side-effects-of-music-proved-in-science-research

موسیقی راگ سے روگ تک

تاریخ انسانی میں موسیقی کے متعلق سب سے بہترین جملہ جو اَب تک کہا گیا ہے وہ یہ ہے کہ ”موسیقی روح کی غذاہے“۔ اَب اس جملہ میں صداقت کتنی ہے اورمبالغہ آمیزاجزاء کی مقدار کتنی شامل ہے۔اس کا حتمی فیصلہ تو ہم اس لیئے بھی نہیں کرسکتے کہ روحوں سے ملاقات کی خواہش کبھی ہم نے کی نہیں اور نہ ہی اُن کی جانب سے کبھی کوئی سلسلہ جنبانی ہمارے ساتھ دراز ہواہے۔لہٰذا روح کے کام و دہن کی لذتوں کے بارے میں ہم کچھ نہیں جانتے۔ہاں! موسیقی انسانی جسم پر کس قسم کے مثبت و منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔یقینا سائنس کی روشنی میں اس کا جائزہ لینے کی ایک مختصر کی کوشش ضرور کی جاسکتی ہے اور زیرنظر مضمون میں موسیقی کے انسان کے احساسات، جذبات،معمولات اور کیفیات پر پڑنے والے غیرمعمولی اثرات کا اجمالی سا جائزہ سائنسی تحقیقات اور مطالعات کے تناظر میں پیش خدمت ہے۔

بلند آواز موسیقی اور ہمارے بجتے کان
موسیقی چاہے کتنے بھی ہلکے سُروں کی کیوں نہ ہو لیکن اگر آپ اُسے اپنے ایکو ساؤنڈ سسٹم پر تیز آواز پر بجانا شروع کردیں گے تو وہ سننے والوں کی سماعت پر بہت بھاری یعنی ہتھوڑا بن کر بھی بر س سکتی ہے۔ ویسے تو ہر زمانہ کے نوجوانوں نے ہمیشہ سے ہی موسیقی سننے کے لیئے اونچی آواز کو ہی ترجیح دی ہے۔ لیکن آج کل نت نئے جدید ترین آلاتِ موسیقی کی دستیابی کے باعث تیز آواز موسیقی سے انسانی سماعت کو مستقل اور سنگین نقصان پہنچناماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ آسان اور سہل ہوگیاہے۔کنیڈا میں میک ماسٹر کے شعبہ میں نفسیات کے تحت نیورو سائنس پر کی جانے ایک حالیہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ نو عمر افراد میں سماعت کی خرابی کے زیادہ تر امراض بلند آواز میں موسیقی سننے کے باعث پیدا ہورہے ہیں۔ اس تحقیقی مطالعے میں 170 بچوں کو زیر مشاہدہ رکھا گیا تھا۔ جن میں سے کچھ کو مخصوص عرصہ تک باقاعدگی کے ساتھ ہلکی آواز اور چند کو بلند آواز میں موسیقی سنانے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ نتائج کے مطابق جن بچوں کو بلند آواز موسیقی کے گروپ میں شامل تھے، اُن میں اکثرکو ”ٹنائٹس“کی علامات کا سامنا کرنا پڑا۔ یاد رہے کہ”ٹنائٹس“ سماعت کا ایک ایسا مرض ہے،جس کی علامت ایک کان میں عارضی یا مستقل طور پر سننی خیز آواز کا بجنا ہے اور یہ عموماً 50 سال سے زائد بالغ افراد میں ظاہر ہوتاہے۔

اگرچہ”ٹنائٹس“کی علامات عارضی بھی ہوسکتی ہیں (مثلا! کسی خاص طور پر تیز محافل موسیقی کے بعد) کان میں کسی شئے کے بجنے کا احساس پیدا ہونا، جیسا کہ دورانِ مطالعہ بچوں نے بتایا ہے کہ تیز موسیقی سننے کے بعد اُن کے کان بجتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بچوں کے جس گروپ کو ہلکی آواز میں یا بالکل بھی موسیقی سنائی نہیں گئی تھی۔ اُن کی جانب سے دورانِ تحقیق کان بجنے کی ایک بھی شکایت موصول نہیں ہوئی۔ اس تحقیق کے مصنف،لیری رابرٹس (Larry Roberts) نے والدین کو مشورہ دیا ہے کہ ”اگر وہ چاہتے ہیں،اُن کے بچے عمر رسیدگی سے قبل سماعت کے مسائل کا شکار نہ ہوں تو پھر یقینی بنائیں کہ آپ کے بچے بلند آواز میں موسیقی نہ سُن سکیں“۔

نیز کانوں پر ہیڈ فونز لگا کر موسیقی سننے کے بھی بہت بُرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ماہرین علم سماعت (Audiologists) قوتِ سماعت کے نقصان کا براہ راست ذمہ دار ہیڈ فونزکو ٹھہراتے ہیں۔نیز اونچی آواز میں موسیقی کو کسی بھی ذریعے سے لگاتار سننے سے انسان کی سننے کی صلاحیت مستقل طور پر ناکارہ ہو سکتی ہے۔ستم بالائے ستم یہ کہ موسیقی اونچی آواز میں سننے کے بُرے اثرات صرف کانوں تک محدود نہیں ہوتے بلکہ اونچی آوازوں کے غیر سمعی (Non-auditory) اثرات بھی ہوتے ہیں جو قوتِ سماعت کو متاثر نہ بھی کریں لیکن انسانی جسم کو دیگر عوارض کا شکار بنا سکتے ہیں۔مثلاً بلڈپریشر کا بڑھ جانا، بے خوابی، سانس لینے میں دقّت، دل کی دھڑکن کا بڑھ جانا اور خون کی شریانوں کا سکڑنا وغیرہ ایسے اثرات ہیں جو اونچی آواز میں موسیقی کو سننے سے پیدا ہوسکتے ہیں۔

دُکھی موسیقی کے ہیں دُکھ ہزار
یہ تو یقین سے نہیں کہا جاسکتاکہ فن لینڈکی عوام دنیا بھر میں سب سے زیادہ موسیقی کے شیدائی یا رسیاہیں لیکن اُن کے بارے میں ایک بات ضرور پورے تیقن کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ فن لینڈ کے محققین نے جتنی سائنسی مطالعے موسیقی کے نیک و بد اثرات جاننے کے بار ے میں کیئے ہیں بلاشبہ دنیا کے کسی اور ملک کے محققین اُس کا عشر عشیر بھی نہیں کرسکے۔ دراصل فن لینڈ کے سائنسدان انسانی دماغ پر موسیقی کے اثرات کو جاننے کے متعلق بہت زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ گزشتہ کئی دہائیوں میں اُن کی جانب سے متعدد سائنسی مطالعات سامنے آچکے ہیں،جن میں یہ ثابت کیا گیا ہے کہ موسیقی کے ذریعے انسانی جذبات کو موثر انداز میں کنٹرول کیا جاسکتاہے۔ اس حوالے فن لینڈ کے محقیقین کی جانب سے 2015 میں کیئے جانے والے ایک مطالعہ کا دنیابھر میں بہت چرچا ہوا تھا، جس میں بتایا گیا تھا کہ ”اچھی موسیقی انسان میں نظم و ضبط کا سبب بنتی ہے“۔

یاد رہے کہ اس تحقیق کے نتائج سامنے آنے کے بعد موسیقی کے ذریعے تھراپی کا منفرد کاروبار کو خوب رواج ملا اور کئی ممالک میں تو باقاعدہ موسیقی تھراپی کے لیئے کلینک قائم کردیئے گئے۔ حال ہی میں فن لینڈ کے سائنس دانوں کی جانب سے ایک تحقیقی مطالعہ سامنا آیا ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ ”غمگین موسیقی زیادہ سننے سے انسانی دماغ کی کارکردگی پر شدید نوعیت کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور دُکھی موسیقی صرف سننے والے کو افسردگی میں ہی مبتلا نہیں کرتی بلکہ کبھی کبھار خودکشی جیسا جان لیوا اقدام کی طرف بھی راغب کرسکتی ہے“۔اس تحقیق کے دوران بے شمار رضاکاروں کا معائنہ ایم آر آئی ٹیسٹنگ طرز کے جدید آلات سے کیا گیا تھا۔ جس میں انکشاف ہوا کہ دکھی موسیقی کے دوران سننے والے کے دماغ وہ حصے بہت زیادہ متحرک ہوجاتے ہیں، جو منفی افعال کے براہ راست ذمہ دار ہوتے ہیں۔جبکہ ذہن کے وہ گوشے جن کا بنیادی وظیفہ مثبت طرز فکر کو پروان چڑھانا ہوتا ہے، دکھی موسیقی مسلسل سماعت کیئے جانے سے دماغ کے یہ گوشے غیر متحرک اور خوابیدہ ہوجاتے ہیں۔ اس لیئے دکھی موسیقی سماعت کرنے والے افراد کو اپنی اردگر دکی دنیا انتہائی بے ثبات اور فضول محسوس ہوتی ہے اور اگر دُکھی موسیقی سماعت کرنے کی عادت حد سے تجاوز کرجائے تو زندگی کا اختتام خودکشی پر جاکر بھی منتج ہوسکتاہے۔

موسیقی مطالعہ میں خلل ڈالتی ہے
ہمارے بزرگ تو یہ فرمایا کرتے تھے کہ ”مطالعہ کے لیئے سب سے اچھا وقت طلوع آفتاب کے بعد کا ہوتاہے،کیونکہ دن کے ابتدائی لمحات میں ہر شئے پر مکمل خاموشی طاری ہوتی ہے۔لہٰذا صبح کے اوقات میں کیا گیا مطالعہ یاداشت میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوجاتاہے“۔مگر پھر دورِ جدید آیا اور اپنے جلو میں نئی عادات لایا۔ سب سے پہلے مطالعہ کے اوقات کار بدلے گئے،بعد ازاں پس منظر میں ہلکی ہلکی موسیقی لگا کر مطالعہ کیا جانے لگا اور اَب تو نوبت یہاں تک آپہنچی ہے کہ بعض نجی اسکولوں میں موسیقی کے ساتھ بچوں کو مطالعہ کروائے جانے کا خصوصی اہتمام کیا جاتاہے۔موسیقی کے ساتھ مطالعہ کرنا انسانی ذہانت کے لیئے کس قدر نفع یا نقصان کا باعث ہے؟۔اس متعلق یونیورسٹی آف ویلز کی ایک دل،دہلا دینے والی سائنسی تحقیق سامنے آئی ہے،جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ موسیقی کے ہمراہ مطالعہ کرنا سخت ضرر اور نقصان کا سبب ہے۔

اس تحقیقی مطالعے میں سینکڑوں افراد کو پانچ مختلف گروہوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ ایک گروہ کو مطالعہ کے لیئے مکمل خاموشی کا ماحول فراہم کیا گیا،دوسرے گروہ کو مطالعہ کے ہمراہ ہلکی موسیقی سننے کو دی گئی،تیسرے گروہ کو تیز موسیقی میں مطالعہ کرنے کو کہا گیا،چوتھے گروہ کو مطالعہ کے لیئے پرہجوم ماحول دیا گیا جبکہ پانچویں گروہ میں شامل افراد کو مطالعہ کے ساتھ آپس میں بات چیت کرنے کا بھی کہا گیا۔ اس مطالعاتی تحقیقی کے حیران کن نتائج برآمد ہوئے جن کے مطابق سب سے بُری کارکردگی کا مظاہر ہ اُس گروہ کی جانب سے سامنے آیا جنہیں تیز یا ہلکی موسیقی میں مطالعہ کا موقع فراہم کیا گیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ تحقیق میں اس زاویہ پر بھی تحقیق کی گئی کہ اگر کوئی اپنی پسندیدہ موسیقی کے ہمراہ مطالعہ کرتا ہے تو کیا نتیجہ سامنے آتاہے۔ بہرکیف اپنی پسندیدہ موسیقی کے ہمراہ مطالعہ کرنے والوں کی کارکردگی بھی انتہائی خراب رہی۔ حیران کن طور پر سب سے اچھی کارکردگی صرف اُس گروہ کی رہی جسے مکمل خاموشی میں مطالعہ کا موقع فراہم کیا گیاتھا۔ واضح رہے کہ اس تحقیقی کو کئی ادوار میں باربار دہرایا گیا لیکن نتیجہ ہر بار یہ ہی سامنے آیا کہ موسیقی میں مطالعہ کرنے والے افراد کی کارکردگی سب سے خراب تھی۔

سفر،موسیقی اور حادثات
اگرچہ ہم میں سے اکثر احباب ڈرائیونگ کے دوران موسیقی سننے کا اہتمام سفرکو زیادہ سے زیادہ پرلطف اور پرکیف بنانے کی نیت سے ہی کرتے ہیں۔لیکن بعض سائنسی تحقیقات سے معلوم ہوتاہے کہ دوران سفر موسیقی سننے سے حادثات کے امکانات کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔ موسیقی،سفراور حادثات میں باہمی سراغ لگانے کے لیئے دنیا بھر میں اَب تک کئی سائنسی تحقیقات اور مطالعات کے نتائج سامنے آچکے ہیں۔ مثال کے طور پر 2004 میں کنیڈا کے سائنسدان کی جانب سے کی جانے والی تحقیق سے اخذ کردہ یہ نتیجہ سامنے آیا تھا، دوران ڈرائیورنگ اگر کوئی ڈرائیور 95 ڈیسیبل سے 110 ڈیسیبل یا اس سے زیادہ تیز آوازمیں موسیقی سُنتا ہے تو اُس کی گاڑی کے حادثہ کا شکار ہونے کا امکانات 20 فیصد تک بڑھ جاتے ہیں۔

واضح رہے کہ 2013 میں بین گوریون یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے موسیقی کے ساتھ ڈرائیونگ کرنے کی عام شاہراہ پر کئی عملی آزمائشیں کیں تھیں۔ جس میں زیادہ توجہ اس بات پر دی گئی تھی کہ اگر کوئی ڈرائیور اپنی پسندیدہ موسیقی سماعت کرتے ہوئے ڈرائیونگ کرتا ہے تو وہ عام شاہراہ پر گاڑی چلاتے ہوئے کتنی بار غلطیاں کرتاہے۔ آپ کو یہ جان کر یقیناحیرت ہوگی کہ پسندیدہ موسیقی کے ساتھ ڈرائیونگ کرنے والے 98 فیصد افراد نے اوسطاً تین غلطیاں کیں۔جن میں 20 فیصد کو حادثہ اور تصادم سے بچنے کے لیئے اچانک بریک لگانے کی ضرورت بھی پیش آئی۔ اس کے مقابلے میں ایسے افراد جو دورانِ ڈرائیونگ موسیقی نہیں سُن رہے تھے کہ اُن میں سے فقط10 فیصد افراد نے اوسطاً صرف ایک غلطی کی،جبکہ وہ غلطی بھی معمولی نوعیت کی تھی،جس کو درست کرنے کے لیئے بریک لگانے کی بھی کوئی حاجت نہیں تھی۔ یاد رہے کہ اس تحقیقی میں طویل اور مختصر سفر دونوں کو بیک وقت شامل کیا گیا تھا۔

پاپ میوزک آپ کی تخلیقی ذہانت کو ختم کر سکتا ہے
وہ مثل تو آپ نے ضرور سُنی ہی ہوگی کہ پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں۔بالکل اسی مصداق موسیقی کی بھی کئی اقسام ہیں،مثلاً کلاسیکی،پاپ،جاز وغیرہ۔ سائنس دان برسوں سے فقط موسیقی ہی نہیں بلکہ اُس کی اقسام اور دُھنوں کے انسانی جذبات اور احساسات پر پڑنے والے اثرات کے سائنسی تجزیہ میں مصروف ہیں۔ دراصل وہ جاننا چاہتے ہیں کہ مختلف اقسام کی موسیقی میں کونسی دُھن یا قسم انسانی احساسات کی نشوونما پر مثبت اور کونسی منفی انداز میں اپنا اثر ڈالتی ہے۔ اس حوالے سے موسیقی کی دنیا کے معروف محقق گریفتھ (Griffith) نے کئی برس قبل بلحاظ اقسام موسیقی کی درجہ بندی کرکے ایک مطالعاتی جائزہ کا آغاز کیا تھا۔ جس میں اُس نے موسیقی کو پسند کرنے والے مختلف افراد کی عادت و اطور کا تفصیلی مشاہدہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ کئی برسوں کی تحقیق کے بعد گریفتھ کا کہنا ہے کہ ”پاپ میوزک پسند کرنے والے افراد سب سے کم تخلیقی ذہانت کے حامل ہوتے ہیں۔

لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہ لے لیا جائے کہ پاپ موسیقی سننے والے بے وقوف ہوتے ہیں،بلکہ میں صرف یہ کہنا چاہتاہوں کہ پاپ موسیقی کی پسندکرنے والے افراد شاذ ہی کبھی کسی قسم کے تخلیقی کام کی جانب رغبت کامظاہر ہ کرتے ہیں“۔گریفتھ کے مطابق ”پاپ موسیقی سے تعلق رکھنے والے گلوگار،موسیقار اور فنکار بھی زیادہ تر ناخواندہ یا واجبی سی تعلیم کے حامل ہی ہوتے ہیں۔علاوہ ازیں پاپ گلوگار اکثر و بیشتر ایسے سطحی قسم کے تنازعات میں خود کو شریک کرلیتے ہیں،جو عقلیت پسندی کے سخت برخلاف ہوتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ اکثر پاپ گلوگار بڑی محنت سے کمایا ہو پیسا پس انداز کرنے کے بجائے فضول خرچی میں اُڑا دیتے ہیں“۔ ضروری نہیں ہے کہ گریفتھ کی تحقیق سے لازمی مکمل اتفاق ہی کیا جائے۔ہاں! اس پر تفکر ضرور کیا جاسکتاہے۔کیونکہ موسیقی بڑی حد تک انسان کو اپنے اردگرد کے ماحول سے بے خبر کردیتی ہے اور سائنس کے دبستان میں اس بات کے کافی شواہد موجود ہیں کہ موسیقی کی کئی اقسام ذہن پر منفی اثرات مرتب کرتی ہیں جس سے سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت کمزور ہو جاتی ہے۔ مثلاً دو مختلف یونیورسٹیوں میں کی گئی تحقیقات میں یہ دریافت ہوا کہ جب راک (Rock) میوزک لگایا گیا تو چوہوں کے لیے بھول بھلیوں میں اپنا راستہ معلوم کرنا عام حالت کے مقابلے میں کئی گناہ زیادہ مشکل ہوگیا۔ دوسرے الفاظ میں چوہوں کی سیکھنے کی صلاحیتیں موسیقی کے زیر اثر کمزو پڑ گئیں۔

موسیقی اور بڑھاپا
اسّی کی دہائی میں ہمارے یہاں ایک نغمہ ”ابھی تو میں جوان ہوں“ بہت مشہور ہواتھا۔ اس گانے کو ملکہ پکھراج اور اُن کی صاحبزادی طاہرہ سید نے مل کر گایا تھا۔ اس نغمہ کی سب سے خاص بات جوانی اور بڑھاپا کا دلفریب انداز میں تذکرہ اور موازنہ تھا۔ کہا جاتاہے کہ اس نغمے نے اپنے وقت میں بے شمار ضعیف العمر افراد میں ”جوانی“ کی نئی روح پھونک دی تھی۔ واضح رہے کہ جوانی اور بڑھاپے کے موضوع کو لے کر دنیا بھر میں موسیقار اور گلوگار ہمیشہ سے ہی نغمے ترتیب دیتے رہے ہیں۔ جنہیں نوجوان اور بزرگ سب ہی پسندیدگی سے سنتے آئے ہیں۔ ایسے نغموں، جن میں بڑھاپے اور جوانی کا ذکر ہو، اُن نغمات کے بارے میں انگلیہ یونیورسٹی، کیمبرج،انگلینڈ کے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اس طرح کے گانے مسلسل سماعت کرنے سے قبل ازوقت عمررسیدگی کے خطرات کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔

اس جملہ کا سادہ سا مطلب یہ ہوا کہ جوانی اور بڑھاپے کے موضوعات پر بنائے گئے گانوں کو اگر بڑی عمر کے افراد تواتر کے ساتھ سماعت کریں تو اُن کے بوڑھا ہونے کی رفتار معمول سے زیادہ بڑھ بھی سکتی ہے۔دلچسپ سے بات یہ ہے کہ یونیورسٹی کے محققین نے 76 ایسے مقبول ترین نغموں کی تجزیاتی فہرست بھی مرتب کی ہے۔ جنہیں سننے سے بڑھاپا تیز خرام قدموں سے سننے والے تک پہنچ سکتاہے۔ اس اہم ترین اور منفرد تحقیقی مطالعے کی مصنف جینکٹا کیلی (Jacint Kelly) لکھتی ہیں کہ ”گانوں میں جوانی اور بڑھاپا کی تذکرہ سننے والوں میں مایوسی اور پژمردگی پیدا کرتا ہے، جس سے اُن کی قوت مدافعت پر شدید قسم کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہ منفی اثرات خرابی صحت،بیماری کی طوالت کے ساتھ ساتھ اچانک موت کا سبب بھی بن سکتے ہیں۔ کیونکہ بڑھتی عمر اپنے ساتھ بے پناہ فراغت بھی لاتی ہے۔بالخصوص زیادہ سوچ، دقیانوسی خیالات اور بڑھاپے یا جوانی کے موضوع پر بننے والے موسیقی کا باہمی ملاپ سے ایک ایسا ملغوبہ بن جاتاہے،جو بڑھتی عمر کے افراد کے لیئے انتہائی مہلک بھی ثابت ہوسکتاہے“۔

موسیقی،باہمی تعلقات کمزور بناتی ہے
نوجوانوں میں ایک عام تاثر یہ پایا جاتاہے کہ شاید رومانوی موسیقی اور نغمات سننے سے ہمارے رومانوی تعلقات کو زبردست مہمیز ملتی ہے اور رومان پرور رشتے مستحکم ہوتے ہیں۔ مگر سائنس چونکہ جذبات کے بجائے عقل،دلیل اور مشاہدہ کی بنیادپر کسی شئے کے اچھے یا برُے ہونے کی تصدیق یا پھر تردید کرتی ہے۔ اس لیئے سائنسی تحقیقات اور مشاہدات یہ ہی بتاتے ہیں کہ موسیقی کے حد سے زیادہ رسیا اور شیدائی عملی تعلقات استوار کرنے کے معاملے میں انتہائی غیر سنجیدہ اور غیر ذمہ دار واقع ہوتے ہیں۔ درحقیقت یہ نتائج2006 میں کیئے گئے اُس سائنسی مطالعے کے اختتام پر اخذ کیئے گئے تھے،جس میں 1500نوجوان افراد کی عادات و اطوار کا باریک بینی سے نفسیاتی مشاہدہ کیا گیا تھا۔ اس مطالعے کے مصنفین نے دورانِ تحقیق مشاہدہ کیا کہ موسیقی سے جنون کی حد تک محبت کرنے والے زیادہ تر افراد چاہے اُن کا تعلق کسی صنف یا جنس سے کیوں نہ ہو۔

عموماً آپس کے باہمی تعلقات میں زبردست لاپرواہی کے مرتکب ہوتے ہیں“۔ایسا آخر کیوں ہوتا ہے؟۔ اس سوال کا جواب محققین کے مطابق کچھ یوں تھا کہ ”ہر وقت موسیقی سننے سے انسانی ذہن ایک خودساختہ افسانوی دنیا تعمیر کرلیتاہے اور وہ اپنے ساتھی میں ایسی ایسی خوبیاں اور عادتوں کی توقع کرنے لگتا ہے،جن کا کسی ایک فرد میں مجتمع ہونا کم و بیش ناممکن ہوتا ہے۔ لہٰذا جب تعلقات میں خیالی توقعات پوری نہیں ہوپاتیں تو وہ شخص مطلوبہ خوبیاں کی تلاش و جستجو میں کسی دوسرے فر د کی جانب ملتفت ہونا شروع ہوجاتا ہے“۔نیز تحقیقی مطالعے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ انسان کے تمام جذبات و احساسات مثلاً غصہ، خوف، جوش، نفرت، خوشی اور غم وغیرہ سب دماغ کے جس حصے میں پیدا ہوتے ہیں اُسے لمبک سسٹم(Limbic System) کہا جا تاہے اور حیران کن طور پر موسیقی دماغ کے اسی حصے کو متحرک کردیتی ہے۔دماغ کا یہ حصہ اگر زیادہ متحرک ہوجانے سے طبیعت میں عدم برداشت اور تشدد پسندی کے جذبات پیدا ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔بعدازں یہ ہی جذبات تعلقات کے خاتمہ کا سبب بن جاتے ہیں۔

جدیدموسیقی اور غیر صحت مندانہ طرزِ زندگی کا فروغ
چند برس قبل جدید موسیقی کے متعلق نیویارک اسکول آف میڈیسن کے زیراہتمام ایک انتہائی حیران کن مطالعاتی تحقیق کا انعقاد کیا گیا تھا۔جس میں 2000 سے 2014 کے درمیان اس پہلو کا تفصیلی تجزیہ کرنے کی کوشش گئی تھی کہ مشہور و معروف پاپ گلوگاروں کے ذریعے دنیا بھر زیادہ تر کس قسم کی مصنوعات کی تشہیر کی جاتی ہے؟ اور کن مقاصد کے تحت کی جاتی ہے؟۔چودہ برس کی طویل تحقیق اور مطالعہ کے اختتام پر محققین کے سامنے حیران کن اعداد و شمار سامنے آئے کہ جدید موسیقی اور معروف پاپ گلوگاروں کے ذریعے جنک فوڈ اور سافٹ ڈرنکس بنانے والی کمپنیاں اشتہارات پر تقریباً 2 ارب امریکی ڈالر جس کی مالیت پاکستانی روپے میں تین کھرب روپے بنتی ہے خرچ کردیتی ہیں۔ محققین نے اپنی دستاویز میں یہ بھی انکشاف کیا کہ یہ کمپنیاں عوام الناس بالخصوص نوجوانوں کو اپنی غذائیت سے عاری مصنوعات کی جانب راغب اور متوجہ کرنے کے لیئے جدید موسیقی اور پاپ گلوکاروں کو بطور ہتھیار استعمال کرتی ہیں۔

چونکہ نوجوان نسل موسیقی اور گلوگاروں سے انسیت رکھتی ہے،اسی لیئے جنک فوڈ اور سافٹ ڈرنکس بنانے والی کمپنیاں مشہور و معروف گلوکاروں کے ہاتھ میں اپنی مصنوعہ تھما کرایسے مہنگے اشتہار تیار کرواتی ہیں۔جسے ملاحظہ کرنے کے بعد نوجوان سمجھتے ہیں کہ شاید اپنے پسندیدہ گلوگار کے ہاتھ میں موجود جنک فوڈ یا سافٹ ڈرنکس پینے کے بعد وہ بھی اُن جیسے خوب صورت،پرکشش اور سُریلے بن جائیں گے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 1999 سے 2012 کے درمیانی مدت کا احاطہ کرتے ہوئے ویک فارسٹ(Wake Forest) اور یونیورسٹی آف نارتھ کیرولائنا کے محققین کی طرف سے ہزاروں افراد کے مطالعے کے بعد یہ نتائج اخذ کیے گئے ہیں کہ ”گزشتہ 14 سالوں کے دوران ہرطبقہ عمر کے لوگوں میں موٹا پا میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا،جس کی بنیادی وجہ غیرمعیاری جنک فوڈز اور سافٹ ڈرنک کا بے تحاشہ استعمال ہے اور لمحہ فکریہ تو یہ ہے کہ اِن غیر صحت مندانہ طرزِ زندگی کی طرف لوگوں کو سب سے زیادہ ترغیب جدید موسیقی کے اُن پروگرامات سے ملتی ہے،جنہیں کثیر سرمایے کے ساتھ جنک فوڈز اور سافٹ ڈرنکس بنانے والی کمپنیاں دنیا بھر میں اسپانسر کرتی ہیں“۔ اس طرح سے جدید موسیقی بالواسطہ طور پر دنیا بھر میں غیر صحت مندانہ طرز زندگی فروغ دینے میں اہم ترین کردار ادا کررہی ہے۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے روزنامہ ایکسپریس کے سنڈے میگزین میں 14 مارچ 2021 کے شمارہ میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں