2020 میں جہاں ایک روبوٹ ”شیمون“ نے بطور گلوکار،موسیقار اور شاعر اپنے گانوں کا پہلا البم ریلیز کر کے دنیائے انٹرنیٹ پر اہل ذوق حضرات سے خوب داد سمیٹی،وہیں سام سنگ کمپنی نے اپنے سالانہ ”کنزیومر الیکٹرانکس شو“ میں ہو بہو حقیقی انسانوں کی مانند بات کرتے،تاثرات کا اظہار کرتے ”آرٹیفیشل ہیومن“ یعنی مصنوعی انسان پیش کرکے پہلی بار حقیقی انسان کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ ”کہیں ہماری دنیا پر روبوٹس کی حکمرانی کا زمانہ بہت نزدیک تو نہیں آپہنچا“۔ اس مناسبت سے بشیر منذر نے کیا خوب شعر کہا ہے کہ۔”کس سمت لیے جاتا ہے،یہ دور ترقی۔۔۔۔دھاتوں کے ہوئے جسم تو پتھر کے بنے دل“۔
لیکن دوسری جانب کورونا وائر س کے عالمگیر ”وبائی حملے“ نے سائنس کی ترجیحات کو ازسرنو ترتیب دینے کی اہمیت کا بھی حضرت انسان کو شدت سے احساس دلایا کہ ”سائنس کا اصل قبلہ عسکری و مصنوعی ترقی کی سمت نہیں بلکہ علم و آگہی کی جانب متعین ہونا چاہئے“۔ بہرکیف 2020 میں سائنس دانوں کے لیئے حقیقی چیلنج کورونا وائرس کے انسداد کے لیئے ویکسین کا حصول قرار پا یا اور دنیا بھر کے کم و بیش تمام بڑے سائنسی ادارے کورونا ویکسین کی تیاری میں ہنگامی بنیادوں پر جُت گئے اور سال کے اختتام تک کئی طبی ادارے 10 سے 15 برسوں میں تیار ہونے والی والی کورونا ویکسین کو چند ماہ کی قلیل مدت میں بنانے میں کامیاب بھی رہے۔ لیکن کوروناوائرس کے ہنگام میں سائنس،انفارمیشن ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا کے میدان میں انجام دیئے گئے دیگر بہت سے کارہائے نمایاں کا چرچا بھی سال بھر وقتاً فوقتاً سننے کو ملتارہا۔ جن کا اجمالی سا ”سالانہ جائزہ“پیشِ خدمت ہے۔
سالِ گزشتہ دنیائے سائنس سے بنی نوع انسان کی بہتری کے لیئے جس منفرد دریافت کا تذکرہ سب سے پہلے سننے میں آیا وہ یہ تھی کہ امریکی خلائی تحقیقی ادارے ”ناسا“ کی خلائی دوربین ”ٹرانزٹنگ ایگزو پلینٹ سروے سٹیلائٹ“ (ٹی ای ایس ایس) نے زمین سے 101 نوری سال دوری پر ایک ایسا سیارہ دریافت کرلیا ہے۔جو نہ صرف بالکل ہماری زمین جیسا ہے بلکہ وہ اپنے ستارے کے گرد اعین اُس مناسب مقام پر موجود ہے کہ جس پر زندگی وجود میں بھی آسکتی ہے اور پروان بھی چڑھ سکتی ہے۔ واضح رہے کہ کسی بھی سیارے پر زندگی کی اوّلین شرط ”مائع حالت میں پانی“ کی موجود گی کو قرار دیا جاتا ہے اور ”ٹی او آئی 700 ڈی“ کہلانے والے اس سیارے پر مائع پانی موجود ہونے کے آثار و شواہد پائے گئے ہیں۔ یعنی سائنس بالآخر دوسری زمین تلاش کرنے میں کامیاب ہو ہی گئی۔
نیز گزشتہ برس کینیڈا کے طبی ماہرین نے ایسی ٹیکنالوجی وضع کرنے کی بھی نوید سنائی کہ جس کے ذریعے خون کے سرخ خلیوں میں دوا بھری جاسکے گی۔ پھر ان سرخ خلیوں کو انجکشن کے ذریعے انسانی جسم میں داخل کردیا جائے گا جہاں وہ خود ہی اپنا راستہ تلاش کرتے ہوئے مطلوبہ ہدف تک پہنچ کر کھل جائیں گے اور اپنے اندر بند دوا کا اخراج کردیں گے۔ اس طرح دوا متاثرہ عضو پر بہتر طور پر اثر انداز ہوگی اور انسانی جسم پر اس کے مضر اثرات بھی کم سے کم ہوں گے۔یہ منفرد ٹیکنالوجی اونٹاریو، کینیڈا میں مک ماسٹر یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے وضع کی ہے۔یاد رہے کہ اَب تک مختلف بیماریوں کا علاج صرف اس وجہ سے نہیں ہو پاتا تھا کہ امراض کی دوائیں موجود تو ہوتی ہیں لیکن بیماری کی وجہ بننے والا عضو، ہمارے جسم میں اتنے اندر کی طرف ہوتا ہے کہ منہ یا انجکشن کے ذریعے جسم میں داخل کی گئی دوا اس تک پہنچ ہی نہیں پاتی اور اگر پہنچتی بھی ہے تو بہت کم مقدار میں جبکہ وہ اپنے راستے میں غیر متعلقہ اعضاء تک پہنچ کر انہیں نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ماہرین طب پر اُمید ہیں کہ یہ نئی ٹیکنالوجی اس طرح کے تمام مسائل کے انسداد میں معاون ثابت ہوگی۔
علاوہ ازیں سالِ گزشتہ رات کے اندھیرے میں بجلی بنانے والے ”ریورس سولر پینل“ کی تیاری کے حوالے سے بھی بڑی پیش رفت سامنے آئی ہے۔جیسا کہ ہم سب بخوبی جانتے ہیں کہ عام سولر پینل، دن کے وقت میں سورج کی روشنی جذب کرکے اسے بجلی میں تبدیل کرتے ہیں لیکن رات کی گرمی ان کے کسی کام کی نہیں ہوتی۔امریکی سائنس دانوں نے دعوی کیا ہے کہ ہمارے ایجاد کردہ ”ریورس سولر پینل“ دن کے بعد رات کو بھی بجلی بناسکیں گے۔البتہ، رات کے وقت ”ریورس سولر پینلز“ سے بجلی کی خاصی کم مقدار بنے گی لیکن پھر بھی وہ ایسے بہت سے کاموں میں مفید رہے گی جنہیں کم بجلی کی ضرورت ہوتی ہے۔یاد رہے کہ دن اور رات میں مسلسل بجلی بنانے والے یہ ریورس سولر پینلز مارکیٹ میں آنے میں کچھ وقت لگے گا۔
بہرکیف آئندہ چند سالوں میں ریورس سولر پینلزکی دستیابی انرجی سیکٹر میں بڑے انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوگی۔دوسری جانب سال 2020 سائنس کے میدان میں پاکستان کے لیئے بھی کئی خوش کن خبریں لے کر آیا،جس میں سے ایک خبر نابینا افراد کیلئے سلائی مشین بنانیوالی پاکستانی طالبہ کا عالمی سائنسی ایوارڈ اپنے نام کرنا تھا۔ نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (نسٹ) کی طالبہ اقصیٰ اجمل نے بصارت سے محروم افراد کے لیے ایک جدید سلائی مشین ایجاد کی، جس پراقصیٰ اجمل کو اٹلی کے شہر میلان میں منعقدہ تقریب میں عالمی سائنس ایوارڈ”لیکسس ڈیزائن ایوارڈ 2020“ کا حقدار قرار دے دیا گیا۔اقصیٰ نے اپنی اس منفرد ایجادکا نام’’پرس وِٹ“ سلائی مشین رکھا ہے۔اقصیٰ کی ڈیزائن کردہ سلائی مشین استعمال میں آسان ہے اور اس میں وہ تمام خواص شامل ہیں جن کی بنا پر بصارت سے محروم افراد کسی رکاوٹ کے بغیر سلائی کا تمام تر کام باآسانی انجام دے سکتے ہیں۔
2020 میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبہ سے منسلک افراد اور اداروں کے لیئے ترقی،بہتری اور کامیابی کے تاریخ ساز امکانات ہوئے۔یوں سمجھ لیجئے کہ کورونا وائر س کی عالمگیر وبا کے دوران جس شعبہ میں فقید المثال پیش رفت ہوئی،وہ بلاشبہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کا میدان ہی تھا۔دنیا بھر میں تعلیم آن لائن ہوگئی،دفتری کام کاج انٹرنیٹ سے انجام دیے جانے لگے،حکومتی احکامات کاغذ کے بجائے ای میل سے جاری ہونے لگے۔حد تو یہ ہے کہ سیاسی و عوامی اجتماعات بھی ویڈیو کانفرنس ٹیکنالوجی کی مدد لینے پر مجبور ہوگئے۔لیکن دوسری جانب انٹرنیٹ کے بڑھتے ہوئے استعمال نے دنیا بھر میں سائبر کرائمز میں بھی بڑھنے لگے ہیں۔ صرف پاکستان میں گزشتہ برس سائبر کرائمز میں 12 فیصد سے زائد تک کا اضافہ دیکھا گیا ہے۔دلچسپ با ت یہ ہے کہ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کا عمل دخل ہماری روزمرہ زندگی کے ساتھ ساتھ بعد از مرگ زندگی کی جانب بھی تیزی سے بڑھنے لگا ہے۔
گزشتہ برس امریکی کمپنی پورٹل آئی این سی سی نے فون بوتھ کے سائز کی ہولو گرام ٹیکنالوجی سے لیس ایک ایسی ڈیوائس بنانے کا دعویٰ کر کے سب کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا کہ اَب اس ڈیوائس کے ذریعے صارفین نہ صرف زندہ بلکہ فوت شدہ افراد سے بھی تقریباً حقیقی ملاقات کا لطف لے سکیں گے۔زوم اور دیگر ویڈیو چیٹ کے مقابلے میں یہ ایک ایسی منفرد ٹیکنالوجی ہے۔ جس کی مدد سے صارفین نہ صرف کسی دوسرے شخص کے قد کے برابر ہولوگرام سے بات کر سکتے ہیں بلکہ کسی تاریخی شخصیت یا اپنے فوت شدہ عزیز کے ریکارڈ شدہ ہولوگرام سے بھی بات کر سکتے ہیں۔حیران کن طور پر اس ٹیکنالوجی کی مدد سے کسی سے گفتگو کرتے ہوئے صارفین کو ایسا محسوس ہوگا جیسے وہ اپنے عزیز سے دو بدو ہیں،صرف یہ ہی نہیں بلکہ وہ اپنے عزیز کی جسمانی حرکات و سکنات کو بھی ملاحظہ کرسکیں گے۔ اس منفرد ڈیوائس کی قیمت 60 ڈالر سے شروع ہوتی ہے۔
علاوہ ازیں گزرے برس دنیا کا سب سے طاقتور سپر کمپیوٹر بھی ایجاد کرلیا گیا۔ جاپان کے سرکاری تحقیقی ادارے ”رائیکن لیبارٹری“ نے نجی ٹیکنالوجی کمپنی ”فیوجیتسو“ کے تعاون و اشتراک سے دنیا کا طاقتور ترین سپر کمپیوٹر ”فُوگاکُو“ (Fugaku) کے نام سے تیار کرلیا گیا ہے۔ جو صرف ایک سیکنڈ میں 415 کروڑ ارب حسابات لگا سکتا ہے۔ قدرے تکنیکی الفاظ میں یوں سمجھاجاسکتا ہے کہ فُوگاکُو کی رفتار ”415 پی-ٹا فلوپس“ (415 peta flops) ہے۔اس سے پہلے تک ”سمّٹ“ کو دنیا کا سب سے تیز رفتار سپر کمپیوٹر کا اعزاز حاصل تھا جو امریکا کی اوک رِج نیشنل لیبارٹری نے تیار کیا ہے اور 148 پی-ٹا فلوپس کی رفتار سے حساب لگاتا ہے۔ اس طرح رفتار کے میدان میں ”فُوگاکُو“ کی رفتار، سمّٹ کے مقابلے میں 2.8 گنا زیادہ ہے۔لیکن فُوگاکُو کی برتری صرف یہیں پر ختم نہیں ہوجاتی بلکہ یہ دنیا کا پہلا ایسا تیز رفتار ترین سپر کمپیوٹر بھی ہے جس میں ”اے آر ایم آرکٹیکچر“ کے حامل 158,976 سی پی یو ایک ساتھ استعمال کیے گئے ہیں۔واضح رہے کہ اے آر ایم آرکٹیکچر پر مبنی مائیکرو پروسیسرز کا استعمال آج کل اسمارٹ فون، اسمارٹ واچ اور ٹیبلٹ پی سی وغیرہ جیسے جدید دستی برقی آلات میں بکثرت کیا جارہا ہے کیونکہ یہ مختصر ہونے کے علاوہ خاصی کم توانائی بھی صرف کرتے ہیں۔ اس لحاظ سے یہ پہلا موقع ہے جب ”اسمارٹ فون پروسیسر“ کی ٹیکنالوجی سے دنیا کا سب سے تیز رفتار سپر کمپیوٹر تیار کیا گیا ہے۔
اگر سوشل میڈیا کی بات کی جائے تو کہا جاسکتاہے کہ 2020 کا سال سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کے لیئے جگ ہنسائی اور پابندیوں کا سال رہا۔ سال کی ابتداء میں ہی معروف سوشل میڈیا ویڈیو اپلی کیشن ”ٹک ٹاک“کو امریکا،بھارت،مصر اور پاکستان سمیت کئی ملکوں میں پابندی کا سامنا کرنا پڑا، تاہم پی ٹی اے کے ساتھ کامیاب مذاکرات کے بعد پاکستان میں ”ٹک ٹاک“ کو اس شرط کے ساتھ بحال کردیا گیا کیا کہ ٹک ٹاک انتظامیہ مستقبل میں متنازعہ مواداپنے پلیٹ فارم پر شائع کرنے سے اجتناب برتے گی۔ نیز گزشتہ سال فیس بک کو متنازعہ چہرہ شناس (فیس ریکگنیشن) ٹیکنالوجی کے غلط استعمال کے پر ایک مقدمے میں 55 کروڑ ڈالر جرمانہ کی بھی سزا سنائی گئی۔ یاد رہے کہ یہ مقدمہ فیس بک پر تصویر کو لوگوں کے نام سے ٹیگ کرنے اور پہچاننے سے شروع ہواتھا۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر اس ٹیکنالوجی کی آمد کے بعد امریکی ریاست الینوائے کے شہریوں نے فیس بک پر مقدمہ دائر کردیا تھا۔ امریکی عدالت نے دوران مقدمہ فیس بک سے یہ سوال بھی کیا کہ وہ چہرہ شناخت کرنے والے آپشن کے عملی فوائد بھی بتائیں جس کے جواب میں فیس بک عدالت کو مطمئن نہ کرسکی۔
دراصل گزشتہ کئی برسوں سوشل میڈیا ویب سائٹس اور اپلی کیشنز پر سخت دباؤ ہے کہ وہ اپنے صارفین کے حقوق کے تحفظ کے لیئے خصوصی انتظام فرمائیں۔ اس عوامی دباؤ سے متاثر ہوکر گزشتہ برس ٹویٹر نے بھی اپنے صارفین کی پوسٹوں میں بعض ٹیگز کا اضافہ کرنے کے بعد اب آزمائشی طور پر ایک سروس شروع کی ہے جس کے تحت غلط معلومات اور گمراہ کن پروپیگنڈا کرنے والے ٹویٹس کے عین نیچے سرخ اور نارنجی رنگ دئیے جائیں گے اور اس ٹویٹ کے پھیلاؤ کو بھی محدود کردیا جائے گا۔اس کے ساتھ ہی نیچے ’مضر اور گمراہ کن‘ کے لفظ کا اضافہ بھی کیا جائے گا۔ ٹویٹر نے کہا ہے کہ عوامی نوعیت کی شخصیات، سیاست داں اور دیگر اہم شخصیات کی جانب سے کی گئیں مخصوص ٹویٹس پر یہ نارنجی اور سرخ ٹیگ لگا کر صحافیوں اور محققوں کو دعوت دی جائے گی کہ وہ اس ٹویٹ کی اصلاح کریں اور اسے درست کرنے میں مدد فراہم کریں۔
اس کا مقصد سیاسی جماعتوں اور افراد کی جانب سے ٹویٹر کو بطور ایک ہتھیار استعمال کرنے سے روکنا ہے۔ نیز گزشتہ سال گوگل صارفین کو سب سے بُری خبر یہ سننے کو ملی کہ”آئندہ سال سے گوگل تصاویر کی مفت اسٹوریج ختم کرنے کا اعلان کر رہا ہے اور یکم جون 2021 کے بعد سے گوگل فوٹو اور ویڈیوز کی 15 گیگا بائٹس (جی بی) سے زائد اسٹوریج کی مفت سروس مکمل طور ختم کردی جائے گی اور اضافی اسٹوریج کے لیے صارف کو نقد ادائیگی کرنا ہوگی“۔علاوہ ازیں گزشتہ برس پاکستانی محققین نے فیس بُک کا ریسرچ ایوارڈ اپنے نام کرکے پاکستانیوں کا سر فخر سے بلند کردیا۔واضح رہے کہ یہ ایوارڈ پنجاب کی انفارمیشن ٹیکنالوجی یونیورسٹی (آئی ٹی یو) کے پروفیسر جنید قادر اور انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (آئی بی اے) کراچی کی محقق امانا رقیب کو مشترکہ طور پر دیا گیا۔
ٹاپ ٹرینڈز
سال 2020 میں جو اہم ترین واقعات پاکستان اور دنیا بھر میں ٹاپ ٹرینڈ بنے رہے،اُن میں ہیش ٹیگ ”میرے پاس تم ہو“ پہلے نمبر پر رہا۔مقبول ترین پاکستانی ڈرامہ ماہ جنوری میں سوشل میڈیا پر صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں ٹاپ ٹرینڈ کی فہرست میں شامل رہا۔اس ڈرامے کی آخری قسط ایک ہفتے کی تاخیر سے نشر کی گئی اور کا دورانیہ بھی ایک گھنٹے سے بڑھا کر دو گھنٹے کردیا گیاتھا۔نیز اسے سینما گھروں میں بھی دکھایا گیا جسے دیکھنے کے لیے شائقین کی بڑی تعداد پہنچی۔ دوسرے نمبر پر وزیر اعظم عمران خان کی سابق اہلیہ برطانوی ارب پتی خاندان سے تعلق رکھنے والی جمائما گولڈ اسمتھ کی جانب سے اپنے سابق شوہر وزیراعظم پاکستان عمران خان سے متعلق کیا جانے والا ہیش ٹیگ ”تونے کیسا جادو کیا؟“ٹاپ ٹرینڈ کرتا رہا۔جمائما گولڈ اسمتھ کی اسی ٹوئٹ کو چند گھنٹوں میں 4 ہزار بار ری ٹوئٹ کیے جانے سمیت اسے 22 ہزار سے زائد افراد نے لائیک کیا جب کہ سینکڑوں افراد نے اس ٹوئٹ پر کمنٹس بھی کیے۔
تیسرے نمبر پر وادی لداخ میں چینی افواج کے ہاتھوں 20 سے زائد بھارتی سورماؤں کی ہلاکت کے بعد ”سرینڈر مودی“کا ہیش ٹیگ ٹاپ ٹرینڈ کی فہرست میں شامل ہوگیا۔چوتھے نمبر پر اندرونِ سندھ کے ایک چھوٹے سے شہر مورومیں لائبریری کے قیام کے مطالبہ سے شروع ہونے والا ہیش ٹیگ ”مورو نیڈ لائبریری“ دیکھتے ہی دیکھے ٹاپ ٹرینڈ کی فہرست میں شامل ہوگیا۔ اس ٹرینڈ میں 70 ہزار سے زائد ٹوئٹس کی گئیں۔اس ہیش ٹیگ کے بطور ایک عوامی مہم ٹرینڈ کرنے کی بنیادی وجہ مورو شہر میں لائبریری کا نہ ہوتا تھا۔پانچویں نمبر پر کراچی میں ہونے والی طوفانی بارشوں کے بعد ہونے والی انتظامی تباہی نے ملک بھر میں ”رین کراچی“ کے ہیش ٹیگ کو ٹاپ ٹرینڈ بنادیا۔چھٹے نمبر پر تحریک لبیک کے سربراہ مولانا خادم حسین رضوی ؒ کے ناگہانی موت نے جہاں ہر پاکستانی دل کو سوگوار کیا، وہیں اُن کے تاریخی جنازے کے بعد ٹوئٹر پر ”خادم حسین رضوی ؒ“ کا ہیش ٹیگ ٹاپ ٹرینڈ بن گیا۔
ساتویں نمبر پر فرانسیسی صدر میخائل میکرون کی جانب سے پیغمبر اسلام ﷺ کے خلاف گستاخانہ مواد کی اشاعت کا معاملہ سامنے آتے ہی ”بائیکاٹ فرانس“ کا ہیش ٹیگ دنیا بھر میں ٹاپ ٹرینڈ کرنے لگا۔ آٹھویں نمبر پر کورونا وائرس کے باعث تعلیمی اداروں کی سردیوں کی چھٹیوں کا دس روز سے بڑھا ڈیڑھ ماہ تک کرنے کے فیصلے نے وفاقی وزیرتعلیم شفقت محمود کے نام کو بھی ٹوئٹر پر ٹاپ ٹرینڈ بنادیا۔نویں نمبر پر بے نظیر بھٹو شہید کی صاحبزادی بختاور بھٹو کی منگنی سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈ رہی۔بدقسمتی سے ایک طویل عرصہ بعد بھٹو خاندان میں آنے والے اس پرمسرت موقع پر بلاول بھٹو زرداری کورونا ٹیسٹ مثبت آنے کے باعث شریک نہ ہوسکے۔دسویں نمبر پر افغان مفاہمتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کی آمد کے موقع پر ”ویلکم ٹو پاکستان“ کا ہیش ٹیگ ٹاپ ٹرینڈ کی فہرست میں شامل ہوگیا۔
حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے روزنامہ جنگ کراچی کے سنڈے میگزین میں 10 جنوری 2021 کے شمارہ میں شائع ہوا۔
- آزادی اظہار رائے کی آڑ میں -جون30, 2023
- عید قرباں کی حقیقی روح -جون27, 2023
- بلدیہ عظمی کراچی کا قلعہ پیپلزپارٹی نے کیسے فتح کیا؟ -جون19, 2023