تبدیلی کی حکومت اچھی ہے بلکہ بہت ہی اچھی ہے مگر اتنی بھی اچھی نہیں ہے کہ اس کی آڑ میں وزیراعظم کی اقتصادی کچن کیبنٹ میں ایک قادیانی مشیر کو قبول کرلیا جائے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے ملک کے معاشی حالات انتہائی دگرگوں ہیں اور ہمیں اپنی معاشی پالیسوں پر نظر ثانی کرکے ملکی خزانہ کو ایک بار پھر ڈالروں سے بھرنا ہے مگر اس قیمت کی ادائی پر نہیں بھر نا کہ ایک قادیانی مشیر کو ملکی خزانہ کا دربان بنادیاجائے۔ بلا شبہ ہمیں اپنے ملک کو معاشی طور پر ایک سپر پاور بنانے کے لیئے دنیا کے قابل ترین معاشی ماہرین کی ایک ٹیم کی اشد ضرورت ہے لیکن اتنی بھی ضرورت نہیں ہے کہ ذہانت کے دھوکہ میں آکر کسی عالی دماغ قادیانی مشیر کو قبول کرلیا جائے۔ہمیں اپنے ملک میں اقلیتوں کی جان،مال،عزت و آبرو سب کا تحفظ کرنا ہے اور اُنہیں اپنے شانہ بہ شانہ رکھ کر اُنہیں تحفظ کا احساس دلاناہے لیکن اقلیت کو ایسا احساسِ تحفظ بھی نہیں دلانا کہ ملک کی اکثریت ہی عدم تحفظ کا شکار ہوجائے اور اقلیت کی چھتری تلے ایک قادیانی مشیر کو قبول کرلیا جائے۔اس سے تو لاکھ درجے بہتر یہ ہوگا کہ ایک عیسائی،ایک ہندواور ایک سکھ ماہرِ معیشت کو وزیراعظم پاکستان کا مشیر مقرر کر دیا جائے تاکہ اقلیت کے ہر طبقہ میں ہماری اقلیت نواز ایکتا کا پیغام پہنچ جائے۔ محترم فواد چوہدری صاحب ہمیں آپ کی باتیں بہت اچھی لگتی ہیں اور ہمیں یہ تسلیم کرنے میں بھی کوئی عار نہیں کہ آپ سے اچھی وزارتِ اطلاعات کم از کم تحریک انصاف میں تو کوئی اور دوسرا نہیں چلا سکتا لیکن خدار میاں عاطف کے مشیر بننے پر تنقید کرنے والوں کو یہ تو نہ بتائیں کہ قائداعظم محمد جناح نے بھی ایک قادیانی سر ظفر اللہ خان کو پاکستان کا وزیرخارجہ مقرر کیا تھا،یہ بات توہم سب پہلے ہی سے جانتے ہیں لیکن کیا آپ یہ جانتے ہیں کہ سر ظفر اللہ خان نے قائداعظم کے اس احسان کے جواب میں قائداعظم کی نمازِ جنازہ پڑھنے سے بھی انکار کر دیا تھا اور جب اُن سے قائداعظم کی نماز جنازہ نہ پڑھنے کی وجہ دریافت کی گئی تو اُن کا کہنا تھا کہ ”یوں سمجھئے کہ میں ایک مسلم ریاست کا غیر مسلم وزیرِ خارجہ ہوں یا ایک غیر مسلم ریاست کا مسلم وزیر خارجہ“۔اس جواب سے تو یہ تو بالکل صاف ہو جاتا چاہیئے کہ قادیانی ہم پاکستانیوں کو کیا سمجھتے ہیں۔جبکہ تحریک انصاف کے رہنماؤں کے لیئے یہ بات جاننا بھی از حد ضروری ہے کہ میاں عاطف صرف ایک قادیانی ہی نہیں ہے بلکہ وہ ایک مرتد قادیانی ہے۔ اس بات کا انکشاف خود میاں عاطف نے مجلس خدام احمدیہ امریکہ کے تحت شائع کی گئی کتاب ”بائی دی ڈانز ارلی گلوری لائٹ“ میں کیا ہے۔ اس میں میاں عاطف نے اپنے والدین کی ناراضگی کا ذکر کرنے کے علاوہ اسلام کے خلاف دشنام طرازی بھی کی ہے۔ اس کتاب میں ان امریکیوں کی کہانیاں بھی شائع کی گئیں جو ارتداد یعنی مرتد ہونے کے بعد قادیانی بنے یا جنہوں نے دوسرے مذاہب چھوڑ کر قادیانیت قبول کی۔ میاں عاطف کی اپنی کتاب کے مطابق”میاں عاطف 1974 میں نائیجیریا میں پیدا ہوا اور پرورش پاکستان میں ہوئی۔ 3بہنوں کے بعد والدین کی پہلی نرینہ اولاد کی وجہ سے اُسے خوب لاڈ پیار ملا۔اُس نے والدین کے ایما پر امریکی تعلیمی اداروں میں داخلے کی درخواستیں بھیجیں۔میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں اسے داخلہ مل گیا اور یوں وہ 1993 میں امریکہ پہنچ گیا۔ جہاں میاں عاطف کو اپنے اسکول کے پرانے دنوں کا ایک دوست حامد شیخ مل گیا۔میاں عاطف اسے 8برس سے جانتا تھا لیکن یہ علم نہیں تھا کہ وہ ایک قادیانی ہے، حامد شیخ نے ہی میاں عاطف کو قادیانیت کی جانب راغب کیا۔حامد شیخ کی فراہم کردہ کتب اور بتائے گئے ویب ایڈریسز سے ہی میاں عاطف کو قادیانیت کو سمجھنے میں مدد ملی۔ میاں عاطف نے2001 میں شکاگو یونیورسٹی میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر پہلی نوکری کا آغاز کیا۔بوسٹن میں قیام کے دوران اُس نے مسلم علما کے پیچھے نماز پڑھنے سے بچنے کیلئے مساجد جانا چھوڑ دیا۔ قادیانی عبادت گاہ دور تھی اور کار نہ ہونے کی وجہ سے وہ وہاں نہ جاسکتا تھا۔ شکاگو میں قیام کے دوران کار ملنے کے بعد اُسے قادیانی عبادت گاہ تک آسان رسائی مل گئی جہاں اُس نے جمعہ کے جمعہ جانا شروع کر دیا۔میاں عاطف نے 2002 میں قادیانیت کا فارم بھر دیا اور اُس وقت سے لے کر وہ آج تک مجلس خدام احمدیہ کا انتہائی متحرک کارکن ہی نہیں بلکہ اہم ترین رہنما بھی ہے اور سب سے زیادہ خطرناک بات تو یہ ہے کہ میاں عاطف قادیانیوں کے حالیہ خلیفہ یا سربراہ مرزا مسرور احمد کا مالیاتی مشیر بھی ہے یعنی قادیانیوں کا مشیر خزانہ بھی یہ ہی موصوف ہیں۔کیا ایسے شخص کے ہاتھ میں پاکستان کی معاشی پالیساں ترتیب و تنظیم کی ذمہ داری دینا خطرناک نہیں ہے۔وزیراعظم عمران خان صاحب ہمیں حسنِ ظن ہے کہ آپ نے میاں عاطف کو مشیر بنانے کا فیصلہ جان بوجھ کر یا کسی غیر ملکی طاقت کے دباؤ میں آکر نہیں کیا بلکہ غلطی سے کیا ہے۔اب آپ کے پاس اپنی اس ”ناقابلِ قبول غلطی“ کوسدھارنے کا سنہری موقع ہے،مہربانی فرما کر اس موقع کو ضائع نہ کریں اور قادیانیت کے پھندے سے تھوڑا بچ کے رہیں کیونکہ یہ وہ پھندہ ہے جس نے میاں نواز شریف کی 35 سالہ اقتدار کی پوری بساط ہی اُلٹ کر رکھ دی تھی،جبکہ آپ کی حکومت کو تو ابھی 35 دن بھی نہیں گزرے ہیں۔ اس لیئے ذرا تفکر کریں اور اپنے اردگرد موجود عقلمند دوستوں کی بھی سنیں تاکہ پاکستان قوم کا ”نئے پاکستان“ کاخواب صحیح معنوں میں شرمندہ تعبیر ہوسکے لیکن بس اتنا ضرور یاد رہے کہ پاکستانی قوم کسی ایسے ”نئے پاکستان“ کی تلاش میں نہیں ہے،جس میں وزیراعظم پاکستان کا مشیر ایک مرتد قادیانی ہو۔ بقول بشیر بد ر
مجھے ایسی جنت نہیں چاہیئے
جہاں سے مدینہ دکھائی نہ دے
اُمید ہے کہ تبدیلی کے علمبردار اپنے اس ناقابلِ قبول غلط فیصلے کو بھی بروقت تبدیل کرلیں گے، ہمیں تو بس دیکھنا یہ ہے کہ کس شان سے اس فیصلہ کو تبدیل کیا جاتاہے کیونکہ غلطی بھُلا دی جائے گی لیکن فیصلہ تبدیل کرنے کی سج دھج اور شان ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔
حوالہ: یہ کالم سب سے پہلے روزنامہ جرات کراچی کے ادارتی صفحہ پر08 ستمبر 2018 کی اشاعت میں شائع ہوا
- آزادی اظہار رائے کی آڑ میں -جون30, 2023
- عید قرباں کی حقیقی روح -جون27, 2023
- بلدیہ عظمی کراچی کا قلعہ پیپلزپارٹی نے کیسے فتح کیا؟ -جون19, 2023