Quarantine-facts-and-stories

قرنطینہ۔۔۔ منفرد حقائق، دلچسپ واقعات

اگر بنظرِ غائر جائزہ لیا جائے تو منکشف ہوتاہے کہ سیاحت، صنعت،زراعت،تعلیم،معاش،صحت سمیت دنیا میں کاروبارِ زندگی کا کوئی ایک بھی ایسا شعبہ باقی نہیں بچا ہے جو کورونا وائرس جیسی مہلک وباؤں کی دست برد سے محفوظ رہاہو۔ شاید اِسی لیئے مشہور ہے کہ وبائیں جب بھی آسمانِ کائنات سے ہمارے ارضی مسکن کے اُفق پر نمودار ہوتی ہیں تو رفتارِ زمانہ ایک طویل عرصہ تک مکمل طور پر تھم سی جاتی ہے۔ کیسے تھم جاتی ہے؟یہ تو اَب سمجھانے والی بات ہی نہیں رہی کیونکہ دنیا میں بسنے والے ہر انسان نے گزشتہ چند ماہ سے کورونا وائرس وبا کے باعث رُکی ہوئی دنیا کی رفتارِ ترقی اچانک تھم جانے کا خود اپنی آنکھوں سے بخوبی مشاہد کر ہی لیا ہے۔ لیکن حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ آسمانی وبائیں کتنی ہی ہلاکت خیز اور ہولناک کیوں نہ ہوں بہرحال انسان اُن کے انسداد کا کوئی نہ کوئی طریقہ باالآخر تلاش کرہی لیتے ہیں۔ عالمگیر وباسے نمٹنے کے لیئے ”قرنطینہ“ بھی انسانی تہذیب کی جانب سے دریافت کردہ ایسا ہی ایک تیر بہدف نسخہ ہے۔جس نے ہمیشہ وبائی امراض کی روک تھام میں اپنا اہم ترین کردار ادا کیاہے۔شاید یہ ہی وجہ ہے کہ آج کل کورونا وائر س کے بعد جو دوسرا لفظ سب سے زیادہ پڑھنے اور سننے کو مل رہا ہے۔وہ ”قرنطینہ“ ہی ہے۔بعض خوش عقیدہ لوگوں کا گمان ہے کہ یہ عربی زبان کا لفظ ہے جو انگریزی میں کورنٹائن ہوگیا ہے۔ تاہم ماہر لسانیات کے نزدیک قرنطینہ عربی سے تو قطعی نہیں آیابلکہ یہ اطالوی زبان کے لفظ quaranta giorni سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ہے چالیس دن۔ جبکہ میڈیسن نیٹ ویب سائٹ کے مطابق طبی سائنس کی اصطلاح میں قرنطینہ سے مراد ہے کہ”کسی متعدی یاوبائی بیماری کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے کسی کو کچھ وقت کے لیے الگ تھلگ رکھنا“۔ یاد رہے کہ یورپ کی بیشتر زبانوں میں یہی اطالوی لفظ تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ عام مستعمل ہے۔یعنی انگریزی زبان میں یہ اطالوی لفظ QUARANTINE ہوا، اور فرانسیسی میں QUARANTAINE، ہسپانوی میں QUARANTENA اور جرمنی میں QUARANTANE ہے۔اس کے علاوہ بھی یہ لفظ ہجے کے تھوڑے بہت اختلاف کے ساتھ دیگر غیر یورپی زبانوں میں بھی موجود ہے۔ عجیب بات ہے کہ اس لفظ کی جنم بھومی اٹلی ہے اور کورونا وائرس کے باعث اٹلی ہی دنیا کو وہ واحد ملک تھا جسے سب سے پہلے مکمل طور پر قرنطینہ کردیا گیا۔

یہ بھی پڑھیے: کورونا کو ہرانے کے لیئے مسکرانا ضروری ہے

نیز انسانوں کو قرنطینہ کرنے کا عمل انسانی تہذیب جتنا ہی قدیم ہے اور اس لفظ کا تذکرہ بائبل سمیت بعض دیگر مذہبی صحیفوں میں بھی تواتر سے آیا ہے۔ تاریخ اسلام میں بنی امیہ کے فرمانرواعبد الملک ابن مروان نے کوڑھ کی وبا کے دوران دمشق میں اوّلین قرنطینہ یا اِس سے ملتا جلتاایک مرکز بنوانے کا ذکربھی موجود ہے۔جس میں کوڑھ کے مرض میں مبتلا افراد کو دیگر صحت مندافراد سے الگ کرکے ایک مخصوص مدت کے لیئے قرنطینہ کردیا جاتاتھا۔جب کہ جدید دنیا میں قرنطینہ کا تصور سب سے پہلے 14ویں صدی کے وسط میں یورپ میں طاعون کی وبا،جسے بعد ازاں ”بلیک ڈیتھ“ کا نام دے دیا گیاکہ پھیلنے کے بعد بھرپور انداز میں سامنے آیا تھا۔جس کا آغاز1348 سے شروع ہوا اور جب یہ ہی طاعون کی وباء اٹلی میں پھیلنے لگی تو وہاں متاثرہ علاقوں سے آنے والوں مسافروں کو 40دن تک تنہائی میں رکھا جانے لگا،اس عمل کو ”quaranta giorni“کا نام دیا گیا۔ اس دوران جو تجارتی جہاز وینس شہر کی بندرگاہ پر داخل ہوتے ان پر موجود تاجر اور عملے کے لیے لازم تھا کہ وہ چالیس دن جہاز میں ہی رکے رہیں گے۔ وینس شہر کی انتظامیہ نے اُس دوران اپنے ساحل سے دور ایک جزیرے پر باقاعدہ قرنطینہ مرکز بھی تعمیر کروایا تھا، جہاں طاعون سے متاثرہ بحری جہازوں سے آنے والے مسافروں کو یا تو صحت بہتر کرنے کے لئے یا طاعون کے مرض میں مبتلا افراد کو شہری آبادی سے دور رکھنے کے لیے منتقل کردیا جاتاتھا۔دوسری جانب1855 میں جب طاعون کی وباچین اور برصغیر میں پھوٹ پڑی تو برطانوی فوج نے برصغیر پاک وہند میں پہلی بار باقاعدہ قرنطینہ، آئی سولیشن سنٹر، نقل و حرکت پر پابندی اور جبری حفظان صحت جیسے بنیادی قوانین کا نفاذ عمل میں آیا۔جس پر ابتداء میں تو یہاں کی عوام کی جانب سے شدید ردعمل دیکھنے میں آیا لیکن بعدازاں وہی طبی اُصول وضوابط اِس خطے میں جدید نظام صحت کے قیام کی بنیاد بھی قرار پائے۔

قرنطینہ کا پرچم
جی ہاں!”کورنٹائن فلیگ“ یاقرنطینہ کا ایک عدد جھنڈا بھی ہوتاہے،جسے عموماً یلو جیک یا ”لیما“ بھی کہا جاتاہے۔قرنطینہ پرچم کا اوّلین استعمال اٹھارویں صدی میں طاعون کی عالمگیر وبا کے دوران کیا گیا تھا۔ اُس زمانے میں یورپ کی کسی بندرگاہ میں جب طاعون سے متاثرہ علاقوں سے کوئی بحری جہاز آتا تھا تو علامتی طورپر قرنطینہ کا پرچم لہرا دیاجاتا تھا اور اُسے ”لیما“ یعنی زرد رنگ کا جھنڈے کے نام سے پکارا جاتاتھا۔قرنطینہ پرچم میں چار عددمربع نما اشکال ہوتی ہیں،اُوپر کی جانب ایک سیاہ اور زرد مربع ہوتاہے جبکہ نیچے کی طرف ایک زرد اور سیاہ مربع کی شکل بنی ہوتی ہے۔ قرنطینہ پرچم لہرانے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ دیکھنے والوں کو دُور سے ہی اندازہ ہوجائے کہ یہ متعلقہ جگہ یا بحری جہاز وغیرہ وبائی مرض سے متاثر ہونے کی بنا پر قرنطینہ کی حالت میں ہے۔لہٰذا اس کے قریب آنے سے قبل تما م ضروری احتیاطی تدابیر کو بروئے کار لایا جائے۔گو کہ جدید سائنسی ترقی نے وبائی مقام سے متعلق خبردار کرنے کے لیئے قرنطینہ پرچم کے متبادل بے شمار دیگر سہولیات بھی متعارف کروادی ہیں۔ لیکن اِس کے باوجود ابھی تک عالمی ادارہ صحت کے مطابق قرنطینہ پرچم کا ہر ملک اپنی سہولت اور ضرورت کے مطابق استعمال کر سکتا ہے۔ خاص طور پر کورونا وائرس نے جس طرح بحری جنگی بیڑوں اور مسافر جہازوں کا متاثر کیا ہے۔اُس کے بعد بحری تنصیبات اور ساحلی بندرگاہوں پر قرنطینہ پرچم کا استعمال ایک بار پھر سے شروع کردیا گیا ہے اور دنیا کے کئی ممالک کی بندرگاہ پر کھڑے بحری جہازوں پر اِس وقت قرنطینہ پرچم لہرارہے ہیں۔ یاد رہے وبا کے ختم ہونے کی صورت میں قرنطینہ پرچم سے سیاہ مربع کی علامت کو ختم کرکے مکمل زرد رنگ کے پرچم میں تبدیل کر دیا جاتاہے، جو اِس بات کی جانب اشارہ ہوتاہے کہ اَب یہ علاقہ یا عمارت قرنطینہ نہیں رہی ہے اور یہاں وبائی مرض کا شکار کوئی فرد موجود نہیں ہے۔

اپالو 11 مشن کے خلانوردہوئے قرنطینہ
ہمارے اکثر قارئین کو معلوم ہی ہوگا کہ اپالو 11 ناسا کا وہ مشہور و معروف اور تاریخ ساز خلائی مشن تھا،جس نے انسان کے قدم کی چاپ چاند تک پہنچنے میں مدد فراہم کی تھی۔ 16 جولائی 1969 میں خلاباز نیل آرمسٹرانگ، بز آلڈرِن اور مائیکل کولنز کو سیٹرن فائیو راکٹ کے اوپر اپالو خلائی جہاز میں بٹھا کر صرف 11 منٹ کے اندر مدار میں پہنچا دیا گیا تھا اور یوں ٹھیک چار دن بعد نیل آرمسٹرانگ اور بز آلڈرن چاند کی سطح پر قدم رکھنے والے پہلے انسان بن گئے۔ مگر شاید آپ یہ نہ جانتے ہوں کہ چاند سے واپسی کے بعد اِن تینوں خلانوردوں کو ناسا نے قرنطینہ ہونے پر مجبور کردیا تھا۔ کیونکہ اپالو 11 کے چاند پر جانے سے پہلے ناسا کے سائنس دانوں کو قطعی اندازہ نہیں تھا کہ چاند کی سرزمین پر پائے جانے والے جراثیم انسانوں پر کس قسم کے اثرات مرتب کرنے کا باعث بن سکتے ہیں۔لہٰذا چاند پر پائے جانے والے متوقع ضرررساں جراثیم یا وائرسز سے زمین کو محفوظ و مامون بنانے کے لیئے چاند سے واپس آنے والااپالو 11 کا کیپسول جب 24 جولائی 1969 کو بحیرہ اوقیانوس میں گرا تو کیپسول میں موجود تینوں خلانوردوں کو بحفاظت لینے کے لیئے امریکی فوج نے اپنا خصوصی بحری بیڑہ ”یو ایس ایس ہارنیٹ“روانہ کیا۔ جس میں امریکی بحریہ کے اہلکاروں نے وائرس سے بچاؤ کے لیئے خاص حفاظتی لباس زیب تن کیئے ہوئے تھے۔ ان اہلکاروں نے تینوں خلانوردوں کو اپالو 11 کے کیپسول سے بحفاظت نکالنے کے بعد فوری طور پر لونر ریسوینگ لیبارٹری پہنچا دیا،جہاں خلانوردوں کو تین ہفتوں کے لیئے مکمل طور پر قرنطینہ کردیا گیا تاکہ چاند کی سطح پر پائے جانے والے مہلک وائرسز زمین پر موجود دیگر انسانوں تک منتقل نہ ہوسکیں۔

قرنطینہ اور ہمارے تخلیق کار
ٍ 1665 میں جب طاعون کی وبا نے انگلستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تو اِس وبائی مرض کے باعث لندن میں واقع کیمبرج یونیورسٹی بند کردی گئی اور وہ طالب علم جو اِس عظیم درس گاہ میں زیرتعلیم تھے وہ تمام اپنے اپنے آبائی شہروں کی طرف لوٹنے پر مجبور ہو گئے۔کیمبرج یونیورسٹی کے ان نوجوان طالب علموں میں آئزک نیوٹن نامی ایک ہونہار طالب علم بھی شامل تھا۔ جو اس وبا سے بچنے کے لیے لندن کے شمال مشرق میں 60 میل دور واقع اپنے آبائی گاؤں ولز تھروپ چلا گیااور خود کو مکمل طورپر قرنطینہ کرلیا۔آئزک نیوٹن کے لیئے یہ ایک انتہائی مشکل اور طویل ترین دور ِ تنہائی تھا جو کم و بیش دوسال تک جاری رہا۔ اِس دوران آئزک نیوٹن نے اپنی ساری توجہ طبیعات اور ریاضی کی گتھیاں سلجھانے کی نذر کردیں۔ ایک دن نیوٹن اپنے گھر کے باغ میں سیب کے درخت کے نیچے بیٹھا طبیعات کے اُصولوں کے متعلق غور و فکر میں مصروف تھا کہ اچانک ایک سیب درخت سے ٹوٹ کر اُس کے سر پر آن گرا۔جس کے بعد ہی اُس کے ذہن میں یہ تجسس پیدا ہوا کہ آخر کائنات کی کونسی قوت نے سیب کو زمین کی جانب گرنے پر مجبور کیاہے۔ چند روز کی دماغ سوزی کے بعد باالآخر سر آئزک نیوٹن نے سیب گرانے والی اُس غیبی قوت کو قوانین ِ کشش ِ ثقل کی صورت میں دریافت کرلیا۔آج کی جدید ترین سیٹیلائٹ ٹیکنالوجی بھی اُن ہی قوانین کی مرہونِ منت ہے جو نیوٹن نے اپنے دوسالہ قرنطینہ کے دور میں دریافت کیئے تھے۔واضح رہے کہ آئزک نیوٹن نے طاعون کی وبا سے بچنے کے لیئے خود کو اٹھارہ ماہ تک قرنطینہ کیئے رکھا اور جب وہ 1667 میں واپس کیمبرج یونیورسٹی لوٹا تو اُس کے ہاتھ میں اپنے دریافت کردہ کئی سائنسی نظریات کا پلندہ تھا،جسے کی بنیاد پر آئزک نیوٹن کو صرف چھ ماہ کی مدت میں یونیورسٹی کی فیلو شپ دے دی گئی،جبکہ اگلے دو سال میں وہ پروفیسر کے منصب پر فائز ہوچکا تھا۔اپنے قارئین کی دلچسپی کے لیئے بتاتے چلیں کہ ولیم شیکشپئر نے بھی اپنے دو معروف ڈرامے کنگ لیئر اور میک بتھ1606 میں قرنطینہ کے دوران ہی تصنیف کیئے تھے۔ جبکہ 1816 میں جب یورپ ہیضہ کی وبا سے متاثر ہوا تھا تو 19 سالہ مصنفہ میری شیلے نے معروف سائنس فکشن ناول فرنکستان کا مسودہ لکھ ڈالا تھا۔یاد رہے کہ اِس ناول کو دنیا کا سب سے مقبول ترین سائنس فکشن ناول ہونے کا اعزاز حاصل ہے جس پراَب تک سیکڑوں ڈرامے اور فلمیں بھی بن چکی ہیں۔ اس لیئے کہا جاسکتاہے کہ جس طرح ماضی میں قرنطینہ کے دوران ہماری دنیا کو زبردست سائنس دان،ادیب اور شاعر ملے تھے،ہو سکتا ہے کہ بالکل ویسے ہی آج کے دورِ قرنطینہ سے بھی کل نہ جانے کتنے ہی گہرنایاب قسم کی شخصیات اُبھر کر سامنے آجائیں۔

طویل ترین قرنطینہ
کورونا وائر س کی اگر کسی فرد میں تشخیص ہوجائے تو عموماً اُسے 15 سے 21 روز کے لیئے قرنطینہ کردیا جاتاہے۔بظاہر”خود ساختہ تنہائی“ کی یہ مدت اتنی زیادہ طویل تو ہرگز نہیں ہے کہ پریشان ہوا جائے لیکن اِس کے باوجود دنیا میں بے شمار لوگ اتنے عرصہ کے لیئے بھی خود قرنطینہ کرنا نہیں چاہتے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اَب تک ذرائع ابلاغ میں تواتر کے ساتھ بے شمار ایسے واقعات رپورٹ ہوچکے ہیں کہ جب کسی شخص میں کورونا وائرس کی تشخیص کے بعد اُسے قرنطینہ ہونے کا کہا گیا تو اُس نے قرنطینہ ہونے کے خوف کا شکارہوکر خودکشی کرلی۔ مگر دوسری جانب تاریخ میں ایک مثال بھی ایسی بھی ملتی ہے جب ایک دھان پان سی خاتون نے ایک دو نہیں بلکہ کم و بیش تیس سال کا عرصہ قرنطینہ میں گزارا۔ اِس خاتون کا نام میری میلن تھا مگر اُنہیں ”ٹائیفائیڈ میری“کے نام سے عالمگیر شہرت حاصل ہوئی۔ میری میلن آئرلینڈ کی کاونٹی ٹائرون کے قصبے ککس ٹاؤن میں 1869 میں پیدا ہوئیں لیکن نوعمری ہی میں انہوں نے بہتر زندگی کی تلاش میں ہجرت اختیار کی اور نیویارک منتقل ہو گئیں اور شہر کے متمول گھرانوں میں باورچن کا کام کرنا شروع کردیا۔میری نے1900 سے لے کر 1907کے درمیان سات مختلف گھروں میں کام کیا۔عجیب با ت یہ ہوئی اِن تمام گھروں میں لوگ بیمار پڑے اور مر گئے۔ لیکن ہر مرتبہ وہ وہاں سے نکل کر دوسری جگہوں میں ملازمت کے حصول میں کامیاب ہو گئی۔ایک گھرانے کے سربراہ جارج سوپر نے آخر کار سراغ لگا ہی لیا کہ یہ خاتون ٹائیفائیڈ پھیلانے کا باعث بن رہی ہے۔ حالانکہ کہ وہ خود کبھی ٹائیفائیڈ کا شکار نہیں ہوئی تھیں۔ لیکن اس کے باوجود بھی مسٹر سوپر کو پختہ یقین تھا کہ وہ ٹائیفائڈ کے بخار کے جراثیم منتقل کر رہی ہے لیکن اِس خاتون میں خود اس مرض کے خلاف مدافعت موجود ہے۔یوں نیویارک کے حکام نے شہر سے باہر نارتھ برادر آئس لینڈ پر میری کو قرنطینہ کر دیا۔کچھ عرصہ بعد میری میلن کو اس شرط پر رہائی مل گئی کہ وہ کبھی باورچن کا کام نہیں کریں گی۔لیکن وہ زیادہ عرصہ تک اپنی عہد پر قائم نہ رہ سکی اور اُس نے نام بدل کر ایک بار پھر سے باورچن کا کام کرنا شروع کردیا۔ لیکن نیویارک کے حکام نے ایک مرتبہ پھر اُسے ڈھونڈ نکالا اور دوبارہ سے قرنطینہ کردیا گیا۔جس کے بعد میری ٹائیفائیڈ اپنی موت تک یعنی کم و بیش 30 سال تک قرنطینہ رہیں۔

مزید پڑھیں: کورونا وائرس سے سہمی دنیا۔۔۔ تصویروں کے آئینے میں

قرنطینہ جزیرہ
ہماری خوب صورت زمین بے شمار جزیروں سے بھری ہوئی ہے،جن میں کچھ دریافت شدہ جزیرے ایسے دلکش وحسین فطری مناظر رکھتے ہیں کہ جن کی سیاحت کرنا ہرکسی کے لیئے ایک دلچسپ تجربہ ثابت ہوسکتاہے کہ جبکہ چند جزیرے جنگلی و قدرتی حیات کے تحفظ کے لیئے عام سیاحت کے لیئے ممنوع ہیں لیکن یہاں مطالعاتی اداروں سے وابستہ افراد جب چاہیں آجا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ اَن گنت جزیرے ایسے بھی ہیں جو مکمل طور پر ”نو گو ایریاز“ کی فہرست میں شمار ہوتے ہیں۔ایسا ہی ایک منفرد جزیرہ گرونارڈ بھی ہے جو سکاٹ لینڈ میں واقع ہے۔ اِس جزیرہ کو دنیا کا اوّلین ”قرنطینہ“ ہونے کا اعزاز بھی حاصل رہاہے۔ لیکن اِس کی وجہ گرونارڈ جزیرے پر کسی جان لیوا وبائی مرض کا پھوٹ پڑنا نہیں تھا بلکہ1942میں برطانوی افواج کی جانب سے کیمیائی ہتھیار بنانے کے لیئے کیے جانے والے مختلف سائنسی تجربات رہے ہیں۔مشہورہے کہ برطانیہ نے اِس جزیرے میں جنگ عظیم دوئم کے بعد جنگی قیدیوں پر خفیہ طریقے سے حیاتیاتی ہتھیاروں کے تجربات کا آغاز کیا تھا۔ کیونکہ برطانیہ اور اُس کے اتحادیوں کو خطرہ تھا کہ کہیں جرمن نازی اُن کی افواج پر کیمیائی ہتھیار وں سے حملہ نہ کردیں۔ یعنی جرمن نازی افواج کے ممکنہ کیمیائی حملہ کے جواب میں کاروائی کرنے کے لیئے برطانوی افواج نے یہاں اینتھریکس کے جراثیم سے کیمیائی ہتھیار بنانے کی کوششیں شروع کردیں۔جس کی وجہ سے اِس جزیرہ میں اگلی نصف صدی تک”قرنطینہ کا پرچم“ لہراتارہا تھا اور 1990 میں اس جزیرے کو ڈی سینیٹائز کر کے جراثیم اور وائرس سے پاک قرار دیا گیا۔مگراِس کے باوجود اَب بھی اِس جزیرہ پر آنے والے ہرشخص کے لیئے وائرس سے بچاؤ کا خصوصی لباس پہننا لازمی ہے۔کیونکہ آج بھی لوگوں کے ذہنوں میں گرونارڈ جزیرہ کی”قرنطینہ“حیثیت بدستور برقرار ہے۔ یاد رہے کہ اِس جزیرہ کو دنیا بھر میں موت کا جزیرہ اور اینتھریکس آئس لینڈ کے نام سے بھی پکارا جاتاہے۔

حوالہ: یہ خصوصی مضمون سب سے پہلے روزنامہ جنگ کے سنڈے میگزین میں 16 اگست 2020 کی شمارہ میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں