Imran Khan

عمران خان کی ایک سالہ حکومتی اننگز

عمران خان کی حکومت کا ایک سال مکمل ہوگیا۔ گو کہ 365 دنوں کا حکومتی دورانیہ اتنا طویل نہیں ہوتا کہ ہم اِس کی بنیاد پر تحریک انصاف کی حکومت کے کامیاب یا پھر ناکام ہونے کا حتمی حکم لگاسکیں۔ کیونکہ حکومتوں کے لیئے ایک سال کا عرصہ اُن کی کل”حیاتِ اقتدار“کا زیادہ سے زیادہ 20 فیصد ہی تو ہوتا ہے، جس کا محاکمانہ جائزہ لینے کے بعد ہمیں صرف یہ ہی معلوم ہو سکتاہے کہ حکومتِ وقت اپنے بڑھتے قدم بہتری کی طرف اُٹھارہی ہے یا ابتری کی جانب محو خرام ہے۔ عام طور پرحکومتی کارگردگی کے جب بھی سالانہ جائزے پیش کیئے جاتے ہیں تو اُنہیں بلیک اینڈ وائٹ میں ہی دیکھا جاتا ہے۔ جس کا صاف صاف مطلب یہ ہے کہ تجزیہ کاروں کو ہر حکومت کی طرف سے اُٹھائے گئے اقدامات کے فوری نتائج سے ہی غرض ہوتی ہے۔ یعنی اگر حکومت کی طرف سے اُٹھا یا گیا کوئی اقدام خواہ کتنا ہی دُور رس اہداف کا حامل کیوں نہ ہو لیکن اگر وہ ایک سال میں مطلوبہ نتائج نہیں دے سکا تو ہمارے معزز تجزیہ کار اُسے حکومت کی ناکامی قرار دے کر حکومت کے خلاف ترتیب دیئے گئے بلیک پیپر میں رقم کردیتے ہیں۔ جبکہ ہر وہ حکومتی اقدام جو فوری نتائج دے دے،پھر چاہے وہ کتنا ہی پھسپھسا سا ہی منصوبہ کیوں نہ ہو۔اُسے حکومت کے حق میں ترتیب دیئے گئے وائٹ پیپر میں شامل کردیا جاتاہے۔ گزشتہ 40 برسوں سے تواتر کے ساتھ ہمارے ملک میں یہ ہی ہوتا آرہا کہ جمہوری حکومتیں نام نہاد تجزیہ کاروں کے وائٹ پیپرز میں جگہ بنانے کے چکر میں مختصر المدتی اقدامات یا منصوبے بنانے میں ہی اپنی تمام انتظامی و سیاسی طاقت صرف کردیتیں ہیں۔جس سے وقتی طور پر حکومتِ وقت کوخوب واہ واہ سننے کا موقع تو میسر آجاتا ہے لیکن نظام ہائے حکومت کے حقیقی ثمرات کے سوتے عوام کی دہلیز تک پہنچنے سے پہلے ہی راستے میں کہیں خشک ہوجاتے ہیں کیونکہ فقط طویل المعیاد اقدامات کے ثمرات ہی عوام تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔مگر مصیبت یہ ہے کہ طویل المعیاد اقدامات کے نتائج نظر آنے میں کئی کئی سال لگ جاتے ہیں اور اِتنا انتظارکرنا ہمارے حکمرانوں کی ”سیاسی نفسیات“ میں نہیں ہوتا۔

شاید یہ ہی وجہ ہے کہ آج کل زیادہ تر تجزیہ کار تحریک انصاف کی حکومت کے ایک سال مکمل ہونے پر محاکمہ کرتے ہوئے حکومتی ناکامیوں کی دہائیاں دیتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں اور اپنی تحریروں اور تجزیوں میں عوام النّاس کو یہ باور کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ دیکھیئے ایک سال کے اندر تحریک انصاف کی حکومت نے اتنے زیادہ منصوبے بنائے اوراِن میں سے ایک کا بھی مثبت نتیجہ برآمد نہ ہوسکا لہذا تحریک انصاف کی حکومت ایک ناکام ترین حکومت ثابت ہورہی ہے۔ حالانکہ حقیقی صورت حال پیش کیئے گئے حکومت مخالف تجزیوں سے یکسر مختلف ہے۔تحریک انصاف کی حکومت نے معاشی، سماجی،ثقاقتی اور سیاحتی میدان میں اَب تک جو بھی اقدامات لیئے ہیں، وہ مستقبل میں پاکستان کی ترقی و تعمیر میں انتہائی اہمیت کے حامل ثابت ہونے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ یاد رہے کہ عمران خان ہمیشہ سے ہی اپنے پیشرو حکمرانوں سے بالکل مختلف انداز میں حکومتی نظم و نسق چلانے کے علمبردار رہے ہیں۔اِس لیئے عمران خان کی ایوانِ اقتدار میں آنے کے بعد روزِ اوّل سے ہی یہ کوشش رہی ہے کہ اُن کی حکومت جو بھی منصوبہ یا اقدام اُٹھائے، وہ طویل المدتی ہو۔ تاکہ گزشتہ 40 برسوں میں پاکستان کے نظام ہائے حکومت میں در آنے والے اُن مسائل و نقائص کا تیر بہدف علاج کیا جاسکے، جو ہمارے وطنِ عزیز پاکستان کو گھن کی طرح چاٹ رہے ہیں۔ مثال کے طور پر تحریک انصاف کی حکومت کی جانب سے کی جانے والی ٹیکس اصلاحات کو ہی لے لیجئے،جس کے متعلق تقریباً سب ہی متفق ہیں کہ وزیراعظم پاکستان عمران خان نے ٹیکس نیٹ بڑھانے کے لیئے سیاسی طور پر انتہائی غیر مقبول اور طویل المدتی راستہ اختیار کیا ہے۔یہ ایسا مشکل اور کھٹن سیاسی راہ ہے جس پر چلنے کی پاکستان میں آج تک کسی دوسرے سیاسی حکمران نے ہمت نہیں کی۔



صرف یہ ہی نہیں بلکہ پاکستان تحریک انصاف نے اپنے عہدِ حکومت میں خارجہ تعلقات، داخلی سلامتی، فاٹا انضمام، سادگی اور کفایت شعاری مہم سے قومی بچت، کرپشن پر کریک ڈاؤن اور شجرکاری سمیت ہر ہر شعبہ میں مختصر المدتی اقدامات کا اعلان کرنے کے بجائے طویل المدتی منصوبے بنانے کو ترجیح دی ہے۔وزیراعظم پاکستان عمران خان کے اِس طرزِ حکومت نے صرف پاکستانیوں کو ہی بلکہ دنیا بھر کے دانش و بنیش افراد کو خوشگوار حیرانگی میں مبتلاء کیئے رکھا ہے۔ خاص طور پر ہمارے دشمن ممالک بھارت اور اسرائیل عمران خان کی طرف سے انتہائی جارحانہ سفارت کاری پر انگشتِ بدنداں ہیں اور وہ سمجھ ہی نہیں پارہے کہ صرف ایک برس کی مدت میں پاکستان نے خارجہ اور سفارتی محاذ پر ایسی ایسی فقید المثال کامیابیاں کیسے حاصل کرلیں جو پاکستان گزشتہ 73 برسوں میں کبھی حاصل نہ کرسکا۔عمران خان کی حکومت کے سامنے ایک برس کے مدتِ اقتدار میں بھارت کے ساتھ 2 بڑے تنازعات سامنے آئے، کشمیر میں پلوامہ حملے کے بعد بھارت نے پاکستان پر فضائی حملہ کیا۔ جواب میں پاکستان نے بھارت کے2طیارے مار گرائے،بھارتی پائلٹ ونگ کمانڈر ابھی نندن کو گرفتار کر لیاپھر جذبہ خیر سگالی کے تحت رہا بھی کر دیا۔ بھارت کے ساتھ دوسرا بڑا تنازع تب کھڑا ہوا جب مودی سرکار نے مقبوضہ کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والے آرٹیکل 370 کو ختم کر دیا۔حکومت کی جارحانہ وموثر سفارتکاری خوب رنگ لائی اور 1965 کے بعد پہلے بار مسئلہ کشمیر پر سلامتی کونسل کی خفیہ میٹنگ منعقد ہوئی اور کشمیر یوں پر بھارتی مظالم سے پوری دنیا کو آگاہی ملی جس کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔

جبکہ اندرونی سیاسی محاذ پر بھی 365 دنوں میں وزیر اعظم عمران خان کو اپوزیشن کی جانب سے کوئی خاطر خواہ حکومت مخالف تحریک کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ تین آل پارٹیز کانفرنس منعقد کرنے کے بعد بھی متحدہ اپوزیشن کو چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے کی تحریک عدم اعتماد پر منہ کی کھانی پڑی۔اس کے علاوہ تمام تر مشکل حالات و واقعات کے باوجود عمران خان کی حکومت نے احتساب کے نعرے پر بھی بھرپور انداز میں عملدرآمد کیا اور پہلے ہی سال میں دو سابق وزراء اعظم نواز شریف، شاہد خاقان عباسی سمیت شہباز شریف،خواجہ سعد رفیق،سلمان رفیق، حمزہ شریف،کامران مائیکل، فریال تالپر،مریم نواز اور سابق صدر آصف علی زررادی کے علاوہ دیگر متعدد اہم سیاسی رہنماوں کو بھی جیل کے اندر ڈال دیا۔جبکہ سابق وزیر قانون پنجاب رانا ثنا اللہ کو ہیروئین ا سمگلنگ کیس میں گرفتار کر کے متحدہ اپوزیشن کو پنجاب میں بُری طرح سے پسپا ہونے پر مجبور کردیا۔سیاسی ناتجربہ کاری کے طعنے سہنے والے عمران خان اپنے ایک سالہ دورِ حکومت میں تجربہ کار کار اور گھاگ سیاستدانوں کو جس طرح سے تگنی کا ناچ نچایا ہے۔یہ اندازِ حکمرانی پاکستانی سیاست میں مدتوں یاد رکھا جائے گا۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے ہفت روزہ ندائے ملت لاہور میں 29 اگست 2019 کے شمارہ میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں