private-schools-across-sindh-would-resume-classes-from-august-30

سندھ میں تعلیمی ادارے کھل گئے، لیکن کب تک؟

یہ بات تو سب ہی بخوبی جانتے اور مانتے بھی ہیں کہ صوبہ سندھ میں تعلیم کا فروغ کبھی بھی سندھ حکومت کی انتظامی ترجیحات میں سرے سے شامل ہی نہیں رہاہے۔لیکن کچھ عرصے سے سندھ حکومت کی جانب سے تعلیم کے متعلق جو جانب دارانہ سیاسی رویہ پورے شد و مد کے ساتھ بطور”حکومتی پالیسی“ اختیار کیا جارہا ہے، اُسے دیکھتے ہوئے یقین سے کہا جاسکتاہے کہ سندھ حکومت خیال اور سوچ کی حد تک بھی تعلیم کے متعلق نرم گوشہ نہیں رکھتی۔ شاید اسی لیئے ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ کورونا وائرس کے انسداد، اور بچاؤ کے لیئے اختیار کیئے جانے والے حفاظتی انتظامات کے بہانے سے جو معاندانہ سلوک نجی تعلیمی اداروں اور ان میں زیر تعلیم بچوں یا وہاں پڑھانے والے اساتذہ کے ساتھ کیا جارہا ہے۔ اُس سے صوبہ سندھ میں برس ہا برس سے فروغ تعلیم کے لیئے کی جانے والی کوششوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔

واضح رہے کہ سندھ میں کورونا کے باعث حکومت کی جانب سے تعلیمی اداروں کی طویل عرصہ تک بندش کا فیصلہ طالب علموں، ان کے والدین، اساتذہ اور درس گاہوں کے منتظمین سب کیلئے پریشان کن ثابت ہوا ہے اور قومی ذرائع ابلاغ کے علاوہ سوشل میڈیا پر بھی سندھ حکومت کی جانب سے تعلیمی اداروں کی بندش میں بار،بار کی توسیع پر،معاشرے کے ہر طبقہ فکر کا شدید منفی ردِعمل سامنے آرہا ہے۔جبکہ نجی اسکولوں میں پڑھنے والے طلبا و طالبات اپنے معزز اساتذہ کے ہمراہ صوبہ بھر میں سراپا احتجاج بھی ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ سندھ حکومت نجی تعلیمی اداروں سے وابستہ ذمہ دار افراد کے پرامن احتجاج کے پیچھے چھپے ہوئے محرکات کا درست ادراک کرکے نجی تعلیمی اداروں کے نمائندہ رہنماؤں سے مذاکرات کی میز پر گفت و شنید کرنے کے بعد تعلیمی اداروں کی بندش کے معاملہ پر کوئی ٹھوس، دیرپا اور متفقہ لائحہ عمل مرتب کرکے،ایک ایسا قابل عمل راستہ نکالنے کی کوشش کرتی۔جس سے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی روک تھام میں مدد بھی ملتی اور کسی نہ کسی حد تک تعلیمی اداروں میں عملی تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رہتا۔

بلاشبہ کورونا کی وبا نے پوری دنیا میں معمولات زندگی کو جس بری طرح متاثر کیا ہے، تاریخ میں اس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ ابتدا میں عام طور پر سمجھا جارہا تھا کہ ویکسین لگوانے والے اس خطرناک مرض سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے محفوظ و ماموں ہو جائیں گے۔لیکن اس وائرس کے متعلق اَب تک کے تمام اندازے غلط ثابت ہوئے ہیں۔یعنی ویکسین لگوانے والے بھی تازہ ترین سائنسی تحقیقات کی رو سے مرض میں مبتلا ہونے کے خطرے سے محفوظ نہیں ہیں۔ شاید یہ ہی وجہ ہے کہ بڑی تیزی کے ساتھ دنیا بھر میں اب یہ خیال مستحکم ہورہا ہے کہ صرف کورونا وائرس کے ڈر اور خوف سے معمولات زندگی کو مستقل بنیادوں پر معطل نہیں رکھا جا سکتا۔ لہٰذا دنیا کے اکثر ممالک میں دفاتر، کاروبار اور تعلیم گاہوں سمیت تمام کاروبار زندگی احتیاطی تدابیر پر حتی الامکان عمل درآمد کے ساتھ بحال ہوچکا ہے۔نیز پاکستان میں بھی عملاً ملک کے تمام حصوں میں بیشتر کاروبار زندگی بھرپور انداز میں جاری و ساری ہے لیکن کتنی بدقسمتی اور افسوس کی بات ہے کہ صوبہ سندھ میں تعلیمی اداروں کی بندش کے معاملہ پر ابھی تک متاثرہ فریقین کو اعتماد میں لے کر کوئی مستقل فریم ورک،اُصول،قواعد یا ضوابط طے نہیں کیئے جارہے۔جس پر سندھ بھر میں بالعموم اور شہری علاقوں میں بالخصوص سخت اضطراب پایا جاتا ہے۔

بظاہر پاکستان پیپلزپارٹی ایک عوامی اور جمہوری سیاسی جماعت ہونے کی دعویدار ہے۔ لیکن معذرت کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ سندھ کے تعلیمی اداروں کے ساتھ وہ سراسر آمرانہ اور تحکمانہ انداز میں نمٹنے کی کوشش کررہی ہے۔ یعنی لطیفہ ملاحظہ ہو کہ تجارتی و کاروباری اداروں کی بندش کا معاملہ زیر غور ہو یا پھر مذہبی اجتماعات کو محدود کرنے کے حوالے سے کوئی چھوٹا،موٹا سا انتظامی فیصلہ کرنا ہو۔سندھ حکومت کے اہم ترین وزراء سب سے پہلے نہ صرف کاروباری رہنماؤں سے تفصیلی مشاورت کرتے ہیں بلکہ مذہبی رہنماؤں سے بات چیت کر کے اُن کی مرضی کے مطابق کاروباری اور مذہبی سرگرمیاں محدود کرتے ہیں۔ جبکہ تعلیمی اداروں کی غیر معینہ مدت تک بندش کا فیصلہ کرنا ہو یا پھر تعلیمی اداروں کی بندش میں توسیع کرنے کا سرکاری حکم نامہ جاری کرنے کی بات۔ کسی بھی مرحلے پر، کبھی بھی تعلیمی اداروں کی نمائندہ تنظیمات،یا اُن کے رہنماؤ ں سے”نتیجہ خیز مذاکرات“ کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی جاتی۔ گوکہ عوامی دباؤ میں آکر فی الحال سندھ حکومت نے یکم ستمبر سے سندھ بھر کے تمام تعلیمی ادارے کڑی شرائط کے ساتھ کھولنے کا سرکاری حکم نامہ جاری کردیا ہے۔ لیکن تعلیمی اداروں سے منسلک اساتذہ، طلبا ء وطالبات بدستور اس خوف اور تشویش میں مبتلاہیں کہ نہ جانے کب سندھ حکومت کی جانب تعلیمی اداروں کی بندش کا نیا سرکاری حکم نامہ جاری ہوجائے۔

دراصل بعض حلقوں کا خیال ہے کہ سندھ حکومت، وزیراعظم پاکستان عمران خان کے ”سیاسی پرخاش“ میں سندھ کے تعلیمی اداروں کو کھولنے میں سیاسی و انتظامی لیت لعل سے کام لیتی ہے۔ یعنی اگر وفاقی حکومت تعلیمی اداروں کھولنے کا کہے تو سندھ حکومت کی حتی المقدور خواہش اور کوشش ہوتی ہے کہ وفاق کے اس حکم نامے پر کم ازکم سندھ میں عمل درآمد ممکن نہ ہوسکے۔ حالانکہ اگر سندھ کے تعلیمی اداروں کو غیر معینہ مدت تک صرف اس لیے بند رکھا جائے گا کہ تحریک انصاف کی حکومت تعلیمی ادارو ں کو کھولنے کی حامی ہے تو اس ”سیاسی ضد“ میں بھلا وزیراعظم پاکستان عمران خان کی ”سیاسی صحت“ کون سا فرق پڑنا ہے۔

ہاں! یہ ضرور ہے کہ صوبہ سندھ میں تعلیمی اداروں کو بار، بار کھولنے اور بند کرنے کا ”سیاسی کھیل“ کھیلنے سے سندھ کا تعلیمی نظام جو پہلے ہی سخت زبوں حالی اور تنزلی کا شکار ہے، مزید دگرگوں ہوجائے گا۔ شاید یہ ہی وجہ ہے کہ بعض لکھنے والے سوشل میڈیا پر یہاں تک لکھ رہے ہیں کہ ”پاکستان پیپلزپارٹی اس لیے شہری علاقو ں میں تعلیمی اداروں کی غیر معینہ مدت تک بند ش پر کمر بستہ ہے۔ تاکہ شہری آباد ی، معیار تعلیم کے لحاظ سے زبردست تنزلی کا شکار ہو سکے“۔حد تو یہ ہے کہ کچھ کہنے والے ٹک ٹا ک اور یوٹیوب پر یہ تک کہنے میں کوئی عار نہیں سمجھ رہے کہ ”سندھ حکومت میں اکثر وزراء جاگیر دارانہ پس منظر کے حامل ہیں اور چونکہ بڑے جاگیر دار ہمیشہ سے ہی تعلیم کو اپنے مزارعوں کے لیئے دماغ کا خلل سمجھتے آئے ہیں۔ شاید اس لیئے وہ بھی سندھ کی عوام کو تعلیم جیسے موذی مرض کے مضر اثرات سے محفوظ رکھنے کے لیئے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں رکھنا چاہتے“۔اگر سندھ حکومت زبانِ خلق کو واقعی نقارہ خدا سمجھتی ہے توکم ازکم اَ ب کی بار اُسے سندھ میں تعلیمی ادارے کھولنے کا فیصلہ منسوخ نہیں کرنا چاہیئے۔

حوالہ: یہ کالم سب سے پہلے روزنامہ جرات کراچی کے ادارتی صفحہ پر 30 اگست 2021 کی اشاعت میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں