Pakistani Politician

سندھ میں سیاسی برتری کا فیصلہ کُن معرکہ کون جیتے گا؟

بدقسمتی سے پاکستان بننے کے کچھ سالوں کے بعد ہی سندھ کی سیاست میں غلاظت اور غداری کے آمیزش ہونے لگی تھی، پاکستان مخالف قوتیں روپے پیسے اور طاقت کے بل بوتے پر ایسے ذہنوں کی تلاش میں لگ گئی جوچند عارضی مفادات کے عوض سندھ میں اثرو نفوذ حاصل کر کے ملکی مفادات کا سودا کرسکیں جس کے لیئے پاکستان مخالف قوتوں نے سندھ بھر سے ایسے لوگوں کو تلاش کرکے نہ صرف سندھ کی سیاست کا اہم ترین مہرہ بنایا بلکہ انہیں اقتدار کی کرسی تک پہنچانے کی بھرپور کوشش بھی کی،ان میں جوش و جوشیلے سیاسی لیڈر بھی تھے اور خاموش پس پردہ نوکر شاہی طبقہ کے کچھ لوگ بھی، سندھ کی سیاسی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ غیر ملکی قوتوں کو اس مد میں کافی حد تک کامیابیاں بھی حاصل ہوئیں اور خود غرضی، اقربہ پروری، لسانیت، تعصب کی بنا پر صوبہ سندھ میں ایسی سیاسی فضا بالآخر قائم ہو ہی گئی کہ جس سے سندھ کی بڑھتی ہوئی ترقی اور خوشحالی کو زنگ لگ گیا، اداروں کی تباہی کا نیا سلسلہ شروع ہوگیا، لوٹ مار،کرپشن، بدعنوانی اور نا اہلیت کو فروغ ملنے لگا حتیٰ کہ غیر ملکی آقاؤں کے اشارے پر ناچنے والے سیاسی مہرے اپنے اپنے تعصب میں اس قدر اندھے ہوگئے کہ سندھ میں کسی ایک بھی محکمے کو اس قابل نہ چھوڑا کہ وہ کوئی ڈھنگ کا کام کرنے کے قابل رہ سکے۔ سندھ میں اداروں کی ابتری اور زوال اس انتہا تک جاپہنچا کہ آخر ایک دن سپریم کورٹ آف پاکستان کو بھی سندھ کے تمام اداروں کی موت کا باقاعدہ اعلان کرنا پڑا مگر یہ اعلان بھی نقار خانے میں طوطی کی آواز ثابت ہوا اور پھر نوبت یہاں تک آگئی کہ سندھ میں پانی کی فراہمی کے لیئے بھی اعلیٰ عدلیہ کو ایک واٹر کمیشن تشکیل دینا پڑا تاکہ کسی طرح سندھ کی عوام کو کم ازکم صاف پانی تو پہنچایا جاسکے۔یہ ہمارے ریاستی اداروں کی بروقت مداخلت ہی تھی جس نے سندھ میں قوم پرستی پر مبنی سیاست کو پس منظر میں دھکیل دیا اور اس کے ساتھ ہی ملک دشمن قوتوں کا وہ انقلابی رومانس بھی رخصت ہوگیا جو گزشتہ ایک عرصے سے سندھ کی قومی سیاست کو تعصب کے نشتر سے زخم زخم کررہا تھا۔ آج سندھ میں تعصب اور قوم پرستی کا کھیل کھیلنے والے خود گمبھیر اور پریشان کن مسائل سے دوچار ہیں اور اپنی بقاء کی آخری جنگ لڑنے کی ناکام کوشش کررہے ہیں اور اس ناکام جنگ کے اثرات سندھ کی سیاست میں نظر آنا شروع ہوگئے ہیں۔پیپلزپارٹی کی قیادت اپنی باقی ماندہ سیاسی طاقت بچانے کے لیئے اندرونی مخالفت کے باوجود سخت ترین مخالفین کو گلے لگاتی نظرآتی ہے تو سندھ کی دوسری بڑی جماعت متحدہ قومی موومنٹ پاکستان اور علیحدگی اختیار کرنے والے رہنماوں میں اندورنی رابطے شروع ہوگئے ہیں۔پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری عمران خان کے سندھ میں حالیہ ہونے والے سیاسی دوروں کے نتیجے میں پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنماؤں کو تحریک انصاف کی چھتری تلے جانے سے روکنے کے لیئے اپنی بھرپور کوشش کررہے ہیں اور یہ اسی کوشش کا نتیجہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ ن، مسلم لیگ ق اور مسلم لیگ فنکشنل کی کئی وکٹیں گرادی ہیں۔پیپلز پارٹی سندھ کے دیہی علاقوں میں مسلم لیگ فنکشنل کی مضبوط پوزیشن کو کافی حد تک زک پہنچانے میں کامیاب ہوگئی ہے۔آصف علی زرداری شہری علاقوں میں پیپلزپارٹی کو مضبوط کرکے مزید نشستیں حاصل کرنے کی منصوبہ بندی پر عمل پیرا ہیں۔خصوصاً کراچی اور حیدرآباد میں متحدہ قومی موومنٹ کو درپیش مشکلات اور دھڑے بندیوں سے پیپلزپارٹی بھرپور سیاسی فائدہ حاصل کرنا چاہتی ہے لیکن سیاسی تجزیہ کار وں کا کہنا ہے پیپلزپارٹی کو ملنے والی یہ تمام تر سیاسی کامیابیاں عارضی اور صرف چند دنوں کی ہی مہمان ہیں، آثار یہ ہی ہیں کہ جیسے ہی نگران حکومت سندھ میں اپنا اقتدار سنبھالے گی پیپلزپارٹی بھی سندھ میں سیاسی افراتفریح کا شکار ہوجائے گی کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی اپنے آخری دور حکومت میں سندھ میں کوئی خاص کارہائے نمایاں انجام نہ دے سکی، جس کا ایک واضح ثبوت سندھ بشمول کراچی کا کچرے کے ڈھیر میں تبدیل ہو نا ہے جبکہ اندرون سندھ میں بھی امن و امان کی صورتحال انتہائی دگرگوں ہے۔ عمران خان نے اس صورتحال سے فائدہ اٹھایا ہے۔ لیاقت جتوئی اور ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کو انتہائی مناسب وقت پر آن بورڈ لینا اشارہ کرتا ہے کہ 2018 ء کے الیکشن سے پہلے عمران خان سندھ میں پاکستان پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کو بہت بڑا ”سیاسی سرپرائز“ دینے چاہتے ہیں۔لیاقت جتوئی کے والد عبدالحمید بھی بڑے اثر رسوخ کے حامل قوم پرست سیاستدان تھے بعد ازاں قومی سیاست کرنے لگے اور یہ خاندان آج بھی سندھ کی بڑی سیاسی حقیقت ہے،جبکہ ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کی مقبولیت اور سیاسی طاقت کا اندازہ بھی آنے والے الیکشن میں لوگوں کو اچھی طرح ہوجائے گا۔ شیخ رشید جیسے جہاندیدہ اور زیرک سیاستدان کی مشاورت ضرور اپنا رنگ دکھائے گی جن کا سندھ میں ذاتی اثر رسوخ بھی خاصہ ہے دوروز قبل دادو میں ہونے والے بڑے جلسے کے بعد زرداری کا سیخ پا ہونا فطری امر ہے کیونکہ سندھ کو وہ بلا شرکت غیرت مفتوحہ سمجھے بیٹھے تھے لیکن وقت بدل چکا ہے جس کا ادراک شاید زرداری صاحب نہ کر سکے ان کی سندھ سے بے اعتنائی سے خلا پیدا ہوا اب کوئی تو اس خلا کو پر کرے گا اگر قوم پرست اور پیر پاگارا بھی اپنا وزن عمران خان کے پلڑے میں ڈالتے ہیں اور یہ بات بعید از امکان نہیں شیخ رشید کے پاگارا خاندان اور دیگر سیاسی قوتوں سے ذاتی تعلقات اس ضمن میں بہت مفید ہو سکتے ہیں زرداری صاحب کے لہجے کی تلخی بھی ان کی پریشانی کی غماز ہے شاید اس کا احساس انہیں بھی ہو رہا ہے کہ ان کے گذشتہ دور حکومت خصوصا سندھ میں برتی جانے والی بے اعتنائی کسی بھی وقت کایا پلٹ کا سبب بن سکتی ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ بلاول بھٹو زرداری، آصفہ اور بختاور بھی سیاست میں فعال ہیں۔بے نظیر بھٹو کی دونوں صاحبزادیوں کی رائے کو پیپلزپارٹی میں اہمیت حاصل ہے جبکہ بلاول بھٹو ابھی تک یہ ثابت نہیں کر سکے کہ وہ بحیثیت چیئرمین کسی بھی اختیار کو استعمال کرنے اور فیصلہ سازی کی قوت رکھتے ہیں اور یہ ہی وہ بات ہے جس کی وجہ سے بلاول بھٹو کا متحرک ہونا بھی پاکستان پیپلزپارٹی کو کوئی خاص فائدہ نہیں پہنچا پارہا۔ سندھ میں پی پی پی اور ایم کیو ایم بڑی تیزی کے ساتھ اپنی مقبولیت کھوتی جارہی ہیں عام لوگوں کا خیال یہ ہے دونوں جماعتوں نے سندھ کی تباہی میں برابر کا حصہ ڈالا ہے۔2018 ء کے الیکشن میں یہ دونوں سیاسی جماعتیں ایک بار پھر عوام سے بڑی امیدا لگائے بیٹھی ہیں، مگر سیاسی تجزیہ کاروں کی اکثریت اس بات کی قائل ہے کہ اگر پاکستان میں ادارے ملک سے وفا کرتے ہوئے اپنے نظام کو آئین و قانون کی حد میں پابند کرلیں اور بغیرسیاسی دباؤکے اپنے فرائض منصبی کو انجام دے دیں تو یقیناً الیکشن کمیشن کے منصفانہ عمل سے کبھی بھی جھوٹے، کرپٹ،دھوکے باز سیاسی لیڈر اور ان کی جماعتیں کامیاب نہ ہوسکیں گی۔سیاسی فضا بتا رہی ہے کہ بہت جلد سندھ کا سیاسی منظر نامہ مکمل طور تبدیل ہونے والا ہے،اب اس فیصلہ کن”سیاسی جنگ“میں دیکھیں کون جیتتا ہے کون ہارتا ہے۔۔۔۔!!لیکن ایک بات طے ہے کہ سندھ کی عوام اس بار ملک دشمن قوتوں کے اشاروں پر ناچنے والے ”نام نہاد“سیاسی رہنماؤں کا ساتھ کسی صورت نہیں دیں گے۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے ہفت روزہ ندائے ملت لاہور 10 مئی 2018 کے شمارہ میں شائع ہوا

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں