U turn

ارے!! یہ تو U ٹرن نہیں، ن ٹرن ہے

یوٹرن (U-turn) عام طور پر پاکستان،بھارت، آئرلینڈ اور برطانیہ میں استعمال ہونے والی ایک معروف سیاسی اصطلاح ہے۔جبکہ ریاستہائے متحدہ امریکا کی سیاست میں میں یو ٹرن کو”فلپ فلوپ“ اور آسٹریلیا میں اسے”بیک فلپ“کہا جاتا ہے۔بہرکیف سیاست کی لغت میں یوٹرن کا مطلب کسی بھی سیاست دان یا سیاسی رہنما کی رائے یا پالیسی میں بنیادی نوعیت کی واضح تبدیلی مراد لیا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ مغربی اور یورپی ممالک میں یہ تبدیلیاں اکثر انتخابات سے پہلے اور بعد میں ہوتی ہیں۔ جبکہ ہمارے ملک میں یوٹرن کا سب سے زیادہ استعمال دورانِ اقتدار کیا جاتاہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ تیکنیکی طور پر یوٹرن کالفظ ٹریفک اشارے کے طور پر دنیا بھر میں عام مستعمل ہے۔

مثا ل کے طور پر گاڑی چلانے کے دوران 180 ڈگری گھوم کر اپنے سفر کے رخ کو اچانک متضاد سمت میں کرلینے کے عمل کو یوٹرن کہا جاتاہے۔دورانِ سفر یوٹرن لینے کا سب سے اہم فائدہ یہ ہوتا ہے کہ کسی گاڑی چلانے والے کو بوقت ضرورت اپنی مخالف سمت میں جانے کا ایک آسان موقع میسر آ جاتاہے۔ تاہم ماہرین ٹریفک، یوٹرن لینے والے کویہ ضروری تاکید بھی کرتے ہیں کہ یوٹرن صرف وہاں لیا جائے جہاں سڑک کشادہ ہو، تاکہ گاڑی باآسانی یوٹرن لے سکے۔اگر غلطی سے کسی ایسے مقام پر یوٹرن لینے کی کوشش کی جائے جہاں سڑک ختم ہوتی ہو،یا گڑھے کھدے ہوئے ہوں یا راستہ بہت زیادہ تنگ ہوتو پھر اچانک یوٹرن لینے کی وجہ سے گاڑی اُلٹ بھی سکتی ہے یعنی ذرا سی بے احتیاطی سے یوٹرن سہولت کے بجائے ایک بڑی زحمت بھی بن سکتاہے۔

ماہرین نے جس طرح دورانِ سفر یوٹرن لینے کے کچھ قوائد،ضوابط اور اُصول مقرر کیئے ہیں،بالکل اسی مصداق سیاست میں بھی یوٹرن لینے کے لیئے حدر درجہ احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے اور اگر کوئی سیاست دان باربار یوٹرن لینے کو اپنی ایک سیاسی عادتِ ثانیہ ہی بنالے تو پھر یوٹرن کا بلاضرورت استعمال اُس کی ساری سیاست کو ہی اُلٹ پلٹ کر کے رکھ دیتا ہے۔ ویسے تو پاکستانی سیاست میں، سیاسی رہنماؤں کی طرف سے روزِ اوّل سے ہی اپنے کئے گئے صحیح یا غلط فیصلوں پر یوٹرن لینے کے جائز،ناجائز، ضروری اور غیر ضروری مظاہرے دیکھنے کو ملتے رہے ہیں۔لیکن جس طرح گزشتہ ایک دو سال سے یوٹرن کی سیاسی اصطلاح کو سابق وزیراعظم پاکستان، عمران خان کے نام کے ساتھ زبردستی نتھی کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے، ماضی میں اُس کی کبھی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔

یعنی حزب اختلاف کی جماعتوں نے عمران خان، کو زچ کرنے کے لیئے کچھ کارہائے نمایاں انجام دیئے ہوں یا نہ دیئے ہوں، مگر اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ عمران خان کی روز بروز بدلتی حکومتی پالیسیوں اور فیصلوں کے خلاف اپوزیشن رہنما، لفظ، یوٹرن کا استعمال بہت خوبی و مہارت سے کرتے رہے تھے۔ لیکن لطیفہ ملاحظہ ہو کہ عمران خان کے دورِ اقتدار میں اُن پر یوٹرن کی طعنہ زنی اور پھبتی کسنے والی متحدہ حزب اختلاف کے نمائندہ وزیراعظم پاکستان، میاں شہباز شریف آج اقتدار کی کرسی پر براجمان ہوکر اپنے سیاسی بیانات، حکومتی اعلانات اور سرکاری احکامات پر اِس سرعت اور تیز رفتاری کے ساتھ باربار نظر ثانی فرمارہے ہیں کہ اَب تو لفظ یوٹرن کی تہمت کے سب سے زیادہ سزاوار تو شہباز شریف کی متلون مزاج شخصیت نظر آنے لگی ہے۔

واضح رہے کہ یو ٹرن کو فقط اس لئے یوٹرن کہا جاتا ہے کیونکہ یہ”اشارہ ئ سفر“ انگریزی زبان کے حرف U سے بہت حد تک مشابہ ہوتا ہے۔مگر یہاں اگر آپ چند لمحے توقف کرکے اُردو زبان کے حرف ن کو غور سے ملاحظہ فرمائیں تو ہماری طرح آپ پر بھی جلد ہی منکشف ہو جائے گا کہ یوٹرن(U-trun) کی ظاہری شکل و صورت توہو بہو حرف ن سے مشابہت رکھتی ہے۔ یعنی جس یوٹرن کو دنیا ایک مدت سے انگریزی حرف U جیسا سمجھتی آ رہی تھی،وہ تو اصل میں اُردو زبان کے حرف ن کا ہم شکل و ہم صورت نکل آیا ہے۔یا آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ یوٹرن کے تمام تر سیاسی جملہ حقوق، مستقبل میں پاکستان تحریک انصاف کے بجائے مسلم لیگ ن کے نام پر زیادہ محفوظ رہیں گے۔کیونکہ یوٹرن کا جتنا آزادانہ اور بے دریغ استعمال مسلم لیگ ن اپنے حالیہ دورِ حکومت میں فرما رہی ہے، وہ عام آدمی کی سمجھ سے یکسر بالاتر ہے۔

مثال کے طور پرمیاں شہباز شریف نے پہلا یوٹرن تو وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے چند گھنٹو ں بعد ہی لے لیا تھا،جب شہباز شریف نے قومی اسمبلی ہال میں دورانِ تقریر سرکاری ملازمین کی تنخواہوں،پنشن اور مزدوروں کی کم ازکم اُجرت میں اضافہ کا اعلان کیا تھا اور پھر اگلے ہی روز اُن کے نامزد، وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے تنخواہوں،پنشن اور اُجرت میں اضافہ یہ کہہ کر واپس لے لیا کہ قومی خزانے میں تو زہر کھانے کے بھی پیسے نہیں ہیں۔ نیز طارق فاطمی کا بطور مشیر وزیر خارجہ اُمور کا تقرر نامہ جاری کر کے چند منٹو ں کے بعد واپس لینا دوسرا بڑا یوٹرن تھا۔جبکہ یکم مئی سے شہباز شریف نے ملک بھر سے لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کا جو اعلان کیا تھا، وہ بھی بدقسمتی سے اُن کی یوٹرن کی عادتِ بد کی نذر ہوگیا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اپنی صرف ڈیڑھ ماہ کی مختصر سی مدتِ حکومت میں، اَب تک شہباز شریف اور اُن کے وزرا ء کوئی دو درجن سے زائد یوٹرن لے چکے ہیں۔ یاد رہے کہ ابھی وہ یوٹرن گنتی میں شمار نہیں کیئے گئے ہیں جو مریم نواز یا پھر مسلم لیگ ن کے دیگر رہنما اپنے جوہر خطابت دکھاتے ہوئے صبح و شام لے رہے ہیں۔دراصل جس برق رفتاری اور عجلت سے وزیراعظم پاکستان شہباز شریف اپنے حکومتی فیصلوں اور احکامات کو بدلنے کے لیئے باربار یوٹرن لیتے جا رہے ہیں،شاید اَب وہ وقت زیادہ دور نہیں رہا، جب یوٹرن کا لفظ ن ٹرن کے نام سے زبان زدِ عوام ہوجائے گا اور ملک بھر میں ”اشارہ ٹریفک“ کی علامت کے طور پر شاہراؤ ں پر انگریزی حرف U کے بجائے اُردو حرف ن کے سائن بورڈ جابجا آویزاں کردیئے جائیں گے۔یوٹرن کو ن ٹرن میں بدلنا، بلاشبہ، میاں شہباز شریف کی بطور وزیراعظم پاکستان وہ عظیم قومی خدمت ہوگی، جسے پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
ملک میں یوں نہیں آنے کا انقلاب
دو چار بار نون کا اعلان چاہیئے

حوالہ: یہ کالم سب سے پہلے روزنامہ جرات کراچی کے ادارتی صفحہ پر 13 جون 2022 کی اشاعت میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں