seagul-plastic-pollution

پلاسٹک کی تھیلیاں زمین کا سانس گھونٹ رہی ہیں

اب تک کی دریافت شدہ کائنات میں ہماری زمین ہی وہ واحد سب سے بہترین اور خوبصورت نیلگوں سیارہ ہے، جہاں ہم انسان ایک بہتر زندگی بغیر کسی تگ و دو یا مشقت کے بسر کرسکتے ہیں۔اس لحاظ سے اگردیکھا جائے تو ہمیں زمین کی ضرورت ہے نہ کہ زمین کو ہماری۔ زمین سے بڑھ کر اس وسیع و عریض کائنات میں انسان کا کوئی دوست نہیں لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ انسان سے بڑھ کر زمین کا کوئی دوسرا دشمن نہیں۔جہاں زمین ا پنی پیدائش کے پہلے ہی دن سے انسان کی بقا کے لیئے اپنے آپ کو بنانے،سنوارنے اور متوازن بنانے میں پوری خوشدلی سے مصروف رہی ہے،وہیں حضرت ِ انسان بھی زمین پر اپنی آمد کے روزِاول سے ہی اسے فنا کرنے میں برابر مصروف ِ عمل ہے۔حالانکہ انسان یہ چھوٹی سی بات بہت اچھی طرح سے نہ صرف جانتا، بلکہ سمجھتا بھی ہے کہ زمین کے علاوہ اس کا پوری کائنات میں کوئی اور دوسری جائے مستقر نہیں مگر پھر بھی وہ زمین کو اپنے پاؤں تلے پامال کرنے میں ذرہ برابر بھی عار محسوس نہیں کرتا۔ہر سال 22 اپریل کو دنیا بھر میں اقوام متحدہ کے زیر اہتمام انٹرنیشنل ارتھ ڈے یعنی یومِ ارض منایا جاتا ہے۔اس دن کو عالمی سطح پر منانے کا بنیادی مقصد کرہ ارض کی حفاظت سے وابستہ مسائل کی جانب ہر فرد بشر کی توجہ دلانا مقصود ہوتا ہے۔رواں برس یومِ ارض ”پلاسٹک کی آلودگی ختم کرو“ کے زیرِ عنوان منایا جارہا ہے۔

زمینی حقائق کیا ہیں؟
زمین نظام شمسی کے آٹھ سیاروں میں سورج سے تیسرا نزدیک ترین سیارہ ہے۔سائنسی تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ زمین کی عمر 4.54 ارب سال ہے۔ زمین پر زندگی کی شروعات تقریبا ایک ارب سال پہلے ہونا شروع ہوئی تھی۔زمین پر زندگی کی پیدائش کے لئے موزوں و متناسب ماحول (جیسے سورج سے عین مطابق فاصلے وغیرہ) سب کچھ پہلے ہی سے دستیاب تھے۔ریڈیو میٹرک جانچ سے حاصل شدہ ثبوتوں کے مطابق ایک ارب سال گزرنے کے بعد سمندروں سے زندگی کا آغاز ہوا تھا، جس نے زمین کی سطح اور ماحول پر اپنے اثرات ڈالنا شروع کیے تھے۔ان ہی اثرات کی وجہ سے زمین پر انسانی زندگی کا وجود ممکن ہوسکا۔ نظام شمسی میں جس جگہ ہماری زمین موجود ہے یہ مقام زندگی کو پنپنے کے لئے سب سے بہترین ماحول خیال کیا جاتاہے۔زمین پر زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 56.7 °سینٹی گریڈ اوسط 15 ° سینٹی گریڈ اور کم سے کم درجہ حرارت منفی 89.2 ° سینٹی گریڈ ہے۔فضا میں ہوا کا دباؤ 101.325 کلو پاسکل ہے جو کہ ہر جاندار کے لئے بہترین کہا جاتا ہے۔زمین کی کشش ثقل خلا میں مختلف عوامل سرانجام دیتی ہے خاص طور پر سورج کے گرد مدار میں گردش کرنا اور چاند کا زمین کے گردگھومنا۔زمین 366.26 بار اپنے محور میں گھوم کر 365.26 شمسی دن مکمل کرتی ہے۔زمین پر مختلف موسموں کی تشکیل اپنے گردشی محور کی سطح میں 23.4° ڈگری جھکاؤ کی وجہ سے ممکن ہوتی ہے۔زمین کی گھومنے کی اوسطاً رفتار 29.78 کلومیٹر فی سیکنڈ اور 107200 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے۔ زمین اس رفتار سے مسلسل اپنے محور میں چکر کاٹ رہی ہے۔زمین کے ایک مکمل چکر کو ہم ایک دن کہتے ہیں جبکہ زمین ہمارے سورج کے مدار میں 365.256363004 دن میں ایک گردشی چکر مکمل کرتی ہے جس سے ہمارا سال بنتا ہے۔زمین کی کشش ثقل 150,000,000 کلومیٹر کے فاصلے تک سورج کی سیاروں تک پہنچنے والی مقناطیسی کشش سے زیادہ طاقتور ہے۔زمین کے اس ثقلی دائرے میں کوئی بھی چیز اگرزمین کے گرد گھومے گی تو سورج کی طاقت ور ترین مقناطیسی قوت اس چیز کو زمین کی پہنچ سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے بہت دور لے جائے گی۔ہماری زمین ملکی وے یعنی کہکشاں کے مرکز سے 28,000 نوری سال کے فاصلے پر ہے۔اگر انسان ترقی کے نام پر کی جانے والی ماحولیاتی بد اعتدالیوں سے گریز کا طرزِ عمل اختیار کرلے تو یہ زمین اگلے 500 ملین سال سے لے کر 2.3 ارب سال تک ہر قسم کی زندگی کے لئے موزوں رہ سکتی ہے۔



زمین کتنے خطرے میں ہے؟
گزشتہ ہفتے ایک نئی تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ زمین کو سورج کی خطرناک شعاعوں سے بچانے والی میگنیٹک فیلڈ (مقناطیسی میدان) ڈرامائی انداز سے کمزور ہو رہی ہے جس کی وجہ سے زمین کا بیلنس یعنی توازن متاثر ہونے کے آثار ظاہرہونا شروع ہوگے ہیں۔ اس نئی تحقیق سے حاصل ہونے والے نتائج سے ماہرین ارضیات شدید پریشان ہیں۔ میگنیٹک فیلڈ وہ زمین دوست مقناطیسی میدان ہوتا ہے جس کی وجہ سے نہ صرف زمین کو اپنے قطب شمالی اور قطب جنوبی برقرار رکھنے میں مدد ملتی ہے بلکہ یہ میگنیٹک فیلڈ زمین کو حد درجہ متوازن رکھ کر سورج کی بالائے بنفشی (الٹرا وائلٹ) شعاعوں اور خلا کے تابکاری اثرات سے بھی بچاتی ہے، لیکن اب یہ نظر نہ آنے والی زمین دوست قوت تیزی سے روبہ زوال ہے اور اس حد تک اس کی طاقت کم ہو چکی ہے کہ یہ صورتحال ممکنہ طور پر ہمارے قطبین (شمالی اور جنوبی) کی جگہ تبدیل ہونے کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو قطبین اپنی جگہ ہزاروں سال میں پہلی بار تبدیل کریں گے۔ سائنسدانوں کیلئے جو علاقہ سب سے زیادہ باعث تشویش بنا ہوا ہے وہ بحر اوقیانوس کا جنوبی علاقہ ہے جو جنوبی امریکی ملک چلی سے لے کر افریقی ملک زمبابوے تک پھیلا ہوا ہے۔ اس علاقے میں میگنیٹک فیلڈ اس قدر کمزور ہوچکی ہے کہ خدشات ظاہر کیئے جارہے ہیں کہ اس علاقے میں خلا سے داخل ہونے والی مصنوعی سیٹلائٹس اپنے ساتھ اضافی تابکاری لا سکتی ہیں اور اس وجہ سے سیٹلائٹس کا برقی نظام ناکارہ ہو کر ہماری زمین کے لیئے تباہ کن نقصانات کا سبب بن سکتا ہے۔ ماہرین ارضیات کے مطابق ہمارے کرہ ارض کی بقاء کو اس عظیم ترین خطرہ کے علاوہ اور بھی کئی مزید خطرات لاحق ہیں اوراِن تمام خطرات کی زد پر زمین کے آنے کی بنیادی وجہ ایک ہی ہے اور اُس کا نام آلودگی ہے،”آلودگی“ کا عفریت زمین اور اس پر بسنے والے انسانوں کو مکمل طور پر اپنے مہلک پنجوں میں جکڑ چکا ہے۔جس کا اندازہ آپ حال ہی میں جاری ہونے والی اس رپورٹ سے بخوبی لگا سکتے ہیں،جس میں انکشاف کیا گیاہے کہ ”دنیا میں قبل از وقت ہونے والی اموات کے لیے”آلودگی“ جنگوں، تشدد اور بیماریوں سے بھی بڑا سبب ہے۔آلودگی کے باعث ہونے والی مجموعی ہلاکتیں اتنی زیادہ ہیں کہ اگر جنگوں، تشدد، تپ دق، ملیریا اور ایڈز کے باعث ہونے والی تمام ہلاکتوں کو بھی ملایا جائے تو بھی وہ کم ہوں گی۔آلودگی سے ہونے والی ہلاکتیں جنگوں سے ہونے والی مجموعی ہلاکتوں سے 15 فیصد زیادہ ہیں“۔ آلودگی کی کوئی ایک مخصوص قسم نہیں ہے بلکہ اس کے کئی روپ ہیں اور اس کا ہرروپ زمین اور اس پر بسنے والے ہر جاندار کے لیئے موت کے بھیانک پیغام کے سوا کچھ نہیں۔

آلودہ فضا سے زمین کا دم گھُٹ رہا ہے
انسانوں کی جانب سے ہونے والی صنعتی سرگرمیوں اور ایندھن کی بدولت چلنے والی موٹر گاڑیوں سے خارج ہونے والی زہریلی گیسوں کاربن مونوآکسائیڈ، سلفر ڈائی آکسائیڈ، کلورو فلورو کاربنز (سی ایف سی ایز) اور نائٹروجن آکسائیڈ وغیرہ کے اخراج کو فضائی آلودگی کہا جاتا ہے۔ فضائی آلودگی کا سب سے زیادہ نقصان زمین کی حفاظتی تہہ اوزون (Ozone) جسے آپ ہماری زمین کا سائبان بھی کہہ سکتے ہیں کو ہوتا ہے۔اوزان ہماری زمین کی حفاظت میں بڑا اہم اور کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ سورج سے آنے والی ریڈی ایشن یعنی شعاعوں کی ایک بڑی مقدار کو اوزون کی حفاظتی تہہ اپنے اندر جذب کرلیتی ہے اور اسے زمین کی سطح تک آنے سے روکتی ہے۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ اوزون کی یہ حفاظتی تہہ سورج سے نکلنے والی انسانی زندگی کے لیئے انتہائی نقصان دہ الٹراوائلٹ شعاعوں کے ایک بڑے حصے کو بھی جذب کرتی ہے جسے UVB کہتے ہیں۔یو وی بی کے ساتھ بہت سے نقصان دہ اثرات جڑے ہوئے ہیں جن میں کئی قسم کے جلد کے کینسر بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ UVB شعاعیں فصلوں،پینے کے صاف پانی، بعض مخصوص قسم کی معدنیات اور سمندری حیات کو بھی سخت نقصان پہنچاتی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک اوزون کی تہہ میں فطری طور پر جو بھی کمی واقع ہوتی تھی وہ ایک قدردتی نظام کے تحت خود بخود پوری بھی ہوجاتی تھی لیکن حال ہی میں ملنے والے سائنسی شواہد سے پتہ چلا ہے کہ بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی کے باعث اوزون کی تہہ کو فطری طریقے سے ہونے والے انحطاط کے برعکس زیادہ نقصان پہنچ رہا ہے۔جس کے بعد اب اوزان کی تہہ میں ہونے والی کمی قدرتی طور پر پورا ہونا ممکن نہیں رہا۔ سائنسدانوں نے تشویش ظاہر کی ہے کہ اگر بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی کو روکنے کے لیئے دنیا بھر میں ہنگامی اقدامات نہیں اُٹھائے گئے تو اوزون کی یہ زمین دوست حفاظتی تہہ بُری طرح متاثر ہونے کے ساتھ ساتھ ہمیشہ کے لیئے ختم بھی ہوسکتی ہے۔

تابکاری ہماری زمین کو جلا ہی نہ دے کہیں
ریڈیو ایکٹیو آلودگی جسے عام طور پر تابکاری آلودگی بھی کہا جاتاہے،بیسویں صدی میں ایٹمی ہتھیاروں کی ریس میں برتری حاصل کرنے کی دوڑ کا نتیجہ ہے۔ ایٹمی توانائی کے حصول کی سرگرمیاں، ایٹمی ہتھیاروں کی تجرباتی بنیادوں پر تیاری اور تحقیق آلودگی کی اس نئی اور زیادہ ہلاکت خیز قسم کو تیزی سے فروغ دے رہی ہے۔ آج سے ستر سال پہلے بمبار طیارے اینولا گے (Enola Gay) نے لٹل بوائے (Little Boy) نامی جو ہری ہتھیار کے ساتھ جاپان کے شہر ہیروشیما پر پرواز کی تھی۔ اس مشن نے وہ تباہی پھیلائی جو چشم فلک نے اس سے پہلے نہیں دیکھی تھی اور کرہ ارض کی تاریخ ہمیشہ کے لیے تبدیل کر کے رکھ دی۔ اس واقعہ کے فوراً بعد جیسے امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان زیادہ طاقتور جوہری ہتھیاروں کے تجربات کرنے اور ان کے انبار لگانے کی خوفناک دوڑ شروع ہو گئی۔ یوں تو جوہری عفریت کے جن کو بوتل میں بند کرنے کے لیے مختلف اوقات میں بڑی بڑی کوششیں کی جاتی رہیں۔جس کے نتیجے میں زمین کے اوپر اور نیچے ایٹم بم کی آزمائش کا سلسلہ بند ہو چکا اور ترکِ اسلحہ کی مہم کے نتیجے میں بھی لاکھوں زائدہ المیعاد ایٹمی ہتھیار ناکارہ بنا دئیے گئے، لیکن اس کے باوجو د بھی ہماری زمین کو سب سے بڑا خطرہ ایٹم بم ہی سے لاحق ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت بھی زمین کے مختلف حصوں پر 16,000 سے زائد جوہری ہتھیار نصب ہیں، جن کا ٹارگٹ ہماری زمین کے علاوہ اور کوئی نہیں ہے اور ان میں سے ہر ایک کی تباہ کن طاقت ہیروشیما پر گرائے گئے بم سے بہت زیادہ ہے۔ ماہرین ِ ریڈیو ایکٹیو ٹیکنالوجی کے مطابق یورینیم کی کان کنی، اس کی صفائی، افزودگی اور دوسرے کئی مراحل ایٹم بم تیار کرنے کے لیے ضروری ہوتے ہیں، جن سے دنیا میں ریڈیو ایکٹیو آلودگی پھیلتی ہے۔ جوہری عہد اس وقت ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے اور اب halted bomb testing کی جارہی ہے۔ اس کے بد ترین اثرات بھی بم پھاڑنے کے قریب ترین ہی ہوتے ہیں اور یہ ٹیسٹنگ زیادہ تر امریکہ اور روس کی طرف سے ہی کی جاتی ہے۔ 1945ء سے پہلے 100 سے زیادہ ریڈیو ایکٹیو کیمیکلز کے زہریلے مکسچر کو کوئی وجود نہیں ہوتا تھا، لیکن اب یہ اتنا زیادہ ہوگیا ہے کہ زمین کا حیاتیاتی نظام ہی اس کی زد پر آگیا ہے۔ زمین کے اوپر جوہری تجربات کرنے کا سلسلہ 1963ء میں ختم ہو گیا تھا لیکن آہستہ آہستہ ان کے اثرات کا دائرہ دوبارہ سے وسیع ہوتا رہا۔شروع میں چھوٹے چھوٹے ٹیسٹ ری ایکٹرز کی تباہی پر زیادہ توجہ نہ دی گئی اور انہیں بند کر دیا گیا، لیکن اسکے بعد 1979ء میں تھری مل آئی لینڈ، 1986ء میں چرنوبل اور 2011ء میں فوکو شیما کے بڑے ری ایکٹروں کی تابکاری نے سب کے کان کھڑے کر دیے۔ فوکو شیما کے ری ایکٹر سے تو اب تک خطر ناک ریڈیو ایکٹو شعاعیں خارج ہو رہی ہیں اور فضا پر تباہ کن اثرات ڈال رہی ہیں۔ نیوکلیئر ری ایکٹرز میں جدید سائنسی تحقیقات کے بدولت گو کہ بڑی جدتیں پیدا کرلیں گئی ہیں لیکن اس کے باوجود بھی 100 سے زیادہ ریڈیو ایکٹو کیمیکلز کا کچھ حصہ ان میں سے ہر وقت رستا رہتا ہے اوریہ بڑے ایٹم بم کے پھٹنے سے بننے والے بادل کی طرح کا ہوتا ہے۔ نیو کلیئر پاور ری ایکٹرز کا ایک اور نقصان یہ بھی ہے کہ ان کا فضلہ (Waste) ہزاروں سال تک مکمل طور پر تابکاری اثرات سے مبرّا نہیں ہو پاتا۔ اس فضلے کو محفوظ طریقے سے ٹھکانے لگانا بین الاقوامی رہنماؤں کے لیئے درد سر بنا ہوا ہے، لیکن بدقسمتی سے ابھی تک اس کا کوئی موثر حل تلاش نہیں کیا جاسکا۔ اس وقت اس فضلے کو ری ایکٹرز کے مقام پر ہی بڑے بڑے حوضوں میں ڈال کر پانی کو مسلسل ٹھنڈا رکھا جاتا ہے۔ اگر کسی وجہ سے پانی ٹھنڈا نہ کیا جا سکے تو اس کا نتیجہ بھی زمین کی بہت بُری تباہی کی صورت میں نکل سکتا ہے۔

پلاسٹک کے پھندے میں پھنسی ہوئی زمین
ہمارے ہاں چند دہائی قبل تک کھانے پینے کے لیے مٹی یا تام چینی کے برتنوں اور خریداری کے لیے گھر سے کپڑے کے بنے ہوئے تھیلے لے کر جانے کا عام رجحان پایا جاتا تھا، لیکن جدیدیت اور سہولت کے نام پر رفتہ رفتہ پلاسٹک کے برتن، پلاسٹک کی تھیلیوں کے رجحان کو بہت تیزی سے فروغ حاصل ہوتا گیا، بظاہر روزمرہ زندگی میں پلاسٹک سے بنی اشیاء کے استعمال نے ہم انسانوں کے لیے سہولت کا سامان تو ضرور پیدا کیا مگر اس کا خمیازہ اب ہماری زمین کو بھگتنا پڑ رہا ہے، پلاسٹک چونکہ ایک پائیدار مادہ یعنی کسی بھی صورت نہ گلنے والی شے ہے، اس لئے یہ زمین کی سانس کو بند کرکے اس کو منجمد کر دیتا ہے اور پیڑ پودوں کو زمین سے جو غذا اور دوسرے اجزاء ملنے چائیے ہوتے ہیں ان کی ترسیل میں رکاوٹ کا باعث بن جاتاہے۔اگرکبھی موقع میسر آئے تو آپ بھی باآسانی اس امر کا مشاہدہ کرسکتے ہیں کہ بارش کا پانی پولی تھین یعنی پلاسٹک کی وجہ سے زمین کے اندر جذب نہیں ہوتا۔ اسی لئے اکثر علاقوں کے جنگلات اور زرعی زمینیں پولی تھین کی وجہ سے اپنی فطری ساخت کھو دیتی ہیں،جس کے نتیجے میں نباتات کی افزائش رک جاتی ہے اور زمین کی پیداواری صلاحیت بھی کمزور پڑ جاتی ہے۔ اس کے علاوہ پلاسٹک جنگلی حیات کے لیئے بھی زہرِ قاتل ہے۔ پلاسٹک ایک پولیمر ہے جو کہ ایک یا کئی مختلف قسم کے کیمیائی اجزاء سے مل کر تیار ہوتا ہے۔ اس کی عام اقسام میں پولی تھین، پولی اسٹیرین، سینتھیٹک ربر، نائیلون، پی وی سی، بیکولائٹ، میلامائن، ٹیفلون اور آرلون وغیرہ شامل ہیں۔پلاسٹک کے لفافوں میں ایک زہریلا مادہ کیڈیم کا عنصر بھی لازمی طور پر شامل ہوتا ہے جو کہ خوراک میں زہریلے مادے کو پیدا کرنے کا باعث بن سکتاہے۔پلاسٹک کے لفافوں کی زندگی ایک سو سال سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ ان کو جلانے سے زہریلی گیسز فضا میں شامل ہو جاتی ہیں جو انسانی صحت پر انتہائی مضر اثرات مرتب کرتی ہیں۔ ان گیسز کے باعث لوگ بلڈ کینسر، پھیپھڑوں اور سانس کے امراض میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ پلاسٹک کی تھیلیوں کو ضائع کرنے کے لئے سمندر میں بہایا جاتا ہے۔ پلاسٹک کا یہ کوڑا کرکٹ لہروں کے دوش پر دنیا کے اُن انتہائی دور درازعلاقوں تک پہنچ جاتا ہے جہاں انسانی زندگی بھی نہیں پائی جاتی۔ جس کی ایک مثال نیوزی لینڈ کا ہنڈرسن جزیرہ ہے جسے دنیا کا سب سے دوردراز اور غیر آباد علاقہ ہونے کے باعث یونیسکو نے عالمی ورثے کی فہرست میں شامل کیا ہوا ہے۔ اگر آپ نیوزی لینڈ سے بحری جہاز میں 13 روز دن رات سفر کریں تو ہینڈرسن جزیرے پر پہنچیں گے۔یہ منفرد جزیرہ اب تک انسانوں کے پہنچ سے دور خیال کیا جاتا تھا تاہم کبھی کبھار یہاں سائنسداں تحقیق کے لیے ضرور چلے جاتے تھے لیکن اب معلوم ہوا ہے کہ اس جزیرے پر بھی 18 ٹن سے زائد پلاسٹک کا کچرا موجود ہے جس کا تصویری نظارہ ماہرین ِ ارضیات کے لیئے حیرانی کے ساتھ ساتھ شدید پریشانی کا بھی باعث بنا ہوا ہے۔ اندازہ ہے کہ اس وقت 5 ٹریلین ٹن پلاسٹک کا کچرا سمندروں کے دوش پر زیرِ گردش ہے۔ حل پذیر نہ ہونے کی وجہ سے پلاسٹک کا یہ فضلہ سمندروں، دریاؤں اور ندی نالوں میں آبی حیات کو بھی موت سے ہم کنار کر رہا ہے،ہر سال ہزاروں بحری پرندے، مچھلیاں اور کچھوے پلاسٹک کھانے سے مر رہے ہیں۔پلاسٹک کی انہی خوف ناک تباہ کاریوں کو دیکھتے ہوئے اقوامِ متحدہ نے رواں برس کا عالمی یومِ ارض ”پلاسٹک کی آلودگی ختم کرو“ کے سلوگن کے تحت منانے کا فیصلہ کیا ہے۔آئیں ہم سب بھی بہ حیثیت انسان زمین کے ساتھ اپنے وسیع تر”تعلقِ قلبی“کا ثبوت دیتے ہوئے اس نعرہ کو حرزِ جاں بناکر پلاسٹک کی بنی ہوئی تمام اشیاء کو کم سے کم استعمال کرنے کا عہد کریں۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے روزنامہ جنگ کے سنڈے میگزین میں 22 اپریل 2018 کے شمارہ میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں