PTI vs PPP in sindh

پی ٹی آئی اور پیپلزپارٹی کے درمیان سیاسی رسہ کشی

مشہور ہے کہ لنکا کے راون کے ایک ہزار ہاتھ تھے،جب اُس کا ایک ہاتھ کٹ جاتا تو وہ اپنے مخالف پر دوسرے ہاتھ سے حملہ آور ہوجاتا یوں اُسے ہرانا ناممکن ہوجاتا،یہ ہی کچھ صورت حال ہمارے ہاں پائے جانے والے طبقہ اشرافیہ کی ہے اس کے بھی ہزاروں ہاتھ اور ہزاروں روپ ہیں اور پاکستان میں کوئی علاقہ ایسا نہیں جو اس کی خون آشام کرپشن کی آماجگاہ نہ بنا ہوا ہو۔طبقہ اشرافیہ کی کرپشن کے خلاف جو جنگ عمران خان نے اسلام آباد سے شروع کی تھی اب اُس جنگ کے اگلے مرحلے کا آغاز سکھر سے کردیا ہے۔پاکستان تحریک انصاف نے انتہائی مختصر مدت کے نوٹس پر سکھر میں ایک پراثر اور بھرپور سیاسی شو کیا۔ جہاں اس جلسہ کی کامیابی میں پی ٹی آئی کی تمام قیادت نے اپنا بھرپور حصہ ڈالا،وہیں اس سیاسی شو کو غیر معمولی حد تک کامیاب بنانے میں پیپلزپارٹی مخالف سیاسی خاندانوں کا بھی بڑا عمل دخل رہا ہے۔

یہ مضمون بھی پڑھیئے: کیا پی ٹی آئی سندھ میں پیپلزپارٹی کا متبادل بن سکتی ہے؟

خصوصاً سکھر کی شیخ فیملی نے درپردہ اس جلسہ کو کامیاب بنانے میں اپنے تمام وسائل لگادئیے۔جلسہ کے شرکاء کی تعداد اور جوش و خروش دیکھ کر ہی عمران خان نے آصف علی زرداری کو للکارتے ہوئے کہا ہے کہ بہت جلد سندھ کا ایک فرعون بھی کہے گا کہ مجھے کیوں نکالا،پھر ہم کہیں گے کہ آپ نے سندھ میں لٹیروں کا راج قائم کیا اور سندھ کے لٹیروں کا سربراہ آصف علی زرداری ہے۔عمران خان کے اس طرزِ تخاطب نے سکھر سمیت سندھ بھر میں پیپلزپارٹی کے سیاسی حلقوں میں خوف کی ایک لہر پیدا کردی ہے۔کیونکہ عام تاثر یہ ہی ہے کہ عمران خان جس کو ایک بار للکار لے پھر برا وقت اُس کا گھر دیکھ لیتا ہے۔ پہلی بار سندھ میں سرعام آصف علی زرداری کو اتنے سخت لب و لہجہ میں پکارا گیا ہے۔ورنہ اب تک یہ ہی کہا جاتا تھا کہ جس نے سندھ میں اپنی سیاست کو کامیاب بنانا ہے اُسے آصف علی زرداری کے حوالے سے ذرا نرم لب و لہجہ اختیار کرنا چاہیئے۔حیران کن بات تو یہ ہے کہ صرف عمران خان ہی نہیں بلکہ تحریک انصاف کے ہر رہنما بشمول شیخ رشید سب نے اپنی تنقید کا براہِ راست نشانہ آصف علی زرداری اور اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کو بنایا۔سکھر خورشید شاہ کا سیاسی حلقہ بھی ہے۔یہاں تحریک انصاف کے اس بڑے مظاہرے نے خورشید شاہ کی سکھر اور گردو نواح کی سیاست پر گرفت کے حوالے سے کئی سنجیدہ سوالات اُٹھادیئے ہیں۔سکھر کے بے شمار سیاسی خاندانوں نے شاہ محمود قریشی اور عمران خان سے ملاقاتیں بھی کیں ہیں۔جسے یہاں کے سیاسی حلقوں میں جلسہ کی کامیابی سے بھی زیادہ اہم قرار دیا جارہا ہے۔سکھر میں گزشتہ انتخابات میں پیپلزپارٹی انتہائی تھوڑے سے مارجن سے فتح سمیٹ پائی تھی۔اگر اس وقت تحریک انصاف سکھر میں کوئی سیاسی جوڑ توڑ کرنے میں کامیاب ہو گئی تو پیپلزپارٹی کو آنے والے الیکشن میں مشکل پیش آسکتی ہے۔

پیپلزپارٹی سندھ کے لیئے اگر کوئی ایک بہت اچھی خبر آئی ہے تووہ یہ ہے کہ آصف علی زرداری اپنے آخری ریفرنس سے بھی بری ہوگئے ہیں اور اس پر سندھ بھر میں پیپلزپارٹی اور سندھ حکومت کی طرف سے مٹھائیاں بھی تقسیم کی گئیں لیکن جو خوشی اس خبر کے منظر عام آنے کے بعد پیپلزپارٹی کے رہنماؤں کے چہروں پر نظر آنی چاہئے تھی وہ کہیں نظر نہیں آئی، عجیب بات یہ ہے کہ یہ خوشی تو جناب آصف علی زرداری کے چہرے پر بھی نظر نہیں آئی بلکہ جب وہ اس سلسلہ میں پریس کانفرنس کے لیئے آئے تو دوران ِ سوال جواب صحافیوں پر طیش میں بھی آگئے۔ اس کا صاف مطلب ہے کہ کہیں نہ کہیں انہیں کچھ تو گڑ بڑ نظر آرہی ہے،ویسے بھی آج کل طبقہ اشرافیہ جس بات پر صبح مٹھائیاں تقسیم کرکے جشن منارہا ہوتا ہے اُسی بات پر شام کو ماتم کرتا ہوا نظر آتاہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ کتنے دن آصف علی زرداری بغیر کسی نئے کیس کا شکار ہوئے گزار پائیں گے۔

اگرجناب آصف علی زرداری نے کم ازکم ایک سال بغیر کسی نئے کیس کا شکار ہوئے گزار دیا تو یقینا یہ ان کی بہت بڑی سیاسی و اخلاقی کامیابی ہوگی۔جس کا پیپلزپارٹی کی مستقبل کی سیاست پر انتہائی مثبت اثر ہوگا۔کیونکہ سندھ میں پیپلزپارٹی کو اپنے ووٹرز سے اتنا خطرہ نہیں ہے جتنا خطرہ اپنے منتخب نمائندوں سے ہے۔سندھ کی سیاست میں سارا کردار منتخب نمائندوں کا ہے اور ان کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ یہ راتوں رات بھی اپنی وفاداریاں تبدیل کر لیتے ہیں۔ابھی تک سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت انہیں منتخب نمائندوں کی مرہونِ منت ہے جن کا پیپلزپارٹی کے نظریات و تصورات سے کوئی لینا دینا نہیں یہ تو بس ہمیشہ اپنے مفادات کوسب سے مقدم سمجھتے ہیں۔اس لیئے اگر آصف علی زرداری کسی نہ کسی طرح یہ تاثر قائم رکھتے ہیں کہ انہیں مقتدر حلقوں کی طرف سے کوئی خطرہ نہیں تو پھر یہ منتخب نمائندے پیپلزپارٹی کو چھوڑ کر کہیں نہیں جائیں گے ورنہ دوسری صورت میں یہ اپنے لیئے نئے جہانِ مفادات دریافت کرنے میں زیادہ دیر نہیں لگائیں گے۔آنے والے چند مہینے سندھ کی سیاست کے لیئے انتہائی اہم ہیں جس سیاسی جماعت نے اس دوران درست سیاسی چالوں کا انتخاب کیا سندھ کارڈ پھر ایک طویل مدت تک اُس کا ہی ہوگا۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے ہفت روزہ ندائے ملت لاہور 14 ستمبر 2017 کے شمارہ میں شائع ہوا

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں