Selected-Elected-Imran-Khan

سلیکٹڈ اور الیکٹڈ کی لفظی جنگ

سلیکٹڈ انگریزی زبان کا لفظ ہے اور اُردو زبان میں اِس کا مطلب ”منتخب شدہ“ ہے جبکہ لفظ الیکٹڈ کا تعلق بھی انگریزی زبان و بیان ہی سے ہے اور اُردو لغت میں اِس کے معنی بھی ”منتخب شدہ“ ہی کے درج ہیں۔ یوں لسانیات میں بظاہر دونوں لفظ سلیکٹڈ اور الیکٹڈ ایک جیسے ہی لسانی معنی و مفہوم رکھتے ہیں لیکن انسانی معاشرہ میں اِن دونوں لفظوں کا اطلاق ہمیشہ سے ہی الگ الگ معنی و مفہوم کا موجب بنتا آیا ہے۔ دیکھا جائے تو انسان ابتدائے آفرینش سے ہی اِن دونوں لفظوں کے اطلاق سے متعلق حد درجہ حساسیت کامظاہرہ کرتا رہا ہے۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ انسان زمین پر اِن دو لفظوں کی درست یا غلط اطلاق کی وجہ سے ہی تو آنے پر مجبور ہوا تھا۔ یا د کریں وہ وقت جب ابلیس نے پہلی مرتبہ بارگاہ الہیٰ میں حضرت انسان کی پیدائش پر لفظ سلیکٹڈ کا انتہائی حقارت سے اطلاق کیا جبکہ خود اپنے آپ پر الیکٹڈ کے لقب کا فخریہ اظہار کیا تھا۔ ابلیس کو مغالطہ تھا چونکہ وہ آسمانِ کائنات پر ہزاروں سال سے فرشتوں کے معلم کے طور پر اپنے فرائض ادا کرتا آرہا ہے اِس لیے اگر بارگاہِ ایزدی کی طرف سے خلیفہ الارض چننے کا حق بذریعہ ووٹ فرشتوں کو تفویض کر دیا جاتا تو وہ باآسانی اِس اہم ترین منصب ِ ارضی پر الیکٹ ہوسکتا تھا۔ مگر تقدیر الہیٰ نے خلیفتہ الارض کا فیصلہ لفظ الیکٹڈ کے بجائے سلیکٹڈ سے کرنا زیادہ مناسب سمجھا اور یوں دو لفظوں کے اطلاقی معنوں ومفہوم کا تنازعہ خیر اور شر کی جنگ کا نقطہ آغاز بن گیا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ابلیس کے بارگاہِ ایزدی سے راندہ درگاہ ہونے کے باجود بھی اور حضرت آدم علیہ السلام کے زمین پر خلافتِ ارضی سے بہرہ مند ہونے کے بعد بھی لفظ سلیکٹڈ اور الیکٹڈ کا قضیہ طے نہ ہوسکا،بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ معاملہ مزید پیچیدہ سے پیچیدہ تر اور لاینحل صورت اختیار کرتا گیا۔ یہاں تک قابیل نے جب ہابیل کا قتل کیا تو اُس پر بھی ”سلیکٹڈ“ کی تہمت لگاتے ہوئے یہ ہی اعتراض عائد کیا تھاکہ آخر ہابیل کی قربانی خدائے بزرگ و برتر نے کس بنیاد پر سلیکٹ کی؟۔ جس کے جواب میں ہابیل نے کہا کہ ”اللہ تعالی اُسی کی قربانی قبول فرماتا ہے،جو متقی ہوتا ہے۔اب اگر تیری قربانی قبول نہیں ہوئی تو اِس میں میرا کیا قصور ہے؟ اور اگر تم مجھے قتل کرنے کے لیئے اپنا ہاتھ میری طرف بڑھاؤ گے تو میں تیری طرف اپنے ہاتھ کو نہیں بڑھاؤں گا کیونکہ میں سارے جہانوں کے مالک اللہ سے ڈرتا ہو“۔ بہرحال قابیل اپنے بھائی ہابیل کے جواب سے مطمئن نہیں ہوا اور اُس نے ابلیس کی باتوں میں آکر ہابیل کر قتل کردیا۔لفظ سلیکٹڈ اور الیکٹڈ کے باعث زمین پر ہونے والا یہ پہلا انسانی قتل ضرور تھا لیکن آخری نہیں۔کیونکہ ہابیل اور قابیل کے واقعہ نے ایک اُصول تو ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے طے کردیا کہ ایک الیکٹڈ کسی بھی صورت میں اپنے مقابل سلیکٹڈ جیسے عاجزانہ منصب کو برداشت نہیں کر سکتا۔



معلوم انسانی تاریخ میں سقراط وہ پہلا فلسفی تھا جس نے الیکٹڈ اور سلیکٹڈ کے صرف معنی و مفاہیم پر ہی نہیں بلکہ اِن دونوں لفظوں کے تحت جنم لینے والے متنوع نظریات کے سماج پر پڑنے والے غیر معمولی سیاسی و تہذیبی اثرات پر بھی سیر حاصل گفتگو کرنے کی بھرپور کوشش کی اور سقراط کی یہ ہی علمی گفتگو اورفکری مباحث معاشرے کے الیکٹڈ طبقے کے نزدیک قابلِ سزا جرم قرار پائے۔ایتھنزکی الیکٹڈ اشرافیہ نے سقراط کو دو آپشن دیئے کہ یاتو وہ اپنے جیسے سلیکٹڈ افراد کی حمایت ترک کرکے الیکٹڈ کی غیر مشروط اطاعت پر آمادہ ہوجائے بصورت دیگر اُسے زہر خورانی یا جلاوطنی میں سے کسی ایک سزا کا انتخاب کرنا ہوگا۔ سقراط نے الیکٹڈ کی بخشش میں عطا کی گئی زندگی بسر کرنے کے بجائے زہر کا پیالہ پینے کا فیصلہ کیا۔ زہر کا پیالہ پینے سے چند لمحہ پہلے جب سقراط کا سامنا اپنے ہر دلعزیز شاگرد افلاطون سے ہوا تو سقراط نے افلاطون کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر کہا ”تم کیوں رو رہے ہو؟“ افلاطون نے جواباً عرض کیا کہ ”میں اِس لیئے رو رہا ہوں کہ آپ کو بغیر کسی جرم اور گناہ کے قتل کیا جارہاہے“۔ سقراط نے ہنستے ہوئے انتہائی متانت سے جواب دیا کہ ”اے میرے ہونہار شاگرد! کیا تم یہ چاہتے ہو کہ مجھے کسی جرم اور گناہ کی پاداش میں قتل کیا جائے“۔سقراط کی زندگی جتنی فکر انگیز تھی، اُس سے کہیں زیادہ پراثر سقراط کی موت ثابت ہوئی اور سقراط کے بعد اُس کے شاگردوں نے سلیکٹڈ نظریات کی ایسی فلسفیانہ آب یاری کی کہ پوری دنیا انسانوں کو ملنے والی خداد داد صلاحیتوں کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوگئی۔

حیرانگی کی بات تو یہ ہے کہ ایک الیکٹڈ جتنی چاہے انقلابی تقریریں کرلے، تحریکیں چلالے یا پھر جلوس نکال لے، لیکن عام طور پر دیکھنے میں یہ ہی آیا ہے کہ جب بھی کسی الیکٹڈ کو اقتدار کی صورت میں قوت و اختیار حاصل ہو جاتاہے تو وہ پہلی فرصت میں الیکٹڈ کا پہنا ہوا لبادہ چاک کرتا ہے اور خود ساختہ جمہوری نظریات کا گلا اپنے ہاتھوں سے ہی گھونٹ کراردگرد سلیکٹڈ اور من پسند افراد کی فوج ظفر موج تعینات کرنا شروع کردیتاہے۔ اگر آپ کو ہماری بات کے درست ہونے میں ذرہ برابر بھی شک ہوتو ایک نظر اپنے اردگرد موجود اُن تمام سیاسی جماعتوں پر ضرور دوڑالیجئے گا جو قائم تو الیکٹڈ کے سنہری و جمہوری اُصول ”ووٹ کو عزت دو“ کے تحت ہوئی ہیں مگر چلائی ہمیشہ کسی سلیکٹڈ کے سیاسی نظریات کے مطابق جاتی ہیں۔یعنی ایک الیکٹڈ، الیکٹ ہی اِس لیئے ہونا چاہتا ہے کہ وہ بعدازاں طاقت و اختیار حاصل کرنے کے بعد اپنی من پسند مرضی کے لوگوں کو سلیکٹ کرنے کی صوابدیدی قوت حاصل کرسکے۔

شاید سیاست میں الیکٹڈ کا نعرہ فقط لگایا ہی اِس لیئے جاتا ہے کہ کسی طرح سلیکٹڈٖ کے منصب پر قابض ہوا جاسکے۔حالانکہ سماج کی ہزاروں سال کی تاریخ گواہ ہے کہ کبھی بھی کوئی الیکٹڈ لوگوں کے ذریعے الیکٹ ہوکر سلیکٹڈ کے منصب پر فائز نہیں ہوسکا۔کیونکہ ساری دنیا مل کر بھی اگر کسی فرد کو بطور شاعر، ادیب یا دانشور کے الیکٹ بھی کروالے تب وہ شخص اُس وقت تک شاعر،ادیب یا دانشور نہیں بن سکتا جب تک کہ اُسے اِس منصب کے لیئے قدرت کاملہ نے براہ راست سلیکٹ نہ کیا ہوا۔ عین اِسی اُصول کے مصداق عوام کی اکثریت کسی فرد کو الیکٹ کرکے سیاست دان تو بنا سکتی ہے مگر قومی رہنما نہیں بنا سکتی کیونکہ ایک رہنما ہمیشہ قدرت کی طرف سے سلیکٹڈ ہوتا ہے۔ایک مرتبہ کسی صحافی نے عظیم عالمی رہنما نیلسن مینڈیلا سے سوال پوچھا تھا کہ ”سیاستدان اور قومی رہنما میں کیا فرق ہوتا ہے؟“نیلن منڈیلا نے جواب دیا کہ ”سیاستدان اگلے الیکشن کے بارے میں سوچتا ہے اور قومی رہنما اگلی نسل کے بارے میں“۔بس یہ ہی بات ہمارے لیئے باعث ِاطمینان ہے کہ ایک قومی رہنما، چونکہ قدرت کی طرف سے سلیکٹڈ ہوتا،اِس لیئے اُس سے یہ منصب ساری دنیا کے الیکٹڈ مل کر بھی نہیں چھین سکتے۔

حوالہ: یہ کالم سب سے پہلے روزنامہ جرات کے ادارتی صفحہ پر 27 فروری 2020 کی اشاعت میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں