Sindh-Press-Act-law

سندھ پریس ایکٹ

سندھ حکومت اُس مایوس شکاری کی طرح بنتی جارہی ہے جو گھر سے تو شیر کا شکار کرنے نکلا تھا لیکن جنگل کی دہشت اور شیر کے رعب نے اُسے اتنا خوفزدہ کردیا کہ اُس نے شیر کے شکار کا ارادہ ترک کرتے ہوئے، اپنے آپ کو معصوم بھیڑ کے شکار پر یہ سوچ کر راضی کرلیا کہ آخر شکار تو شکار ہی ہوتا ہے۔ شیر کا نہیں تو بھیڑ کا ہی سہی۔سندھ حکومت نے بھی یہ ہی طرزِ عمل اختیار کرتے ہوئے کچھ عرصہ پہلے رینجر کو اپنے سیاسی جال میں پھانسنے کی بھرپور کوشش کی جب کامیابی حاصل نہ ہوسکی تو اُس نے سندھ میں نیب کو صوبہ بدر کرنے کا منصوبہ بنایا جب وہ بھی ناکامی سے ہمکنار ہوگیا تو سندھ حکومت کے اربابِ اختیار نے سوچا کہ آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ پر ہی کیوں نہ ہاتھ صاف کر لیا جائے مگرجب سندھ ہائی کورٹ کی مداخلت کے بعد اس طرف سے بھی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا تو سندھ حکومت کی اعلیٰ دماغ کابینہ نے تھک ہار کریہ منصوبہ بنایا کہ سندھ میں کم ازکم صحافت اور صحافیوں کا ہی شکار کر لیا جائے،اُن کی دانست میں یہ سندھ کا وہ کمزور ترین طبقہ ہے،جس کا شکار کرنے میں ا نہیں کوئی مشکل اور پریشانی کا سامنا نہیں کرناپڑے گااور یوں سندھ حکومت کے کی اپنے مخالفوں پر کچھ نہ کچھ دھاک بھی بیٹھ جائی گی کہ اپنی حکومت کے آخری دنوں میں کم از کم کسی کو تو رگڑا لگا ہی دیا،نیب جیسا شیر نہ سہی، صحافت جیسی معصوم بھیڑ ہی سہی۔اپنے اسی خیال کو عملی جامہ پہنانے کی خاطر سندھ کابینہ نے ”سندھ پریس،نیوز پریس،نیوز ایجنسیزاینڈ بک رجسٹریشن ایکٹ 2017 “ جسے عرفِ عام میں ”پریس ایکٹ 2017“ کا نام دیا جارہا ہے لانے کا حتمی فیصلہ کرلیاہے۔جس کی خاموشی کے ساتھ سندھ کابینہ نے منظوری بھی دے دی ہے اور اب یہ ”پریس ایکٹ 2017  “ کسی بھی سندھ اسمبلی میں منظور ی کے لیئے پیش کردیا جائے گا جہاں اسے سادہ اکثریت سے منظور کروا کر باقاعدہ قانون کا درجہ دے کر فی الفور نافذ بھی کردیا جائے گا۔لیکن اس سے پہلے کہ اسے سندھ اسمبلی میں خاموشی سے پیش کرکے منظور کروالیا جاتا، اس کی بھنک میڈیا کو پڑگئی۔جس کے بعدسندھ کے تمام قلم کاروں، ادیبوں، شاعروں، صحافیوں، سیاسی و سماجی رہنماؤں کی طرف سے اس قانون کو انسانی قدروں اور اظہار رائے کے خلاف قرار دیتے ہوئے سندھ حکومت پر یہ الزام عائد کیا جارہا ہے کہ یہ ایکٹ سندھ کے علم،ادب،روشن خیالی اور ترقی پسندی کو جہالت کے اندھیرے غار میں دھکیلنے کے ایک گھناؤنی کوشش ہے۔جس کو کسی صورت بھی کامیابی سے ہمکنار ہونے نہیں دیا جائے گاچاہے اس کے لیئے سندھ کی سڑکوں پر احتجاجی تحریک ہی کیوں نہ چلانی پڑے۔



سندھ پریس ایکٹ 2017 کے خلاف سندھ کے اہلِ دانش و بنیش افراد سراپا احتجاج ہیں اور مختلف پروگراموں کی صورت میں اپنی آواز سندھ حکومت کے ایوانوں تک پہنچانے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں اس سلسلے میں سندھ ادبی سنگت کے زیرِ اہتمام سندھی لینگویج اتھارٹی حیدرآباد میں سندھ کے بے شمار صحافیوں، قلم کاروں، ادیبوں، شاعروں، سیاسی و سماجی رہنماؤں کی طرف سے”سندھ پریس ایکٹ 2017 “ کے خلاف ایک خصوصی مذاکرے کا انعقاد کیا گیا جس میں وزیرِ اعلی سندھ سے مطالبہ کیا گیا کہ ”وہ اپنی علم دوستی اور اظہاررائے کی آزادی کے ساتھ اپنی محبت کا ثبوت دیتے ہوئے اس کالے قانون کو سندھ اسمبلی میں پیش ہونے سے روکیں ورنہ انہیں ہماری طرف سے سخت ترین مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا“۔ مذاکرہ سے خطاب کرتے ہوئے رکن سندھ اسمبلی مہتاب اکبر راشدی نے کہا کہ”اس طرح کے جبر اور زبردستی کے قانون آمر یا ڈکٹیٹر بناتے ہیں لیکن افسوس سندھ میں جمہوری حکومت ہے پھر بھی اس طرح کے قانون کو نہ صرف بنایا جارہا ہے بلکہ اسے عجلت اور خاموشی کے ساتھ منظور کروانے کی کوشش بھی کی جارہی ہے۔ اس سے لگتا ہے کہ سندھ حکومت میں شامل کچھ سازشی عناصر جمہوریت اور آزادی اظہار کے حامیوں کو ہمیشہ کے لیئے سندھ سے دیس نکالا دینا چاہتے ہیں لیکن شاید یہ سب اتنا آسان نہ ہو جتنا آسان وہ سمجھتے ہیں،میرے نزدیک اس قانون کی مخالفت کرنا سندھ کے ہر فرد کے لیے ضروری ہے“۔سینئر صحافی مظہر عباس نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ”یہ قانون بنیادی طور پر تمام میڈیا کو کنٹرول کرنے کی ایک کوشش ہے جسے ہم صحافیوں کے خلاف استعمال کیا جائے گا،مجھے ذاتی طور سندھ حکومت کے اس قدم پر حیرت ہوتی ہے کہ کل تک وہ آزادی اظہارکی سب سے بڑی داعی تھی اور آج ایک ایسا قانون بنانے جارہی ہے جس کی مثال آمرانہ دور میں بھی شاید نہ مل سکے“۔ مذاکرے میں خطاب کرتے ہوئے سینئر صحافی خورشید عباسی کا کہنا تھا کہ”اس عجیب و غریب قانون کے نفاذ کے بعد ہم صحافیوں کے ساتھ تو جو ہو گا سو ہوگا،مگر بے چارے شاعروں کو بھی اپنی شاعری یا شاعری کی کوئی کتاب ترتیب دیتے ہوئے پہلے وزارت اطلاعات سندھ کے ڈائریکٹر سے اصلاح ضرور لینا ہوگی بصورت دیگر اُس کی شاعری بے وزنی اور غیر قانونی قرار دے کر رد کردی جائے گی“۔مذاکرہ میں شریک معروف صحافی قاضی آصف کا کہنا تھا کہ ”سندھ کابینہ سے منظور ہونے والا یہ قانون مشرف دور کے پی سی او قانون کی فوٹو کاپی ہے جس کے تحت انتہاپسندی کے نام پر سندھ حکومت اپنے مخالف تخلیق کاروں اور صحافیوں کو پابند سلاسل کرے گی اس قانون کے تحت کوئی بھی پبلشر حکومت کی اجازت کے بغیر کتاب نہیں چھاپ سکے گا۔اور کسی بھی خبر کی بنیاد پر اخبار کے ایڈیٹر، نیوز انچارج، پیچ میکر کو گرفتار کرنے کی شق بھی اس قانون میں شامل ہے“۔سندھ ادبی سنگت کے مرکزی سیکریٹری جنرل احمد سولنگی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ”یہ قانون سندھ کے ادیبوں،قلمکاروں اور صحافیوں کی تخلیقی صلاحیتوں پر ایک کاری وار ہے اورہم سندھ کے شعور پر یہ حملہ کسی صورت بھی کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔اگر سندھ کے روشن مستقبل کو جہالت کے اندھیروں میں گم ہونے سے بچانا ہے تو پھر ہمیں اس قانون کے خلاف مزاحمت کرنا ہی پڑے گی“۔

سندھ کے تمام صحافتی حلقوں اور اہلِ علم افراد کے نزدیک یہ قانون سندھ کے باسیوں پر علم ادب اور تخلیق کے دروازے ہمیشہ کے لیئے بند کرنی کی ایک جاہلانہ کوشش ہے جس کی کامیابی کسی بھی صورت سندھ کے مفاد میں نہیں قرار دی جاسکتی ہے اس لیئے پاکستان پیپلزپارٹی کے بزرگ ترین رہنماؤں اور اہلِ درد افراد سے اپیل کی جاتی ہے کہ وہ اس قانون کے خلاف اُٹھنے والی آواز کو اپنی مرکزی قیادت تک پہنچائیں تاکہ سندھ میں آزادی اظہار اپنی اصل شکل و صورت میں اپنے وجود کو برقرار رکھ سکے۔

حوالہ: یہ مضمون سب سےپہلے ہفت روزہ ندائے ملت لاہور میں 17 اکتوبر 2017 کے شمارہ میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں