گزشتہ ہفتہ ازبکستان کے شہر سمرقند میں منعقد ہونے والا شنگھائی تعاون تنظیم کا 22 واں،سربراہی اجلاس کئی حوالوں سے انتہائی اہمیت کا حامل رہا۔ خاص طور پر شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت کرنے والے چینی صدر،شی جن پنگ اور روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے جس دبنگ انداز میں نام لیئے بغیر امریکا کی عالمی سامراجیت کو دنیا کے مستقبل کے لیئے ہلاکت خیز قرار دیا ہے،وہ انتہائی معنی خیز ہے۔ اگرچہ ماضی میں چینی قیادت عالمی فورمز پر ہمیشہ مفاہمانہ طرزِ سیاست کی علم بردار رہی ہے،لیکن پہلی بار شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میں چینی رہنما کا لب و لہجہ غیر معمولی طور پر سخت تھا۔
چینی صدر،شی جن پنگ نے شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میں تمام اراکین پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ”دنیا ایک نئے ہنگامہ خیز دور میں داخل ہو چکی ہے۔اَب ہمیں وقت کے رجحان کو اچھی طرح سمجھ کر، آپس میں یکجہتی اور تعاون کو ہر شعبہ میں بڑھانا ہوگا۔تاکہ شنگھائی تعاون تنظیم کے سایہ میں ایک متحد عالمی برادری کی تعمیر کا خواب بھی شرمندہ تعبیر ہوسکے اور اِس ہدف کے فوری حصول کے لیئے روسی صدر ولادی میر پیوٹن اور وسطی ایشیا کے دیگر تمام شراکت دار رہنماؤں کو ہمارے خطے میں ’’سازشی انقلاب‘‘کے لیے اکسانے والی ہر غیرملکی طاقت کو بزور طاقت روکنا ہوگا“۔چینی صدر شی جن پنگ کے مذکورہ الفاظ سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ چینی رہنما،شی جن پنگ، شنگھائی تعاون تنظیم کے جملہ اراکین کو امریکا کے خلاف ایک وسیع تر اتحاد تشکیل دینے کی ترغیب دے رہے ہیں۔
دراصل چین کی شدید ترین خواہش ہے کہ وہ شنگھائی تعاون تنظیم، کو مستقبل قریب میں امریکا کے خلاف خطے میں ایک بڑے معاشی اور دفاعی اتحاد میں بدل دے۔ بظاہر یہ کام اتنا آسان نہیں ہے،جتنا کہ گفت و شنید میں دکھائی دیتا ہے۔ کیونکہ شنگھائی تعاون تنظیم میں شامل کئی ممالک ایسے بھی ہیں، جو بادی النظر میں امریکی کے مضبوط دفاعی اتحادی ہونے کے بھی دعوی دار ہیں۔ جن میں سب سے اہم نام بھارت کا لیا جاسکتاہے۔ یادر ہے کہ بھارت چین مخالف ہر اُس اتحاد میں دامے،ورمے،سخنے شریک ہے،جس کی قیادت امریکا کے پاس ہے۔ شاید شنگھائی تعاون تنظیم کی سب سے بڑی پریشانی بھی یہ ہی ہے کہ اِس اتحاد میں شامل اکثر ممالک امریکا کے خلاف چین کا اتحادی بننے کے لیئے ابھی تک پوری طرح سے یکسو نہیں ہوئے ہیں۔ یہ وہ بنیادی نکتہ ہے، جس کاادراک کرتے ہوئے چینی صدر،شی جن پنگ نے اپنے روسی ہم منصب ولادی میر پیوٹن سے یہ درخواست کرنے پر مجبور ہوئے کہ ”پیوٹن خطے میں پنپنے والے ”سازشی انقلاب“ کو سبوتاژ کرنے میں وہ اپنا بھرپور کردار اداکریں“۔
اکثر سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم کو خطے میں زیادہ سے زیادہ موثر اور فعال بنانے کے لیئے چینی صدر، کی جانب سے اضافی ذمہ داری کا ملنا بلاشبہ،ولادی میر پیوٹن کی قائدانہ صلاحیتوں کا آنے والے دنوں میں بڑا امتحان ثابت ہوگا۔خاص طور پر اُن مشکل حالات میں جب روسی افواج یوکرین جنگ میں بُری طرح سے اُلجھی ہوئی ہیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ صدر پیوٹن کو بھی یوکرین جنگ کی غیرضروری طوالت کا پوری طرح سے احساس ہے۔
شاید یہ ہی وجہ ہے کہ صدر پیوٹن نے ازبکستان میں ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے سربراہی اجلاس کے خطاب میں یوکرین جنگ کے متعلق از خود ہی وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ”انہیں اندازہ ہے کہ دنیا کو یوکرین جنگ کے حوالے سے خدشات ہیں اور وہ جنگ جتنی جلدی ممکن ہو ختم کرنا چاہتے ہیں اور ہم اس جنگ کو جتنی جلدی ہو سکے ختم کرنے کے لیے اپنی تمام تر کوششیں بھی کریں گے۔ لیکن ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ جنگ کے دوسرے فریق یعنی یوکرین کی قیادت نے جنگ بندی کے لیئے ہمارے ہر مذاکراتی عمل کو یکسر مسترد کرتے ہوئے اعلان کیا ہوا ہے کہ وہ اپنے تمام تر مقاصد صرف اور صرف فوجی ذرائع سے حاصل کرنا چاہتے ہیں‘۔سادہ الفاظ میں پیوٹن نے یوکرین جنگ کی غیر ضروری طوالت کی ساری ذمہ داری یوکرین پر ڈال دی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میں مستقبل کی پیش بندی اور خطے میں یوکرین جنگ کے ممکنہ مضمرات و اثرات کے علاوہ جو نقطہ سب سے زیادہ موضوع بحث بنا رہا،وہ پاکستان میں سیلاب کی تباہ کن صورت حال تھی۔اجلاس سے اپنے خطاب میں وزیراعظم پاکستان، شہباز شریف نے کہا ہے کہ”اس حقیقت کے باوجود کہ ہمارے ملک میں کاربن کا اخراج ایک فیصد سے بھی کم ہے، مگر اس کے باوجود بھی پاکستان کو شدید بارشوں اور سیلاب کی صورت میں سخت موسمیاتی تبدیلی کا سامنا ہے۔ پاکستان کو اپنی ملکی تاریخ میں کبھی بھی ایسی ماحولیاتی تباہی کا سامنا نہیں کرنا پڑا جس نے انسانی جانوں، انفرااسٹرکچر، مویشیوں اور فصلوں کو تباہ کیا ہو“۔
جبکہ وزیراعظم پاکستان، شہباز شریف نے شنگھائی تعاون تنظیم کے جملہ سربراہان کو یہ تجویز بھی دی کہ ”موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لئے جدید سائنسی خطوط پر استوار ایک بڑا منصوبہ درکار ہے،جس کے لیئے دنیا کی بھرپور مدد، درکار ہوگی“۔وزیراعظم پاکستان کی تجویز پر تاجکستان، ازبکستان، ایران اور منگولیا کے صدور نے اپنی غیر مشروط حمایت کااعلان کیا۔ نیز شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک نے اجلا س کے اختتام پر رکن ممالک کاگرین ہاؤس گیس اخراج میں کمی، توانائی کے شعبے کا انفرااسٹرکچر بہتر بنانے کے لیئے روڈ میپ تشکیل دینے کے لیئے منظوری بھی دی۔بادی النظر میں شنگھائی تعاون تنظیم کا سربراہی اجلاس پاکستان کے لیئے بے حد مفید رہا۔ جہاں اِس پلیٹ فارم پر پاکستان نے اپنے مسائل و مشکلات کو دنیا کے سامنے اُجاگر کیا،وہیں یہ فورم وزیراعظم پاکستان کے لیئے کئی عالمی رہنماؤں سے دو بدو ملاقات کا سبب بھی بنا۔
وزیر اعظم، شہباز شریف نے سمرقند میں شنگھائی تعاون تنظیم کے 22ویں سربراہان مملکت کے اجلاس کے موقع پر چینی صدر شی جن پنگ سے تفصیلی ملاقات بھی کی۔یاد رہے کہ اپریل2022میں وزراتِ عظمی کا منصب سنبھالنے کے بعد چین کے صدر کے ساتھ وزیر اعظم شہباز شریف کی یہ پہلی ملاقات تھی۔دورانِ ملاقات اپنے خیرمقدمی کلمات میں چینی صدر،نے وزیر اعظم محمد شہباز شریف کو ”عملیت پسندی اور کارکردگی کی حامل شخصیت“قرار دیا۔ نیز دونوں رہنماؤں نے دو طرفہ تعلقات کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لیا اور باہمی دلچسپی کے اہم علاقائی اور بین الاقوامی امور پر تبادلہ خیال کیا۔وزیر اعظم نے صدر شی جن پنگ اور چینی کمیونسٹ پارٹی کی آئندہ 20ویں سی پی سی قومی کانگریس کیلئے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔
علاوہ ازیں، چین اور پاکستان پائیدار دوطرفہ تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے وزیر اعظم نے اس بات پر زور دیا کہ ہماری ہر موقع پر آزمودہ تذویراتی شراکت داری ”آل ویدر اسٹریٹجک کوآپریٹو پارٹنرشپ“ اور آہنی بھائی چارے نے وقت کی کسوٹی کا پرکھی ہوئی ہے۔ انہوں نے اپنے دوطرفہ تعلقات کو مزید بلندیوں تک لے جانے کے اپنے ذاتی عزم کا اعادہ کیا۔دونوں رہنماؤں نے ایم ایل ون ریلوے پروجیکٹ کے فریم ورک معاہدے کے پروٹوکول پر دستخط کا خیر مقدم کیا۔جبکہ وزیر اعظم پاکستان نے تائیوان، تبت، سنکیانگ اور ہانگ کانگ سمیت بنیادی مفاد کے تمام مسائل پر پاکستان کی چین کے ساتھ مستقل اور غیر متزلزل حمایت کا اعادہ کیا اور انہوں نے صدر شی جن پنگ کے وژنری بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو اور گلوبل ڈویلپمنٹ انیشی ایٹو کی تعریف کی، جس نے پائیدار اور اجتماعی ترقی کی منفرد پالیسی کو دنیا میں متعارف کروایا۔
شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کے موقع پر وزیر اعظم شہباز شریف کی روسی صدر ولادی میر پیوٹن کے ساتھ بھی ایک اہم ترین ملاقات ہوئی، روس کے صدر ولادی میر پیوٹن کے ساتھ ہونے والی ملاقات میں جہاں وزیراعظم پاکستان نے غذائی تحفظ،تجارت و سرمایہ کاری،توانائی، دفاع اور سیکورٹی سمیت باہمی مفاد کے تمام شعبوں میں تعاون کو وسعت دینے کیلئے روس کے ساتھ ملکر کام کرنے کے عزم کا اعادہ کیا،وہیں شہباز شریف سے دوران ِملاقات روسی صدر نے انکشاف کیا کہ روس کے پاس پاکستان کو گیس کی فراہمی کا انفرا اسٹرکچرپہلے سے موجود ہے جس کی رو سے یہ منصوبہ قابل عمل ہے۔
یاد رہے کہ 2015ء میں نواز شریف کے دور میں پاکستان اور روس کے درمیان دو ارب ڈالر کی لاگت سے قازقستان، ازبکستان اور افغانستان کے راستے 1100کلو میٹر طویل گیس پائپ لائن بچھانے کا معاہدہ ہوا تھا جسے دسمبر 2017ء میں مکمل ہو جانا تھا بعد ازاں یہ پروگرام بھی سرد خانے کی نذر ہو گیا۔ رواں برس دونوں ملکوں میں سربراہی سطح پر اس متعلق کئی بار جلد ازجلد مکمل کرنے پر بات چیت ہوئی ہے۔دراصل اِس منصوبہ کا مکمل ہونا، وقت کی اہم ضرورت ہے۔ کیونکہ گیس اور تیل کی مہنگی خریداری کی وجہ سے اس وقت پاکستانی کا صنعتی پہیہ رواں دواں رکھنا انتہائی مشکل ہو چکا ہے جس کی وجہ سے سب سے زیادہ برآمدی شعبہ متاثر ہو رہا اور ڈالر آنے کی بجائے ملک سے باہر جا رہا ہے۔اس تناظر میں پاکستان کو روس سے سستی گیس کی درآمد زبوں حال ملکی معیشت کو سہارا دینے میں غیر معمولی کردارادا کرسکتی ہے۔
اِس تناظر میں وزیر اعظم پاکستان، محمد شہباز شریف اور روس کے صدر ولادی میر پیوٹن نے دوطرفہ تعلقات اور علاقائی و بین الاقوامی امور پر تبادلہ خیال کیا ہے جبکہ شہباز شریف نے غذائی تحفظ، تجارت و سرمایہ کاری، توانائی،دفاع اور سکیورٹی سمیت باہمی مفاد کے تمام شعبوں میں تعاون کو وسعت دینے کیلئے روس کے ساتھ مل کر کام کرنے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔نیز وزیراعظم نے روس کی جانب سے پاکستان میں بڑے پیمانے پر سیلاب سے متاثرہ افراد کے لئے اظہار یکجہتی اور حمایت پر صدر پیوٹن کا شکریہ ادا کیا اور انہیں موسمیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والی اس آفت کے تباہ کن اثرات کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔
وزیراعظم نے پاکستان روس تعلقات میں مسلسل بہتری اور استحکام پر اطمینان کا اظہار کیا جو مضبوط باہمی اعتماد اور افہام و تفہیم پر مبنی ہیں، ملاقات میں بین الحکومتی کمیشن (آئی جی سی) کا آئندہ اجلاس جلد اسلام آباد میں بلانے پر اتفاق کیا گیا۔قصہ مختصر یہ ہے کہ روس کے صدر ولادی میر پیوٹن کی جانب سے پاکستان کوارزاں نرخ پر قدرتی گیس اور تیل کی ممکنہ فراہمی اور ایرانی صدر،سید ابراہیم رئیسی کی طرف سے پاکستان کے ساتھ بارٹر ٹریڈ کو ازسرِ نو فعال بنانے، سرحدوں پر معاون مارکیٹیں کھولنے کی یقین دہانی کروانا شنگھائی تعاون سرابراہی اجلاس میں ہمارے وزیراعظم کو حاصل ہونے والی بڑی سفارتی کامیابیاں ہیں۔
حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے روزنامہ جرات کراچی کے ادارتی صفحہ پر 22 ستمبر 2022 کی اشاعت میں شائع ہوا۔
- آزادی اظہار رائے کی آڑ میں -جون30, 2023
- عید قرباں کی حقیقی روح -جون27, 2023
- بلدیہ عظمی کراچی کا قلعہ پیپلزپارٹی نے کیسے فتح کیا؟ -جون19, 2023