Pulwama Attack

پلوامہ حملہ۔۔۔ ایک فلاپ ڈرامہ

واشنگٹن پوسٹ دنیا کے معتبر ترین اخبارات میں سے ایک اخبار ہے۔گزشتہ کئی برسوں سے واشنگٹن پوسٹ نے ”فیکٹ چیکر“ یعنی سچائی کی چھان پھٹک کے نام سے اپنی ادارتی پالیسی میں ایک خصوصی اُصول وضع کیا ہوا ہے۔ جس کے تحت وہ دنیا بھر کے سیاستدانوں کے بیانات میں شامل سچ کی اصل مقدار کا درست اندازہ لگانے کے لیئے ”فیکٹ چیکر“ کے چار مختلف درجات کا استعمال کرتاہے۔”فیکٹ چیکر“ یا سچ جاننے کا یہ پیمانہ واشنگٹن پوسٹ نے بچوں کی کہانیوں کے ایک مشہور کردار ”پنوکیو“ سے مستعار لیا ہے۔’مشہور زمانہ کارٹون کردار’پنوکیو“ جب بھی جھوٹ بولتا ہے اُس کی ناک لمبی ہوجاتی ہے۔اس لحاظ سے جب دنیا کا کوئی سیاستدان اپنے بیانات میں جھوٹ بولتا ہے تو اُسے واشنگٹن پوسٹ کی ادارتی پالیسی ”فیکٹ چیکر“ کے مطابق ایک پنوکیو کا درجہ دے دیا جاتاہے جس کا مطلب ہوتا ہے حقائق کو مسخ کرنا اور جب کوئی سیاستدان اپنے بیانات میں جھوٹ کا متواتر استعمال کرتا ہے تو اُسے دو پنوکیو کا درجہ دے دیا جاتاہے جس کا مطلب سچ کے مقابلے میں جھوٹ کو پسند کرنے والا ہوتا ہے اور جب کسی سیاستدان کی طرف سے جھوٹ کا کثرت سے استعمال کیا جاتاہے تو اُسے تین پنوکیو ایوارڈ کردیئے جاتے ہیں جس کا مطلب جھوٹا پروپیگنڈا ہوتاہے۔واشنگٹن پوسٹ کے مطابق چار پنوکیو کا مطلب سفید جھوٹ ہے اور یہ درجہ آج تک دنیا کے فقط ایک ہی سیاسی رہنما حاصل کرپائے ہیں اور وہ موصوف بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی ہیں۔اِس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ دنیا بھر میں بھارتی وزیراعظم مودی کی سچ بولنے کے حوالے سے ساکھ دو کوڑی کی بھی نہیں ہے۔اہم بات یہ ہے کہ یہ مقام جناب نریندر مودی نے اپنی ذاتی کوشش و محنت سے بنایا ہے۔گجرات کے مسلم کُش فسادات ہوں،بمبئی حملہ کا واقعہ ہو یا پھر کنٹرول لائن پر سرجیکل اسٹرائیک کا ڈرامہ ہو۔ہر ایک واقعہ نے ہمیشہ ہی بھارت اور نریندر مودی دونوں کو بیک وقت ”جھوٹا“ ہی ثابت کیا ہے۔

یہ ہی وجہ ہے کہ پلوامہ حملہ کا واقعہ بھی دنیا بھر کے سنجیدہ حلقوں میں بھارت کے بہت سارے جھوٹے ڈراموں کا ایک تسلسل ہی سمجھا جارہا ہے۔ جس نے ریلیز ہوتے ہی سابقہ روایت کے عین مطابق فلاپ ترین ڈراموں کے فہرست میں اپنی جگہ پکی کر لی ہے۔دنیا نے تو خیر پلوامہ ڈرامے پر کیا خاک یقین کرنا تھا خود بھارت میں بھی عجلت میں بنائے گئے اِس ڈرامے کے گھٹیا اسکرپٹ اور غلطیوں سے پُر پروڈکشن پر سخت تنقید کی جارہی ہے۔پلوامہ واقعہ پر سب سے اہم سوال یہ اُٹھایا جارہا ہے کہ اگر چوری کا چھوٹا سا ایک واقعہ بھی کہیں رونماہو جائے تو تفتیش کاروں کو چوری کے ذمہ داروں کا تعین کرنے اور معاملہ کی اصل تہہ تک پہنچے میں ٹھیک ٹھاک وقت لگ جاتاہے مگر پلوامہ واقعہ جسے بھارت اپنی تاریخ کا سب سے بڑا حملہ قرار دے رہاہے،اِسے بھارت کے زیرک تفتیش کاروں نے اپنی دانست میں واقعہ ہونے کے صرف پانچ منٹ بعد ہی حل کرکے نہ صرف منطقی انجام تک پہنچا دیا بلکہ یہ حتمی نتیجہ بھی اخذ کرلیا کہ اِس سارے واقعہ کے پیچھے پاکستان کا ہاتھ ہے۔دلچسپ بات تو یہ ہے کہ بھارتی میڈیا میں پلوامہ واقعہ کی ویڈیو ز،نقشہ جات،دستاویزات اور اِس میں شامل تمام افراد ہی نہیں بلکہ اِن کے پیچھے چھپے تمام کرداروں کی تفصیلات اتنی جزیات اور تفصیل سے بیان کی جارہی ہیں کہ گمان ہورہا ہے کہ جیسے واقعہ بعد میں ہوا لیکن بھارت کے پاس غیب سے اُس کی تفصیلات بہت پہلے ہی پہنچ چکی تھیں۔

پلوامہ واقعہ پر جس طرح کے دعوے بھار ت کی طرف سے کیئے جارہے ہیں اُس سے تو یہ صاف پتا چلتاہے کہ پلوامہ ڈرامہ رچانے میں بھارت سے فاش غلطیاں سرزد ہوگئی ہیں۔اَب اِن غلطیوں کو چھپانے کے لیئے نت نئے دعوے کرنا بھارت کی ضرورت بھی ہے اور مجبوری بھی۔مگر کہتے ہیں ناکہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے،شاید اسی لیئے بھارت کا جھوٹ”دو قدم“ بھی نہیں چل پارہا۔بھارتی میڈیا کے بودے دعووں پر دنیا بھر کے باخبر حلقوں نے اتنے زیادہ سوالات اُٹھا دیئے ہیں کہ اِن سوالات کے تسلی بخش جواب دیئے بغیر بھارت کی گلوخلاصی ہونے والی نہیں ہے۔مثلاً حملہ آور لائن آف کنٹرول سے ڈیڑھ سو کلومیٹر اندر اتنے حساس ترین مقام تک پہنچا کیسے؟ جبکہ حملے میں آئی ای ڈی سے بھری گاڑی استعمال کی گئی،سب جانتے ہیں کہ ایک بارودی گاڑی کی تیاری میں مہینوں لگتے ہیں اور وہ بھی مقبوضہ کشمیر جیسے علاقے میں جہاں ہر سات کشمیریوں کے لیے ایک بھارتی فوجی تعینات ہے، بارود سے بھری گاڑی کیسے پہنچی؟۔ مقبوضہ کشمیر کے چپے چپے پر بھارتی فوج کی سخت سیکورٹی کی موجودگی میں اتنے عرصے تک حملے کی منصوبہ بندی کہاں اور کیسے ہوتی رہی؟ قدم قدم پر فوجی چیک پوسٹس ہونے کے باوجود اکیس برس کا اکیلا نوجوان اتنی بڑی مقدار میں بارودی مواد لے کر حملہ کی جگہ تک پہنچا کیسے؟ چیک پوسٹوں پر ان کو کس نے آگے جانے دیا؟2500 فوجیوں کی نقل و حرکت سے پہلے اس بات کا تعین کیوں نہیں کیا گیا کہ محفوظ راستہ کونسا ہے؟ نیز جیش محمد کے ملوث ہونے کا دعویٰ کرنے میں عجلت سے کیوں کام لیاگیا؟ کیونکہ خود جیش محمدنے اس واقعہ سے اعلانِ لاتعلقی کااظہار کردیاہے اور بھارتی پولیس کے ڈی آئی جی نے بھی عادل ڈار کا تعلق حزب المجاہدین سے بتایا ہے۔ آخر ایک دہشت گرد کو بیک وقت دو مختلف تنظیموں سے کیوں منسلک کیا جارہاہے؟

اسکے علاوہ پلوامہ حملے میں ویڈیو پیغام ریکارڈ کرنے والے عادل ڈ ار کے بھارتی فوج کے حراست میں ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔اگر فرض کریں عادل بھارتی فوج کی حراست سے بھاگ بھی گیا تھا تو پھر اتنے بڑے دہشت گرد کے فرار کی خبر میڈیا کو کیوں نہیں دی گئی؟۔ بھارت میں انتخابات سر پر ہیں، اور پوری دنیا سے پاکستان کے سفارتی تعلقات بحال ہو رہے ہیں، ایسے میں اس طرح کا حملہ کس کو فائدہ پہنچا سکتا ہے؟ کہیں بھارت کا یہ ڈرامہ، بابا گرو نانک کی پچاسویں یوم پیدائش کی تقریبات کو سبو تاژ کرنے کی کوشش تو نہیں ہے؟ بھارت کو مجبوراَ چار سال بعد انڈس واٹر ٹریٹی کے سلسلے میں پاکستان آنا پڑا تھا، بھارت نہیں چاہتا کہ یہ سلسلہ مزید جاری رہے، کیا اس لیئے تو پلوامہ کا ڈرامہ نہیں رچایا گیا؟پلوامہ حملے کی ذمہ داری بنا تحقیق پاکستان پر ڈالنے والی مودی سرکار کے پاس کیا ان سب سوالوں کے جوابات ہیں؟ اگر نہیں پھر ماننا پڑے گا کہ پلوامہ واقعہ کے اصل ڈائریکٹر بھارتی وزیراعظم نریندر مودی خود ہیں۔ ویسے بھی گجرات کے فسادات کی خون آشام تاریخ گواہ ہے کہ پہلے بھی مودی نے انسانی کھوپڑیوں کے مینار پر چڑھ کر ہی اقتدار کی کرسی حاصل کی تھی اور اِس بار بھی مودی نے الیکشن جیتنے کے لیئے پرانا خونی طریقہ واردات اختیار کیا ہے،بس فرق اتنا ساہے کہ اب کے کھوپڑیاں بھارتی مسلمانوں کے بجائے بھارتی فوجیوں کی ہیں آخر اِس مرتبہ ہدف بھی تو پہلے سے مشکل ہے۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے ہفت روزہ ندائے ملت لاہور کے شمارہ میں 28 فروری 2019 کی اشاعت میں شائع ہوا

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں