Mobile Phone Smuggling

ایل ای ڈی لائٹس کے نام پر موبائل فون کی اسمگلنگ

اکثر سننے میں آتا تھا کہ پاکستان میں اس وقت سب سے زیادہ اسمگلنگ موبائل فونز کی ہورہی ہے۔ موبائل فونز اسمگل ہو کر پاکستان آتے ہیں اور پھر ملک بھر میں فروخت کے لیئے پیش کردیئے جاتے لیکن یہ سب کچھ کس طرح اور کن ذرائع سے ہوتا ہے اس کا شاید کسی کو علم نہیں تھا لیکن کراچی کسٹم کے حکام بالآخر کافی تگ و دو کے بعد اس راز کو بھی بے نقاب کرنے میں کامیاب ہوہی گئے اور یوں پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی موبائل فونز کی اسمگلنگ پکڑی گئی۔ پاکستان میں ڈی جی کام موبائل فون کے حوالے سے کافی جانا پہچانا اور بڑا نام ہے۔کسٹم حکام کی جانب سے کی جانے والی کارروائی میں انکشاف ہو اہے کہ اس کمپنی نے ایل ای لائٹس کے نام پر کروڑوں مالیت کے کیو موبائل فونز اسمگل کر کے صرف ٹیکس کی مد میں قومی خزانے کو 104 ملین روپے کا نقصان پہنچایا جبکہ اسی کمپنی ایک اور چوری بھی پکڑی گئی جب کیو موبائل کے خلاف جاری تحقیقات کے دوران ملنے والی خفیہ اطلاع پر ڈائریکٹوریٹ کسٹمز انٹیلی جنس کراچی ڈیفنس کے ایک بنگلہ سے ایک ارب بیس کروڑ روپے مالیت کے 80 ہزار سے زائد اسمگل شدہ موبائل فون برآمد کرلیئے اور پانچ افراد کو حراست میں بھی لے لیا گیا۔

یہ مضمون بھی پڑھیئے: موبائل فون دشمنِ جاں بھی۔۔۔!

ڈی جی کام کے خلاف دونوں واقعات میں مقدمات درج کر کے باقاعدہ تفتیش شروع کردی گئی ہے کہ کمپنی کے کون کون سے افسران اس گھناؤنے کام میں ملوث ہیں۔ابتدائی تحقیقات میں ڈی جی کام کے بعض ڈائریکٹر کے نام سامنے آئے ہیں۔اس تمام کارروائی کی منتظم اور موقع پر موجود ڈائریکٹر کسٹم انٹیلی جنس کراچی ثمینہ زہرہ نے کامیاب کارروائی کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے بتایاہے کہ”ہمیں کافی عرصہ سے اطلاعات موصول ہورہی تھیں کہ حکومت ِ پاکستان کی طرف سے دی گئی کسٹمز گرین چینلز کی سہولت کا کئی کمپنیاں ناجائز فائدہ اُٹھارہی ہیں جس کے بعد ہم نے انتہائی منظم اور خفیہ طور پر اپنی تحقیقات کا آغاز کیا تاکہ اس معاملے کی تہہ تک پہنچا جائے دورانِ تحقیقات انکشاف ہوا کہ اچھی ساکھ کی حامل کئی کمپنیاں اس غیر قانونی کام میں ملوث ہیں،یہ کمپنیاں اس سہولت سے ناجائز فائدہ اُٹھارہی ہیں اور گرین چینل کے ذریعے مس ڈیکلریشن کی وارداتیں کر رہی ہیں۔جس کے بعد ہم نے ایسی کمپنیوں کے خلاف ایک بڑا کریک ڈاؤن کرنے کا فیصلہ کیا۔جس میں ہمیں پہلی کامیابی کیو موبائل کے خلاف ملی ہے۔موبائل فون کی اسمگلنگ میں ملوث کمپنی کیو موبائل کی جانب سے گزشتہ چند سالوں کے دوران 800 سے زائد کنٹینرز درآمد کئے گئے جن کی کلیرنس بھی گرین چینل کی ذریعے حاصل کی گئی اس کیس کی تحقیقات کے دائرہ کار کو بیرونِ ملک تک پھیلایا جارہا ہے اور متوقع منی لانڈرنگ کی بھی تحقیقات بھی کی جارہی ہیں“۔

اپنے قارئین کی معلومات میں اضافے کے لیئے ہم آپ کو سادہ لفظوں میں بتاتے چلیں کہ کس طرح کیوموبائل کمپنی نے موبائل فونز کی غیرقانونی درآمد کے ذریعے قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچایا ہے۔ اسے باآسانی اس مثال سے سمجھا جاسکتا ہے کہ ایک موبائل فون پر 350روپے کسٹم ڈیوٹی لاگو ہوتی ہے،17 فیصد سیلز ٹیکس لاگو ہوتا ہے اور 5 سے 9 فیصد انکم ٹیکس لاگو ہوتا ہے جبکہ حال ہی میں موبائل فون پر لگائی جانیوالی ریگولیٹری ڈیوٹی اس کے علاوہ ہے۔ کسٹم حکام کے مطابق کیو موبائل کمپنی نے چند سالوں کے دوران 800 سے زائد کنٹینرز کے ذریعے لاکھوں موبائل فونز اسمگل کیئے ہیں جس پر اگر ڈیوٹی اور ٹیکسز لاگو ہوتے تو حکومتِ پاکستان کو اربوں روپے کا فائدہ ہوتا۔ڈی جی کام ٹریڈنگ کمپنی رسک منیجمنٹ سسٹم اور اپریزل ڈیپارٹمنٹ کی ملی بھگت سے موبائل فونز کی اسمگلنگ سے قومی خزانے کو نقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ ملکی سلامتی کے لیئے بھی خطرات کا باعث بن چکی ہے۔

پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (PTA)نے بھی ڈی جی کام کی جانب سے لاکھوں موبائل فونز پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (PTA) کی منظوری کے بغیر منگوانے کی انکوائری شروع کر دی ہے کیونکہ پی ٹی اے سے پیشگی آئی ایم ای آئی کی نمبر کی منظوری کے بغیر موبائل فون کی درآمد اور فروخت ایک قابلِ سزا جرم ہے۔ جبکہ یہ اسمگل شدہ موبائل فونز بغیر پی ٹی اے کی طرف سے جاری کردہ آئی ایم ای آئی نمبر کے ملک بھر میں فروخت کیئے جارہے تھے۔ایسے موبائل فونز گزشتہ کئی سالوں سے دہشتگردوں اور جرائم پیشہ عناصر کے زیراستعمال رہے ہیں۔ اگرایسے کسی بھی موبائل فون کو غیر قانونی سرگرمی میں استعمال کر لیا جائے تو جعلی آئی ایم آئی ای نمبر ہونے کے باعث اسے شناخت کرنا ناممکن ہوجاتا ہے۔

اس ساری کہانی کا ایک دردناک پہلو یہ بھی ہے کہ مذکورہ موبائل کمپنی ہمیشہ سے پاکستانی ثقافت کو نظر انداز کرتی رہی ہے اس کمپنی کی جانب سے اکثر و بیشتر بھارتی فنکاروں کو ہی اپنے موبائل فونز کے اشتہارات میں شامل کیا جاتا رہا ہے۔بہ حالتِ مجبوری اگر کسی پاکستانی فنکار کو یہ اپنے اشتہار میں شامل کر بھی لیتی ہے توکسی ایسے پاکستان فنکار کا انتخاب کی جاتا ہے جولازمی بھارت میں قابلِ شناخت ہو۔پاکستان کی سب سے بڑی موبائل فون کمپنی ہونے کا دعوی کرنے والی کمپنی آخر کیوں ہمیشہ بھارتی فنکاروں پر ہی مہربان رہی ہے۔ہمارے نزدیک یہ ایک”ثقافتی اسمگلنگ“ہے۔جس کا نقصان بھی ہماری قوم بالخصوص نئی نسل کو ہورہا ہے۔یہ”ثقافتی اسمگلنگ“ کا ہی کمال ہے کہ ہمیں اپنے ٹی وی چینلوں پر پاکستان فنکاروں سے زیادہ بھارتی فنکاروں کا ناچ گانا دیکھنا پڑتا ہے۔حکومت وقت کو چاہئے کہ وہ”معاشی اسمگلنگ“ کے ساتھ ساتھ کچھ ”ثقافتی اسمگلنگ“ کا بھی سدباب کرے۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے ہفت روزہ ندائے ملت لاہور 16 نومبر 2017 کے شمارہ میں شائع ہوا

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں