Quaid E Azam and Youth

قائد کا نوجوان

پاکستان دنیا کے اُن خوش قسمت ممالک میں سے ایک ہے جس کی آبادی کی ایک کثیر تعداد نوجوانوں پر مشتمل ہے۔محیرالعقول انکشافات،نت نئی اطلاعات اوربوقلموں نظریات سے بھرپور اس دورِ جدید میں نوجوانوں کی افرادی قوت کسی بھی قوم کے لیئے ایک نعمت سے کم نہیں۔ مگر یاد رہے کہ اس بیش بہا افرادی قوت سے حقیقی فوائد حاصل کرنے کے لیئے لازم ہے کہ نوجوانوں کا معاشرہ کی تشکیل میں ایک متحرک اور کلیدی کردار ہو اور یہ تب ہی ممکن ہو جب نوجوان تعمیر ملت کے حقیقی مفہوم سے نا صرف آگاہ ہوں بلکہ اس سمت قدم بڑھانے کے لیئے درکار تمام ضروری فکری زادِ راہ بھی رکھتے ہوں۔ اہم ترین بات یہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد ہمارے عظیم قائد بھی ہمارے ملک کے نوجوانوں سے صرف یہی توقع رکھتے تھے کہ وہ ملکی ترقی کے ہر دور میں اپنا متحرک اور نتیجہ خیزکردار بھرپور طریقے سے انجام دیں۔اس ضمن میں جب بھی اور جہاں بھی قائد کو نوجوانوں سے مخاطب ہونے کا موقع میسر آیاانہوں نے اپنے افکار عالیہ کی صورت میں نوجوان ذہنوں کی فکری آبیاری کرنے کی مقدور بھر کوشش کی۔اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے ایک بار نوجوانوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا تھا کہ”میں آپ کو مصروف ِ عمل ہونے کی تاکید کرتا ہوں، کام، کام اور بس کام، سکون کی خاطر، صبر و برداشت اور انکساری کے ساتھ اپنی قوم کی سچی خدمت کرتے جائیں“۔

قائد اعظم محمد علی جناح نفسِ انسانی کے اس رمز سے بخوبی آگاہ تھے کہ نوجوانانِ ملت کو ہر وقت کی فراغت یا غلط مشاغل کا انتخاب معاشرے کے لیئے مکمل طور پر عضو معطل بناسکتا ہے۔اس لیئے انہوں نے ہمیشہ نوجوانوں کو اچھے اور نتیجہ خیز مشاغل اختیار کرنے کی ترغیب دی تاکہ اُن کی صلاحیتیں درست خطوط پر پروان چڑھ سکیں۔ نتیجہ خیز مشاغل سے قائداعظم کی مراد یہ تھی کہ نوجوانوں کی اختیار کی گئی تمام غیر نصابی سرگرمیاں اس قسم کی ہوں جس سے اُنہیں اپنی تعلیمی صلاحیتوں کو جلا بخشنے میں مدد حاصل ہوسکے اسی اہم ترین نقطہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قائد اعظم نے ایک موقعے پر فرمایا:”آپ کو یاد ہوگا، میں نے اکثر اسی امر پر زور دیا ہے کہ دشمن آپ سے آئے دن ہنگاموں میں شرکت کی توقع رکھتا ہے۔ آپ کا اولین فرض علم کا حصول ہے جو آپ کی ذات، والدین اور پوری قوم کی جانب سے آپ پر عائد ہوتا ہے۔ آپ جب تک طالب علم رہیں اپنی توجہ صرف تعلیم کی طرف مرکوز رکھیں اگر آپ نے اپنا طالب علمی کا قیمتی وقت غیر تعلیمی سرگرمیوں میں ضایع کردیا تو یہ کھویا ہوا وقت کبھی لوٹ کر نہیں آئے گا“۔



اعلیٰ تعلیم کے ساتھ ساتھ قائداعظم نے نوجوانوں کی توجہ جس طرف سب سے زیادہ مبذول کروانے کی کوشش کی وہ اخلاقیات اور بلندترین کردار کا حصول ہے۔ایسی تعلیم جو آپ پر سیاہ و سفید،نیکی و بدی اور اچھے برے میں تمیز کرنے کی صلاحیت پیدا نہ کرسکے قائداعظم کے نزدیک جہالت سے بھی بدترہے۔جسے آپ اس ایک واقعہ سے بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ قیام پاکستان سے قبل انگریزوں نے ایک قانون بنایاتھا کہ جس کے پاس بھی سائیکلیں ہیں اس کے آگے لائیٹ لگائی جائے۔ ایک دفعہ قائداعظم کچھ نوجوانوں سے بات کر رہے تھے۔ آپ نے پوچھا کہ کون کون پاکستان میں شامل ہو گا سب نوجوانوں نے ہاتھ کھڑے کئے پھر آپ نے پوچھا کہ کس کس نوجوان کی سائیکل پر لائیٹ موجو د ہے۔ صرف ایک نوجوان نے ہاتھ کھڑا کیا۔ آپ نے فرمایا کہ صرف یہ پاکستان میں جا ئے گا، دیگرنوجوانوں نے جب اس ایک نوجوان پر قائد کی خصوصی التفات کی وجہ پوچھی تو آپ نے فرمایا جو قانون پر عمل نہیں کرتا اسے ہمارے ملک میں رہنے کا کوئی حق نہیں۔تاریخ کے اوراق میں اسی سے مماثل ایک اور واقعہ بھی ملتا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح اپنے ملک کے نوجوانوں کو کس قدر قانون کا پاسدار اور احترام کرنے والا دیکھنا چاہتے تھے۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ الہ آباد یونیورسٹی میں ہندو اور مسلمان طلبہ کے درمیان اس بات پر تنازع ہو گیا کہ یونیورسٹی میں کانگریس کا پرچم لہرایا جائے۔ مسلمان طلبہ کا کہنا تھا کہ کانگریس کا پرچم مسلمانوں کے جذبات کا عکاس نہیں اور چونکہ الہ آباد یورنیورسٹی میں مسلمان طلبہ کی اکثریت زیر تعلیم تھی، اس لیے یہ پرچم اصولاً وہاں نہیں لہرایا جا سکتا۔ ابھی یہ تنازع جاری تھا کہ اسی سال پنجاب یونیورسٹی کے مسلم طلبہ کی یونین نے سالانہ انتخابات میں اکثریت حاصل کر لی۔ یونین کے طلبہ کا ایک وفد قائد اعظمؒ کے پاس گیا اور درخواست کی کہ وہ پنجاب یورنیوسٹی ہال پر مسلم لیگ کا پرچم لہرانے کی رسم ادا کریں۔ قائد اعظمؒ نے انتخابات جیتنے پر طلبہ کو مبارک باد دی اور کہا ”اگر تمھیں اکثریت مل گئی ہے تو یہ خوشی کی بات ہے لیکن طاقت حاصل کرنے کے بعد اپنے غلبے کی نمائش کرنا نازیبا حرکت ہے۔ کوئی ایسی بات نہ کرو جس سے کسی کی دل آزاری ہو۔ ہمارا ظرف بڑا ہونا چاہیے۔ کیا یہ نامناسب بات نہیں کہ ہم خود وہی کام کریں جس پر دوسروں کو مطعون کرتے ہیں“۔

اس کے علاوہ قائد اعظم ؒ نوجوانوں سے یہ بھی توقع رکھتے تھے کہ وہ اپنی بات دلیل سے منوائیں ناکہ فضول بحت و مباحثہ یا طعن و تشنیع سے کیونکہ آپ خود بھی اپنی بات اس قدر ٹھوس دلائل سے پیش کرتے تھے کہ بڑے بڑے کج بحث منہ میں انگلیاں داب لیتے اور آپ کے سامنے لاجواب ہوجاتے۔ ایک بار قائد اعظم محمد علی جناح کالج کے طلباسے خطاب کررہے تھے کہ ایک ہندو لڑکے نے کھڑے ہوکر آپ سے کہا کہ آپ ہندوستان کا بٹوارہ کر کے ہمیں کیوں تقسیم کرنا چاہتے ہیں،آپ میں اور ہم میں کیا فرق ہے؟ہندو لڑکے کا سوال سُن قائد کچھ دیر کے لیئے خاموش ہوگئے تو وہاں بیٹھے طلبانے آپس میں چہ میگوئیاں کرنا شروع کردیں کچھ نے کہا کہ آپ کے پاس جواب نہیں جبکہ کئی طلباء کی دبی دبی ہنسی کی آواز بھی ہال میں گونجنے لگی۔قائد اعظم نے کچھ لمحے مزید توقف کرنے کے بعد ایک گلاس پانی کا منگوایا۔آپ نے تھوڑا سا پانی پیا اور گلاس میز پر رکھ دیا۔آپ نے ہا ل میں بیٹھے ایک ہندولڑکے کو بلایا اور اسے باقی بچا ہوا پانی پینے کو کہاتو ہندو لڑکے نے وہ پانی پینے سے انکار کردیا۔پھر آپ نے ایک مسلمان لڑکے کو بلایااور وہ بچا ہوا پانی اس مسلمان لڑکے کو دے دیاتو وہ فوراً قائداعظم کا جھوٹا پانی پی گیا۔آپ پھر سب طلبا سے مخاطب ہوئے اور فرمایا یہ فرق ہے آپ میں اور ہم میں۔ہر طرف سناٹا چھا گیاکیونکہ قائد نے صرف ایک دلیل سے سب کچھ سمجھادیا تھا۔

قائد اعظم ؒ وقت کی پابندی کا بھی بے حد خیال کرتے اور دلی خواہش رکھتے تھے کہ اُن کے ساتھ رہنے والے، خاص طور پر اُن سے محبت کا دم بھرنے والے بھی ہمیشہ وقت کی قدر و منزلت کریں۔وقت کے ناقدری قائدکو سخت گراں گزرتی تھی جس کی عکاسی اس واقعہ سے بخوبی ہوتی ہے کہ بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے وفات سے کچھ عرصے قبل اسٹیٹ بنک آف پاکستان کا افتتاح کیا، یہ وہ آخری سرکای تقریب تھی جس میں قائداعظم اپنی علالت کے باوجود نہ صرف شریک ہوئے بلکہ وہ وقت مقررہ پر تقریب میں تشریف بھی لائے۔ انہوں نے دیکھا کہ شرکاء کی اگلی قطار میں مخصوص کی گئی کئی نشستیں ابھی تک خالی ہیں انہوں نے تقریب کے منتظمین کو پروگرام شروع کرنے کا کہا اور یہ حکم بھی دیا کہ خالی نشستیں ہٹا دی جائیں، حکم کی تعمیل ہوئی اور بعد کے آنے والے شرکاء کو کھڑے ہو کر تقریب کا حال ملاحظہ کرناپڑا،دلچسپ بات یہ تھی کہ ان شرکائے محفل میں کئی دوسرے وزراء اور سرکاری افسران کے ساتھ اس وقت کے وزیرا عظم پاکستان خان لیاقت علی خان بھی شامل تھے، وہ سب بے حد شرمندہ تھے کہ ان کی ذراسی غلطی بھی قائد اعظم نے برداشت نہیں کی اور ایسی سزا دی جو کبھی بھی نہ بھولی جاسکے۔

مثل مشہور ہے کہ دل سے دل کو راہ ہوتی ہے ایسا ہی کچھ نوجوانوں اور قائد کے مابین بھی تھایعنی قائد اعظم محمد علی جناح کو نوجوان طلبا سے جتنی محبت تھی، اتنی ہی محبت نوجوان بھی قائداعظم سے کرتے تھے۔یہ نوجوانوں کی قائداعظم محمد علی جناح کے ساتھ بے پناہ محبت ہی تھی جس کی وجہ سے انہوں نے قائد اعظم کے ولولہ انگیز پیغام کو حرز جان بناتے ہوئے تحریک پاکستان میں سر دھڑ کی بازی لگاکر آزادی پاکستان کی تاریخ کو سیاہی کے بجائے اپنے خون سے رقم کیا۔تحریک پاکستان میں سب سے پہلے اپنی قیمتی جان کا نذرانہ پیش کرنیوالا بھی ایک نوجوان طالب علم محمد صدیق شہید ہی تھا۔ صرف یہ ہی نہیں بلکہ جنوری 1947کی تحریک سول نافرمانی میں بھی نوجوان طلبا نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اسے تحریک کو کامیاب بنانے کے لیئے قائد اعظم کی محبت میں سرشار ہزاروں نوجوانوں نے رضاکارانہ طور پر قیدو بند کی مشکلات کو تصور میں لائے بغیر احتجاج کرتے ہوئے گرفتار یاں دیں۔

برصغیر کے نوجوانوں نے انتہائی نامساعد حالات اور بے سروسامانی کے عالم میں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا پیغام گھر گھر پہنچایا۔ قائد اعظم نے بھی ہمیشہ تحریک پاکستان میں نوجوانوں کی بے لوث خدمات کا اعتراف بڑھ چڑھ کر کیا اس حوالے سے ایک بار انہوں نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:”نوجوان طلبا میرے قابل اعتماد کارکن ہیں۔ تحریک پاکستان میں انھوں نے ناقابل فراموش خدمات سرانجام دی ہیں۔ طلباء نے اپنے بے پناہ جوش اور ولولے سے قوم کی تقدیر بدل ڈالی ہے“۔قیام پاکستان کی پور ی تحریک کے دوران قائداعظم نے بہ ذات خود نوجوانوں کی لازوال ہمت،جوان مردی اور استقامت کا مشاہدہ کیا تھا اس لیئے وہ سمجھتے تھے نوجوان اگر ایک بار تہیہ کرلیں تو وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں اُن کی راہ میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں ہوسکتی۔نوجوانوں کا عزم مشکلات کی بڑی بڑی چٹانوں کو بھی پاش پاش کر کے رکھ سکتا ہے۔نواجوانوں کو اُن کی اسی خوابیدہ صلاحیت کی طرف متوجہ کرتے ہوئے قائد اعظم نے فرمایا:”نئی نسل کے نوجوانوں آپ میں سے اکثر ترقی کی منازل طے کرکے اقبال اور جناح بنیں گے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ قوم کا مستقبل آپ لوگوں کے ہاتھوں میں مضبوط رہے گا۔تعمیر پاکستان کی راہ میں مصائب اور مشکلات کو دیکھ کر نہ گھبرائیں۔ نومولود اور تازہ وارد اقوام کی تاریخ کے متعدد ابواب ایسی مثالوں سے بھرے پڑے ہیں کہ ایسی قوموں نے محض قوت ارادی، توانائی، عمل اور عظمت کردار سے کام لے کر خود کو بلند کیا۔ آپ خود بھی فولادی قوت ارادی کے مالک اور عزم وارادے کی دولت سے مالا مال ہیں“۔

قائداعظم نہیں چاہتے تھے کہ اُن کے ملک کے نوجوان تعصب کی بنیاد پر اپنی سیاست کو فروغ دیں یا کسی متعصب سیاسی رہنما کا آلہ کار بنیں۔ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح ؒ نے 15 جون1948ء کوئٹہ میں ایک تقریر کے دوران فرمایا تھا کہ:”ہر شخص کو اپنے گاؤں، قصبے اور شہر سے محبت ہونی چاہئے اور اس کی بہبود اور ترقی کے لئے محنت کرنی چاہئے،بڑی اچھی بات ہے، لیکن اس سے بھی زیادہ اچھی بات یہ ہے کہ ہر شخص کو اپنے ملک سے اپنے قصبے یا شہر کی نسبت زیادہ محبت ہونی چاہئے اور ملک کی خاطر نسبتاً زیادہ لگن اور زیادہ شدت سے محنت کرنی چاہئے۔ جب مَیں پاکستانیوں کے کسی گروہ یا جماعت کو صوبائی عصبیت کی لعنت میں لپٹا ہوا دیکھتا ہوں تو مجھے قدرتی طور پر دکھ ہوتا ہے۔پاکستان کو اس لعنت سے جلد از جلد نجات حاصل کر لینی چاہئے۔یہ اس پرانے نظم و نسق کی باقی ماندہ نشانی ہے، جب آپ حاکمانہ کنٹرول یعنی برطانوی کنٹرول سے تحفظ حاصل کرنے کے لئے صوبائی خود مختاری اور مقامی آزادی عمل کے کمزور اور عارضی ستونوں سے چمٹا کرتے تھے، لیکن اب آپ کی اپنی مرکزی حکومت ہے،با اختیار مرکزی حکومت۔اب بھی انھی فرسودہ اصطلاحوں میں سوچتے رہنا اور انہی کمزور سہاروں سے چمٹے رہنا بہت بڑی غلطی ہے، خاص طور پر ایسی صورت میں کہ آپ کی بالکل نئی اور نو زائیدہ مملکت زبردست اور بے شمار اندرونی و بیرونی مسائل میں گھری ہوئی ہے۔ایسے ہنگامی موقع پر مملکت کے وسیع تر مفاد کو صوبائی یا ذاتی مفاد کے تابع کرنے کا ایک ہی مطلب ہے۔۔۔خود کشی!“۔

اس کے علاوہ قائد اعظم محمد علی جناح کوجب بھی اور جہاں بھی موقع میسر آیا آپ نے ہمیشہ نوجوانوں کوزندگی گزارنے کے رہنما اُصول ذہن نشین کروانے کی سعی کی۔اُن کی دیرینہ خواہش تھی کہ اُن کے ملک کے نوجوان اپنی زندگی کے تمام فیصلے اپنی ذہانت سے کریں اور کسی بھی مذموم مقاصد رکھنے والے گروہ کے ہاتھوں استعمال ہونے سے اپنے آپ کو بچا کر رکھیں۔ایک بار قائد ؒنے ڈھاکہ میں منعقد ہونے والے نوجوان طلبا کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ”میرے نوجوان دوستو! میں آپ کو خبردار کرنا چاہتا ہوں کہ اگر آپ کسی سیاسی جماعت کے آلہ کار بنیں گے تو یہ آپ کی سب سے بڑی غلطی ہوگی۔ یاد رکھیے کہ اب ایک انقلابی تبدیلی رونما ہوچکی ہے۔ یہ ہماری اپنی حکومت ہے، ہم ایک آزاد اور خودمختار مملکت کے مالک ہیں۔ لہٰذا ہمیں آزاد اقوام کے افراد کی طرح اپنے معاملات کا انتظام کرنا چاہیے۔ اب ہم کسی بیرونی طاقت کے غلام نہیں ہیں، ہم نے غلامی کی بیڑیاں کاٹ ڈالی ہیں۔“قائد اعظم نے مزید فرمایا کہ”میرے نوجوان دوستو! اب میں آپ ہی کو پاکستان کا حقیقی معمار سمجھتا ہوں اور دیکھنا چاہتا ہوں کہ آپ اپنی باری آنے پر کیا کچھ کرکے دکھاتے ہیں۔ آپ اسی طرح رہیں کہ کوئی آپ کو گمراہ نہ کرسکے۔اگر آپ اپنی توانائیاں ضائع کردیں گے تو ہمیشہ کے لیے پچھتائیں گے۔ اپنی تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد ہی اپنے لیے اور اپنے ملک کے لیے مکمل آزادی اور پوری توجہ سے کام کر سکیں گے۔ اپنی صفوں میں مکمل اتحاد اور استحکام پیدا کریں اور ایک مثال قائم کریں کہ نوجوان کیا کچھ کرسکتے ہیں“۔قائداعظم محمد علی جناح کی اپنے ملک کے نوجوانوں کے ساتھ یہ فکری وابستگی اس بات کا بین ثبوت ہے کہ اُن کے نزدیک پاکستان کے روشن مستقبل کی زمام کار صرف اور صرف قابل اور باکردار نوجوانوں کے ہاتھ میں ہی ہے۔آج کے عالمی حالات کو پیش ِ نظر رکھتے ہوئے جبکہ پاکستان کی پوزیشن بہت نازک اور حساس ہے۔نیز دشمن ہمارے درمیان لسانی،علاقائی،صوبائی اور مذہبی تعصبات کی مدد سے نفاق پیدا کرکے ہمارے ملی اتحاد اور یک جہتی کو یکسر ختم کرنا چاہتا ہے ایسے حالات میں نوجوانوں اور طلباء پر خاص ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ عصری تقاضوں کو سمجھتے ہوئے اس مشکل اور نازک وقت میں اپنے محبوب قائد قائد اعظم محمد علی جناح کے افکار اور نظریات سے رہنمائی حاصل کرکے ملک دشمن قوتوں کے تمام ناپاک عزائم خاک میں ملادیں۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے روزنامہ جنگ کے سنڈے میگزین میں 23 دسمبر 2018 کے شمارہ میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں