Gun Control Bill

امریکا “مسلح امریکیوں” کے نشانے پر ہے

کیا آپ جانتے ہیں کہ دنیا کے کس ملک کے شہریوں کے پاس سب سے زیادہ قانونی اور غیر قانونی اسلحہ موجود ہے؟۔یقینا یہ سوال پڑھ کر ہمارے اکثر قارئین کے ذہن میں افغانستان،شام،عراق اور یمن میں سے کسی ایک ملک کا نام ہی آرہا ہو گا۔جبکہ بعض پڑھنے والے اس حوالے سے پاکستان کا نام لینے کا بھی ضرور سوچ رہے ہوں گے۔ دلچسپ بات یہ ہے اگر آپ نے مذکورہ ممالک میں سے کسی بھی ملک کا نام سوچ لیا ہے تو آپ کا جواب سوفیصد ی غلط ہے۔ کیونکہ درست جواب ”امریکا“ ہے۔ جی ہاں! دنیا بھر میں سب سے زیادہ قانونی اور غیر قانونی اسلحہ امریکی شہری رکھتے ہیں۔ اس حوالے سے اعدادو شمار جمع کرنے والے مستند اور معروف بین الاقومی ادارے کی تحقیقی رپورٹ کے مطابق 2017 میں امریکا کی 326 ملین شہریو ں کے پاس 393 ملین سے زائد چھوٹے بڑے،قدیم و جدید ساختہ ہتھیار موجود تھے۔یاد رہے کہ اِن ہتھیاروں میں سے صرف ایک ملین قانونی اور لائسنس یافتہ۔جبکہ 392 ملین ہتھیار غیر قانونی یا بغیر لائسنس کے ہی لوگوں نے اپنے پاس رکھے ہوئے تھے۔ یعنی بلحاظ آبادی امریکا کے ہر 100 شہری،کم ازکم 120 آتشی ہتھیار کے مالک ہیں۔

واضح رہے کہ سب سے زیادہ قانونی یا غیر قانونی اسلحہ رکھنے والے ممالک کی فہرست میں خانہ جنگی سے متاثرہ ملک یمن کا نمبر تیسرا ہے،جس کے ہر 100 میں سے 52 عام شہریوں کے پاس اسلحہ ہے۔نیز پاکستان کا نمبر 24 واں ہے اور ہمارے 100 میں سے صرف 22 عام شہریوں کے پاس ذاتی اسلحہ موجود ہے۔جبکہ اس فہرست میں عراق کانام 29،افغانستان کا 63اور شام کا 99 ویں نمبر پر آتاہے۔اگرچہ امریکی حکومت اور اُس کے شہری دنیا بھر میں اَمن، سلامتی، عدم تشدد او ر تخفیف اسلحہ مہم کے سب سے بڑے پرچارک اور مبلغ کے طور پر خود کو پیش کرتے پھرتے ہیں۔ لیکن اصل میں امریکی شہری دنیا بھر میں سب سے زیادہ مسلح ہیں۔شاید یہ ہی وجہ ہے کہ آئے روز گھر،محلے، شاپنگ مال،ریسٹورنٹ،اسکول اور کالجوں میں چھوٹی یا معمولی سی بات پر قتل کے جتنے لرزہ خیز واقعات امریکا میں رونما ہوتے ہیں،دنیا کے کسی دوسرے ملک میں نہیں ہوتے۔ مثال کے طور پرگزشتہ ماہ امریکی ریاست نیویارک کے شہر بَفیلو کی ایک سپر مارکیٹ میں 18 سالہ سفید فام حملہ آور نے ”نسلی تعصب“ کی بنیاد پر فائرنگ کرکے 10 افراد کو قتل کردیا۔اِن مقتولین کو نہ تو قاتل جانتا تھا اور نہ ہی انہوں نے قاتل کا کچھ بگاڑا تھا۔سب سے خوف ناک بات یہ ہے قاتل نے اِس پوری واردات کو انٹرنیٹ پر ویڈیو کے ذریعے لائیو اسٹریم بھی کیا۔

بفیلو پولیس کمشنر جوزف گراماگلیا نے مذکورہ واقعہ کے بعد نیوز کانفرنس میں ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ”سفید فام حملہ آور بکتربنڈ شیلڈ اور ہیلمیٹ پہن کر سپر مارکیٹ میں اندھا دھند فائرنگ شروع کرتے ہوئے داخل ہوا تھا۔قاتل نے پہلے ٹاپس سپر مارکیٹ کی پارکنگ میں 4 افراد پر گولیاں چلائیں جس کے نتیجے میں 3 معصوم افراد ہلاک ہو گئے، اسٹور کے سیکیورٹی اہلکار نے حملہ آور کو روکنے کی کوشش کرنے کے لیے متعدد بار گولیاں چلائیں مگر حملہ آور نے خود کو بکتر بند شیلڈ سے محفوظ کرکے جوابی فائرنگ میں سیکیورٹی اہلکار کو قتل کردیا۔پھر اسٹور کے اندر داخل ہوکر اندھا دھند فائرنگ سے 7 بے گناہ افراد کو موت کے گھاٹ اُتاردیا۔ جب پولیس جائے وقوع پر پہنچی تو حملہ آور نے ہتھیار ڈال کر گرفتاری دے دی“۔بعدازاں تفتیش سے معلوم ہوا کہ حملہ آور نے یہ سب کچھ ایڈونچر اور سوشل میڈیا پرسستی مقبولیت حاصل کرنے کے لیئے کیا تھا۔

المیہ ملاحظہ ہو کہ اَب تو امریکا میں چھوٹے بچے بھی گھروں میں آتشی اسلحہ کا بے دریغ استعمال کرنے لگے ہیں۔ گزشتہ ہفتے امریکی ریاست فلوریڈا میں 8 سالہ بچے نے اپنے والد کی بندوق سے کھیلتے ہوئے ایک بچی کو گولی مار کر ہلاک جبکہ اپنی چھوٹی بہن کو زخمی کر دیاتھا۔ یہ سانحہ اس وقت پیش آیا جب بچے کا والد روڈرک رینڈل،کسی کام سے باہر گیا ہوا تھا،تو اس کے صاحب زادے نے میز کی دراز سے اپنے باپ کی بندوق باہر نکالی اور اس سے گھر میں کھیلتی ہوئی اپنی ایک سالہ چھوٹی بہن اور دو سالہ چھوٹے بھائی کو نشانہ بنالیا۔جس کے نتیجہ میں اُس کی ننھی بہن موقع پر ہی ہلاک ہوگئی جبکہ اُس کا بھائی شدید زخمی ہوگیا،جسے بعدازاں بروقت طبی امداد کی بدولت بچالیا گیا۔حال ہی میں رونما ہونے صرف اِن دو الم ناک واقعات سے آپ بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں کہ ”مسلح امریکی“ کیا کیا گل کھلارہے ہیں۔

ایورٹاؤن فار گن سیفٹی کی ایک تازہ ترین رپورٹ کے مطابق ہر سال امریکا میں سیکڑوں بچے اپنے گھروں میں موجود غیر محفوظ شدہ بندوقوں تک باآسانی رسائی حاصل کرلیتے ہیں۔بچوں کے ہاتھ آسانی سے لگنے والا یہ اسلحہ زیادہ تر گھر میں موجود الماریوں، نائٹ اسٹینڈ درازوں، بیگ یا صرف ایک چھوٹے سے پرس میں رکھا ہوا ہوتاہے۔رپورٹ کے مطابق امریکا میں ہتھیار رکھنے کی”عام اجازت“ کی وجہ سے بچوں کو گھر میں رکھے ہتھیاروں تک آسانی سے رسائی مل جاتی ہے اور وہ غیر ارادی طور پر خود کو یا پھر کسی اور کو گولی مار دیتے ہیں۔یاد رہے کہ امریکا میں کوئی بھی امریکی شہری کسی بھی شاپنگ مال سے جتنی سہولت سے کیک خرید سکتا ہے۔بعینہ اُسی آسانی کے ساتھ اسلحہ بھی خرید سکتاہے۔ امریکا کی ایک تنظیم جو آتشیں اسلحے کے قوانین کو سخت بنانے کے لیے دن، رات کوشاں ہے، اس کا اندازہ ہے کہ نابالغ بچوں کی جانب سے یہ’’غیر ارادی فائرنگ“ ہر سال اوسطاً 350 اموات کا باعث بنتی ہے۔جبکہ گن وائلنس آرکائیو ویب سائٹ کے مطابق عام طور پر اسلحے سے امریکا میں ایک سال میں تقریباً 4 ہزار اموات ہوتی ہیں جن میں خودکشیاں بھی شامل ہیں۔

اس طرح کے بے شمار اندوہناک واقعات بالخصوص یووالڈ ٹیکساس کے ایک پرائمری اسکول میں بڑے پیمانے پر ہونے والی فائرنگ کے نتیجہ میں 31 بے گناہ لوگوں کی ہلاکت کے بعدا مریکی معاشرہ میں تیزی سے بڑھتی ہوئی بے چینی،عدم تحفظ کا احساس اور عوامی غیض و غضب کو ٹھنڈا کرنے کے لئے بالآخر امریکی صدر جوبائیڈن نے گزشتہ ہفتہ ہتھیاروں کے روک تھام کے لیے ”’گن کنٹرول“ بل پر دستخط کردیے ہیں۔اُمید ظاہر کی جارہی ہے کہ اِس بل کا نفاذ مجرمانہ ریکارڈ اور ذہنی مسائل سے دوچار افراد کو اسلحہ خریدنے سے روکے گا۔

واضح رہے کہ گن کنڑول بل جسے اَب”دوطرفہ محفوظ کمیونٹیز ایکٹ 2022“ کے نام سے جانا جاتا ہے، کو 24 جون 2022 کو ایوان نمائندگان نے 234 اراکین کی حمایت سے منظور کیا تھا، جبکہ بل کی مخالفت میں 193 ووٹ ڈالے گئے تھے۔امریکی صدر نے مذکورہ بل پر دستخط کرنے کے بعد امید ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ”اس قانون سے بہت سی بے گناہ اور معصوم زندگیاں بچ جائیں گی“۔ نیزامریکی صدر نے حال ہی میں پیش آنے والے اسکول اور عوامی مقامات پر فائرنگ کے متعدد واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ”امریکا کی گلیوں میں ہر روز پیش آنے والے فائرنگ کے واقعات میں ہمارے لیے بالکل صاف پیغام تھا کہ کچھ کرو، بس اب کچھ کرو، خدا کے لیے کچھ کرو“۔امریکی ذرائع ابلاغ نے نئے قانون کے نفاذ کو امریکا کی 30 سالہ پارلیمانی تاریخ میں ”آتشی اسلحہ کی سب سے اہم قانون سازی‘‘قرار دیا ہے۔

دوسری جانب کنزرویٹو ریپبلکن پارٹی نے نئے قانون کی شدید مخالفت کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ وسط مدتی انتخابات میں اُن کی جماعت میں کانگریس میں واضح اکثریت اور کامیابی حاصل کرنے کے بعد ”دوطرفہ محفوظ کمیونٹیز ایکٹ 2022“ قانون کو بیک جنبش قلم،کالعدم قرار دے دے گی۔سادہ الفاظ میں یوں سمجھ لیں کہ اپنے شہریوں کو غیر مسلح کرنے کے معاملہ پر امریکی سیاست دان ہی نہیں بلکہ امریکی معاشرہ بھی بُری طرح سے تقسیم در تقسیم ہے۔

حوالہ: یہ کالم سب سے پہلے روزنامہ جرات کراچی کے ادارتی صفحہ پر 07 جولائی 2022 کی اشاعت میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں