جیسے جیسے پاکستان میں کورونا وائرس کی ہلاکت خیز وبا کی شدت میں واضح کمی آتی جارہی ہے ویسے ویسے پاکستانی سیاست میں غیر سیاسی اور غیر اخلاقی اُبال میں زبردست اضافہ صاف محسوس کیا جاسکتاہے۔ حزب اختلا ف کی وہ جماعتیں جو کورونا وائرس کے وبائی ایام میں کسی حد تک حکومت پر اپنی سیاسی تنقید میں کمی لاچکی تھیں۔اَب وہ تما م سیاسی جماعتیں ایک بار پھر سے حکومت پر سیاسی تنقید کے نشتر چلانے کے لیے اپنی کمانیں بالکل سیدھی کرچکی ہیں اورحکومت کے گرد از سر نوسیاسی گھیرا بندی کرتی ہوئی دکھائی دے رہی ہیں۔ خاص طور پر جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن ایک بار پھر سے وزیراعظم پاکستان عمران خان کی حکومت کو گرانے کے لیئے بھرپور اندا ز میں متحرک ہوچکے ہیں اور اُن کے متحرک ہوتے ہی حزب اختلاف کے خاموش کیمپوں میں پرانی چہک مہک واپس لوٹ آئی ہے اور اسلام آباد کی پرسکون سیاسی فضا میں بھی مائنس ون اور مائنس آل کے سیاسی خبریں پورے شد ومد کے ساتھ گردش کرنا شروع ہوگئی ہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے اس بار بھی عمران خان کی حکومت کے خلاف اپنی سیاسی تحریک یا یوں کہہ لیں کہ انقلابی جدو جہد کا آغاز اپنے برسوں پرانے روایتی انداز میں آل پارٹی کانفرنس یعنی اے پی سی کے ذریعے ہی سے کیا ہے۔ مولانا فضل الرحمن کے زیر سایہ منعقد ہونے والی اے پی سی ماضی کی سیاسی نشستوں کے مقابلہ میں کافی پررونق اور اثردار محسوس ہوئی۔شاید اِس کی وجہ یہ ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کے پلو ں کے نیچے سے حکومتی مشیران کی باہمی چپقلس کے نتیجہ میں بہت ساپانی بہہ چکا ہے اور حکومت کا تخت حکومتی وزراء اور مشیروں کی ”بدمستی“ کے باعث سیاسی ہوا کے دوش پرہچکولے کھا رہاہے۔
حکومت ِ وقت کی تازہ ترین پتلی حالت کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے مولانا فضل الرحمن اور اُن کی ہم خیال حزب اختلاف کی تما م سیاسی جماعتوں کی اولین کوشش یہ ہی ہے کہ وزیراعظم پاکستان عمران خان کے خلاف تیزی سے بننے والی نامواقف سیاسی صورت حال کادرست انداز میں اور زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھالیا جائے۔یعنی اس سے پہلے کہ حکومت کو سنبھلنے کا کوئی ہلکا سا بھی غیر سیاسی موقع میسر آئے اِسے گراد دیا جائے۔ اپنی اِس دیرینہ خواہش کو پورا کرنے کے لیئے مولانا فضل الرحمن نے تحریک انصاف کے اتحادی جماعتوں کو سیاسی طور پر ورغلانا شروع کردیاہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومتی اتحادی بھی رفتہ رفتہ حکومت سے اپنے آپ کو علحیدہ کرتے جارہے ہیں کم ازکم اتحادیوں کے بیانات سُن کر تو یہ ہی محسوس ہوتاہے کہ حکومتی اتحادی وزیراعظم پاکستان عمران خان کے وعدوں پر اعتبار کرنے کے بجائے حزب اختلاف کے رہنماؤں کی جانب سے دکھائے جانے والے مستقبل کے سہانے سپنوں پر زیادہ یقین کررہے ہیں۔ مگر یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وزیراعظم پاکستان عمران خان کو اُن کے عہدے سے ہٹانے کے لیئے قومی اسمبلی کے اندر اور باہر فقط سیاسی بیانات کا طوفان ہی کافی ہوگا یا پھر اسلام آباد کی طرف ایک بار پھر دھرنا نما آزادی مارچ کا رختِ سفر باندھنا پڑے گا؟۔
مولانا فضل الرحمن کی سیاسی منظرنامہ پر اچانک واپسی اور وہ بھی حکومت کے اہم ترین اتحادی چوہدری برادران کے ساتھ خفیہ ملاقاتوں کی صورت میں، زبانِ حال سے اتنا سمجھانے کے لیئے تو کافی ہی ہے کہ اپوزیشن کی دال میں اِس بار بھی بہت کچھ کالا ہے۔ویسے بھی چوہدری برادران اپنے جز وقتی سیاسی مفادات کے لیئے کسی بھی حکومت کا تختہ کرنے کا موقع ہاتھ سے جانے ہی کب دیتے ہیں۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان کی سب سے بڑی بدقسمتی ہی یہ ہے کہ مسلم لیگ ق اُن کی اہم ترین سیاسی اتحادی ہے اور مسلم لیگ ق کا حکومتی ایوان میں ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اپوزیشن کے آنکھ اور کان ہمہ وقت محلاتی سازشوں میں مصروف ہیں۔ اِس لیئے ہمارا سیاسی وجدان یہ کہتاہے کہ مولانا فضل الرحمن کے سابقہ دھرنے کی ”امانت“ کسی بھی وقت ایک اور نئے دھرنے کی صورت میں برآمد ہوسکتی ہے۔چوہدری برادران کے جانب سے باربار مختلف حیلے بہانوں سے میڈیا پر ”امانت“ کا راگ الاپنا مسلم لیگ ق کی سیاسی حکمت عملی کا ایک حصہ ہے،جس کا مقصد عمران خان کو بلیک میل کر کے وزیراعلیٰ پنجاب کی کرسی کو حاصل کرنا ہے اگر عمران خان اُن کے اِس سیاسی راگ کو سنجیدگی سے نہیں لیتے تو پھر چوہدری برادران اپنا سودا حزب اختلاف کی جماعتوں کے ساتھ مناسب سیاسی نرخون پر طے فرمالیں گے اور اِس کے بعد ”امانت“ کی ہنڈیا بیچ چوراہے پر پھوڑ دی جائے گی۔
یاد رہے کہ اگر اِس بار مولانا فضل الرحمن کی جانب سے اسلام آباد کی جانب دھرنے کا قصد کیا گیا تو اُس کی پشت پر حکومتی اتحادیوں کے ساتھ ساتھ عمران خان کے دائیں بائیں موجود وزراء اور مشیروں میں سے چند ایک کی انتظامی طاقت بھی ضرور ہمراہ ہوگی۔ بہرحال حکومت کے خلاف ایک اور دھرنے کا فیصلہ متحدہ اپوزیشن کی طرف سے آئندہ ہونے والی اے پی سی میں ہی کیا جائے گا۔ اس لیئے متحدہ اپوزیشن کی متوقع اے پی سی حزب اختلاف اور حکومت دونوں کے سیاسی مستقبل کے لیئے بڑی ہی اہمیت کی حامل ہوگی۔ مگر اِس کے لیئے ضروری ہے کہ حزب اختلاف کی دونوں بڑی جماعتوں کے مرکزی قیادت خاص طور پر میاں محمد شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری اے پی سی میں لازمی شریک ہوں۔ کیونکہ پچھلے دھرنے میں حاصل کی گئی امانت کتنی ہی ہلکی کیوں نہ ہو،بہر حال اُس کا سارا وزن اُٹھا پانا تن تنہا مولانا فضل الرحمن کے بس کی بات ہرگز نہیں ہوگا۔جبکہ احتجاج کی سیاسی آگ کو بھڑکانے کے لیئے حزب اختلاف کی تمام جماعتو ں کے قائدین کی پھونکیں درکار ہوں گی کیونکہ یہ وہ آگ ہے جو لگائے نہ لگے اور بجھائے نہ بجھے اور اِس آگ کو ایک دو پھونکوں سے سلگایا بھی نہیں جاسکتا۔
حوالہ: یہ کالم سب سےپہلے روزنامہ جرات کراچی کے ادارتی صفحہ پر 16 جولائی 2020 کی اشاعت میں شائع ہوا۔
- آزادی اظہار رائے کی آڑ میں -جون30, 2023
- عید قرباں کی حقیقی روح -جون27, 2023
- بلدیہ عظمی کراچی کا قلعہ پیپلزپارٹی نے کیسے فتح کیا؟ -جون19, 2023
“کورونا کے بعد سیاسی احتجاج کی وبا؟” ایک تبصرہ