War Inflation

عالمی کساد بازاری یوکرین جنگ کا تحفہ ہے؟

روس کو یوکرین پر حملے سے باز رکھنے یا روکنے کے لیئے امریکا کے پاس دو ہی راستے تھے۔ پہلا یہ کہ وہ فوری طور پر امریکی فوج کو روسی افواج کے خلاف یوکرین کی سرزمین پر اُتار دیتا اور دوسرا راستہ یہ تھا کہ امریکا ساری دنیا کو اپنے ساتھ ملا کر روس کا سیاسی و معاشی بائیکاٹ کردیتا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ روس کے یوکرین پر حملہ آور ہونے سے پہلے امریکی صدر جوزف بائیڈن نے روسی صدر ولادی میر پیوٹن کو دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ”اگر روسی افواج غلطی سے بھی یوکرین پر حملہ آور ہوئیں تو امریکا نیٹو افواج کے ساتھ مل یوکرین کا بھرپور انداز میں دفاع کرے گا“۔ لیکن جب روس نے اپنی فوج کو یوکرین میں اُتاردیا تو امریکی صدر جوبائیڈن اپنے دیرینہ موقف سے یک دم پیچھے ہٹ گئے اور انہوں نے یوکرین کی عسکری و فوجی امداد کرنے صاف انکار کرتے ہوئے روس پر فقط سفارتی اور سیاسی پابندیاں عائد کرنے کی آسان راہ کا انتخاب کرلیا۔بظاہر امریکی صدر کی ایما پر یوکرین جنگ شروع ہونے کے فوراً بعد مغربی اور یورپی ممالک کی جانب سے روس پرسخت معاشی پابندیاں عائد کی گئیں اور بعدازاں روس کی تیل کی تجارت کو محدود کرنے کی کوششیں بھی کی گئیں تاہم، اب تک روسی تیل اور گیس پر پابندیوں کا روس پر کوئی اثر نہیں پڑا، الٹا مغربی ممالک کو شدید معاشی مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

واضح رہے کہ مغربی ممالک نے جو پابندیاں روس پر عائد کی تھیں وہ الٹا یورپی ممالک میں مہنگائی، کساد بازاری اور توانائی کا عالمی بحران بننے کی وجہ سے اُن کے لیئے بڑا دردِ سر بننے لگی ہیں۔شاید یہ ہی وجہ ہے کہ برسلز نے گزشتہ ماہ کے آخری ہفتہ میں توانائی کی عالمی سطح پر دستیابی کے بارے میں خدشات کو بنیاد بنا کر روسی سرکاری کمپنیوں سے لین دین پر پابندیوں میں ازخود ہی نرمی کا اعلان کردیا ہے۔ برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز میں شائع شدہ ایک رپورٹ کے مطابق، مغربی ممالک کی کم وبیش تمام حکومتوں نے عالمی کساد بازاری سے تنگ آکر روس کو لندن کی لوائیڈ (Lloyd) میری ٹائم (سمندری) انشورنش کی بڑی معاشی مارکیٹ سے باہر کرنے کے اپنے منصوبہ جات کو مکمل طور پر موخر کر دیا ہے۔

دراصل جس وقت یورپی یونین نے امریکا کی پیروی میں روس پر پابندی عائد کی تھی،اُس کے بعد اُسے بڑی توقع تھی کہ روس کیخلاف برطانیہ بھی روس کے خلاف سخت اور مربوط معاشی پابندیاں عائد کرے گا اور یہی وجہ تھی کہ یورپ نے دو ماہ قبل ہی اعلان کر دیا تھا کہ روس سے دیگر ملکوں کو تیل فراہم کرنے والے بحری جہازوں کی انشورنس نہیں کی جائے گی۔ تاہم، یورپی یونین کی توقعات کے برعکس برطانیہ نے آج تک ایسا کوئی اعلان نہیں کیا، جس سے یہ تاثر مل سکے لندن بھی روس کے تیل پر بڑی پابندی عائد کرنے جارہا ہے۔یاد رہے کہ یورپی یونین کے نزدیک ایسی کسی بھی پابندی میں برطانیہ کی شمولیت اس لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہے کہ برطانیہ عالمی سطح پر سمندری تجارت کی انشورنش کا مرکز تصور کیا جاتا ہے۔ سادہ الفاظ میں یوں سمجھ لیجئے کہ برطانیہ اور یورپی یونین کی طرف سے مشترکہ طور پر روس کے تیل کی تجارت کی میری ٹائم انشورنش بند کرنے سے دنیا بھر کے تیل بردار جہازوں کو روس سے تیل اٹھاکر دنیا کے کسی بھی ملک تک لے جانا انتہائی مشکل ہو جاتا اور یوں یہ اقدام روس پر عائد کردہ اقتصادی اور تجارتی پابندیوں میں یہ سب سے موثر ترین یاری ضرب لگاسکتا تھا۔

لیکن امریکا نے کمال سیاسی منافقت سے کام لیتے ہوئے عالمی دنیا کو خبردار کیا کہ روس سے تیل برآمد کرنے والے جہازوں کی انشورنش کرنے پر فوری پابندی سے عالمی سطح میں پر لاکھوں ٹن خام تیل اور پیٹرولیم مصنوعات کی فراہمی رک جائے گی جس سے تیل کی قیمتوں میں زبردست اضافہ ہو جائے گا۔ حالانکہ روس کے یوکرین کے حملہ کے بعد امریکا، برطانیہ اور یورپی یونین کے درمیان روسی تیل لانے لیجانے والے بحری جہازوں کی انشورنس بند کرنے پر کامل اتفاق ہوا تھا۔ لیکن برطانوی پارلیمنٹ نے بڑی لیت و لعل کے بعد گزشتہ ماہ میں صرف روس سے برطانیہ تیل لانے والے جہازوں کو انشورنس کی بندش کی منظوری دی ہے اور اس پابندی عمل درآمد بھی چھ ماہ بعد یعنی 31 دسمبر سے شروع ہوگی۔نیز لوائیڈ مارکٹ ایسوسی ایشن کے ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ”فی الحال روس کے تیل کی عالمی ترسیلات پر برطانیہ کی طرف سے کوئی پابندی عائد نہیں ہے۔جبکہ لائیڈز انتظامیہ، برطانوی حکام کے ساتھ قریبی رابطے میں ہے اور مستقبل میں جو پابندیاں بھی روس کے لیئے متعارف کرائی جائیں گی ان پر عمل کیا جائے گا“۔

جبکہ یورپی یونین نے روسی تیل بردار بحری جہازوں پر انشورنس کی یہ پابندی دو ماہ پہلے ہی عائد کردی تھی جو، اب تک نافذ العمل ہے۔ نیز مذکورہ معاشی پابندی کے تحت یورپی کمپنیاں اپنے بحری جہازوں کے ذریعے کسی بھی جگہ روسی تیل نہیں لے جا سکتیں۔ تاہم، امریکا اور برطانیہ کی منافقت دیکھنے کے بعد رواں ہفتے یورپی یونین نے بھی روس پر پابندی کے حوالے سے متعارف کرائے گئے قانون کے ایک حصے میں ترمیم کرتے ہوئے یورپی کمپنیوں کے بحری جہازوں کو یورپ کی بجائے دیگر ممالک کو تیل کی ترسیلات کی اجازت دی ہے اور ساتھ ہی روس کی سرکاری کمپنیوں، جیسا کہ راس نیفٹ، کے ساتھ کاروباری لین دین کی اجازت دی ہے۔ یورپی کمیشن کے ترجمان کے مطابق، یورپی کمپنیوں کو اشد ضروری حالات میں کاروبار سے نہیں روکا جائے گا، یہ اقدامات عالمی سطح پر خوراک اور تیل کی دستیابی کے خدشات کو دور کرنے اور منفی اثرات سے بچنے کیلئے کیے گئے ہیں۔

علاوہ ازیں روس پر معاشی پابندیوں کی وکالت کرنے والی یورپی کمپنی ایچ ایف ڈبلیو کا کہنا ہے کہ ٹریڈنگ کمپنیاں سوال اٹھا رہی ہیں کہ راس نیفٹ سے تیل خرید کر یورپی یونین سے باہر کے ملکوں کو سپلائی کرنا قانونی اقدام درست ہوگا یا نہیں۔جبکہ ایک اور لاء فرم ریِڈ سمتھ کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کا روس پر پابندیاں متعارف کرانے کے بعد اچانک ان میں نرمی کیلئے ترمیم کرنا ایک بڑی پسپائی ہے۔جس سے روس کی معیشت کو ازسرِ نو عالمی اثرو نفوذ حاصل ہونا شروع ہو جائے گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ رواں سال جون سے امریکا جی سیون ممالک کے ساتھ مل کر ایک ایسے میکنزم پر کام کر رہا ہے جس کے تحت مشترکہ سطح پر روسی تیل کی قیمت مقرر (Price Cap) کی جائے اور اس کے بعد صرف وہی تیل تیسرے ملک کی منڈیوں تک پہنچ پائے جو مارکیٹ کے نرخوں سے کم سطح پر خریداری کیلئے دستیاب ہو۔دراصل امریکا اور برطانیہ چاہتے ہیں کہ روس پر بڑی معاشی پابندی لگانے سے قبل تیل کی قیمتوں کا تعین (Price Capping) کرلیا جائے، تاکہ تیل کی عالمی قیمت میں اضافے کا امکان باقی نہ رہے۔
دوسری جانب، اکثر عالمی ماہرین معاشیات کا خیال ہے کہ روس پر امریکا اور یورپی یونین کی جانب سے عائد کی جانے والی معاشی پابندیوں کوئی خاطر خواہ فائدہ حاصل ہونے کے بجائے اُلٹا یورپی و مغربی ممالک کو سخت نقصان ہورہا ہے۔جبکہ روس نے بغیر کسی مشکل کے اور کامیابی کے ساتھ اپنی تیل کی برآمدات کو یورپ سے ایشیائی ممالک کو منتقل کر دیا ہے اور بھارت اور چین اس کے نئے بڑے خریدار بن کر سامنے آئے ہیں۔یعنی امریکا اور یورپی یونین کی جانب سے روس پر عائد کی جانے والے معاشی پابندیوں کے باعث عالمی کساد بازاری نے تو جنم لیا مگر اِن ہومیو پیتھک معاشی پابندیوں کی وجہ سے روس کے کاروبار میں کوئی کمی آئی اور نہ اس کی تیل کی پیداوار کم ہوئیں۔نیز مغربی ممالک کے لیئے سب سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ ہر گزرنے دن کے ساتھ روسی تیل کی پیدواری سطح بھی بہتر سے بہترین ہوتی جارہی ہے۔ لیکن دنیا بھر کو روز افزوں مہنگائی،سنگین کساد بازاری اور توانائی کا زبردست بحران کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

حوالہ: یہ کالم سب سے پہلےروزنامہ جرات کراچی کے ادارتی صفحہ پر 08 اگست 2022 کی اشاعت میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں