Asif Ali Zardari and Faryal Talpur

سندھ میں پیپلزپارٹی مخالف قوتوں کی بڑھتی سیاسی سرگرمیاں

پیپلزپارٹی کوسندھ میں ٹف ٹائم دینے کیلئے گدی نشین خاندانوں نے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کیلئے رابطے شروع کردیئے، سندھ کے بڑے بڑے گدی نشین خاندانوں نے انتخابات میں ایک دوسرے کا مقابلہ نہ کرنیکا بھرپور پلان بنالیا ہے۔تحریک انصاف،گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس اورپاک سرزمین پارٹی کے انتخابی اتحاد کیلئے بھی پیپلزپارٹی مخالف حلقے اوراہم شخصیات سرگرم ہوگئیں،معتمد ترین ذرائع کے مطابق چند روزمیں سندھ کے منظرنامے میں کئی اہم تبدیلیاں سامنے آئیں گی،پیپلزپارٹی سمیت مختلف سیاسی جماعتوں سے پارٹی ٹکٹ حاصل کرنے والے سندھ کے گدی نشین خاندانوں کے مابین غیرعلانیہ اتحاد اورسیٹ ایڈجسٹمنٹ کیلئے بھی رابطے جاری ہیں اورابتدائی طورپرسندھ کے گدی نشین خاندانوں نے آئندہ انتخابات میں ایک دوسرے کے مقابل نہ اترنے پراتفاق کرلیا ہے، ضلع عمرکوٹ میں مخدوم،سید اورغوثیہ جماعت کے گدی نشینوں مخدوم سعید الزمان،مخدوم شاہ محمود قریشی اورپیرنورمحمد شاہ جیلانی نے سیٹ ایڈ جسٹمنٹ کرلی۔دوسری جانب سندھ میں پیپلزپارٹی کوٹف ٹائم دینے کیلئے پیپلزپارٹی مخالف سیاسی جماعتیں ایک نکاتی ایجنڈے پرانتخابی اتحاد بنانے کیلئے سرگرم ہیں تاہم انتخابی اتحاد کیلئے تحریک انصاف،گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس اورپاک سرزمین پارٹی میں بیشترمعاملات پراتفاق رائے کے باوجود کوئی الائنس نہیں بن سکا،پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے سندھ میں پی پی کو بھرپورٹف ٹائم دینے کیلئے شاہ محمود قریشی نے کام شروع کردیا ہے، سندھ میں پی پی مخالف حلقوں کوشش ہے کہ اگرتحریک انصاف،گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس اورپاک سرزمین پارٹی میں انتخابی اتحاد نہ ہوپائے تو کم ازکم سندھ میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ ضرورکرادی جائے تاکہ پی پی کا ون ٹو ون مقابلہ کیا جاسکے، تحریک انصاف نے سندھ کے مختلف اضلاع جن میں بدین،گھوٹکی، سانگھڑ،جیکب آباد، میرپورخاص، تھرپارکر،عمرکوٹ سکھر،ٹنڈو الہیاراورنوابشاہ کو اپنا ہدف بنانے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ ممتازبھٹو اورسابق وزیراعلیٰ لیاقت جتوئی کو قوم پرست جماعتوں کی حمایت حاصل کرنیکا ٹاسک دیا گیا ہے۔2018ء کے عام انتخابات میں پیپلزپارٹی کا سندھ میں مقابلہ کرنے کیلئے سیاسی مخالفین کو گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس کا نام دیا گیا ہے اور مختصراً اسے ”جی ڈی اے“ کہا اورپکارا جارہا ہے۔ اس کے سربراہ پیر پگارا ہیں اوراس میں سندھ کے سابق وزرائے اعلیٰ سید غوث علی شاہ‘ ممتاز بھٹو اور ارباب غلام رحیم اورمظفر شاہ بھی نمایاں ہیں۔ قومی عوامی تحریک کے صدرایازلطیف پلیجو‘ سابق وزیرداخلہ ڈاکٹرذوالفقار مرزا‘ سابق ایم پی اے سردار عبدالرحیم‘ سابق وفاقی وزیر غوث بخش مہر بھی نمایاں ہیں۔ صفدرعباسی‘ عبدالکریم شیخ‘ سابق وزیر عرفان اللہ خان مروت اور حاجی شفیع جاموٹ بھی سیاسی طورپر اہم نام ہیں۔پیرپگاراکی سربراہی میں یہ اتحاداگلے الیکشن میں پیپلزپارٹی کوسندھ میں سخت مقابلہ دینے کی تیاریاں کررہا ہے۔ سابق وزیر اعلی سندھ سردار ارباب غلام ر حیم کو جی ڈی اے کا سیکرٹری اطلاعات مقرر کیاگیا ہے۔حالیہ دنو ں میں جی ڈی اے کو اب تک کی سب سے بڑی سیاسی کامیابی سابق سپیکر قومی اسمبلی فہمیدہ مرزا اور سابق صوبائی وزیر داخلہ ڈاکٹر ذوالفقار مرز اکی صورت میں میسر آئی ہے۔فہمیدہ مرزا نے اپنے خاوند ڈاکٹر ذوالفقار مرزا اور پیرپگارا کے ہمراہ پریس کانفرنس میں جی ڈی اے میں باقاعدہ شمولیت کا اعلان کردیا ہے۔ اس موقع پر سابق سپیکر قومی اسمبلی فہمیدہ مرزا کا کہنا تھا کہ”وہ اس حوالے سے پارلیمان میں آواز اٹھاتی رہی ہیں۔ پانچ سال بعد عوام کے پاس گئیں اور عوام کی بہتری کے لیے فیصلہ کیا۔ سندھ میں ایک منظم پلیٹ فارم ضروری تھا، سندھ ایک تھا اور ایک ہی رہے گا۔ سندھ کے مسائل پر مشترکہ جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے، سندھ میں پانی کی تقسیم منصفانہ ہونی چاہیے“۔اس موقع پر جی ڈی اے کے سربراہ پیر پگارا کا کہنا تھا کہ”ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ جی ڈی اے کے ساتھ چلیں گی۔ جو ہمارا مقصد ہے وہی فہمیدا مرزا کا ہے، ہم جی ڈی اے کا دائرہ پنجاب تک بڑھائیں گے۔جی ڈی اے کے سربراہ کے مطابق ہم بھی سندھ میں تعلیم اور امن وامان کی بحالی چاہتے ہیں اور صوبے میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے لیے ہمارے مطالبات ایک ہیں“۔ یہاں یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ ماضی میں سابق وزیر داخلہ سندھ ذوالفقار مرزا کی پیپلز پارٹی سے شدید تنازعات رہے ہیں جس کے باعث پارٹی کے سینئر رہنماؤں کی جانب سے بھی انہیں تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے، پیپلز پارٹی کے بقول وہ پارٹی پالیسی کے خلاف حکمت عملی تیار کر رہے تھے۔بعد ازاں فروری 2015 میں پاکستان پیپلز پارٹی نے سابق صوبائی وزیر ڈاکٹر ذوالفقار مرزا سے تنازعات کے باعث لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ کارکنوں کا پارٹی قیادت کے نظریات کے ساتھ متفق ہونا اور اس کے نظم و ضبط کی پیروی کرنا ضروری ہے۔خیال رہے کہ نومبر 2017 میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے دوران بدین میں سب سے بڑا اپ سیٹ ہوا، جہاں شہر کے چودہ وارڈ پر مشتمل سٹی میونسپل کمیٹی میں پیپلز پارٹی کو سندھ میں مسندِ اقتدار پر ہوتے ہوئے بھی عبرتناک شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا اور ذوالفقار مرزا گروپ نے تمام چودہ سیٹیں جیت کر پی پی کا شہر سے صفایا کر دیا تھا۔دوسری جانب سابق وزیر قانون ضیا الحسن لنجار نے مرزا فیملی کی جی ڈی اے میں شمولیت پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ”مرزا فیملی 30 سال پیپلز پاٹی سے جڑی رہی اس وقت وہ کیوں خاموش رہی؟ جب فہمیدہ مرزا پیپلزپارٹی میں تھیں تب سب ٹھیک تھا اب انھیں عوام کی یاد آ گئی ہے۔انھوں نے جی ڈی اے کو ’لٹیروں کی کھیپ‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کشتی میں سوار ہونے والا الیکشن سے پہلے ہی ڈوب جائے گا۔ سندھ میں مرزا سے بڑا ڈاکو کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا ہے۔مرزا فیملی نے کرپشن کرکے اتنی ملکیت بنائی ہے۔ جس شخص نے پارٹی سے غداری کی وہ سندھ کے عوام کے ساتھ کیسے وفاداری کر سکتا ہے؟“۔
سیاسی تجزیہ کاروں کی اکثریت بھی اس سوال کو انتہائی اہم قرار دیتی ہے کہ آخر لوگ جی ڈی اے کو ووٹ کیوں دیں؟ جبکہ اس اتحاد میں شامل جماعتوں اور سیاستدانوں کی الگ الگ سیاسی تاریخ اورپس منظر ہے کچھ کا ماضی بہت شانداراوربہادری سے عبارت ہے توکچھ پر کئی اعتراضات ہیں، تحفظات ہیں اوران کی طرزِ سیاست سے ماضی میں یہی لوگ اختلاف کرتے رہے ہیں،جو اس وقت جی ڈی اے میں اکٹھے ہوگئے ہیں۔ جی ڈی اے میں ایسے لوگ بھی شامل ہیں جو ماضی میں ایک دوسرے کے سیاسی حریف تھے اور مخالفین پر سنگین الزامات لگاتے تھے۔ اب پوچھا جائے گا کہ کیا وہ سارے الزامات غلط تھے یا آپ لوگ خودغلط تھے۔ جواب میں کیا یہی کہا جائے گا کہ پرانے گلے شکوے بھلا دئیے ہیں سندھ اورملک کے وسیع ترمفاد میں۔ یہ باتیں سن سن کر لوگ بے زار آچکے ہیں اور سمجھ چکے ہیں کہ ایک دوسرے پرسنگین الزامات لگانے والے لوگ صرف ذاتی مفاد کا سوچتے ہیں۔ مطلب پڑنے پر سب ایک ہو جاتے ہیں اورمطلب نکل جانے پر آنکھیں ماتھے پر رکھ لیتے ہیں۔ جی ڈی اے میں شامل شخصیات کو اس حوالے سے کوئی ٹھوس دلیل پیش کرنی پڑے گی۔ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ آنے والے دنوں میں جی ڈی اے کو بھی جنوبی پنجاب صوبہ تحریک کی طرح تحریک انصاف کے ساتھ ضم تو نہیں کر دیا جائے گا؟

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے ہفت روزہ ندائے ملت لاہور 14 جون 2018 کے شمارہ میں شائع ہوا

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں