑی رکاؤٹ یوکرین کا عسکری لحاظ سے کمزور اور کمتر ہونا ہے۔یاد رہے کہ نیٹو ایک عسکری اتحاد ہے اور اس میں شامل ہونے کے لیئے دیگر شرائط میں سے ایک بنیادی شرط یہ بھی ہے کہ جو ملک نیٹو اتحاد میں شامل ہونے کے لیئے درخواست کرے گا تو بعدازاں اُسے یہ بھی ثابت کرنا ہوگا کہ وہ ملک عسکری لحاظ سے ایک طاقت ور ملک ہے۔ یعنی پہلوانوں کی ٹیم میں صرف پہلوان ہی شامل ہوسکتے ہیں۔ بلاشبہ،جس وقت یوکرین نے نیٹو اتحاد میں شامل ہونے کے لیئے درخواست دی تھی، اُس وقت واقعی اُس کا شمار دنیا کی ایک بڑی عسکری طاقت میں ہوتا تھا۔
لیکن روس کے خلاف میدان ِ جنگ میں اُترنے کے بعد یوکرینی افواج کی عسکری صلاحیت مکمل طور پر تباہ و برباد ہوچکی ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ اس وقت یوکرین میں سرے سے کوئی فوج ہی نہیں ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ کیونکہ جنگ میں یوکرینی افوا ج نے روسی افواج کو اپنے دعووں کے مطابق بھلے کتنا ہی نقصان پہنچایا ہو مگر ایک بات طے کہ اس جنگ میں یوکرینی افواج صفحہ ہستی مٹ چکی ہے اوراَب بچی کچھی،منتشر یوکرینی فوجی روسی ا فواج کے خلاف ایک لاحاصل دفاعی گوریلا جنگ میں مصروف ہیں۔ یعنی جنگ ختم ہونے کے بعد سب سے پہلے یوکرین کو اپنی عسکری صلاحیت کو، الف سے لے کر یے تک ازسرِ نو منظم کرنا ہوگا، تب ہی جاکر وہ اس قابل ہوگا کہ اُس نیٹو اتحاد کا رُکن بنایا جاسکے۔
تیسرااہم نکتہ جس کی وجہ سے یوکرین کو نیٹو اتحاد میں شامل نہیں کیا جاسکتا،وہ یہ ہے کہ یوکرین کو نیٹو اتحاد میں میں شامل کرنے سے روسی صدر، ولادی میر پیوٹن کو دنیا بھر میں بڑی اخلاقی فتح حاصل ہوجائے گی۔ واضح رہے کہ روس نے یوکرین جنگ کا آغاز ہی اِس جواز کے تحت کیا تھا کہ ”روس کو نیٹو اتحاد سے خطرہ ہے“۔اور یوکرین جنگ کے ہر مرحلہ پر روسی صدر ولاد ی میر پیوٹن نے اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ انہوں نے روس پر حملہ کرکے نیٹو اتحاد میں یوکرین کی شمولیت پر بس ایک روک لگائی ہے۔ ایسی صورت میں اگر نیٹو اتحاد یوکرین کو فوری رُکنیت دے دیتا ہے تو عالمی ذرائع ابلاغ میں روسی صدر ولادی میر پیوٹن کا موقف درست ثابت ہوجائے گا اور وہ یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے کہ”دیکھا،میرا اندیشہ بالکل صحیح ثابت ہوا،لہٰذا، روس کا یوکرین پر عسکری حملہ کرنے کا میرا فیصلہ بالکل درست تھا“۔
چونکہ نیٹو اتحاد میں شامل کوئی بھی روسی صدر،پیوٹن کو یوکرین جنگ کا جواز مہیا کرنا نہیں چاہے گا۔اس لیئے یوکرینی صدر، زیلنسکی کی تمام تر منت، ترلے اور مطالبات کے باوجود یوکرین کو نیٹو اتحاد میں شامل نہیں کیا جائے گا۔ اس بابت امریکی صدر جوبائیڈن تو پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ ”وہ نیٹو اتحاد کو کسی بھی صورت یوکرین جنگ میں نہیں گھسیٹیں گے“۔جبکہ نیٹو اتحاد میں شامل دیگر ممالک کی قیادت کا بھی یہ ہی متفقہ خیال ہے کہ ”اس نازک مرحلہ پر یوکرین کو نیٹو اتحاد کی رُکنیت دینا،خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہوگا“۔یعنی روس کے ساتھ میدانِ جنگ میں اُترنے کی جو غلطی یوکرین کرچکا ہے،اَب وہ غلطی نیٹو اتحاد میں شامل کوئی بھی ملک نہیں کرنا چاہتا۔
چوتھی وجہ یہ ہے کہ نیٹو اتحاد کے تمام رُکن ممالک یوکرین کو نیٹو کی رُکنیت دینے پر متفق ہوجائیں،ایسا کم و بیش ناممکن ہی ہوگا۔ نیٹو کے قواعد کے تحت اُس کی رکنیت صرف اُس صورت میں ہی کسی ملک کو دی جاسکتی ہے، جب نیٹو اتحاد میں شامل تمام 30 اراکین رُکنیت دینے پر اتفاق کرلیں۔ قواعد کے تحت اگر ایک رُکن ملک بھی نیٹو اتحاد میں کسی ملک کو شامل کرنے کا مخالف ہوتو اُسے اُس وقت تک مذکورہ دفاعی اتحاد کی رکنیت نہیں دی جائے گی جب تک کہ اُس کا حرفِ انکار، حرفِ اقرار میں نہیں بدل جاتا۔ مثلاً سویڈن اور فن لینڈ کو صرف اس ایک شق کی وجہ سے نیٹو اتحاد میں شمولیت کے لیئے طویل اور صبر آزما انتظار کا سامنا ہے۔ بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یوکرین کے نیٹو اتحاد میں شمولیت پر ہنگری ضرور معترض ہوگا۔
کیونکہ 2017 کے بعد،جب سے یوکرین کی ہنگری بولنے والی اقلیت کے حقوق یوکرینی حکومت نے پامال کیئے تب سے ہنگری اور یوکرین کے درمیان شدید اختلافات پیدا ہوچکے ہیں۔شاید یہ ہی وجہ ہے کہ ہنگری نیٹو اتحاد میں یوکرین کی شمولیت کھلم کھلا اعتراض کرتا رہا ہے۔ دوسری طرف بہت سے یورپی ممالک بھی نہیں چاہتے کہ یوکرین کو نیٹو اتحاد میں شامل کیا جائے۔ خاص طور پر یہ وہ ممالک ہیں جن کے روس کے ساتھ گہرے معاشی و سفارتی مفادات وابستہ ہیں۔ مثال کے طور پر فرانس اور جرمنی مشکل ہی سے اس بات پر آمادہ ہوں گے کہ یوکرین کو نیٹو اتحاد کی رکنیت دے دی جائے۔ یاد رہے کہ2008 میں، فرانس اور جرمنی نے مل کریوکرین اور جارجیا کو نیٹو اتحاد میں شامل ہونے سے روک دیا تھا۔ جبکہ فروری 2022 میں جرمن چانسلر بھی واضح طور پر اعلان کرچکی ہیں کہ وہ کسی بھی صورت یوکرین کی نیٹو اتحاد میں شمولیت کی درخواست پر اپنے دستخط ثبت نہیں کریں گی۔
پانچویں اور آخری وجہ یہ ہے کہ نیٹو پہلے ہی سے یوکرین سے وابستہ ہے۔ جی ہاں! یوکرین کے پاس نیٹو اتحاد کی باقاعدہ رُکنیت تو نہیں ہے لیکن اُس کے باوجود کئی برسوں سے نیٹو اتحاد یوکرین کی عسکری و فوجی امداد کررہا ہے۔ عالمی ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق یوکرین،نیٹو اتحاد کی باضابطہ رُکنیت نہ رکھتے ہوئے بھی،اُ س سے سب سے زیادہ مستفید ہونے والا ملک ہے۔یوکرینی افواج کی تمام تر عسکری ضروریات،تربیت اور مالی وسائل نیٹو اتحاد کے ہی مرہونِ منت ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ نیٹو اتحاد کا رُکن ہونے کے باوجود یوکرینی افواج دنیا کے کئی محاذ جنگ پر نیٹو اتحاد کی افواج کے شانہ بہ شانہ جنگ میں شریک ہوچکی ہے۔ دراصل نیٹو اتحاد میں شامل ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ آپ کو نیٹو کی رکنیت کے سارے فوائد حاصل ہو جائیں گے۔ اس حوالے سے کوسوو کی مثال بھی پیش کی جاسکتی ہے، جس کی افواج ایک مدت تک نیٹو اتحاد میں شامل رہی تھیں لیکن اُس کے باجود نیٹو اتحاد نے یوگو سلاویہ کے خلاف میدانِ جنگ میں اُسے تنہا جنگ لڑنے اورہزیمت سے دوچار ہونے کے لیئے چھوڑ دیا تھا۔
حوالہ: یہ کالم سب سےپہلے روزنامہ جرات کراچی کے ادارتی صفحہ پر 31 اکتوبر 2022 کی اشاعت میں شائع ہوا۔
- آزادی اظہار رائے کی آڑ میں -جون30, 2023
- عید قرباں کی حقیقی روح -جون27, 2023
- بلدیہ عظمی کراچی کا قلعہ پیپلزپارٹی نے کیسے فتح کیا؟ -جون19, 2023