قطر اور سعودی عرب کے درمیان اچانک پیدا ہونے والے بحران نے پاکستان کو بھی اپنی لپیٹ میں لینا شروع کردیا ہے اس کی پہلی مثال گوادر،نواب شاہ ایل این جی ٹرمینل جیسے عظیم منصوبے کی منسوخی کی شکل میں سامنے آیا ہے۔حکومت پاکستان کی طرف سے گوادر،نواب شاہ ایل این جی ٹرمینل کا منصوبہ پاک ایران گیس لائن منصوبہ کے متبادل کے طور پر شروع کرنے کا اعلان کیا گیاتھا۔حالانکہ اس منصوبہ کے خاتمہ کے لیئے کئی ماہ سے پاکستانی حکام پر عالمی طاقتوں کی طرف سے سخت دباؤ تھا کیونکہ عالمی طاقتوں کو خدشہ تھا کہ گوادر، نواب شاہ این ایل جی ٹرمینل منصوبہ مستقبل میں بالآخر پاک،ایران گیس لائن منصوبہ میں بدل جائے گا اور اس منصوبہ کے مکمل ہونے کے بعد یہ ممکن نہیں رہے گا کہ پھر پاکستان کو اس منصوبہ کو ختم کرنے کا کہا جائے۔اس لیئے تین چار ماہ سے اس منصوبہ کو یکسر ترک کرنے کے حوالے سے امریکہ اوربھارت کی طرف سے سعودی عرب اور دیگر مختلف خلیجی ممالک کے ذریعے سے سخت دباؤ ڈالا جارہا تھا مگر پاکستان اپنی توانائی کی بڑھتی ہوئی ضروریات،ایران اور چین کی اس منصوبہ میں دلچسپی کی وجہ سے اس دباؤ کو نظر انداز کر رہا تھا۔لیکن حالیہ خلیجی بحران کے بعد سعودی حکومت کی طرف سے جس طرح میاں براداران کو پیغامات پہنچائے گئے ہیں اُن کے سامنے میاں برادران کے لیئے کھڑا رہنا شاید ممکن نہیں رہا اور فی الحال وفاقی حکومت نے یہ ہی بہتر سمجھا کہ سعودی عرب کے اپنی وفاداری کا یقین دلانے کے لیئے کوئی تو مثبت پیغام اپنی طرف سے بھی بھیجا جائے،اس لیئے فوری طور پر گوادر،نواب شاہ ایل این جی ٹرمینل منصوبہ ترک کر کے اپنے محسنوں کی یہ باور کرایا گیا ہے کہ فی الحال ہماری اس خدمت کو قبول کیا جائے باقی بڑے فیصلے کرنے کے لیئے ہمیں ابھی کچھ وقت چاہیئے ہوگا۔حالانکہ اس منصوبہ کے ترک کی خبریں میڈیا میں آنے کے بعد وفاقی وزیر پیٹرولیم شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ”سرِ دست اس منصوبہ کو ترک کرنے کا ہمارا کوئی ارادہ نہیں،فی الحال پرائیویٹ سیکٹر میں اس منصوبہ کا ایک متبادل منصوبہ شروع کر رہے ہیں اگر وہ کامیاب ہو گیا تو پھر اس منصوبہ کو ترک کر دیا جائے گا اور یہ اقدام ہم کسی کے دباؤ میں آکر نہیں کر رہے“۔محترم وفاقی وزیر صاحب نہ چاہتے ہوئے بھی اپنے بیان میں بہت کچھ کہہ گئے سمجھنے والے سمجھ سکتے ہیں کہ بین السطوراُن کے بیان میں کیا مطلب پنہاں ہے۔
مذکورہ گوادر، نواب شاہ ایل این جی منصوبہ جو 1.6 ملین ڈالر مالیت پر مشتمل ہے۔جس کی منظوری اکتوبر 2016 ء میں ایکنک نے دی تھی،یہ منصوبہ چین پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے کے راستے پر ہی واقع ہے اس لیئے چین کے ساتھ مل کر ہی اس منصوبہ کو مکمل کیا جانا تھااس منصوبہ کا پہلا مرحلہ دسمبر 2017 ء تک مکمل ہونے کی توقع تھی جس کے تحت 600 ایم ایم سی ایف ڈی گیس گوادر سے نواب شاہ تک فراہم کی جانی تھی اور پھر دوسرے مرحلے میں اسے کراچی سے لاہور تک توسیع دی جانی تھی جسے نارتھ ساؤتھ گیس پائپ لائن منصوبہ کا نام دیا گیا تھا۔دوسرے مرحلے میں گیس کی سپلائی کی صلاحیت 12 بی سی ایف تک پہنچ جانی تھی اور چین نے اُمید دلائی تھی کہ چائنیز ایکسپورٹ امپورٹ بینک(Exim Bank) اس منصوبہ کے لیئے پچاسی فیصد فنانسنگ گورنمنٹ ٹو گورنمٹ پالیسی کے تحت فراہم کرے گا۔اس منصوبہ کو 2018 ء تک مکمل ہو جا نا تھا۔اس منصوبہ کی کامیاب تکمیل سے جہاں پاکستان میں توانائی کے بحران کے خاتمہ میں خاطر خواہ مدد ملتی، وہیں یہ منصوبہ اندرون سندھ کے تابناک مستقبل کے لیئے بھی مضبوط بنیاد فراہم کرتا۔اگر یہ منصوبہ اپنے وقت ِ مقررہ پر مکمل ہو جا تا تو سندھ کے لوگوں کے لیئے ترقی کے نئے مواقع فراہم کرتا اس منصوبہ کے ترک کی خبر سن کر سندھ کے عوام میں بالعموم اور نواب شاہ کی عوام میں بالخصوص مایوسی پھیل گئی ہے۔اندرون سندھ میں شروع ہونے والا یہ واحد بین الاقوامی منصوبہ تھاجو سندھ میں صدیوں سے چھائے معاشی بدحالی کے اندھیروں کو ختم کرسکتا تھا۔مگر پاکستانی حکومت نے حیرت انگیز طور پر گوادر، نواب شاہ ٹرمینل منصوبہ تقریباً ترک کردیا ہے یہ فیصلہ نہ صرف ایران کو بلکہ چین کو بھی ناراض کر سکتا ہے۔ہمارے حکمرانوں کو سوچنا چاہئے کہ کسی ملک کی طرف سے کئے گئے انفرادی احسانوں کے اُتارنے کا یہ کوئی احسن طریقہ نہیں ہے کہ ملک کے اجتماعی مفادِ عامہ کے منصوبہ جات کو ایک فون کال آنے پر ترک کرنے کا فیصلہ کر لیا جائے اور ایک لمحہ کے لیئے بھی یہ نہ سوچا جائے کہ اس سے ہمارے کتنے دوست ممالک کے ساتھ تعلقات داؤ پر لگ سکتے ہیں۔ایک بات تو طے ہے کہ مذکورہ منصوبہ ترک کرنے کا فیصلہ بہر صورت ایران کوتو یقینا ناگوار گزرے گا جس کے نتیجے میں اس بات کا قوی امکان اور خطرہ ہے کہ ایران پاکستان پر جرمانے کی مد میں ایک ملین ڈالر یومیہ کا جرمانہ بھی لگا سکتا ہے۔ دوسری طرف چین جو مذکورہ منصوبہ کو پاکستان کی مستقبل کی توانائی کی ضروریات کے لیئے ناگزیر سمجھتے ہوئے ہر طرح سے مدد کر رہا تھا ہمارے چین کے تعلقات کے لیئے بھی ایک دھچکہ ثابت ہو سکتا ہے۔
ہمارے حکومتی پالیسی ساز اداروں کو چاہیئے کہ پاکستان کے وسیع ترمفادات میں اس فیصلے پر از سرِ نو نظر ثانی کریں اور اندرون سندھ کو اس منصوبے کے ذریعے سے حاصل ہونے والے بیش بہا فوائدکویہاں کی عوام کے لیئے ایک نعمت غیر متبرکہ سمجھتے ہوئے فی الفور اسے اپنی پرانی حیثیت میں بحال کر کے اپنے وقتِ مقررہ پر مکمل کیا جائے تاکہ گوادر،نواب شاہ ایل این جی ٹرمینل منصوبہ کے ذریعے سے ملک بھر میں تعمیر و ترقی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوسکے۔
حوالہ: یہ مضمون سب سےپہلے ہفت روزہ ندائے ملت لاہور میں 09 جون 2017 کے شمارہ میں شائع ہوا۔
- آزادی اظہار رائے کی آڑ میں -جون30, 2023
- عید قرباں کی حقیقی روح -جون27, 2023
- بلدیہ عظمی کراچی کا قلعہ پیپلزپارٹی نے کیسے فتح کیا؟ -جون19, 2023