PAKISTAN-ENVIRONMENT-POLLUTION-SMOG

اسکول ، کورونا وائرس اور سندھ حکومت

کیا پاکستانی قوم نے کورونا وائرس کو مکمل طور پرشکست دے دی ہے؟۔فی الحال اس سوال کا جواب اثبات میں دینامشکل ہے لیکن یہ بات پورے وثوق اور یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ کورونا وائرس نوے فیصد تک پاکستان میں دم توڑ چکا ہے۔اس دعوی کی تصدیق کورونا وائر س کے دنیا بھر میں پھیلاؤ کا انتہائی باریک بینی سے جائزہ لینے والے معروف ترین بین الاقوامی ادارے بھی اپنی مختلف رپورٹس میں کرچکے ہیں اور بلاشبہ گزشتہ چند ہفتوں سے ملک بھر میں شروع ہونے والی زبردست تجارتی اور کاروباری سرگرمیوں کے بعد بھی کورونا وائرس کے نئے کیسوں کی تعداد میں مسلسل نمایاں کمی ہونا، انتہائی خوش آئند خبر ہے۔

یہ بھی پڑھیے: جنہیں کورونا نے نہیں مارا، مگر۔۔۔۔

اس حوصلہ افزاء صورت حال کے پیش نظر وفاقی حکومت کا ملک بھر میں تعلیمی ادارے کھولنے کا اعلان ایک بالکل راست فیصلہ ہے۔جسے کسی بھی صورت غلط نہیں قرار دیا جاسکتا۔مگر دوسری جانب سندھ حکومت،خاص طور پروزیرتعلیم سندھ جناب سعید غنی کی جانب سے دوسرے مرحلہ میں پہلی جماعت سے لے کر آٹھویں جماعت تک پڑھانے والے سرکاری و نجی اسکولوں کو کھولنے کی اجازت نہ دینے کے فیصلہ میں بھی اس لحاظ سے کوئی بدنیتی یا سیاست نظر نہیں آتی کہ وزیرتعلیم سندھ سعید غنی نے اپنے اس مشکل فیصلہ میں فقط حد درجہ احتیاط کو مقدم رکھنے کی کوشش کی ہے۔ کیونکہ یہاں کم عمر بچوں کی زندگی کے تحفظ کا معاملہ ہے۔ حالانکہ پرائیوٹ اسکول ایسوسی ایشن کی جملہ تنظیمات کے مطالبات کے مطابق بچوں کی پڑھائی کا معاملہ بھی کچھ کم اہم نہیں ہے۔ لیکن اگر دونوں فریقین میں سے کسی ایک کی رائے کو ترجیح دینے کا حتمی فیصلہ کیا جائے گا تو یقینا کم عمربچوں کی زندگی بچانے کے بارے میں سب سے پہلے فکر کی جائے گی جبکہ اُن کی تعلیم کے معاملہ کو دوسرے درجہ پر رکھا جائے گا اور یہ ہی وہ کام ہے جس کا التزام وزیر تعلیم سندھ نے کرنے کی کوشش کی ہے۔

لیکن افسوس وزیرتعلیم سندھ سعید غنی کی جانب سے بچوں کو کورونا وائرس کے ممکنہ حملہ سے بچانے کے لیئے کی جانے والی مخلصانہ کوشش کے تانے بانے بھی بعض عاقبت نا اندیش افراد کی جانب سے غیرضروری طو رپر سیاست کے ساتھ جوڑنے کی مذموم سازش کی جارہی ہے اور کہا جارہاہے کہ سندھ حکومت کورونا وائرس کی ہلاکت خیزی کا سہارا لے کر پرائیوٹ اسکولوں کے کاروبار سے وابستہ افراد کا معاشی استحصال کرنا چاہتی ہے۔حیران کن طور پر پرائیویٹ اسکول ایسوسی ایشن نے وزیرتعلیم سندھ سعید غنی کے استعفا کا مطالبہ بھی کردیا ہے۔جبکہ بعض اسکول مالکان نے سندھ حکومت کے احکامات کی خلاف ورزی کا عندیہ دیتے ہوئے اپنے اسکول کھولنے کا اعلان بھی چکے ہیں۔ یہاں پرائیویٹ اسکول اپنا موازنہ دیگر کاروباری و تجارتی سرگرمیوں سے کر تے ہوئے دلیل تراش رہے ہیں کہ اگر ملک میں ہرقسم کا کاروبار کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے تو پھر پرائیویٹ اسکول کھولنے سے کیوں روکا جارہا ہے؟۔

پرائیویٹ اسکول ایسوسی ایشن کی جانب سے تراشے گئے اس جواز میں دو بنیادی نقائص پائے جاتے ہیں۔ اول تو یہ کہ بچوں کو تعلیم دینا بھلے ہی پرائیویٹ اسکول مالکان کے نزدیک ایک کاروبار ہے لیکن ذرابھی عقل و شعور رکھنا والا شخص تعلیم دینے کے فریضہ کو ”عام کاروبار“یا ”تجارت“ کی فہرست میں شامل نہیں کرسکتا۔نیز اس دلیل میں دوسرا نقص یہ پایا جاتاہے کہ بلاوجہ ہی یہ تاثر پھیلانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ جیسے وزیرتعلیم سندھ،تعلیمی سرگرمیاں شروع کرنے کے خلاف ہیں، حالانکہ سچ تو یہ ہے کہ وہ تعلیمی ادارے کھولنے کے ہرگز مخالف نہیں ہیں بلکہ انہوں نے تو وفاقی حکومت کی ہدایت کے عین مطابق صوبہ بھر میں کالج اور یونیورسٹی سطح کے تعلیمی ادارے مقررہ وقت پر کھول بھی دیئے ہیں لیکن کم عمر بچوں کو اسکول بھیجنے کی وہ اس لیئے مخالفت کررہے ہیں کہ انہیں اندیشہ ہے کہ کم عمر بچوں سے اُن حفاظتی ہدایات پر عمل نہیں کروایا جاسکتا،جن پر عمل پیرا ہونا کورونا وائرس سے بچنے کے لیئے ازحد ضروری ہے۔

اس لیئے اگر احتیاط کو سب سے مقدم رکھتے ہوئے کچھ عرصہ کے لیئے مزید تعلیمی اداروں کو بند رکھا جائے تواس میں آخر مضائقہ ہی کیا ہے۔ اُمید ہے کہ اس احتیاطی تدبیر کو ترجیحی طو رپر اختیار کرنے سے والدین کو بھی اطمینان قلب میسر آجائے گا اور وہ چند روز کے بعد اپنے بچوں کو اسکول بھیجتے ہوئے ہر طرح کی فکر اور پریشانی سے مکمل طور پر آزاد تصور کریں گے جبکہ اسکول جانے والے معصوم بچوں کے کورونا وائرس کا شکار ہوجانے کے جو تھوڑے بہت امکانات ابھی پائے جاتے ہیں وہ بھی یکسر معدوم ہوجائیں گے۔ جہاں تک بات ہے پرائیویٹ اسکول مالکان کی ہے تو وہ گزشتہ چند دہائیوں میں تعلیم کے نام پر اتنا مال و دولت مختلف حیلوں بہانوں سے بٹور چکے ہیں کہ اس وقت بھی اُن کی تجوریاں منہ تک بھری ہوئی ہی ہوں گی۔ویسے بھی پرائیویٹ اسکول مالکان کون سا تعلیم کے فروغ کا شوق اور غریب والدین سے ذرا برابر ہمدردی رکھتے ہیں۔ بس ذرا! اسکول کھلنے کی دیر ہے یہ سب پرائیویٹ اسکول مالکان مل جل کر والدین کے ہاتھوں میں کتابوں،کاپیوں اور فیسوں کے وہ وہ مہنگے ترین نسخے تھما دیں گے کہ چند ہفتوں میں ہی یہ پرائیویٹ اسکول انتہائی آسانی کے ساتھ کورونا وائرس کے ایام میں ہونے والے اپنے مالی نقصانات کا ازالہ کرلیں گے اور بے چارے والدین اپنی خالی جیبوں کو ٹٹولتے رہ جائیں گے۔اس لیئے وزیر تعلیم سندھ سعید غنی سے گزارش ہے کہ وہ کسی بھی صورت پرائیویٹ اسکول مالکان کی بلیک میلنگ یا دھمکی میں مت آئیں اور کم عمر بچوں کے اسکول کھولنے کا فیصلہ اُس وقت تک موخر ہی رکھیں۔ جب تک اس بات کا کامل اطمینان نہ ہوجائے کہ اَب کورونا وائرس ہمارے معصوم بچوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ ویسے بھی ہم سب جانتے ہیں کہ سندھ حکومت پرائیویٹ اسکولوں کی بھاری فیسوں سے تووالدین کی جاں خلاصی کروانے کی انتظامی سکت نہیں رکھتی لیکن اگر وزیرتعلیم سندھ نے کورونا وائرس سے معصوم بچوں کی قیمتی جانیں بچانے کا راست ”انتظامی اقدام“لے ہی لیا ہے تو برائے مہربانی اسے درمیان میں اُدھورا مت چھوڑیں۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے ہفت روزہ ندائے ملت لاہور میں 01 اکتوبر 2020 کے شمارہ میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اسکول ، کورونا وائرس اور سندھ حکومت” ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں