سری لنکا کی مثال اُس فاتر العقل کبوتر کی مانندہے جو خونخوار بلی کو اپنے سامنے آتادیکھ کر آنکھیں موند کر یہ سمجھ لیتا ہے کہ خطرہ ٹل گیا اور اُس نے اپنے آپ کو بلی کا لقمہ بننے سے بچا لیا ہے۔ایسا ہی کچھ سری لنکا کے ساتھ ایک بار نہیں بلکہ باربار ہوتا ہے۔یعنی بھارت سری لنکاکو ہڑپ کرنے کی نیت سے جب بھی اُس کے سامنے آتا ہے،بیوقوف سری لنکا اپنی آنکھیں بند کر کے بھارت کے ہاتھوں کوئی نہ کوئی دلخراش نقصان اُٹھا بیٹھتا ہے۔پچھلے دنوں سری لنکا میں ہونے والا دہشت گردی کا اندوہناک واقعہ بھی سری لنکا کے اِسی بے وقوفانہ طرزعمل کی ایک سیاہ مثال ہے۔دہشت گردی کے اِس سانحہ نے سری لنکن عوام کے سامنے سنگین نوعیت کے کئی سوالات کھڑے کردیئے ہیں اور اِن سب سوالوں کے جوابات سری لنکا کے اربابِ اختیار کے سوا کوئی دوسرا نہیں دے سکتا۔مانا کہ اِس وقت سری لنکا کی ریاست سخت صدمہ کی حالت میں ہے لیکن تمام تر مشکلات کے باوجوداَب اِن نامساعد حالات کے عین بیچ میں ہی سری لنکا کے رہنماؤں کو طے کرنا ہے کہ آخر سری لنکا مزید کب تک بھارت کے سامنے ایک بیوقوف کبوتر کی طرح آنکھیں بند کیئے بیٹھا رہے گا،جبکہ وہ بخوبی جانتا ہے کہ اِس روئے زمین پر سوائے بھارت کے اُس کا کوئی دوسرا دشمن نہیں ہے۔بظاہر یہ بات سننے میں انتہائی تلخ لگتی ہے لیکن یقین مانیئے ہے بالکل سچ۔
کیونکہ دنیا کے وسیع و عریض نقشہ پر سری لنکا ایک جزیرہ نما چھوٹا سا ملک ہے اور اس کے پڑوس میں واحد ملک بھارت کے علاوہ اگر کچھ موجود ہے تو وہ بس سمندر کا پانی ہے۔ سری لنکا کی یہ ہی جغرافیائی تنہائی بھارت کو بار بار اُکساتی ہے کہ وہ اس پر قابض ہوکر ”اکھنڈ بھارت“ کے خواب کی تعبیر پانے کے لیئے اپنا پہلا قدم بڑھا سکے۔ سری لنکا کی کل آبادی 2 کروڑ10 لاکھ ہے۔ جس میں سے70 فیصد آبادی سنہالا نسل کے افراد پر مشتمل ہے، جو کہ بدھ مت کے پیروکار ہیں۔ دوسرے نمبر پر اقلیتی نسلی گروہ تامل ہیں،جو ملک کی مجموعی آبادی کا 15 فیصد ہیں۔ یہ سب کے سب ہندو مت کے پجاری ہیں اور ملک کے شمال یا شمال مشرق میں آباد ہیں۔ اس کے علاوہ سری لنکا میں مسلمان مجموعی آبادی کا تقریباََ 10 فیصد جبکہ مسیحی برادری ملک کی مجموعی آبادی کا لگ بھگ 6 فیصد ہیں۔سری لنکا میں دہشت گردی کے حالیہ واقعے میں مسلمانوں کو ملوث قراردینے والے اسلام مخالف عناصر شاید یہ بھول رہے ہیں کہ سری لنکا 25 برس سے زیادہ عرصے تک دہشت گردی کا شکار رہاہے۔ اس طویل عرصے کے دوران ملک کے کسی بھی حصے میں مسلمانوں کی جانب سے دہشت گردی کا کوئی ایک واقعہ بھی نہیں ہوا، یوں بھی تاریخ گواہ ہے کہ سری لنکا کے مسلمان معاشی طور پر خوشحال اور تعلیم یافتہ ہونے کے باعث دہشت گردی اور انتہا پسندی سے ہمیشہ ہی کوسوں دور رہے ہیں۔ اس کے برعکس ماضی میں سری لنکا کو بھارت کے حمایت یافتہ لبریشن آف ٹائیگرز آف تامل ایلام) (LTTE اور بائیں بازو کی انتہا پسند جماعت نتا ویموختی پیرا مونا) JVP (کی وجہ سے شدید نوعیت کے جانی و مالی نقصانات ہوئے ہیں۔ واضح رہے کہ اِن دونوں گروپوں کے ارکان کی غالب اکثریت کا تعلق ہندو مذہب سے ہے۔
سری لنکا میں رونما ہونے والے دہشت گردی کے حالیہ واقعہ میں ملوث عناصر کے بارے میں یہ بھی اطلاعات ہیں کہ دہشت گرد بھارت کے تامل علاقوں میں بولی جانے والی زبان بول رہے تھے اور تامل علاقوں کی زبانیں سری لنکا میں رہنے والے مسلمان بالکل نہیں بولتے۔کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ دہشت گردوں نے مسلمانوں کا سا بھیس بنا کر یا پھر ایک خاص پلان کے تحت چند مسلمانوں کو تامل ٹائیگرز گروپ میں شامل کر کے کارروائی کی ہو، تاکہ مودی سرکار چند ماہ قبل پاک فضائیہ کے ہاتھوں حاصل ہونے والی اپنی عبرتناک ہزیمت کا بدلہ اِس واقعہ کا براہِ راست الزام پاکستان پر عائد کرکے لینا چاہتی ہو۔وہ تو اچھی بات یہ ہوئی کہ واقعہ کے فوراً بعد ہی سری لنکا کی حکومت نے واضح طور پر اِس واقعہ میں پاکستان کے کسی بھی سطح پر ملوث نہ ہونے کا واشگاف اعلان کر کے بھارت کی مذموم خواہش کو ملیامیٹ کر تے ہوئے مزید یہ بھی کہہ دیا تھاکہ”سری لنکا اس خونیں واقعہ اور مجرموں کی نسلی، مذہبی، سیاسی اور قومی وابستگی سے متعلق اپنے پڑوسی ملک (بھارت) کے میڈیا میں ہونے والی کسی بھی قسم کی قیاس آرائیوں کو خاطر میں نہیں لائے گا“۔اِس اعلان نے مودی سرکار پر سکتہ طاری کردیا ہے کیونکہ بھارت کے طرف سے پاکستان کے خلاف بچھائی جانے والی دہشت گردی کے الزامات کی بساط اَب اُس پر ہی اُلٹ گئی ہے اور ابتدائی مرحلہ میں ہی سری لنکن حکومت کو اِس بات کے کافی سے زیادہ ناقابلِ تردید شواہد مل چکے ہیں کہ دہشت گردی کے اِس واقعہ کے تمام تانے بانے بھارت میں بُنے گئے ہیں۔
قابل غور بات یہ ہے کہ سری لنکا میں ہونے والے دہشت گردوں حملوں میں ملوث قومی توحید جماعت(NJT) کے بارے میں کچھ مستندثبوت ایسے بھی ملے ہیں کہ وہ اپنے تمام جنگجوؤں کو بھارتی علاقے تامل ناڈو میں دہشت گردی کی تربیت دیتی رہی ہے۔یہ علاقہ ماضی میں بھی سری لنکا مخالف لبریشن آف تامل ایلام) (LTTE گروپ کا مرکز تھا اور بھارتی ایجنسی ”را“ اِن تخریب کاروں کی یہاں سے ہی خفیہ طور پر مدد اور سر پرستی کرتی تھی۔”را“ یہیں سے اپنے ایک خصوصی و خفیہ مشن کے تحت تامل نوجوانوں کو سری لنکا کے حکومتی نظام کے خلاف بھڑکاکر ان میں احساس محرومی پیدا کرتی تھی اور پھر ورغلائے گئے نوجوانوں کو بھارتی تربیتی کیمپوں میں پہنچایا جاتا جہاں انہیں عسکری تربیت کی فراہمی کے بعد اسلحہ دے کر سری لنکن آرمی کے خلاف گوریلا جنگ میں اُتار دیا جاتا۔ 25 برس تک مسلسل جاری رہنے والی اس جنگ میں علیحدگی پسندوں،سری لنکن فوجی جوانوں اور عام شہریوں سمیت سات لاکھ سے زائد افراد لقمہ اجل بن گئے۔
قریب تھا کہ سری لنکا بھارت کی ہاتھوں یہ”پراکسی وار“ ہار کر اپنی آزادی گنوا بیٹھتا کہ اچانک اُس وقت کے سری لنکن آرمی چیف نے جنرل پرویز مشرف سے رابطہ کرکے اُن سے مدد طلب کی۔پاکستان نے سری لنکن آرمی چیف کی درخواست قبول کرتے ہوئے سری لنکا کو نہ صرف ہتھیار دیئے بلکہ سری لنکن فوجیوں کو جنگی تربیت کے ساتھ ساتھ انہیں مکمل جاسوسی و مواصلاتی مدد بھی فراہم کی۔ یوں پاکستانی فوج نے اپنی بھرپور پیشہ وارانہ عسکری صلاحیت کے بل بوتے پر انتہائی قلیل مدت میں یہ جنگ جیت کر بطور تحفہ سری لنکن فوج کو پلیٹ میں رکھ کر دے دی اور سری لنکا کو بھارت کی ایک طفیلی ریاست بننے سے بچالیا۔مگر صد افسوس کہ سری لنکا اپنے تلخ ماضی کو جلد ہی فراموش کربیٹھا اور یہ جانتے بوجھتے کہ بھارت اُس سے اپنی شکست خوردگی کا بدلہ کبھی نہ کبھی ضرور لینے کی کوشش کرے گا، اُنہوں نے اپنے سیاسی تعلقات آہستہ آہستہ بھارت سے ازسرِ نو استوار کرنا شروع کردیئے۔گزشتہ چند برسوں کی سری لنکا اور بھارت کی غیر فطری پریم کہانی کا حتمی نتیجہ یہ برآمد ہورہا ہے کہ آج سری لنکا پھرسے ”بھارتی دہشت گردی“ کی اُسی کھائی کے عین دہانے پر کھڑا ہے،جہاں گرنے سے کبھی پاکستان نے اُسے بچایا تھا۔دیکھنا یہ ہے کہ اِس بار سری لنکا کس سے مدد طلب کرتا ہے؟آپشن صرف دو ہیں چین یا پھر پاکستان۔ بطور پاکستانی ہمارا سری لنکن عوام کو پیغام ہے کہ پاکستان ہر بُرے وقت میں پہلے بھی سری لنکا کے لیئے حاضر رہا ہے اور آئندہ بھی حاضررہے گا۔اب وہ دوسری بات ہے کہ جیسے ہی سری لنکا کا اچھا وقت شروع ہونے لگتا ہے،وہ پاکستان کی بغل سے اچانک غائب ہوکر اپنے ازلی دشمن بھارت کی گود میں جابیٹھتا ہے اور یہ ہی سری لنکا کا اصل قصور ہے، جس کا خمیازہ اُسے دہشت گردی کی صورت میں بھگتنا پڑ رہاہے۔
حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے ہفت روزہ ندائے ملت لاہور کے شمارہ 09 مئی 2019 کی اشاعت میں شائع ہوا
- آزادی اظہار رائے کی آڑ میں -جون30, 2023
- عید قرباں کی حقیقی روح -جون27, 2023
- بلدیہ عظمی کراچی کا قلعہ پیپلزپارٹی نے کیسے فتح کیا؟ -جون19, 2023