Rushdie

ملعون سلمان رشدی، ایک غازی کے نشانے پر

رواں ہفتہ امریکا کی ریاست نیویارک کے علاقے شوٹاکوا میں منعقدہ ایک تقریب میں دورانِ خطاب75 سالہ ملعون سلمان رشدی پر چاقوسے جان لیوا حملہ ہوا۔جس کے نتیجہ میں ملعون سلمان کو شدید زخمی حالت میں ہیلی کاپٹر کے ذریعے مقامی اسپتال منتقل کردیا گیا ہے۔مقامی پولیس نے تصدیق کی ہے کہ ”سلمان رشدی چاقو کے وار سے زخمی ہوا ہے اور اس کی گردن پر دائیں جانب کاری زخم آیا ہے اور اُس کی حالت کافی نازک ہے کیونکہ قاتلانہ حملہ کے نتیجہ میں اُس کا کافی خون بہہ گیاتھا۔جبکہ حملہ آور کو موقع واردات سے آلہ قتل سمیت فور ی طور پر حراست میں لے لیا گیا ہے“۔

سلمان رشدی پر قاتلانہ حملہ الزام میں گرفتار ہونے والے شخص کا نام ہادی ماتر بتایا جارہاہے،جس کی عمر 24 سال ہے اور وہ لبنانی نژاد امریکی شہری ہے۔ غازی ہادی ماتر ریاست جرسی کا رہائشی ہے اور ابتدائی تحقیقات کے مطابق وہ شیعہ فرقہ سے تعلق رکھتا ہے۔جبکہ غازی ہادی ماتر کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ ملاحظہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایرانی پاسداران انقلاب سے ذہنی اور قلبی طور پر شدید متاثر تھا۔ نیز غازی ہادی ماتر پر درج ایف آئی آر میں پولیس کی جانب سے الزام عائد کیا گیا ہے کہ اُس نے اسٹیج پر دوڑ کر ملعون سلمان رشدی کے چہرے، گردن اور پیٹ میں کم از کم 10 بار چھرا گھونپا تھا۔

حیران کن بات یہ ہے کہ جب پولیس نے غازی ہادی ماتر کو جج کے سامنے پیش کیا تو اُس نے ملعون سلمان رشدی پر قاتلانہ حملہ کرنے کا الزام قبول بھی کرلیا ہے۔ غازی ہادی ماتر نے جج کے سامنے اقبالِ جرم کرتے ہوئے کہا ہے کہ ”میں تین برس سے ملعون سلمان رشدی کی تلاش میں تھا کہ کوئی موقع مل جائے اور میں اس کی گردن تن سے اڑادوں“۔ جب غازی ہادی ماتر سے جج نے کہا کہ ”آپ اپنی گردن اور نظریں ذرا نیچے کرکے بات کریں تو غازی ہادی ماتر نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ”مسلمان نے کبھی گردن جھکانا سیکھی نہیں،بس! آپ اپنا فیصلہ سنائیں“۔

عالمی ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی بعض اطلاعات کے مطابق ملعون سلمان رشدی کے زخم بہت شدید اور گہرے ہیں اور اُس کی جسمانی حالت کافی تشویشناک ہے۔ دراصل ملعون سلمان رشدی کے ایک بازو، جگر پر گہرے زخم آئے ہیں اور اگر اُن کی جان بچ بھی جاتی ہے تو قوی امکان ہے کہ اُن کی آئندہ زندگی مکمل طور پر معذوری کی حالت میں گزری گی اور وہ شاید اَب تمام زندگی درست انداز میں گفتگو کرنے سے معذور ہی رہے گا۔خاص طور پر ڈاکٹروں کا کہناہے کہ اُن کی ایک آنکھ ضائع ہونے کا قوی خدشہ ہے۔سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ ملعون سلمان رشدی پر قاتلانہ حملہ کی خبر سُن کر مغرب اور یورپ میں غم و غصے کی لہر ڈور گئی ہے،وہیں اکثر مسلم ممالک میں اِ س خبر پر زبردست مسرت اور خوشی کا اظہار کیا جارہا ہے اور قاتلانہ حملہ کرنے والے غازی ہادی ماتر کی جرات اور ہمت خراج تحسین پیش کیا جارہاہے۔

خاص طور پر ایرانی ذرائع ابلاغ پر ملعون سلمان رشدی پر قاتلانہ حملے کی خبر کو ایک بڑی بریکنگ نیوزکے طور پر لیا جارہا ہے اور مذکورہ قاتلانہ حملے کو ”قدرت کی طرف سے ایک سزا“ قرار دیا جارہاہے۔ مثال کے طور پر ایران میں سرکاری نشریاتی ادارے ”جام جم‘‘نے ملعون سلمان رشدی کی آنکھ ضائع ہو جانے کی خبر کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے کہاہے کہ’’شیطان ایک آنکھ سے اندھا ہو گیا ہے“۔

دوسری جانب ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان نصیر کینانی نے سرکاری طور پر ملعون سلمان رشدی پر ہونے والے قاتلانہ حملے پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ”ایران اس حملے سے کسی بھی قسم کا تعلق ہونے کی واضح طور پر تردید کرتا ہے۔ لہٰذا کسی ملک کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اسلامی جمہوریہ ایران پر ملعون سلمان رشدی کو قتل کروانے کابے بنیاد الزام عائد کرے۔ کیونکہ مذہب اسلام کی توہین اور ڈیرھ ارب مسلمانوں کے لیے مقدس تصور کی جانے والی حدود عبور کر کے ملعون سلمان رشدی نے خود ہی دین اسلام کے ماننے والوں کے غیض و غضب کو دعوت دی تھی۔جس کا خمیازہ اَب اُس نے بھگت لیا ہے“۔

یاد رہے کہ جیسے ہی سلمان رشدی پر حملے کی خبریں عالمی ذرائع ابلاغ پر آنا شروع ہوئیں دنیا بھر کی نظریں ایران پر لگ گئیں جہاں تین دہائیوں قبل سرکاری طور پر سلمان رشدی کو ایک فتوی کے ذریعے واجب القتل قرار دیا گیا تھا اور مبینہ طور پر توہین رسالت کے مرتکب ہونے والے مصنف کو قتل کرنے والے کو نقد انعام دینے کا اعلان کیا گیا تھا۔شاید یہ ہی وجہ ہے کہ اکثر مغربی ور یورپی ممالک نے ملعون سلمان رشدی پر قاتلانہ حملہ کے تانے بانے ایران کے ساتھ جوڑے کی کوشش کی ہے۔جبکہ امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن نے ملعون سلمان رشدی پر قاتلانہ حملہ کے واقع پر تنقید کرتے ہوئے اس طرز عمل کو ”قابل نفرت“ قرار دیا ہے۔ دنیا ملعون سلمان رشدی پر ہونے والے قاتلانہ حملہ کے حملے سے تقسیم کیوں ہے؟۔اس سوال کا جواب جاننے کے لیئے ہمیں ملعون سلمان رشدی کی زندگی کا طائرانہ سا جائزہ لینا ہوگا۔

واضح رہے کہ ملعون سلمان رشدی تقسیم ہند سے ٹھیک دو ماہ قبل بھارتی شہر بمبئی میں پیدا ہوئے تھا۔ اُس ملعون کا تعلق برصغیر کے ایک متمول اور امیر گھرانے سے تھا۔اُس کے والدین نے 14سال کی عمر میں اعلیٰ تعلیم کی غرض سے اُسے انگلینڈ کے رگبی سکول بھیج دیا تھا۔جہاں بعد ازاں ملعون سلمان رشدی نے کیمبرج کے معرف و کنگز کالج میں تاریخ کے مضمون میں آنرز کی ڈگری حاصل کی۔علاوہ ازیں اُس نے باقاعدہ طور پر برطانوی شہریت حاصل کر کے برطانیہ میں مستقل سکونت حاصل کرلی تھی۔صرف یہ ہی نہیں بلکہ ملعون سلمان رشدی نے دین اسلام ترک کرے عیسائی مذہب بھی قبول کرلیا تھا۔یعنی ملعون سلمان رشدی گستاخ اسلام ہونے کے ساتھ ساتھ ایک مرتد بھی ہے۔ یہاں اِس بات کی وضاحت کرنا اِس لیئے بھی ضروری سمجھا گیا ہے کہ بعض لوگ ملعون سلمان رشدی کو ابھی تک مسلمان لکھتے ہی نہیں بلکہ سمجھتے بھی ہیں۔ حالانکہ اُنہیں مذہب اسلام ترک کیئے ہوئے ایک مدت گزر چکی ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اپنی نوجوانی میں ملعون سلمان رشدی بطور ایک اداکار بھی برطانوی تھیٹر کیمبرج فوٹ لائٹس میں کام کر چکا ہے۔اداکاری کے میدان میں ناکام ہوجانے کے بعد اُس نے ایک ایڈورٹائزنگ کاپی رائٹر کے طور پر مختلف اداروں میں کام کیا۔لیکن وہ علمی و ادبی میدان میں بھی کوئی خاص کارہائے نمایاں انجام نہ دے سکا۔ مثال کے طور پر اُن کی پہلی لکھی گئی کتاب گریمس ادبی لحاظ سے انتہائی خراب معیار کی حامل تھی اور اس کتاب کو قارئین کی اکثریت نے یکسر مسترد کردیا۔اس ناکام مصنف نے راتوں رات دنیا کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے لیئے 1988 میں اسلام مخالف، متنازعہ ترین کتاب”دی سیٹینک ورسز‘‘(شیطانی آیات) لکھی اور مذکورہ کتاب میں اسلامی تعلیمات کو ہدفِ تنقید بنانے کی کوشش کی گئی تھی۔

شاید یہ ہی وجہ ہے کہ اس کتاب کی اشاعت کے خلاف دنیا بھر کے مسلمانوں نے زبردست احتجاج کیا۔مذکورہ کتاب پر سب سے پہلے بھارتی حکومت نے پابندی لگائی تھی۔ بعدازاں پاکستان سمیت دیگر مسلم ممالک میں اس کتاب کی فروخت اور اشاعت پر مکمل پابندی عائد کر دی۔ اکثر مسلم ممالک نے ملعون سلمان رشدی کی کتاب کے مواد کو مذہب اسلام کی واضح توہین قرار دیا۔جبکہ اس کتاب کے خلاف ہونے والے پرتشدد مظاہروں میں دنیا بھر میں کئی افراد بھی مارے بھی گئے۔

ایران کے دارلحکومت تہران میں برطانوی سفارت خانے پر ایرانی عوام نے شدید پتھراؤ کیا گیااور سفارت خانہ میں موجود امریکی عملہ بڑی مشکل سے اپنی جان بچا کر بھاگنے میں کامیاب ہواتھا۔ جبکہ اس وقت کے ایرانی رہنما آیت اللہ خمینی نے ایک فتویٰ جاری کیا، جس میں ملعون سلمان رشدی کو واجب قتل قرار دیتے ہوئے اُس قتل کرنے والے کو 30 لاکھ ڈالر کا انعام دینے کا اعلان کیا۔یاد رہے کہ یہ فتویٰ بدستور برقرار ہے۔ اگرچہ ایران کی حکومت نے اس فتوی کے مندرجات سے خود کو مکمل طو رپر الگ کر لیا ہے لیکن ایک نیم سرکاری ایرانی مذہبی فاؤنڈیشن ابھی بھی اس فتوی پر قائم ہے اور مذکورہ تنظیم نے 2012 میں اس انعام میں مزید پانچ لاکھ ڈالر کا اضافہ بھی کردیا تھا۔

یاد رہے کہ ملعون سلمان رشدی ایرانی رہنما آیت اللہ خمینی کی جانب سے اپنے قتل کے فتوی کے اجراء کے بعد روپوش ہونے پر مجبور ہو گئے تھے اور برطانوی حکومت نے تب سے لے کر آج تک اُسے سخت پولیس حفاظت میں رکھا ہواتھا۔بہر کیف تما م حفاظتی حصار کے باوجود غازی ہادی ماتر،بالآخر ملعون سلمان رشدی تک پہنچنے میں نہ صرف کامیاب ہوگیا بلکہ اُس کے شہ رَگ پر کاری وار کرنے میں بھی کامیاب رہا۔ عین ممکن ہے کہ دنیا کے ماہرین طب ملعون سلمان رشدی کی جان بچانے میں کامیاب رہیں،لیکن ایک بات طے ہے آئندہ ملعون سلمان رشدی کی زندگی،موت سے بھی کہیں لاکھ درجہ بدتر ہوگی۔

حوالہ: یہ کالم سب سے پہلے روزنامہ جرات کراچی کے ادارتی صفحہ پر 18 اگست 2022 کی اشاعت میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں