Suicide

خود کشی عذاب ہے یارب

جہاز پر سوار ہونے سے قبل ”آندرے لیوبٹس“(Andreas Lubitz) نے رَن وے پر کچھ ایسے انداز میں الواداعی نظر دوڑائی کہ جیسے کوئی دل گرفتہ عاشق، ہمیشہ کے لیئے بچھڑتے وقت اپنی محبوبہ پر آخری نگاہ ڈالا کرتا ہے۔لیوبٹس،جرمن ائیر لائن ”جرمن ونگس“ میں بطور معاون پائلٹ ملازم تھا اور ماضی کی طرح آج بھی وہ اپنی پیشہ وارانہ، ذمہ داری کی ادائی کے لیے بارسلونا سے ڈزلڈولف جانے والی فلائٹ 9525 میں سوار ہورہا تھا۔ جہاز کے کاک پٹ میں داخل ہوتے ہی لیوبٹس نے،پائلٹ کو بلند آواز میں ہیلو کہا اور معاون پائلٹ کی سیٹ پر جاکر اطمینان سے بیٹھ گیا۔ پائلٹ شاید صرف اُس کی آمد کا ہی منتظر تھا، لہٰذا، لیوبٹس کے بیٹھتے ہی اُس نے جہاز کا انجن اسٹارٹ کیا اور اگلے چند منٹوں میں فلائٹ 9525،بارسلونا کی فضا میں اُڑان بھر چکی تھی۔
جب جہاز 35 ہزار فٹ کی بلندی پر پرواز کرتا ہوا، فرانس کی فضائی حدود میں داخل ہوا تو لیوبٹس نے ساتھی پائلٹ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ”ابھی اگر تم نے واش رووم جانا ہے تو یہ بہترین موقع ہے“۔ پائلٹ نے لیوبٹس کی پیشکش کو غنیمت جانا اور جہاز کا کنٹرول اُس کے حوالے کرکے خود واش روم جانے کے لیئے کاک پٹ سے باہر نکل گیا۔ پائلٹ کے باہر جانے کے بعد لیوبٹس نے سب سے پہلے کاک پٹ کا دروازہ اندر سے مقفل کیا اور پھر جہاز کی اونچائی کا پیمانہ 35 ہزار سے 3 سو فٹ پر سیٹ کردیا اور جہاز کی رفتار بھی جہاں تک بڑھا سکتا تھابڑھادی۔جس کی وجہ سے سے جہاز بے قابو ہوکر اِدھر،اُدھر ہچکولے کھانے لگا۔جب قریبی کنٹرول ٹاور نے جہاز کو تیزی سے زمین کی جانب گرتے ہوئے مشاہدہ کیا تو وہاں موجود عملے نے فوری طور پر جہازکو ہنگامی رابطہ فون کال کی، جس کا لیوبٹس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ کنٹرول ٹاور نے تین بار،رابطہ کال کا جواب موصول نہ ہونے کے بعد دو معراج طیارے فوری ہنگامی امداد کے لیئے مسافر طیارے کی سمت روانہ کردیئے تاکہ جہاز کے قریب پہنچ کر پائلٹ کے ساتھ رابطہ کرنے کی کوشش کی جائے۔
دوسری جانب جہاز کوبے قابو ہوتے دیکھ کر مسافروں نے چیخ و پکار شروع کردی،جسے سُن پائلٹ فوری طور پر واش روم سے باہر آگیا اور کاک پٹ کا دروازہ کھول کر اندر جانے کی کوشش کی۔ مگر دروازہ تو لیوبٹس نے اندر سے بند کیا ہوا تھا۔پائلٹ نے انٹر کام سے بھی لیوبٹس سے رابطہ کرنے کی کوشش کی، نیز دیگر عملے کی مدد سے کاک پٹ کا دروازہ توڑنے کی کوشش بھی کی گئی جو نہیں ٹوٹ سکا اور یوں کچھ ہی لمحوں بعدبدنصیب جہاز فرانس کے پہاڑوں سے جا ٹکرایا اور عملے کے 6 افراد سمیت تمام 150 مسافر جاں بحق ہو گئے۔

بعدازاں تحقیقات میں انکشاف ہوا کہ27 سالہ معاون پائلٹ آندرے لیوبٹس،ڈیپریشن کا دائمی مریض تھا،جسے اُس کے ڈاکٹر نے جہاز اُڑانے سے سختی کے ساتھ منع بھی کیا ہوا تھا،لیکن اُس نے یہ بات آخری وقت تک اپنی کمپنی سے چھپاکر رکھی۔تحقیقاتی ٹیم نے لیوبٹس کے گھر سے ڈپریشن کی ادویات اور اُس کا لیپ ٹاپ بھی برآمد کیا، جس میں اُس نے گوگل سرچ انجن پر بے شمار بار یہ جملے تلاش کیئے ہوئے تھے مثلاً”اُڑتے ہوئے جہاز کو کیسے گرایا جائے؟“ (How to crash a plane during flight?) اور”خودکشی کے منفرد اور مختلف طریقے“ (Different ways of suicide)۔
مذکورہ الم ناک اور دل دہلادینے والے واقعہ سے اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ خود کشی ہمیشہ صرف ایک فرد کی موت پر ہی جاکر منتج نہیں ہوتی بلکہ بعض اوقات خود کشی کرنے والا جنونی شخص خود تو مرتا ہی ہے لیکن وہ اپنے ساتھ اردگرد موجود،دیگرمعصوم افراد کو بھی موت کی وادی میں زبردستی لے جانے کا باعث بن جاتا ہے۔ اِس تناظر میں خودکشی دلیری،بزدلی یا حلال و حرام کی روایتی بحث سے بھی بہت آگے کا موضوع گفتگو ہے۔ مگر بدقسمتی سے بعض اوقات ہمارے معاشرہ میں صرف خودکشی ہی نہیں بلکہ اِس عنوان پر ہونے والی گفتگو کو بھی حرام کے ذمرے میں شامل کردیا جاتاہے۔ جس کی وجہ سے ہم چاہ کر بھی خودکشی کی تاریک راہوں چلنے والے اپنوں کوسمجھا بجھاکر واپس زندگی کی حسین شاہراہ کا مسافر نہیں بناپاتے۔ دوسری جانب دنیا بھر میں خودکشی سے متعلق لکھے جانے والے مضامین اور کتب کا مطالعہ، قارئین کی اکثریت صرف اس لیئے انتہائی انہماک اور دلچسپی کے ساتھ کرتی ہے۔تاکہ اپنے دوست،احباب،اعزا و اقارب کو خودکشی کے جنوبی و نفسیاتی مرض کے جان لیوا چنگل سے بچانے کے لیے اُن کی مقدور بھر امداد و رہنمائی کرسکیں۔

خودکشی، کتنی حقیقت،کتنا فسانہ
خود کشی کتنا سنگین مسئلہ ہے اُس کا اندازہ”دی انٹرنیشنل ایسوسی ایشن فار سوسائیڈ پریوینشن“ کی تازہ ترین رپورٹ میں بیان کردہ اعدادوشمار سے بھی لگایا جاسکتاہے،جن کے مطابق”ہر 45 سیکنڈ میں ہمارے کرہء ارض پر ایک شخص خودکشی کرلیتا ہے۔ یعنی ہرسال دنیا بھر میں 7 لاکھ3 ہزارافراد خودکشی کرتے ہیں“۔نیزعالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا میں ہر100 اموات میں سے ایک موت خودکشی جیسے سنگین مجرمانہ عمل کا نتیجہ ہوتی ہے۔حیران کن بات یہ ہے کہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ خودکشیاں بھارت میں کی جاتی ہیں۔جبکہ چین اِس فہرست میں دوسرے اور امریکہ تیسرے نمبر پرآتا ہے۔ جبکہ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے صحت کی رپورٹ کے مطابق 2019 میں پاکستان میں 19331 افراد نے خود کشی کی۔جس کا 76 فیصد مرد اور34 فیصد خواتین پر مشتمل تھا۔

طبی سائنس کے مطابق لوگوں کے خود کشی کی کوشش کرنے کی ایک بہت بڑی وجہ افسردگی یعنی ڈپریشن ہے۔ تاہم افسردگی کے علاوہ بھی بے شمار ایسی وجوہات ہیں، جن کے باعث لوگ اپنی زندگی ختم کرنے کا فیصلہ کر لیتے ہیں۔ خاص طور پر خانگی جھگڑے اور کاروباری نقصانات بھی خودکشی کا بڑا محرک ہیں۔ نفسیات کی رو سے خود کشی کا فیصلہ کرنے والا شخص ایک ذہنی مریض ہوتا ہے اور مرض کی اگر بروقت تشخیص کرلی جائے تو مریض کو اپنا فیصلہ واپس لینے پر باآسانی آمادہ کیا جاسکتاہے۔صنفی اعتبار سے اگر جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ دنیا بھر میں خودکشی کرنے والے 79 فیصد مرد ہوتے ہیں۔ حالانکہ خواتین میں ذہنی مسائل کی شرح زیادہ ہوتی ہے اوروہ مردوں کی نسبت خودکشی کی تین گناہ زیادہ وجوہات رکھتی ہیں۔لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ مرد اگر خودکشی کریں تو اُن میں خواتین کے مقابلہ میں یہ امکان3 گنا زیادہ ہو گا کہ وہ واقعی مر جائیں گے۔ کیونکہ مردوں میں خودکشی سے پہلے شراب نوشی کی شرح بہت زیادہ ہے۔جبکہ مرد عام طور پر اسلحہ،ڈوبنے اور پھانسی جیسے طریقوں سے اپنی جان لینے کا انتخاب کرتے ہیں،جنہیں خودکشی کے کامیاب ترین طریقے گردانا جاتاہے۔

مگر خواتین عموماً چوہے مار دوا، یانیند کی گولیاں پھانک کر خودکشیاں کرتی ہیں۔جس میں 70 فیصد یہ امکان پایا جاتاہے کہ اگر مریض کو بروقت طبی امداد مل جائے تو اُس کی جان بچائی جاسکتی ہے۔ ایک عالمی تحقیق کے مطابق خودکشی کی کوشش کرنے اور حقیقت میں کامیاب ہونے کے امکانات 20 میں سے 1 ہوتے ہیں۔نیز، اسلحہ،پھانسی،ڈوبنے سے خودکشی میں کامیابی کی شرح 60 فیصد کے قریب ہے،جبکہ دیگر دوسرے طریقوں میں خودکشی کا تناسب 10 فیصد سے بھی کم ہوتا ہے۔ بظاہر 15 سے 24 کے عمر کے نوجوانوں میں خودکشی کی کامیابی کی شرح انتہائی کم ہے۔یعنی ہر 100 یا 200 سے صرف 1 واقعہ میں خودکشی کرنے والا نوجوان مرجاتاہے۔جبکہ باقی اپنی زندگی خودکشی کی کوششوں کے ذہنی،جسمانی اور نفسیاتی معذوری کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں۔دوسری جانب ضعیف العمر افراد میں خودکشی کی کامیابی کی شرح ہر 4 میں سے ایک یعنی 25 فیصد ہے۔ دراصل عمر رسیدہ افراد شاذ و نادر ہی خودکشی کا ارادہ کرتے ہیں لیکن جب بوڑھے لوگ مرنے کے لیئے تیار ہوجاتے ہیں تو وہ اپنے فیصلے پر مضبوطی کے ساتھ پرعزم رہتے ہیں اور بالعموم انہوں نے طویل عرصہ سے خودکشی کے نتائج و عواقب پر غور کیا ہوتاہے۔ لہٰذا، ضعیف العمر افراد خودکشی کے عفریب سے بہت ہی کم بچ پاتے ہیں۔

خودکشی کا موسم بہار
یقینا،پڑھنے اور سننے میں ذرا عجیب سا لگتا ہے کہ مگر سچ یہ ہی ہے کہ انیسویں صدی کے آغاز سے ہی ایسی سائنسی تحقیقات ریکارڈ پر موجود رہی ہیں، جن کے مطابق موسمِ بہار میں خودکشی کرنے والوں لوگوں کی شرح میں غیر معمولی حد تک اضافہ ہوجاتا ہے۔اس عجیب و غریب رجحان کی سائنسی و طبی بنیادپر جانچ پڑتال کرنے والے، سوئیڈن کی یپسلہ یونیورسٹی میں نفسیات کے پروفیسر، فوٹس پاپاڈوپولس کا کہنا ہے کہ’’اگر آپ موسمِ سرما میں ہونے والی خودکشیوں کی تعداد یا شرح کا مطالعہ کریں تو منکشف ہوگا کہ موسمِ بہار میں خودکشیاں 20 سے 60 فیصد تک بڑھ جاتی ہیں“۔لیکن آخر ایسا کیوں ہوتاہے؟۔سائنس اِس کی ایک سے زائد وجوہات بیان کرتی ہے۔

مگر سب سے اہم وجہ انسانی مزاج کا قدرے کم روشنی والے ایّام سے براہ راست تعلق بتایا جاتاہے اور گردش ایام کے باعث انسان میں سیروٹونن کی سطح کا تبدیل ہوناہے۔ یاد رہے کہ سیروٹونن،انسانی دماغ میں موجود ایک نیورو ٹرانسمیٹریا اعصابی خلیہ ہے اور جتنا وقت کوئی شخص دھوپ میں گزارتا ہے اُس کے خون میں اتنی مقدار میں سیروٹونن کی پیداور بھی بڑھ جاتی ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر فوٹس پاپا دوپولس نے اپنی تحقیق میں 1200 خودکشیوں اور موسمی حالات کا تفصیلی جائزہ لیا۔جس کے بعد وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ خودکشیوں کی تعداد اور مریض کے دھوپ میں گزارے گئے گھنٹوں کی تعداد میں بہت زیادہ مماثلت پائی گئی ہے۔ مگر یہ مماثلت اُس وقت بالکل غیر اہم ہوجاتی ہے،جب آپ دیکھیں کہ دھوپ میں گزارے گئے گھنٹے کون سے موسم میں گزارے گئے تھے۔اِسے سیروٹونن تھیوری کہا جاتاہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ خودکشی کے حوالے سے ایک پولن تھیوری بھی موجود ہے،جس میں موسمِ بہار میں پولن کے اضافہ کی وجہ سے انسانی دماغ میں پیدا ہونے والی تبدیلیوں کو خودکشی کا ایک بڑا محرک قرار دیا جاتاہے۔ میری لینڈ سکول آف میڈیسن میں نفسیات کے اُستاد ٹیوڈور پوسٹلاش کی تحقیق کے مطابق ”درختوں کے پھلنے پھولنے کے وقت پولن کی افزائش بھی انسانوں میں خودکشی کے اضافہ کا بڑا سبب بن سکتی ہے اور بعض تحقیقات میں پولن میں اضافہ خود کشی کے رجحان کو بڑھاتا ہے،خاص طور پر خواتین میں۔نیز جن ادویات سے پولن کا علاج کیا جاتاہے،وہ بھی کچھ افراد میں خودکشی کے خیالات کو پروان دے سکتی ہیں“۔دھوپ،سائے اور پولن کا خودکشی کے خیالات کے ساتھ کیا تعلق ہے،یہ ابھی تک انسان کی سمجھ میں بالکل نہیں آیا۔مگر یہاں یہ واضح کرنا انتہائی اہم ہو گا کہ خودکشی کا بدلتے موسم کے ساتھ جوبھی تعلق ہو، وہ انتہائی کم لوگوں پر اثراندازہوتاہے۔بہرکیف تعلق کم ہو یا زیادہ،اُس کی بازیافت کے لیئے طبی سائنس کو ابھی مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

خودکشی کا ارادہ
یہ 1926 کا واقعہ ہے کہ شاعر مشرق علامہ اقبال ؒ کے پاس ملاقات کے لیئے چند نوجوان آئے۔ جن میں اٹھارہ سالہ ایک ایسا ہندو، نوجوان بھی تھا جو مشکل حالات سے گھبرا کر اپنی دانست میں خودکشی کا مصمم ارادہ کرچکا تھا اور جب اُس کے دوست اُسے سمجھانے میں بُری طرح سے ناکام رہے تو وہ اُسے علامہ اقبالؒ کی خدمت لے آئے۔ علامہ اقبال نے دل شکستہ ہندو نوجوان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا”ہندو مذہب میں موت کے بعد آواگان کا عقیدہ پایا جاتا ہے، جس کے مطابق تمہارے خودکشی کرنے کے بعد تمہارے ساتھ تین میں سے کوئی ایک کا م یقینا رونما ہوگا۔ اوّل، تمہارے مرنے کے بعد تمہیں،موجودہ زندگی سے بہتر جیون مل جائے گا۔دوم، تمہیں مرنے کے بعد حالیہ زندگی سے بھی بدتر جیون،مثلاً سانپ، بچھواور چھپکلی کی زندگی بھی مل سکتی ہے۔سوم، ایسا بھی تو ممکن آواگان عقیدہ کا سرے سے کوئی وجود ہی نہ اور تم مرنے کے بعد بالکل فنا ہوجاؤ۔ لہٰذا،خودکشی تمہارے لیئے صرف 25 فیصد بہتری،جبکہ 75 فیصد سراسر گھاٹے کا سودا ہوگا۔ کیا تم یہ بیوقوفانہ سودا کرنا چاہو گے؟“۔علامہ اقبال کی یہ دلیل ہندو نوجوان کے قلب میں تیر کی مانند پیوست ہوگئی اور اُس نے خودکشی کا اپنا ارادہ اُسی وقت تر ک کردیا۔

یہ نوجوان مشہور ہندو ادیب، ”دیوندر ستیارتھی“ تھے،جنہیں علامہ اقبال ؒ کی بروقت فکری رہنمائی نے نیا جیون دان کردیا اور بعدازاں اِس نوجوان نے ہندوستان کے تمام لوک گیت جمع کرنا اپنا مقصد ِ حیات بنالیا اور پھر دیوندرستیارتھی،ایک آوارہ گرد کی طرح پورے ہندوستان میں گھوما اور ہزارہا لوک گیت و روایات جمع کیں۔ دیوندرستیارتھی، نے اپنے مخصوص موضوع پر 50 سے زائد کتب اور سیکڑوں مضامین لکھے اور آج بھارت میں لوک گیت کے موضوع پر انہیں اتھارٹی سمجھا جاتا ہے۔نیز انھوں نے اُردو اَدب کے لیئے کئی شاہکار اور معرکتہ الآرا افسانے اور ڈرامے بھی تصنیف کئے۔دلچسپ بات تو یہ ہے کہ 1926 میں خودکشی کا پختہ ارادہ کرنے والے دیوندر ستیارتھی نے طویل عمر پائی اور اُن کا انتقال 2003 میں 95 برس کی ایک بھرپور اور کامیاب زندگی گزار نے کے بعد ہوا۔
مذکورہ واقعہ سے یہ باور کروانا مقصود ہے کہ خودکشی کا ارادہ ایک مشکل چیز ہے اور اِسے ختم کرنا بعض اوقات بے حد آسان بھی ہوتا ہے۔ لیکن ہم عموماً خودکشی کی دھمکی دینے والے کی باتوں کو سنجیدگی سے ہی نہیں لیتے۔بلکہ بعض اوقات تو اپنا ارادہ ئخودکشی ظاہر کرنے والے کو ایسے جملے بھی کہہ دیتے ہیں، جنہیں کسی بھی صورت نہیں کہنا چاہئے۔ مثلاً ”ہم بھی تو دیکھیں تم کیسے خود کشی کرو گے؟“۔یا”اگر ہمت ہے تو خودکشی کرکے دکھاؤ“۔یا پھر”کاش! تم واقعی خود کشی کرلو تو میری زندگی کتنی آسان ہوجائے“۔یوں ہماری ذرا سی لاپرواہی سے خودکشی کا جذباتی ارادہ، اتنا اُبھرتا ہے کہ خودکشی کی دھمکی دینے والے کو اپنی بات کی سچائی ثابت کرنے کے لیئے خودکشی کرنا ہی پڑتی ہے۔

حالانکہ تازہ ترین سائنسی تحقیق میں ثابت ہوا ہے کہ خودکشی کرنے والوں کی اکثریت کو حقیقی خودکشی میں صفر فیصد دل چسپی ہوتی ہے۔ یاد رہے کہ جن لوگوں نے خودکشی کی کوشش کی اور وہ کسی نہ کسی طرح زندہ بچ گئے تو ایسے افراد کی اپنے ارادہ خودکشی کے بارے میں رائے حیرت انگیز تھی۔ مثال کے طور پر برطانیہ میں آکسفورڈ یونیورسٹی کے شعبہ نفسیات کے محققین نے خودکشی کی کوشش میں زندہ بچ جانے والے 864 افراد کے ایک گروپ سے پوچھا کہ ”وہ 1 سے 30 پیمانے پر اپنے ارادہ خودکشی کی درجہ بندی کریں۔یعنی وہ خود کشی کرتے وقت کتنا فیصد واقعی مرنے کی خواہش رکھتے تھے، تو جواب دہندگان میں سے 36.9 فیصد نے مرنے کی انتہائی کم خواہش 0 سے 6 کاپیمانہ استعمال کیا۔نیز 33.9 فیصد نے مرنے کی تھوڑی خواہش 7 سے 12 کی درجہ بندی کا انتخاب کیا۔جبکہ 20 فیصد نے کہا کہ وہ کافی حد تک مرنے کے لیئے تیار تھے اور انہوں نے 13 سے 20 کا پیمانہ نشان زدہ کیا۔جبکہ صرف 4.2 فیصد نے 21 سے 30 کی درجہ بندی کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ وہ مرنے کا پختہ ارادہ رکھتے تھے۔
مذکورہ اعداد وشمار سے معلوم ہوتا ہے کہ خودکشی کا ارادہ رکھنے والے بہت کم افراد خودکشی کرنے کے لیئے پرعزم ہوتے ہیں۔ جبکہ اکثریت کی خواہش ہوتی ہے کہ اُن کے پیارے اُن کی ضد، مطالبہ مان کر اُنہیں خودکشی کے کریہہ اور حرام کام کا ارتکاب کرنے سے بچالیں گے۔ دراصل آپس میں گفتگو اور مکالمہ کی فضا کو فروغ دے کر معاشرہ میں خودکشی کی شرح خاطر خواہ حد تک باآسانی کم کیا جاسکتاہے۔

حوالہ: یہ مضمون سب سےپہلے روزنامہ جنگ کے سنڈے میگزین میں 27 نومبر 2022 کے شمارہ میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں