بشکیک میں منعقد ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم کے حالیہ انیسویں اجلاس کے روحِ رواں اور شمع محفل بلاشبہ وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان رہے، جس کی تصدیق عالمی ذرائع ابلاغ میں وزیراعظم پاکستان کو ملنے والی غیرمعمولی کوریج سے بھی ہوتی ہے جبکہ اگر روسی ذرائع ابلاغ کی بات کی جائے تو وہاں بھی خلاف ِ توقع روسی صدر پیوٹن کے بعد سب سے زیادہ اہمیت وزیراعظم پاکستان عمران خان کی کوریج کو ہی دی گئی۔جسے پاکستان اور روس کے مابین قائم ہونے والے نئے تعلقات کا ایک خوش گوار نقطہ آغاز قرار دیا جاسکتا ہے۔یاد رہے کہ پاکستان 2005 سے مسلسل شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت کرتا آرہا ہے مگر صد افسوس کہ ماضی میں ہمیشہ سے ہی بھارت اِس اہم ترین فورم کو مختلف حیلوں بہانوں سے پاکستان کے خلاف ہائی جیک کرتا آیا ہے۔لیکن اِس بار پورے اجلاس کے دوران بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نہ صرف تنہا نظر آئے، بلکہ بھارتی سفیروں کے لاکھ جتن کے باوجود بھی انہیں اجلاس میں شریک کسی سربراہِ مملکت نے لفٹ کرانے کی زحمت گوارا نہ کی، خاص طور پر روسی صدر ولاد میر پیوٹن کا رویہ بھارتی وزیراعظم کے لیئے انتہائی مایوس کُن تھا یعنی پوری کانفرنس کے دوران ایک بار بھی ولادمیر پیوٹن نے نریندر مودی کو اپنے قریب آنے کا موقع نہیں دیا،جبکہ نریندر مودی کے مقابلے میں وزیراعظم پاکستان عمران خان اور روسی صدر ولادی میر پیوٹن اجلاس میں گاہے بہ گاہے، ڈنر اور گروپ فوٹو کے دوران مسلسل ایک دوسرے کے ساتھ انتہائی خوشگوار ماحول میں گفتگو کرتے ہوئے نظر آتے رہے۔تجزیہ کاروں کے مطابق شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں نریندر مودی کی سفارتی تنہائی کی بنیادی وجہ بھارت کی امریکہ کے ساتھ روز بروز بڑھنے والی قربت ہے۔جس پر چین اور امریکہ میں جاری خاموش سیاسی مخاصمت اور خطے کی تازہ ترین صورتحال نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ صاف معلوم ہوتا ہے کہ چین اور روس کے صدور نے ذرائع ابلاغ کی آنکھ کے عین سامنے بھارتی وزیراعظم نریند رمودی کو جان بوجھ کر نظر انداز کر کے جہاں امریکہ کو ایک خاموش سفارتی پیغام پہنچانے کی کوشش کی ہے، وہیں بھارتی زعماؤں کو بھی یہ بات سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ اُنہیں سیاسی منافقت چھوڑ کر کسی ایک عالمی طاقت کی مصاحبت اختیار کرلینی چاہیئے۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ بھارتی ذرائع ابلاغ میں بھی شنگھائی تعاون تنظیم میں شرکت کرنے والے سربراہِ مملکت کی طرف سے نریندر مودی کے ساتھ روا رکھے جانے والے اِس خصوصی ہتک آمیزسلوک پر زبردست تنقید کی جارہی ہے۔
قارئین کی دلچسپی اور معلومات کے لیئے بتاتے چلیں کہ شنگھائی تعاون تنظیم (Shanghai Cooperation Organisation) جسے مختصراً ایس سی او بھی کہا جاتاہے۔ ایک یوریشیائی سیاسی، اقتصادی اور عسکری تعاون تنظیم ہے۔ جس کا قیام شنگھائی میں 2001 میں چین، قازقستان، کرغیزستان، روس، تاجکستان اور ازبکستان کے رہنماؤں نے متفقہ طور پر کیا تھا۔ ابتداء میں یہ تمام ممالک شنگھائی پانچ یا (Shanghai Five) کے اراکین کہلاتے تھے۔سوائے ازبکستان کے جو اس میں 2001 میں شامل ہوا، تب ہی سے اس تنظیم کا نام بدل کر شنگھائی تعاون تنظیم رکھ دیا گیا۔ چین کے نزدیک اِس تنظیم کے قیام کا بنیادی مقصد سفارتی، سیاسی، اقتصادی اور عسکری محاذ پر یوریشیائی خطہ میں سپرپاور امریکہ کے تیزی سے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کے آگے بند باندھناتھا۔پاکستان کو چین کی شدید خواہش پر 2005 میں شنگھائی تعاون تنظیم میں مبصر ملک کا درجہ دے کر شامل کیا گیا تھا، پاکستان تب سے تنظیم کے اجلاسوں میں باقاعدگی سے شرکت کرتا آرہا ہے اور 2010 میں پاکستان کی جانب سے شنگھائی تعاون تنظیم کی رکنیت کے لیے باقاعدہ درخواست دی گئی۔ تنظیم کے رکن ممالک کے سربراہان نے جولائی 2015 میں اوفا اجلاس میں پاکستان اور بھارت کی درخواستِ شمولیت کی منظوری دی اور پاکستان کی تنظیم میں باقاعدہ شمولیت کے لیے طریقہ کار وضع کرنے پر اتفاق کیا۔یوں پاکستان اور بھارت کی شمولیت سے شنگھائی تعاون تنظیم کے مستقل رکن ممالک کی تعداد آٹھ ہوگئی ہے۔جبکہ اِس تنظیم میں افغانستان،بیلاروس،ایران اور منگولیا کو خصوصی مبصر ممالک کا درجہ حاصل ہے۔اس کے علاوہ رواں برس چھ ممالک ترکی،سری لنکا،نیپال،آرمینیا،آزربائی جان اور کمبوڈیا کو شنگھائی تعاون تنظیم کی اجلاس میں بطور صلحائے کار کے شامل کیا گیا ہے۔
شنگھائی تعاون تنظیم نے اپنے قیام کے بعد سے لے کر اَب تک تجارتی اور اقتصادی ترقی کے حوالے سے حیران کن اور نمایاں فواہد حاصل کیئے ہیں۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک آپس میں مضبوط تجارتی روابط کے ساتھ وابستہ ہیں، جس کا انداز ہ اس امر سے بھی بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ سال چین اور شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کے درمیان مجموعی تجارتی حجم دو کھرب پچپن ارب امریکی ڈالر تک پہنچ گیا تھا۔تجارت کی تیز رفتار ترقی کے علاوہ، اپریل 2019 کے اختتام تک، شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک میں چین کی مجموعی سرمایہ کاری کی کل مالیت 87 ارب امریکی ڈالر سے زیادہ رہی ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے رُکن ممالک کے درمیان ترقی کے مثبت اعدادو شمار کو دیکھتے ہوئے پورے یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ یہ تنظیم مستقبل میں علاقائی و اقتصادی تعاون اور خطہ میں چین کے اثرو نفوذ کو مستحکم کرنے کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہوگی۔ تجارتی تعاون کے علاوہ یہ تنظیم رُکن ممالک کے درمیان عسکری اتحاد کا بھی مظہر ہے اور ستمبر میں اِس تنظیم میں شامل ممالک کی افواج روس میں مشترکہ فوجی مشقیں بھی کرنے جارہی ہیں۔مغربی دانشوروں کے نزدیک شنگھائی تعاون تنظیم، نیٹو کی طرز کا ایک ایسا عسکری اتحاد ہے،جسے چین اور روس نے علاقے میں اپنی عسکری برتری برقرار رکھنے کے لیئے قائم کیا ہے اور جو آنے والے دنوں میں امریکہ کے لیئے سخت خطرات کا باعث بھی بن سکتا ہے۔شاید ہی وجہ ہے کہ حالیہ دنوں میں امریکہ کے اچانک روس اور چین کے مقابل آجانے کے باعث بھارت اِس تنظیم کا رُکن ہوتے ہوئے بھی شنگھائی تعاون تنظیم کی دو روزہ کانفرنس میں بُری طرح سے نظرانداز ہوتا رہا۔لگتا یہ ہے کہ عنقریب بھارت کو شنگھائی تعاون تنظیم سے نکال دیا جائے گاکیونکہ خطہ میں چین اور روس کے لئے ایک ایسے ملک کو اپنے ساتھ لے کر چلنا اَب ممکن نہیں رہا جو واضح طور اِن دونوں ممالک کی سالمیت کے خلاف امریکہ کا عسکری اتحادی ہو۔
حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے ہفت روزہ ندائے ملت لاہور میں 27 جون 2019 کے شمارہ میں شائع ہوا۔
- آزادی اظہار رائے کی آڑ میں -جون30, 2023
- عید قرباں کی حقیقی روح -جون27, 2023
- بلدیہ عظمی کراچی کا قلعہ پیپلزپارٹی نے کیسے فتح کیا؟ -جون19, 2023