Maweshi Mandi

کروڑوں کی منڈی، پر کتنی گندی۔ ۔ ۔

صبح دس بجے بھی جولائی کی تیز تپتی ہوئی دھوپ، ارشدکو نیزے کی ایسی دہکتی ہوئی برچھی کی مانند محسوس ہورہی تھی،جس کا بنیادی ہدف ہی اُس کے جسم کے ہرہر مسام میں چھید کرکے پسینہ کی ایک نہر نکالنا ہو۔ محاورۃ نہیں بلکہ حقیقتاً ارشد، سر سے لے کر پاؤں تک پسینہ میں پوری طرح سے نہا چکا تھا۔ اُوپر سے آج ہوا بھی مکمل طور پر بند تھی اور اگر چل بھی رہی ہوتی،تب بھی لوگوں کے اتنے بڑے اژدھام کے بیچ میں سے گزر کر،اگر بادِ سموم کے چند جھونکے، ارشد تک پہنچ بھی جاتے تو اُس کے پسینہ سے شرابور جسم کو سکھانے سے یقینا معذرت ہی کرلیتے۔ ابھی ارشد کو مویشی منڈی میں داخل ہوئے،مشکل سے صرف ڈیڑھ گھنٹہ ہی ہوا تھا،لیکن گرمی کی شدت، لوگوں کی دھکم پیل اور قربانی کے جانوروں کی ہوش رُبا قیمتیں سُن سُن کر اُس کی ہمت جواب دے چکی تھی۔ شاید یہ ہی وجہ تھی کہ ارشد نوے منٹ کے مختصر سے عرصہ میں بھی کم ازکم تین بار مویشی منڈی سے خالی ہاتھ گھر واپس لوٹ جانے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچ چکا تھا۔ مگر پھر اِس خیال سے ہر بار واپسی کا ارادہ ملتوی کردیتا کہ وہ بچوں سے صبح پختہ عہد کرکے گھر سے نکلا تھا کہ”آج بہر صورت قربانی کا جانور گھر لے کر آؤں گا“۔
سچ پوچھئے تو،مویشی منڈی کی حالتِ زار دیکھ کر ارشد کوسخت دھچکہ لگا تھا۔حالانکہ اُس نے کل ہی قومی اخبار کے صفحہ اوّل پر شائع شدہ تین کالمی خبر پڑھی تھی کہ”حکومتِ وقت نے امسال مویشی منڈیوں میں قربانی کے جانور خریدنے کی غرض سے آنے والوں کو زبردست سہولیات فراہم کرنے کے لئے خصوصی انتظامات کئے ہیں“۔ لیکن یہاں تو شہر کی سب سے بڑی مویشی منڈی میں بدانتظامی اپنے عروج پر تھی اورکئی میلوں پر محیط اِس مویشی منڈی میں دوگز جگہ بھی ایسی نہیں تھی کہ جسے حکومتی حسن ِ انتظام کا نمونہ قرار دیا جاسکے۔ حد تو یہ ہے کہ پینے کے لئے بھی صاف پانی کے بجائے، آلودہ اور کھارا پانی دستیاب تھا اور یوں ارشد کو پیاس بجھانے کے لیئے بھی مویشی منڈی میں کھڑے پھیری والوں سے پانی کی ایک نہیں بلکہ کئی بوتلیں خرید نا پڑیں۔جبکہ جانوروں کے بول و براز کی بدبو سے زیادہ،اُس دلدلی کیچڑ کا تعفن ارشدکے دماغ کو شل کیئے دے رہا تھا،جو ہر چند فٹ کے فاصلے پر اُسے”دعوتِ چھلانگ“ دینے کے لیئے موجود تھی۔ ارشدنے خدا کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا کہ اگر وہ زمانہ طالب علمی میں ہائی جمپ کا ایک اچھا کھلاڑی نہ رہا ہوتا تو،آج اُسے مویشی منڈی کی یہ دلدلی کیچڑ اپنے بیش قیمت جوتوں سمیت خراماں خراماں چل کر ویسے ہی پار کرنا پڑتی،جیسا کہ یہاں آنے جانے والے سب لوگ کر رہے ہیں۔
چونکہ زیادہ بھاؤتاؤ میں وقت کا ضیاع کرنا،اِس مویشی منڈی میں اپنی جان کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف تھا، لہٰذا،ارشد نے قربانی کا سستا جانور بھی فقط اِس لیئے مہنگے داموں خریدنا منظور کر لیا،تاکہ مویشی منڈی کے گھٹن زدہ اور مردم بیزار ماحول سے جلد ازجلد وہ اپنی جان چھڑاسکے۔ مگر شاید یہ نہ تھی اُس کی قسمت۔۔۔! اور ارشد جیسے ہی خرید کیئے ہوئے بکرے کی رسی پکڑے مویشی منڈی کے داخلی راستے سے باہر نکلنے لگا،یکدم دو لحیم و شحیم افراد نے اُس کا راستہ روک کر اُس کے ہاتھ میں ایک مڑی،تڑی پرچی تھما دی،جس پر 500 روپے فی بکرا، خریداری فیس درج تھی، ارشد نے اپنے پرس میں سے پانچ سو کا ایک نوٹ نکال کر پرچی دینے والے کے ہاتھ میں تھمایا تو اُس نے مسکراتے ہوئے کہا ”جناب 1500 روپے مزید دیں“۔
”لیکن پرچی پر تو 500 روپے فیس لکھی ہے“۔نہ چاہتے ہوئے بھی ارشد کی زبان سے بے ساختگی میں جملہ نکل گیا۔
ارشد کا جواب سُن کر پرچی کاٹنے والے کے ساتھی نے اپنی بڑی بڑی مونچھوں پر تاؤ دیتے ہوئے کہا ”ہاں،ہاں!! ہمیں اچھی طرح معلوم ہے پرچی پر کیا لکھا ہے اور ہم کیا مانگ رہے ہیں، بھائی صاحب، کان کھول کر سُن لیں،پرچی حکومت کی ہے اور 1500 روپے ہمارے اس ٹھیکیدار کے۔۔۔ جس نے اتنی بڑی مویشی منڈی میں آپ جیسے گاہکوں کو سہولیات دینے کا حکومت سے ٹھیکہ لیا ہواہے“۔
چونکہ ارشد مویشی منڈی میں دستیاب تمام تر حکومتی سہولیات سے گزشتہ دو گھنٹوں میں خوب جی بھر کر مستفید ہوچکا تھا، اس لیئے اُس نے چپ چاپ پانچ سو روپے کے مزید تین نوٹ پرچی کاٹنے والے کی ہتھیلی پرر کھے اور اپنے بکرے کی رسی پکڑ کر کے، تیزرفتاری کے ساتھ مویشی منڈی سے ایسے نکلا،جیسے کوئی گاہک، چور بازار سے ممنوعہ شئے خرید کر چھپ چھپاتے نکلتاہے۔

مویشی منڈی کا ملکی معیشت کی بحالی میں کردار
بعض معاشی ماہرین کو قوی اُمید ہے کہ امسال عیدالاضحی کے لیئے ملک بھر میں سجنے والی مویشی منڈیاں پاکستان کی روبہ زوال معیشت کو بہتر بنانے میں اپنا بھرپور کرداراد اکرسکتی ہیں اور اگر حکومت تھوڑی سی توجہ دے تو رواں برس مویشی منڈیوں میں قربانی کے جانور وں کی خرید و فروخت کا حجم 400 سے 500 اَرب روپے تک باآسانی پہنچایا سکتاہے۔یعنی گزشتہ چند ماہ سے جاری ملکی معیشت کی تاریخ ساز گراوٹ اور مندی، مویشی منڈیوں کے طفیل ایک بڑی معاشی سرگرمی میں تبدیل کی جاسکتی ہے۔

 واضح رہے کہ گزشتہ کئی سال کے اعدادو شمار ملاحظہ کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ عید الاضحی پر مویشی منڈیوں میں قربانی کے جانوروں کی خریدو فروخت سے 200 سے 300 ارب تک کی بڑی رقم شہری علاقوں سے دیہی علاقوں میں منتقل ہوتی ہے۔ جبکہ عیدِ قرباں پر بیرون ممالک سے آنے والی ترسیلاتِ زر سے ملکی خزانہ کے ذخائر میں غیر معمولی اضافہ بھی ہوتا ہے۔ کیونکہ امریکہ اور یورپ سمیت مشرق وسطیٰ میں رہائش پذیر پاکستانی اپنے عزیز و اقارب کو سنت ابراہیمی کی ادائی کے لیئے بھاری رقوم بھیجتے ہیں۔
علاوہ ازیں قربانی کی وجہ سے ہر سال لاکھوں کی تعداد میں عارضی نوکریاں بھی پیدا ہوتی ہیں اور قربانی کے جانوروں کو مویشی منڈیوں اور گھروں میں پہنچانے کے لیے ٹرانسپورٹ کے استعمال سے لے کر انہیں چارے کی فراہمی اور قصابوں کی خدمات حاصل کرنے تک، لاکھوں لوگ اس غیر معمولی معاشی سرگرمی کا حصہ بنتے ہیں۔چونکہ اچھی قوتِ خرید رکھنے والے ممالک کے حوالے سے پاکستان کا شمار دنیا کی 25 معیشتوں میں کیا جاتاہے، جسے ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے یقین سے کہا جاسکتاہے کہ نامساعد معاشی حالات کے باوجود ہم پاکستانی قربانی کے لیئے کثیر سرمایہ خرچ کرنے میں ذرہ برابر بھی نہیں ہچکچائیں گے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق تمام تر مہنگائی اور معاشی عدم استحکام کے باوجود رواں برس ملک بھر میں ایک کروڑ سے زائد قربانی کے جانور فروخت ہونے کاامکان ہے۔

دوسری جانب عید قرباں پرملک بھر میں لگنے والی مویشی منڈیوں سے جڑی اَربوں روپے کی معیشت کا حجم، حکومت ِ وقت سے تقاضا کرتاہے کہ وہ مویشی منڈیوں میں خرید و فروخت کے لیئے آنے والے ہر طبقہ معاش سے تعلق رکھنے افراد کے لیئے بہتر سے بہترین انتظامی سہولیات مہیا کرے۔ مگر کتنی بدقسمتی کی بات ہے کہ آج تک کسی بھی حکومت نے مویشی منڈیوں کی حالتِ زار بدلنے کے لیئے کبھی کوئی جامع منصوبہ بندی ترتیب دینے کی مخلصانہ کوشش ہی نہیں کی۔ اگرچہ ہر سال عید الاضحی سے قبل ذرائع ابلاغ پر اربابِ اختیار کی جانب سے مویشی منڈیوں میں مناسب سہولیات اور خدمات فراہم کرنے کے بلند و بانگ دعوے کیئے جاتے ہیں۔ لیکن اصل زمینی حقائق،حکومتی ذمہ داران کے بیان کردہ دعووں سے یکسر مختلف ہوتے ہیں۔ملک کے دو،چار بڑے شہروں میں تو پھر بھی کسی نہ کسی حد تک مویشی منڈیوں میں حکومتی نظم و نسق کی صورت حال قابلِ قبول قرار دی جاسکتی ہے۔ لیکن وطن عزیز کے اکثر شہروں کی مویشی منڈیوں میں صوبائی یا مقامی حکومتیں جس طرح کی مجرمانہ عدم جوجہی سے اپنا انتظامی کردار نبھارہی ہیں، اُس پر بس افسوس کا اظہار ہی کیا جاسکتاہے۔

مویشی منڈی میں طبی عملے کی تعیناتی کتنی ضروری ہے؟
سنت ابراھیمی کی ادائی کے لیئے خریدے گئے قربانی کے جانور کا جن بنیادی شرائط پر پورا اُترنا ازحد ضروری ہے،اُن میں سے ایک بنیادی شرط یہ ہے کہ قربانی کا جانور مکمل طور پر صحت مند ہو۔ یعنی بیمار جانور کی قربانی شرعی طور پر ناجائز ہے۔ اس لیئے مویشی منڈی کا رُخ کرنے والے ہر صارف کی اوّلین کوشش ہوتی ہے کہ وہ ایک صحت مند قربانی کا جانور خرید کر گھر لے کر جائے۔ لیکن المیہ ملاحظہ ہو کہ مویشی منڈی آنے بے شمار افراد بالکل بھی نہیں جانتے کہ ایک مکمل صحت مند جانورکی کیا نمایاں نشانیاں ہوتی ہیں؟۔ایسے سادہ لوح افراد کو گھاگ اور نوسرباز، بیوپاری دور سے ہی پہچان لیتے ہیں اور وہ انہیں اپنی چکنی چپڑی باتوں سے بہلا پھسلا کر بیمار جانور انتہائی مہنگے داموں فروخت کردیتے ہیں۔یوں یہ لوگ جہاں شدید مالی نقصان سے دوچار ہوتے ہیں،وہیں اپنے عزیز و اقارب کے طعن و تشنیع اور مذاق کا خوب نشانہ بھی بنتے ہیں۔

عام طور پر اپنے کسی عزیز یا دوست کو یہ مشورہ دینا تو بہت آسان ہے کہ”قربانی کا جانور خریدنے کے لیئے اپنے ہمراہ کسی جہاں دیدہ شخص کو لے جاؤ“، مگر شہر کی مصروف زندگی میں اس نصیحت پر عمل پیرا ہونا بہت مشکل ہے۔خاص طور پر بڑے شہروں میں جہاں عید قرباں پر جانور ذبح کرنے کے لیئے ایک قسائی ہی بڑی تگ و دو کے بعد دستیاب ہوتا ہے، وہاں مویشی منڈی اپنا ساتھ لے جانے کے لیئے کسی ایسے شخص کو ڈھونڈنا جو قربانی کے جانورکے تمام نقائص اور عوارض سے اچھی طرح واقف ہو۔ بلاشبہ صحرا کی ریت میں،کھوئی ہوئی، سوئی ڈھونڈنے کے مترادف ہے۔ تاہم یہ مسئلہ حکومت کی تھوڑی سی دلچسپی سے ہمیشہ کے لیئے حل ہوسکتا ہے۔ یعنی اگر وفاقی یا صوبائی حکومت ایک قانون پاس کردے کہ عید قرباں کے لیئے مویشی منڈی میں فقط اُن جانور وں کی فروخت کی ہی اجازت ہوگی، جن کے صحت مند ہونے کی تصدیقی سند مویشی منڈی میں موجود وٹنری ڈاکٹر کی جانب سے جاری کردہ ہوگی۔

جب تک ہماری مقننہ یہ قانون پاس نہیں کرتی تب تک حکومت کو کم ازکم ہر مویشی منڈی میں وٹرنری ڈاکٹر ز پر مشتمل ایک کیمپ کا قیام لازمی قرار دے دینا چاہیے۔ جہاں موجود، وٹنری ڈاکٹرز کا بنیادی وظیفہ ہی مویشی منڈی آنے والے افراد کو صحت مند اور بیمار جانوروں کے بارے میں تفصیلی آگاہی فراہم کرنا ہو۔ نیز اِس طبی عملہ کو باقاعدگی کے ساتھ مویشی منڈی میں موجود جانوروں کے طبی معائنہ کرنے کا بھی پابند بنایا جائے تاکہ اگر کوئی جانور مویشی منڈی میں آنے کے بعد کسی موذی یا وبائی مرض کا شکار ہوجاتاہے تو اُسے علحیدہ کرکے مویشی منڈی میں موجود دیگر جانوروں کو بیمار ہونے سے بچایا جاسکے۔ یاد رہے کہ گزشہ کئی ماہ سے ملک بھر خاص طور پر صوبہ سندھ میں لمپی سکن وائرس، جانوروں میں انتہائی سرعت کے ساتھ پھیل رہاہے اور اَب تک سندھ میں اِس وائرس کا 20 ہزار سے زائد جانور شکار ہوچکے ہیں۔جبکہ اِس وائرس کے نتیجے میں ہونے والی بیماری سے 67 کے قریب جانور ہلاک بھی ہوگئے ہیں۔ اگرچہ طبی ماہرین کے مطابق یہ وائرس انسانوں کو متاثر نہیں کرتا لیکن چونکہ اس وائرس کا پالتوجانور بڑی تعداد میں شکار بن رہے ہیں۔ لہٰذا ملک بھر میں لگنے والی مویشی منڈیوں میں لائے جانے والے جانوروں کو لمپی سکن وائرس سے بچانے کے لیئے ہر مویشی منڈی میں قابل وٹنری ڈاکٹرز پر مشتمل عملہ تعینات کیاجانا ازحد ضروری ہے۔

دوسری جانب چونکہ رواں برس عیدالاضحی جولائی کے گرم اور مرطوب موسم میں آرہی ہے۔اس لیئے عین ممکن ہے کہ جس وقت مویشی منڈیوں میں قربانی کے جانوروں کی خرید و فروخت اپنے پورے عروج پر ہو، اُسی وقت ملک کے کئی علاقوں میں پری مون سون سلسلے کی بارشوں کا آغاز بھی ہوجائے۔جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ اگر جولائی کی سخت گرمی پر حبس کا تڑکہ بھی لگ جائے تو ایسا مرطوب موسم کے اثرات سے پرہجوم مویشی منڈی میں آنے والے افراد کو اچانک ہیٹ اسڑوک اورسن اسٹروک جیسے موذی عوارض بھی لاحق ہوسکتے ہیں۔ ایسی کسی بھی ناگہانی صورت حال میں ابتدائی طبی امداد فراہم کرنے کے لیئے تمام تر ضروری سازو سامان اور دواؤں سے لیس طبی عملہ بھی چوبیس گھنٹے مویشی منڈیوں میں بہر صورت تعینا ت ہونا چاہیے۔

اسمارٹ سیف مویشی منڈی کا منصوبہ
جس کسی نے بھی کہا ہے بالکل سولہ آنے درست کہا ہے کہ ”عید الاضحی کی مویشی منڈی میں کوئی بھی شخص خالی ہاتھ نہیں آتا،کوئی اپنے ہاتھ میں قیمتی جانور کی مہار پکڑے ہوتاہے اور کسی کی جیب میں ہزاروں روپوں کی نقدی موجود ہوتی ہے“۔اَب آپ خود ہی بتائیں کہ ایک ایسی جگہ جہاں آنے والے ہر شخص کی جیب نقدی سے لبالب بھری ہو، کیا وہاں چور، ٹھگ، لٹیرے اور نوسرباز، کشاں کشاں کھنچے چلے نہیں آئیں گے؟۔یقینا بالکل آئیں گے اور جوق در جوق ہی نہیں بلکہ لوٹ مار کے بھرپور بندوبست اورپوری تیاری کے ساتھ آئیں گے۔ویسے تو ہر مویشی منڈی کے داخلی راستہ پر انتظامیہ کی جانب سے ایک ہدایت نامہ آویزاں کرکے اپنی ذمہ داری کماحقہ نبھادی جاتی ہے،جس پر یہ جملہ جلی حروف میں درج ہوتا ہے:”ہر شخص اپنے مال،مویشی کی حفاظت کاخود ذمہ دار ہے“۔ذرا سوچئے! کہ اگر حکومت ایک مویشی منڈی سے داخلہ فیس، خریداری فیس اور دیگر مد ات میں لاکھوں روپے روزانہ کما رہی ہو تو، سونے کی ایسی ٹکسال کو تحفظ فراہم کرنے کی اصل ذمہ داری تو سرکاری اہلکاروں پرعائد کی جانی چاہیے نہ کہ صارفین پر۔نیز صوبائی حکومت کو ہر شہر کی مقامی انتظامیہ کو پابند بنانا چاہیئے کہ وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے تعاون سے اپنے علاقے کی مویشی منڈی میں لوگوں کی جان و مال کی حفاظت کے لئے تما م تر ضروری اقدامات کا نفاذہر صورت میں یقینی بنائیں۔تاکہ مویشی منڈی کا رُخ کرنے والے عام افراد اپنے مال،مویشی کی حفاظت کی اضافی پریشانی سے یکسر بے فکر ہوکر پوری توجہ اور انہماک سے خرید و فروخت کرسکیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ عید الاضحی کے موقع پر قائم ہونے والی مویشی منڈیوں میں دھوکہ دہی، جعل سازی،نوسربازی اور چوری چکاری جیسے واقعات کی مستقل روک تھام کے لئے چند برس قبل حکومت کو سماجی حلقوں کی جانب سے ملک بھر میں اسمارٹ سیف مویشی منڈیاں قائم کرنے کی تجویز بھی پیش کی گئی تھی اور مذکورہ مشورہ پر حکومتی زعمانے جلد عمل دارآمد کی یقین دہانی کرواتے ہوئے کہا تھا کہ”آئندہ برس سے ملک کے تمام بڑے شہروں میں اسمارٹ سیف مویشی منڈی کے منصوبہ کے تحت ماڈل مویشی منڈیاں قائم کی جائیں گی“۔واضح رہے کہ اسمارٹ سیف مویشی منڈی ایسی ماڈل مویشی منڈی کو کہا جاتا ہے جہاں لوگوں کی نقل و حرکت پر نگاہ رکھنے کے لیئے جدید سیکورٹی کیمرے نصب کیئے جاتے ہیں۔جبکہ صارفین کو مالی لین دین کے لیئے نقد ادائیگی کے متبادل جد ید ذرائع مثلاً اے ٹی ایم،کریڈٹ کارڈ،ڈیبٹ کارڈ اور موبائل والٹس کے ذریعے رقم ادائیگی کی اضافی سہولیات مہیا کی جاتی ہیں۔ مگر افسوس! یہ منصوبہ گزشتہ کئی برسوں سے تاحال التوا کا شکار ہے۔جس کی وجہ سے پاکستان کے اکثر بڑے شہروں میں قائم ہونے والی مویشی منڈیوں میں جہاں صاف ستھرائی اور حفظان صحت کے اُصولوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی جاری ہے،وہیں لوٹ مار کی مجرمانہ وارداتیں بھی عام معمول بن چکی ہیں۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے روزنامہ جنگ کے سنڈے میگزین میں 26 جون 2022 کے خصوصی شمارہ میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں