political-understanding-of-asif-ali-zardari-in-pakistan

سیاسی مفاہمت کی جادوگری

سیاسی مفاہمت کا جادوگر آصف علی زرداری”تختِ لاہور“ پر موجود ہو اور پنجاب میں پاکستان پیپلزپارٹی کی سیاست کا جادو سر چڑھ کر نہ بولے یہ کیونکر ممکن ہے۔ لیکن پیپلزپارٹی کے جیالوں کو ابھی سے ہی اپنے ذہن میں بہت زیادہ خوش فہمی نہیں پالنی چاہیئے کیونکہ ہنوز دلی دوراست۔ واضح رہے کہ آصف علی زرداری نے اپنے حالیہ دورہ پنجاب میں دو بڑے سیاسی رہنماؤں سے ملاقات کی ”سیاسی بازیاں“ کھیلیں،جن میں سے پہلی بازی اُن کے نام رہی اور وہ چوہدری منظور وٹو کی سیاسی حمایت، اگلے قومی انتخابات میں بلاول بھٹو زرداری کے لیئے حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ جبکہ دوسری”سیاسی بازی“ کا نتیجہ حسب منشا برآمد نہ ہوسکا،کیونکہ چوہدری پرویز الہٰی بارِ دگر انتہائی خوب صورتی کے ساتھ زرداری کو سیاسی وعدہ فردا پر ٹالنے میں کامیاب رہے۔

سادہ الفاظ میں یوں سمجھ لیجئے کہ جہاں چوہدری منظور وٹو کے پیپلزپارٹی میں شمولیت کے اعلان نے پیپلزپارٹی کو ایک قدم پنجاب کی سیاست میں آگے کی جانب بڑھایا تھا، تو وہیں اگلے ہی لمحے چوہدری پرویز الہٰی کے حرف ِ انکار نے دو قدم واپس پیچھے کی جانب دھکیل دیا ہے۔ اس کے علاوہ اپنے دورہ پنجاب میں جناب آصف علی زرداری نے دیگر جتنے بھی”سیاسی مہرے“ اَب تک جمع کیئے ہیں، وہ سب کے سب تصدیق شدہ ہارے ہوئے پیادے ہیں۔ جن کے بل بوتے پر پاکستان پیپلزپارٹی،صوبہ پنجاب کی سیاسی بساط پر اگلاقومی انتخاب لڑ تو سکتی ہے مگر جیت کسی بھی صورت نہیں سکتی۔ واقفان حال تو یہاں تک بتاتے ہیں کہ سندھ حکومت کے ”انتظامی اسٹیج“ پر کھڑے ہوکر صبح و شام پانی کے مسئلہ پر پنجاب اور پنجابیوں کو ہزارہا صلواتیں سنانے کے بعد بلاول بھٹو زرداری کا اگلے انتخاب میں پنجاب سے ایک درجن سیٹیں حاصل کرنا بھی ایسی انہونی خبر ہوگی، جیسے سورج کا مشرق کے بجائے مغرب سے طلوع ہونا۔

کاش! مفاہمت کا جادوگر اپنا تھوڑا سا ”ہنرِمفاہمت“سندھ کی شہری سیاست کے اُفق پر بھی دکھانے اور آزمانے کی کوشش کرتا۔کیونکہ بانی ایم کیو ایم کے سندھ کے سیاسی منظرنامہ سے مکمل طور پر بے دخل ہو جانے کے بعد کراچی،حیدرآباد، سکھر اور نواب شاہ کی شہری سیاست میں قیادت اور سیادت کا سنگین ”شناختی بحران“ اورزبردست ’’سیاسی خلا“ پیدا ہوچکا تھا۔ جسے تین برس گزرنے کے باوجود بھی سندھ کی کوئی سیاسی جماعت پُر کرنے سے قاصر نظر آتی ہے۔ بظاہر بعض سیاسی پنڈتوں کو پاکستان تحریک انصاف سے توقع تھی کہ،وہ اس سنہری سیاسی موقع کا بھرپور فائدہ اُٹھائے گی۔مگر شومئی قسمت کہ کچھ تحریک انصاف سندھ کی مقامی قیادت کے آپسی چپقلس اور کچھ اُن کی سیاسی نااہلیت نے شہری سندھ سے تعلق رکھنے والے فعال سیاسی رہنماؤں کو تحریک انصاف سے سخت برگشتہ کردیاہے۔

اَب تو یہ حال ہو چکا ہے کہ گزشتہ انتخابات میں کراچی سے جیتنے والے تحریک انصاف کے ممبران ِ قومی و صوبائی اسمبلی کے پاس بھی شہری اپنے چھوٹے موٹے کاموں اور مسائل کے حل کے لیئے جانے کا تکلف گوارا نہیں کرتے۔کیونکہ اُنہیں ڈر، خو ف اور اندیشہ لاحق رہتاہے کہ یہ نیا کام تو خیر سے کیا انجام دیں گے،کہیں اُلٹا اُن کے پرانے کام کا بھی سوا ستیا ناس مار کرنہ رکھ دیں۔ سب سے زیادہ حیرانی کی بات یہ ہے کہ جناب آصف علی زرداری جنہیں پاکستان کی مفاہمتی سیاست کا حاذق طبیب اور نباض سمجھا جاتاہے، وہ بھی سندھ کی شہری سیاست میں پیدا ہونے والے غیرمعمولی ”سیاسی موقع“ کو اَن جانے میں یا پھر جان بوجھ کر ضائع کررہے ہیں۔ حالانکہ جتنی غیر سیاسی بھاگ دوڑ اور سیاسی ملاقاتیں آصف علی زرداری نے پنجاب کی چند انتخابی نشستوں کے حصول کے لیئے کیں ہیں، اگر وہ اُس سے آدھی ملاقاتیں بھی کراچی اور حیدرآباد کی شہری سیاست سے متعلق رہنماؤں سے کرلیں تو بلاشبہ اگلے قومی انتخابات میں پاکستان پیپلزپارٹی کو دو درجن سے زیادہ اضافی نشستیں باآسانی حاصل ہوسکتی ہیں۔

مگر شاید جناب آصف علی زرداری ”سندھ کارڈ“کے سحر سے پاکستان پیپلزپارٹی کو نکالنے کی دُور دُور تک کوئی ”سیاسی خواہش“اور”مفاہمتی ارادہ“ نہیں رکھتے۔اس لیئے جب ”تخت ِلاہور“ پر براجمان ہوکر وہ پنجاب کی عوام سے مخاطب ہوتے ہوئے کہتے ہیں کہ ”اُن کی جماعت کو اگر دوبارہ پنجاب میں اقتدار ِ اعلیٰ حاصل ہوا تو وہ روٹی، کپڑا اور مکان کا اپنا دیرینہ وعدہ پورا کریں گے“۔ عین اُسی وقت کراچی کی کسی کچر کنڈی کے بیچ یا سیوریج کے گندے پانی سے بھری ہوئی گلی میں گھٹنے گھٹنے تک ڈوبا ہوا، بے اماں شہری حسرت سے سوچتا ہے کہ ”کاش! آصف علی زرداری اور اُن کی سندھ حکومت ایسی ہی کوئی ”سیاسی تسلی“ اُنہیں بھی دے دیتے تو کتنا اچھا ہوتا“۔

آپ گزشتہ چند برسوں کا شائع شدہ اخباری مواد محدب عدسے سے اچھی طرح کھنگال کر دیکھ لیں تو از خود ہی معلوم ہوجائے گا کہ مفاہمت کے جادوگر جناب آصف علی زرداری کشمیر سے لے کر خیبر پختوانخواہ تک، لاہور سے لے کر ملتان تک، کم و بیش ہر اہم ترین سیاسی رہنما سے ایک بار نہیں بلکہ کئی کئی بار مل چکے ہیں، اَب چاہے اُس خوش نصیب سیاسی رہنما کا تعلق مسلم لیگ ن، ف یا ق سے ہو یا پھر اے این پی اور پی ٹی ایم سے ہی کیوں نہ ہو، سندھ کارڈ کی”سیاسی صحت“ پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔حتی کے پاکستان تحریک انصاف کے ناراض اور راضی بہ رضا رہنماؤں سے بھی خفیہ و ظاہری سیاسی ملاقاتیں وقتا فوقتا ہوتی رہتی ہیں۔

بس! اگر کبھی محترم آصف علی زرداری صاحب کی جانب سے شرفِ ملاقات نہیں بخشا جاتا تو وہ بے چارے سندھ کی شہری سیاست سے تعلق رکھنے والے گنتی کے چند، اہم اور غیر اہم سیاسی رہنما ہیں۔جن کی ہنگامی سیاسی حالات میں بھی زیادہ سے زیادہ رسائی صوبائی وزرا ء سید ناصر حسین شاہ، مرتضی وہاب اور سعید غنی تک ہی ہوپاتی ہے۔جبکہ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ تو اِن بے چاروں کے لیئے ”سیاسی سدرۃ المنتہیٰ“ کی مانند ہیں کہ اگر اس مقام سے آگے ایک قدم بھی مزید آگے بڑھایا تو گویا،ان کی ساری سیاست جل کر راکھ ہوجائے گی۔ کیا صرف کشمیر،خیبر پختونخواہ، پنجاب اور بلوچستان میں ہی مفاہمت کی سیاست کا قحط پڑا ہوا ہے؟۔کیا سندھ کی تعمیر و ترقی اور خوش حالی کے لیئے ضروری نہیں ہے کہ یہاں بھی مفاہمت کے جادوگر کی جانب سے کچھ منتروں کی جھاڑ پھونک کی جائے؟۔ ہمارے دل کی تو حسرت ہی رہ گئی کہ کبھی کراچی میں بھی مفاہمت کا صور پھونک کر تعصب، ذات پات، برادری اور لسانیت کی ناخلف اولاد کو موت کی ابدی نیند سلایا جائے۔عطاالحق قاسمی سے”سیاسی معذرت“ کے ساتھ
”تعصب“بچے جن رہا ہے،کوچہ و بازار میں

”مفاہمت“کو بھی صاحبِ اولاد ہونا چاہئے

حوالہ: یہ کالم سب سے پہلے روزنامہ جرات کراچی کے ادارتی صفحہ پر 28 جون 2021 کی اشاعت میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں