Asif Ali Zardari Sindh Card Expire

کیا سندھ کارڈ کی میعاد ختم ہوگئی؟

سندھ بھر میں سیاسی جوڑ توڑ کا سلسلہ عروج پر ہے اورمختلف سیاسی جماعتوں کے مابین سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لیے بھی رابطے جاری ہیں۔ سندھ میں عام انتخابات کے موقع پر جہاں پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری اور فریال تالپور کو منی لانڈرنگ کے حوالے سے مشکلات کا سامنا ہے، وہیں پی پی پی کے نوجوان قائد بلاول بھٹو زرداری انتخابی مہم کے دوران شہروں اور دیہات میں جاکر عوام کے سامنے اپنا منشور پیش کر رہے ہیں اور اس موقع پر مخالفین کو کڑی تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔اندرونِ سندھ شہری اور دیہی آبادی میں بھلے ہی ماضی میں پی پی پی کا راج رہا ہے لیکن اس بار اندرونِ سندھ پیپلزپارٹی کو شدید ترین مزاحمت کا سامناکرنا پڑ رہا ہے کیونکہ خلافِ توقع سندھ بھر میں تحریکِ انصاف بھی اہم شخصیات کو اپنا ہم خیال بنانے کے ساتھ عوام کو متبادل کی حیثیت سے متوجہ کرنے میں کام یاب نظر آتی ہے یعنی اب پی پی پی کو جی ڈی اے کے علاوہ پی ٹی آئی کا بھی مقابلہ کرنا ہو گا۔ اندرون سندھ پیر پگارا کی قیادت میں بننے والا گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) بھی متحرک ہے اور اس پلیٹ فارم سے نامی گرامی اور بااثر سیاست داں انتخابی حلقوں پر امیدوار ہیں۔ اسی طرح بعض حلقوں پر اندرونی اختلافات کی وجہ سے پی پی پی کو اپنوں ہی سے لڑنا ہے۔ پیپلز پارٹی اپنی دس سالہ کارکردگی اورپارٹی کے ڈویژنل اور ضلعی قیادت کے عاقبت نا اندیشن فیصلوں کی بناء پر مخالفین کے ساتھ ساتھ اپنوں کو بھی بیگانہ بنا چکے ہیں اس کا مظاہرہ سکرنڈ میں بلاول بھٹو زرداری کی رابطہ عوام مہم میں اس وقت سامنے آیا جب سینما چوک پر بلاول بھٹو زرداری عوام سے خطاب کرہے تھے کہ پیپلز پارٹی کے پرجوش نوجوانوں کے ایک گروپ نے ان کے سامنے ضلعی صدر علی اکبر جمالی کے خلاف نعرے بازی شروع کی اور جمالی نہ کھپے ”نہ کھپے بلاول نہ کھپے“ اور”گو زرداری گو“ کے فلک شگاف نعرے لگائے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے امیدوار عوام میں جانے کے بجائے اپنے اعتماد کے لوگوں کو اپنے بنگلوں پر بلوا کر انہیں ووٹ کی اہمیت سے آگاہ اور پیپلز پارٹی کو ووٹ دینے کے لئے منت سماجت کررہے ہیں جبکہ دوسری جانب پی پی مخالفین بھرپور انداز میں مہم چلا رہے ہیں۔ سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد میں بھی پی پی کو مشکلات کا سامنا ہے۔حید آباد کے اہم ترین حلقہ این اے 225اور صوبائی حلقوں پی ایس 62اور 63میں گھماگہمی تیز ہوگئی ہے۔ این اے 225پر اس بار پاکستان پیپلزپارٹی نے سابق ایم این اے امیر علی شاہ جاموٹ کے بیٹے طارق شاہ جاموٹ کو میدان میں اتاراہوا ہے‘ جبکہ اس کے مدمقابل پی پی کے ناراض رہنما اور تحریک انصاف کے امیداوار خاوند بخش جہیجو اور شہید بے نظیر بھٹو کی ساتھی ناہید خان گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کی ٹکٹ سے معرکہ سر کرنے کے لیے پر امید ہیں۔ مذکورہ قومی اسمبلی کے حلقے کے پی ایس 62قاسم آباد تحصیل پر پی پی پی کے جام خان شورو اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے ایاز لطیف پلیجو اور سندھ ترقی پسند پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر قادر مگسی میں کانٹے کے مقابلے کا امکان ہے‘ اس ضمن میں مذکورہ امیدواروں نے حلقے میں انتخابی مہم تیز کردیا ہے‘ دن ہو یا رات امیدواروں نے گلی‘ کوچوں اور قصبوں ووٹ کی اپیل کرنے میں مصروف عمل ہیں۔ صوبائی حلقے پی ایس 63پر پی پی پی کے سابق صوبائی وزیر شرجیل انعام میمن اور نئی جماعت تبدیلی پسند پارٹی کے سربراہ علی قاضی جو کہ پہلی مرتبہ انتخاب لڑ رہے ہیں ان دونوں کے مابین کانٹے کے مقابلے کا امکان ہے‘ جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے خاوند بخش جہیجو نے بھی علی قاضی کی حمایت کا اعلان کیا ہوا ہے‘ جس کے بعد سیاسی حلقوں میں بازگشت ہے کہ مذکورہ امیدوار ایک دوسرے کو ٹف ٹائم دیں گے۔شاید اسی لیئے مذکورہ صوبائی حلقے کا معرکہ فتح کرنے کے لیے تمام امیدوار وں کی جانب سے انتخابی مہم تیزی سے جاری ہے۔روٹھوں کو منانے کا بھی سلسلہ بتدریج جاری ہے اور اس دوران ایک سے دو مرتبہ کامیاب ہوکر اسمبلی کے مزے چکھنے والے امیدواروں کو ترقیاتی اسکیموں‘ ملازمتوں اور دیگر کاموں میں نظر انداز کرنے کے بھی طعنے سننے کو مل رہے ہیں اور وہ ایک بار پھر ووٹ کے بدلے آئندہ ترجیحی بنیادوں پر تمام تر سہولیات فراہم کرنے کی یقین دہانی کرواکر جان چھڑ ا رہے ہیں۔ واضح رہے کہ الیکشن 2013ء میں این اے 225سے پی پی پی کے امیر علی شاہ جاموٹ‘ پی ایس 62پر بھی پی پی پی کے جام خان شورو اور 63پر شرجیل انعام میمن نے فتح حاصل کی تھی‘ مگر اس بار سخت مقابلے کی توقع کی جارہی ہے۔

کچھ ایسی ہی مایوس کن صورتحال خیرپور میں دیکھنے میں آرہی ہے جہاں سے کئی بااثر شخصیات پیپلزپارٹی کو الوداع کہہ کر جی ڈی اے میں شامل ہو گئیں، بااثر خاندانوں کے پیپلزپارٹی چھوڑنے پر خیرپور کی سیاسی صورتحال سنسنی خیز ہو گئی جی ڈی اے امیدواروں نے ضلع بھر میں سیاسی ہلچل مچادی۔جو اہم شخصیات پیپلزپارٹی چھوڑ کر جی ڈی اے میں شامل ہوئی ان میں جونیجہ برادری کاوڈیرہ رحمت اللہ جونیجو، میر بحر اور میرانی برادری کے رہنماء ولی محمد میر بحر،سید بڈھل شاہ عرف سید سلیم شاہ،سید مٹھل شاہ، سہتا برادری کے سردار مقبول احمد سہتو، راجپر برادری کے رہنماء عطامحمد راجپر،تھیبا برادری کے زمیندار عاشق حسین تھیبو حاجی جمال الدین تھیبو اور دیگر شامل ہیں ان رہنماؤں نے پیر محمد راشد شاہ،پیر محمد اسماعیل شاہ،پیر کاظم علی شاہ لکیاری،سید غوث علی شاہ اور لالا عبدالغفار شیخ کے ساتھ ملاقات کر کے جی ڈی اے میں شامل ہونے کا اعلان کیا جی ڈی اے میں شامل ہونے والے رہنماؤں کا کہنا تھا کہ”وہ پیپلزپارٹی کی 10سالہ حکومت کی خراب حکمرانی سے مایوس ہوکر جی ڈی اے میں شامل ہوئے ہیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ پیپلز پارٹی ماضی کی طرح کیا اس مرتبہ بھی بھٹو کے خون اور بینظیر کی چادر کا واسطہ دے کر حکومت بنانے میں کامیاب ہوجائے گی یا پھر پی پی پی کا مشہور زمانہ ”سندھ کارڈ“ زائد المعیاد ہونے کی بناء پر ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے بلاک کردیا جائے گا۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے ہفت روزہ ندائے ملت لاہور 26 جولائی 2018 کے شمارہ میں شائع ہوا

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں