Shahid Afridi Bol Magar Piyar Say

بول مگر پیار سے

بزرگوں کا قول ہے کہ”پہلے تولو پھر بولو“یعنی کوئی بات کرنے سے پہلے،منہ سے کسی بھی قسم کے الفاظ نکالنے سے پہلے ایک بار اتنا ضرور سوچ لینا چاہیے کہ جو بات آپ کرنے جارہے ہیں،وہ بات آپ کو کرنی بھی چاہیے یا نہیں۔ خاص طور پر بات اگر ملک کی عزت،ریاستی اداروں کی سلامتی، قانون کی حکمرانی یا مظلوموں کی مظلومیت سے متعلق ہو تو ہر محب وطن شہری پر اچھی طرح سوچ سمجھ کر بولنا کچھ اور بھی زیادہ ضروری ہوجاتاہے کیونکہ بولنے والے کی ذرا سی بے احتیاطی بعض اوقات پوری قوم کے لیئے باعث ننگ و عاربھی بن سکتی ہے۔مگر کیا کریں ہمارے ملک میں نیچے سے لے کر اُوپر تک ہر شخص کا مزاج ہی ایسا بن چکا ہے کہ سیاست سے لے ثقافت تک،دین سے لے کر دنیا تک بس کسی بھی موضوع کے ذرا چھڑنے کی دیر ہے کہ ہرطرف سے ایسی ایسی فلسفیانہ موشگافیاں سننے کو مل جاتی ہیں کہ اچھے خاصے دلاور کی بھی طبعیت صاف ہوجاتی ہے۔مقام حیرت تو یہ ہے کہ سبزی فروش،رکشہ چلانے والے،حجام اور مکینک تک امریکہ اور ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں ایسے ڈھڑلے سے انکشافات کرتے ہیں جیسے انہوں نے اپنی آدھی زندگی امریکہ میں ٹرمپ کی معیت میں ہی گزاری ہو۔بطور خاص ایسے موضوع پر گھنٹوں بحث و مباحثہ کرنا جس کے متعلق الف،ب کا بھی قطعاًعلم نہ ہو، من حیث القوم ہمارا سب سے من پسند مشغلہ ہے۔ بغیر سوچے سمجھے اُوٹ پٹانگ بولنا کیا کیا گُل کھلاتا ہے اس کا اندازہ تو آپ کو گزشتہ دنوں شاہد خان آفریدی کا کشمیر کے موضوع پر معرکتہ الآرا انٹرویو سُن کر ہو ہی گیا ہو گا۔سوشل میڈیا ویب سائیٹ یو ٹیوب کے ذریعے وائرل ہونے والی ویڈیو میں ایک سوال کے جواب میں موصوف کشمیر کے انتہائی حساس ترین موضوع پر اس طرح کُھل کر گفتگو فرما رہے تھے کہ گویا وہ کوئی کرکٹر نہ ہوں بلکہ سفارتی اُمور کے تمام اسرار و رموز جاننے والے انتہائی منجھے ہوئے سفارت کار ہوں۔کسی نے سچ کہا ہے کہ عقل مند سوچ کر بولتا ہے اور بے وقوف بول کر سوچتا ہے لیکن مصیبت یہ ہے کہ شاہد آفریدی صاحب اتنا کچھ بول کر بھی نہیں سوچنے کی زحمت گوارا کر رہے کہ اُنہوں نے اپنی گفتگو سے کشمیر یوں کے زخمی دلوں پر کیسی نمک پاشی کردی ہے بلکہ اُن کا تو اُلٹا اصرار ہے کہ ”اُن کی بات کا وہ مطلب نہیں تھا جو لیا جارہاہے“۔ہمیں اُن کی یہ وضاحت قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ ہم بھی اچھی طرح جانتے ہیں کشمیر کاز سے متعلق اُن کی نیت بُری ہو ہی نہیں سکتی۔کشمیر سے متعلق سوال کے جواب میں اُن کی صرف زبان پھسلی ہے نیت خراب نہیں ہوگی۔لیکن اُن کی گفتگو سُن کر کم از کم ایک بات کا پختہ یقین ہوگیا ہے کہ مسئلہ کشمیر سے متعلق اُن کی معلومات ذرا بھی اچھی نہیں اور کسی کرکٹر کے لیئے یہ ضروری بھی نہیں ہے کہ وہ دنیا کے ہر مسئلہ سے لازمی باخبر ہو۔لیکن دنیا کے مشہور و معروف کرکٹر کو اتنا خیال تو بہر صورت رکھنا چاہئے کہ جس کھیل کا وہ کھلاڑی نہیں اُس کھیل میں وہ کیوں مین آف دی میچ حاصل کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔اگر شاہد آفریدی صاحب کشمیر سے متعلق سوال پرصرف ”نو کمنٹس“ ہی کہہ دیتے تواُن کی بے محل اور بے ربط گفتگو کی وجہ سے مسئلہ کشمیر کی دنیا بھر میں جو جگ ہنسائی ہوئی،وہ نہ ہوتی۔شاہد خان آفریدی بلاشبہ ایک مایہ ناز کرکٹر ہیں اس لیئے کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ وہ آئندہ سے اپنے جوہر صرف کرکٹ کے میدان میں دکھائیں جبکہ باقی کام اُن کے لیئے بچا رکھیں جو واقعی اس کام کے اہل ہیں۔عربی کی کہاوت ہے کہ ”ہر کام کو انجام دینے کے لیئے ایک مخصوص شخص ہوتاہے“۔

یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ جب پاکستان کی کسی اہم شخصیت نے اپنی گفتگو سے وطنِ عزیز کے دشمنوں کو ملک کی جگ ہنسائی کا سامان وافر مقدار میں فراہم کیاہو۔اس کارِ بدگوئی میں حصہ ڈالنے والوں میں ایسے ایسے گہرِ نایاب کے نام آتے ہیں کہ رہے نام اللہ کا۔مثال کے طور سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری کی اینٹوں سے اینٹیں بجانا،سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کا ہندوستان اور پاکستان کو ایک قوم قرار دینا،محترمہ مریم نواز کا ڈان لیکس کی شکل میں ملکی بقا کے ضامن ریاستی اداروں پر تنقید کے نشتر چلانا،نہال ہاشمی کا قانون کے محافظوں کو دھمکیاں دینا،دانیال عزیز کا کھلم کھلا عدالت کا مذاق اُڑانا اور طلال چوہدری کا اعلیٰ عدلیہ پر پھبتیاں کسنا جیسے وہ قابلِ ذکر ”زبانی زخم“ ہیں جنہیں ہمارے باوقار ریاستی ادارے ایک مدت سے خاموشی کے ساتھ صرف اس لیئے برداشت کرتے رہے کہ پاکستان میں سب کو ”آزادی اظہار“ کا حق مساوی طور پر حاصل ہے۔مگر آزادی اظہار کی آڑ میں ریاست کو بنیادوں کو کمزور کرنے پر مسلسل اصرار کرناوطنِ عزیز کی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے۔

زبان قدرت کا ایک بیش قیمت عطیہ ہے۔اللہ تبارک و تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتے ہیں ”لوگوں سے اچھی بات کہو۔“ (البقرہ۔۸۳) ایک اور جگہ فرمایا ”بری بات کہنے سے بچو۔“(الحج۔۳۰) اور نبی کریم ؐنے ارشاد فرمایا”کامل مسلمان وہ ہے جس کی زبان و ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں۔“ (بخاری،کتاب الایمان) زبان اللہ کی دی ہوئی امانت ہے، جس کے بارے میں قیامت کے دن ضرورپوچھا جائے گا۔ہمارے پیارے آقاو مولا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ”جو خاموش رہا اس نے نجات پائی۔“(مشکوٰۃ)حضرت علیؓفرمایا کرتے تھے کہ ”انسان اپنی زبان کے پردے میں چھپا ہے“یعنی انسانی اخلاق ایک دکان کی مانند ہے اور زبان اس دُکان کا تالا ہے،تالا کھلتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ دکان سونے کی ہے یا کوئلے کی۔اس لیے جب بھی زبان کھولیں سوچ سمجھ کر کھولیں،ورنہ خاموش رہیں۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ
لاکھ پہچان چھپائے کوئی اپنی لیکن
لہجہ انسان کی اوقات بتا دیتا ہے

حوالہ: یہ کالم سب سے پہلے روزنامہ جرات کراچی کے ادارتی صفحہ پر 20 نومبر 2018 کی اشاعت میں شائع ہوا

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں