ppp-to-display-political-power-in-karachi-on-14th-anniversary-of-karsaz-tragedy

شہدائے کارساز کے لواحقین کو چارہ گر کی تلاش

بلاشک و شبہ سانحہ کارساز کے شہدا کی یا دمیں پیپلزپارٹی کراچی میں ایک فقید المثال اور تاریخ ساز”سیاسی جلسہ“ منعقد کرنے میں کامیاب رہی۔ اس جلسے میں صوبے بھر سے پاکستان پیپلزپارٹی کے دیرینہ کارکنان اور عہدیداران نے بھرپور انداز میں شرکت کی۔ جبکہ پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اپنی چھوٹی ہمشیرہ آصفہ بھٹو زرداری کے علاوہ وزیرا علی سید مراد علی شاہ،نثار کھوڑو، سعید غنی، ناصر حسین شاہ،، وقار مہدی، عاجز دھامرا، آصف خان، شازیہ مری، فیصل کریم کنڈی، علی مدد جتک اور دیگر مرکزی قائدین بھی اسٹیج پر موجود تھے۔ لیکن اتنے بڑے اسٹیج پر اگر نہیں تھے تو بس! وہ بے چارے مظلوم لوگ، جن کے لیئے پاکستان پیپلزپارٹی نے یہ عظیم الشان تعزیتی جلسہ منعقد کیا تھا۔ یعنی 180 شہداء کے وہ بدقسمت لواحقین،جن کے پیارے،راج دلارے آج سے ٹھیک 14 برس قبل اپنی عظیم قائد بے نظیر بھٹو شہید کا پرتپاک استقبال کرتے ہوئے، یکے بعد دیگرے ہونے والے دو خود کش بم دھماکو ں میں شہید ہوگئے تھے۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر سانحہ کارساز کے شہدائے کی یاد میں منعقد ہونے والے مذکورہ ”تعزیتی جلسے“ میں اسٹیج پر 180 شہدا کے لواحقین میں سے کم ازکم چند افراد، اسٹیج پر کھڑے ہوکر اپنے پیاروں کی پاکستان پیپلزپارٹی اور اس قیادت کے ساتھ بے لوث محبت کا تذکرہ کرتے اور پیپلزپارٹی کے سرکردہ رہنماو قائدین خاموشی کے ساتھ پارٹی پر جان نچھاور کرنے والوں کی گفتگو سنتے۔

پاکستانی سیاست کی تھوڑی بہت سمجھ بوجھ رکھنے والے شخص کو بھی یہ بات تسلیم کرنے میں قطعاً کوئی عار نہیں ہونی چاہیئے کہ جمہوری جدوجہد کی راہ میں جس ایک سیاسی جماعت کے کارکنان نے سب سے زیادہ جانیں قربان کی ہیں۔ وہ سیاسی جماعت یقینا پاکستان پیپلزپارٹی ہی ہے۔ لیکن کیا پیپلزپارٹی نے اپنے خونِ شہیداں سے وفا کرتے ہوئے شہدا کے لواحقین کی داد رسی کرنے کی کبھی کوئی سنجیدہ کاوش کی ہے؟۔یہ ایک ایسا تلخ اور مشکل سوال ہے، جس کا تسلی بخش جواب پیپلزپارٹی کے کارکنان کو آج تک نہیں مل سکا۔پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے مذکورہ جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ”پیپلز پارٹی وہ واحد جماعت ہے جو اپنا وعدہ پورا کرتی ہے، پیپلز پارٹی عوام دوست منصوبے بناتی ہے، عوامی معیشت کو بحال کرتی ہے اور غریبوں کو نوکریاں دیتی ہے“۔ کتنا اچھا ہوتا اگر بلاول بھٹو اپنی اسی تقریر میں سننے والوں کو ساتھ ہی یہ بھی بتادیتے کہ سانحہ کارساز کے 180 شہدا کے لواحقین میں سے کتنوں کو گزشتہ 14 برس کے دوران، سندھ حکومت کی جانب سے سرکاری نوکریاں فراہم کی گئی ہیں۔ یاد رہے کے گزرے 14 میں سے 12 سال سے تو پیپلزپارٹی سندھ میں بلاشرکت غیرے واحد برسراقتدار سیاسی جماعت ہے۔

دوسری جانب دوماہ بعد 27 دسمبر کو شہید بے نظیر بھٹو کی برسی منائی جائے گی،یاد رہے کہ بے نظیر بھٹو پر لیاقت باغ،راولپنڈی میں ہونے والے خود کش بم دھماکے میں بھی پاکستان پیپلزپارٹی کے بے شمار کارکنان شہید اور زخمی ہوئے تھے۔ لیکن افسوس صد افسوس سانحہ لیاقت باغ کے شہدا کے لواحقین بھی ہنوز اپنی سیاسی جماعت کی جانب سے سرکاری نوکریوں اور مالی امداد کے منتظر ہیں۔ دراصل پاکستان میں سیاسی جماعت کے کارکنان کا کبھی کوئی پرسان ِ حال نہیں رہاہے۔جبکہ پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں تو مذہبی جماعتیں ہی قدرے بہتر رہی ہیں جو کم ازکم اپنے شہدا کو نہ صرف یاد رکھتی ہیں بلکہ گاہے بہ گاہے شہد ا کے لواحقین کی دامے، ورمے،سخنے امداد بھی کرتی رہتی ہیں۔ مثال کے طورپر 17 جون 2014 میں سانحہ ماڈل ٹاؤن میں تحریک منہاج القرآن کے کم و بیش 100 کارکنان شہید ہوگئے تھے۔ اچھی بات یہ ہے کہ تحریک منہاج القرآن نہ صرف آج تک اپنے شہدا کے لواحقین کو گزر بسر کے لیئے باقاعدگی سے مالی امداد فراہم کررہی ہے بلکہ ہر برس 17 جون کو شہدائے ماڈل ٹاؤن کو الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا پر خصوصی انٹرویوز اور خبریں بھی نشر کرواتی ہے۔ شایدیہ ہی وجہ ہے کہ تحریک منہاج القرآن کا ہر کارکن شہدائے ماڈل ٹاؤن اور اُن کے لواحقین سے بخوبی آگاہ،اور واقف ہے۔ لیکن اس کے مقابلے میں سیاسی جماعتوں کا یہ حال ہے کہ پیپلزپارٹی کے اکثر رہنماؤں کو تو سانحہ کارساز کے 180 شہدا کا درست نام و پتا بھی نہیں معلوم ہوگا۔

حد تو یہ ہے کہ شہدائے سانحہ کارساز کی یاد میں منعقد ہونے والے جلسے میں مقررین کی تقاریر کا مرکز و محور بھی سانحہ کارساز سے کہیں زیادہ وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان کی ذات با برکات رہی اور اگر بلاول بھٹو زرداری سمیت کسی مقرر نے سانحہ کارساز کا اپنی تقریر میں تذکرہ بھی کیا تو وہ بھی بس آٹے میں نمک کے برابر۔ حالانکہ ہماری دانست میں ”شہدائے کارساز“ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت پر تنقید کیئے جانے سے کہیں زیادہ مذکورہ جلسہ میں یاد کیئے جانے کا استحقاق رکھتے تھے۔ جہاں تک عمران خان اور اُن کی حکومت پر تنقید کے نشتر چلانے کی بات تھی تو وہ پیپلزپارٹی کے مقررین دیگر بے شمار سیاسی و غیر سیاسی مواقعوں پر خوب دل کھول کر چلاسکتے تھے۔ واضح رہے کہ ”شہدائے کارساز“ کے لواحقین کو اس بات سے کیا غرض ہوگی کہ عمران خان کی حکومت درست خطوط پر چل رہی ہے یا غلط سمت میں۔انہیں تو اگر دلچسپی ہوگی تو صرف اس بات سے کہ اُن کے پیاروں نے جن کے لیئے اپنی جان، جانِ آفرین سپرد کی،کیا اُن کے جانشین،آ ج کے دن انہیں یاد بھی کرتے ہیں یا نہیں؟۔

یاد رہے کہ سانحہ کارساز میں 180 شہدا کے علاوہ پاکستان پیپلزپارٹی کے سینکڑوں جیالے شہید بے نظیر بھٹو کے قافلے کا تحفظ کرتے ہوئے شدید زخمی بھی ہوئے تھے۔ جن میں سے بے شمار تو عمر بھر کے لیئے جسمانی معذوری کا بھی شکار ہوگئے تھے۔ بدقسمتی سے ان جیالے کارکنان کو بھی پیپلزپارٹی ابھی تک سرکاری نوکریاں فراہم نہیں کرسکی ہے۔ حالانکہ اِن سب جیالوں کی اکثریت سندھ کا ڈومیسائل رکھتی ہے،اس لیے انہیں سندھ حکومت چاہے تو باآسانی اور کچھ نہیں تو کم ازکم معمولی سرکاری نوکریاں تو فراہم کر ہی سکتی ہے۔ دراصل ”شہدائے کارساز“ کے لواحقین کو سیاسی برزجمہروں کے بجائے اپنے چارہ گروں کی تلاش ہے۔ کیا پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سانحہ کارساز کے متاثرین کی چارہ گرئی فرمائیں گے؟۔

حوالہ: یہ کالم سب سے پہلے روزنامہ جرات کراچی کے ادارتی صفحہ پر 21 اکتوبر 2021 کی اشاعت میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں