sarhadi-modi-a-new-name-of-mehmood-khan-achakzai

سرحدی مودی

سالگرہ کا کیک بھی اگر غیر منصفانہ انداز میں کاٹ د یا جائے تو تقریب کے شرکاء کینہ توز نگاہوں سے کیک کاٹنے والے کو گھورنا شروع کردیتے ہیں اور کبھی کبھارنوبت ہاتھا پائی تک بھی جاپہنچتی ہے۔ یعنی لوگ جب ایک کیک کے ٹکڑوں کے چھوٹا،بڑا ہونے پر آپس میں اُلجھ پڑتے ہیں تو پھر اَب آپ خود ہی اندازہ لگا لیجئے کہ کسی بھی ملک کے نزدیک سرحدوں کی تقسیم کتنا حساس اور نازک معاملہ ہوسکتاہے۔اس چھوٹی سی بات کا ادراک اگر ہمیں ہے تو یقینا لارڈ ماؤنٹ بیٹن، سر کریک اور مارٹیمر ڈیورنڈ کو بھی ضرور ہوگا۔ لیکن اگر پھر بھی برطانوی حکمرانوں نے برصغیر پاک و ہند کی سرحدی تقسیم کسی کیک کی مانند کرنے کی کوشش تو اس تاریخی حادثہ کو اگر حکومتِ برطانیہ کی دانستہ ”سیاسی بدنیتی“ پر محمول نہ کیا جائے تو پھر اس حادثہ تاریخ کو اور کیانام دیا جائے؟۔حیران کن طور پر دنیا بھرمیں اس وقت جتنے بھی سرحدی تنازعات موجود ہیں،اُن میں سے نوے فیصد سابقہ سلطنت ِ برطانیہ کی ہی دین ہیں۔ کہنے کو تو برطانیہ نے دوسری جنگ عظیم کے بعد کئی ممالک کو اپنے استبداد سے آزادی دینے کا کڑوا گھونٹ مسکراتے ہوئے پی لیا تھا لیکن درحقیقت انگریزوں نے کمال سیاست سے بے شمار ممالک کی آزادی کو سرحدی تنازعات کی چار دیواری میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے پابند سلاسل کردیا تھا۔

بدقسمتی سے پاکستان بھی اُن ممالک میں ایک ہے،جسے برطانوی حکومت نے آزادی کے ہمراہ کئی سرحدی تنازعات بھی ہمراہ لف کرکے دیئے تھے۔ جن میں سے ایک پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی لکیر ڈیورنڈ لائن بھی ہے۔ بین الاقوامی قوانین کی رو سے یہ ایک مستقل سرحد ہے جو پاکستان کے مغربی جانب افغانستان کے ساتھ ملحق ہے۔ جسے عالمی براداری بھی ایک بین الاقومی سرحد تسلیم کرتی ہے۔ کیونکہ برصغیر پاک و ہند کی تقسیم کے بعداسے پاکستان کی مستقل سرحد کی حیثیت دے کر ڈیورنڈ لائن کا مردہ دفنا دیا گیا تھا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ افغانستان جب کمزور حالت میں ہوتا ہے تو ڈیورنڈ لائن کا ذکر نہیں کرتا جب کچھ مضبوط ہوتا ہے تو اس کا ذکر شروع کر دیتا ہے لیکن عالمی قوانین کے مطابق افغانستان کا کیس بہت کمزور ہے اور یہ بات افغانستان کا ہرحکمران بخوبی سمجھتا ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ افغانستان کی جانب سے زبانی طور پر تو بات ہوتی ہے لیکن کبھی عالمی عدالت انصاف یا اقوام متحدہ میں یہ معاملہ لے جانے کی کوشش نہیں کی گئی کیونکہ عالمی برادری کے نزدیک عالمی نقشہ پر ڈیورنڈ لائن اَب سرے سے موجود ہے ہی نہیں بلکہ دو ممالک کے درمیان صرف ایک سرحد ہے۔

مگر افغانستان میں موجود چند گروہ اور پاکستان میں موجود بھارت نواز کچھ سیاسی شخصیات ہمیشہ سے ہی ڈیورنڈ لائن کو دو ممالک کے درمیان ایک مستقل سرحد تسلیم کرنے سے یکسر انکاری رہی ہیں۔ ماضی میں ایسے مذموم نظریات رکھنے والے اقلیتی طبقہ کے رہنما خان عبدالغفار خان ہوا کرتے تھے، جنہیں پاکستانی قوم سرحدی گاندھی کے نام سے جانتی ہے جبکہ آج کل جو سیاسی رہنما ڈیورنڈ لائن کے نام لے کر زہرافشانی میں صبح و شام مصروف ہے۔ وہ موصوف محمود خان اچکزئی ہیں،جنہیں آپ حال کا ”سرحدی مودی“ بھی کہہ سکتے ہیں۔سرحدی مودی کا استدلا ل ہے کہ”ڈیورڈ لائن کوئی باقاعدہ سرحد نہیں ہے،یہ صرف ایک لکیر ہے،جس کی ذریعے ماضی میں پشتون آبادی کو الگ الگ کرنے کی کوشش کی گئی تھی“۔واضح رہے کہ یہ وہ بودا سا،غیر عقلی استدلال ہے جسے قانونی، تاریخی،سیاسی غرض کسی بھی لحاظ سے کہیں بھی ثابت نہیں کیا جاسکتاہے مگر چونکہ اس استدلال کا سہولت کار بھارت ہے اور بھارت نواز لبرل گروہوں کی اس نظریہ کے حق میں چلنے والی تحریک کو زبردست حمایت حاصل ہے۔ شاید اسی لیئے سرحدی مودی کے پاؤں گزشتہ چند ماہ سے پاکستانی سرزمین پر ٹکنے میں نہیں آرہے اور وہ بیرونی امداد کی ہوا ؤں کے دوش پر اُڑتے ہوئے کبھی کراچی اور کبھی لاہور میں ریاستِ پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی اور زہرافشانی کر کے ڈیورنڈ لائن کے مردہ کو دوبارہ سے زندہ کرنے کی تگ و دو میں مصروف ہے۔

انگریزوں کی جانب سے ڈیورنڈ لائن کھینچے جانے کی داستان بھی بڑی عجیب ہے،تاریخ کے اوراق میں درج ہے کہ جس وقت دنیا بھر پر برطانوی راج قائم تھا عین اُس خطے میں دوسری بڑی سیاسی و عسکری طاقت روس کی صورت میں بھی موجود تھی۔برطانیہ اور روس کے درمیان اچھے سفارتی تعلقات ہونے کے باوجود بھی نہ جانے کیوں انگریزحکمرانوں کو ہر لحظہ ڈر اور خوف لاحق رہتا تھا کہ کہیں روس کبھی افغانستان کے راستے سے اُن پرحملہ نہ کر دے۔اپنے اسی خوف کو دور کرنے کے لیئے اس وقت برطانوی سفارت کار مارٹیمر ڈیورنڈ نے افغانستان کے امیرعبدالرحمان سے بذریعہ خط وکتابت رابطہ کیا اور سرحدی حدبندی کرنے کی تجویز پیش کی، کچھ روز بعد انہوں نے افغانستان کا دورہ کیا۔چند ملاقاتوں اور کچھ نقد لے دے کے بعد آخر کار 12 نومبر 1893 میں یہ حد بندی قائم کر دی گئی جس کا نام مارٹیمر ڈیورنڈ کے نام کی مناسبت سے ڈیورنڈ لائن رکھا گیا جس کی لمبائی 2640 کلومیٹر تھی۔ پاکستان بننے کے بعد بھی اسے جوں کا توں برقرار رکھا گیااور اسے مستقل پاکستانی سرحد کی حیثیت دے دی گئی،جس کی توثیق اقوام متحدہ سمیت دنیا کے ہر ملک کی جانب سے بھی فرمادی گئی۔مگر ماضی کی پاکستانی حکومتوں کی جانب سے غلطی یہ ہوئی کہ انہوں نے کبھی اس سرحد کی نگہانی کے لیئے وہ سخت حفاظتی اقدامات اُٹھانے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی جو کہ پاکستان اپنے مشرقی سرحد پر کیا کرتا تھا۔پاکستانی حکمرانوں کی جانب سے روا رکھی جانے والی سرحدی نرمیوں نے سرحد کی دوسری جانب رہنے والوں کا دماغ خراب کردیا اور وہ سمجھنے لگے کہ وہ جس طرح ڈیورنڈ لائن کو آزانہ نقل و حمل کے لیئے بلا کسی روک ٹوک کے استعمال کرتے ہیں۔عین اسی طریق پر وہ سرحد پار سے دہشت گردی بھی پاکستان میں منتقل کرسکتے ہیں اور انہیں کچھ نہیں کہاجائے گا۔

سچی بات تویہ ہے کہ کچھ برس تک تو انہوں نے واقعی ایسا کیا بھی اور بھارت کی معاونت سے پاکستان کو اپنی دہشت گردکارروائیوں کا نشانہ بناتے بھی رہے اور افغانستان سے دہشت گردی اور دہشتگردوں کو تھوک کے حساب سے امپورٹ و ایکسپورٹ کرتے رہے۔ تاآنکہ پاکستان نے مشکل ترین فیصلہ کرتے ہوئے تن تنہا،وسائل کی کمی،سخت موسم،سرحد پار سے فائرنگ،حملے اور طنز و تضحیک کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے پوری سرحد پر باڑ کی تنصیب مکمل کر کے اسے ملک دشمن قوتوں کے لیئے ناقابلِ رسائی نہ بنادیا۔

واضح رہے کہ پاکستان نے مغربی سرحد پر باڑ لگانے کے لیئے بہت مشکلات جھیلی ہیں اوراس کی تکمیل کو یقینی بنانے کے لیئے اپنے اَن گنت جاں باز جوانوں کا لہو اور پسینہ وافر مقدار میں بہایا ہے۔اس لیئے یہ باڑ پاکستان کے لیئے سرحدی باڑ سے بڑھ کر بھی بہت کچھ ہے۔ اچھی طرح ذہن نشین رہے کہ اس باڑ کی اونچائی 11 فٹ ہے اور یہ دہری باڑ ہے۔ ان دو باڑوں کے درمیان چھ فٹ کا فاصلہ رکھا گیا ہے اور باڑ کے اوپری حصہ پر کانٹے دار تاروں کے گچھے لگا دیئے گئے ہیں۔ یعنی 2640 کلومیٹر طویل علاقے پر باڑ لگا کر پاکستان اور افغانستان کی سرحد کو بھی اَب دنیا کی کسی عام سرحد کی طرح ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے محفوظ و مامون بنادی گیا ہے۔

چونکہ یہ ریاست پاکستان کو حاصل ہونے والی ایک بہت کامیابی ہے،اس لیئے یہ آہنی باڑ اَب ملک دشمن قوتوں اور اُن کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی کی طرح کھیلنے والوں کو ایک آنکھ نہیں بھارہی۔ شاید اپنی اسی ہزیمت اور ناکامی کو چھپانے کے لیئے سرحدی مودی کے منہ سے ریاست مخالف بیانیہ تسلسل کے ساتھ سننے کو مل رہا ہے۔ ویسے تو جس طرح تاریخ کے کوڑے دان میں سرحدی گاندھی کے نظریات و خیالات پڑے گل سڑ رہے ہیں، اُسی طرح وہ وقت دور نہیں جب پاکستانی و افغان عوام مل کر سرحدی مودی کے مذموم عقائد کو بھی تاریخ کے کوڑے دان کی نذ ر کردیں گے۔ مگر افسوس اور شرم کی بات یہ ہے کہ سرحدی مودی جس سیاسی اسٹیج اور سیاسی اتحاد کے پلیٹ فارم کو ریاست پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کے لیئے استعمال کررہاہے، اُسے بنانے اور وہاں بیٹھنے والے اپنے ہیں۔ مگر اِن اپنوں کو ذرہ برابر بھی یہ احساس نہیں کہ ایک سرحدی مودی کے منہ سے پاکستان عوام پر دشنام طرازی کروانے سے و ہ ریاست ِ پاکستان کی سالمیت کو سنگین خطرے میں ڈالنے کے مرتکب ہورہے ہیں۔

جہاں تک بات ہے پاکستان اور افغانستان کے سفارتی تعلقات کی تو یقینا باڑ کی تعمیر اور پاکستان کی مغربی سرحد محفوظ ہو جانے سے اِن دونوں ممالک کے تعلقات بھی مستقبل میں مزید مضبوط سے مضبوط تر ہونے کی قوی اُمید باندھی جاسکتی ہے۔ کیونکہ سرحد پر باڑ بن جانے کے بعد دونوں اطرف موجود کسی بھی دہشت گرد گروہ کے لیئے ممکن نہیں رہا ہے کہ وہ بھارتی ایما پر کسی بھی ملک کو اپنی دہشت گردانہ کارروائی یا تخریف کاری کا آسان ہدف بناسکے۔ نیز اَب افغانستان عوام کو یہ گمراہ کن سبق بھی نہیں پڑھایاجاسکے گا کہ اُن کے ملک میں ہونے والی دہشت گردی سرحدپار سے ہوتی ہے۔دراصل گزشتہ تہتر برسوں میں یہ پہلا موقع ہے جب ریاست پاکستان نے ڈیورنڈ لائن کا قضیہ نمٹانے کے لیئے کوئی مخلصانہ کاوش کی اور خوش قسمتی سے وہ اپنی اس کوشش میں کامیاب بھی رہے۔ اگر ناکامی اور شکست کا منہ دیکھنا پڑا ہے تو وہ اُن چند لوگوں کو جو کل سرحدی گاندھی کا طوق اپنے گلے میں ڈال کرگلی گلی میں گھومتے تھے اور آج سرحدی مودی کی کالک اپنے چہرے پر مل کردنیا بھر سے سامانِ رسوائی سمیٹ رہے ہیں۔

حوالہ: یہ کالم سب سے پہلے روزنامہ جرات کراچی کے ادارتی صفحہ پر 25 جنوری 2021 کی اشاعت میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں