Petrolium-Commision-Report

تیل دیکھو اور تیل کی کرپشن دیکھو

عام طور پر کہا جاتاہے کہ ہماری اِس کائنات میں موجود ہر شئے کے دو پہلو ہوتے ہیں،ایک اچھا اور دوسرا بُرا۔اَب یہ دیکھنے والے پر منحصر ہے کہ وہ کون سا پہلو ملحوظ ِ خاطر رکھتا ہے۔ جب یہ طے پاگیا کہ ہر شئے اپنی ساخت میں دو رُخی ہوتی ہے تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ ہمارے میں ملک میں بنائے جانے والے تحقیقاتی کمیشن بھی دو رُخے نہ ہوں۔ یاد رہے کہ پاکستان میں سنگین اور حساس معاملات کی چھان پھٹک کے لیے بنائے جانے والے تحقیقاتی کمیشنز کی تاریخ بے حد پرانی ہے۔ حمود الرحمن کمیشن رپورٹ سے لے کر سانحہ ماڈل ٹاؤن کمیشن رپورٹ تک کونسی ایسی تحقیقاتی رپورٹ ہے،جسے پاکستانی قوم نے نمناک آنکھوں اور ڈوبتے دل کے ساتھ مطالعہ نہ کیا ہو۔

ہمارے ہاں،بنائے جانے والے تحقیقاتی کمیشنز کا سب سے تاریک اور بُرا پہلو یہ ہی ہوتاہے کہ اِن کی جانب سے جاری کردہ کسی رپورٹ پر کبھی ضروری ”انتظامی کارروائی“نہیں ہوپاتی۔ شاید یہ ہی وجہ ہے کہ اَب عام عوام، تحقیقاتی کمیشن کی جانب سے پیش کردہ رپورٹ میں دلچسپی لینا ہی ترک کرچکے ہیں۔ حالانکہ ہماری ذاتی رائے میں عوام الناس کو تحقیقاتی کمیشن کی مرتب کردہ ہر رپورٹ کا نہ صرف بھرپور مطالعہ کرنا چاہئے بلکہ رپورٹ میں درج اہم ترین مندرجات کی خوب تشہیر اور اشاعت میں اپنا کردار بھی ادا کرنا چاہئے۔ تاکہ جمہوریت پسند پاکستانی شہریوں کو کم ازکم اتنی خبر تو ہو سکے گزشتہ چالیس سالوں میں کرپشن کے سائنس دانوں یعنی سیاست دانوں نے ریاستِ پاکستان کے وسائل لوٹنے کے لیئے کس قدر محفوظ، مکمل اور کمال کی تیکنیکیں ایجاد کرلی ہیں کہ ہمارے ہاں ہونے والی ”کرپشن زدہ ایجادات“ کے سامنے تو مغرب اور یورپ کا سارا علم و دانش بھی دم بخود ہے۔

اگر آپ کو ہماری اِس بات میں ذرہ برابر بھی مبالغہ یا یاوہ گوئی کی آمیزش محسوس ہورہی ہے تو پھرتھوڑا سا وقت نکال کر کچھ عرصہ قبل پٹرولیم کمیشن کی جانب سے جاری ہونے والی تحقیقاتی رپورٹ کا سرسری سا مطالعہ کرلیں۔ ہمارا دعویٰ ہے کہ اسے پڑھنے والے کو ایسی جھرجھری آئے گی کہ اُس کے چودہ طبق ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے روشن ہوجائیں گے۔ واضح رہے کہ جون 2020میں ہمارے ملک میں پٹرول کا بحران پیدا ہوا، تب چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ محمد قاسم خان نے سردار فرحت منظور خان چانڈیو ایڈووکیٹ کی درخواست پر نوٹس لیا، جج صاحب کے حکم پر ایڈیشنل ڈی جی ایف آئی اے ابو بکر خدا بخش، ڈی جی اینٹی کرپشن پنجاب گوہر نفیس سمیت 5رکنی پٹرولیم کمیشن بنا، پٹرولیم کمیشن نے 168صفحاتی رپورٹ چیف جسٹس کو پیش کی اور چیف صاحب کے حکم پر یہ رپورٹ شائع کر دی گئی۔یہ رپورٹ کیا ہے،دورِ جدید کی کرپشن زدہ سیاست کی طلسم ہوش رباہے،لالچ اور بدنیتی کی الف لیلہ ہے، نوحہ ہے ہماری مس مینجمنٹ کا، مرثیہ ہے ہماری لوٹ مار کا، تازیانہ ہے ہماری نااہلیوں، نالائقیوں کا، رپورٹ کے مندرجات کے مطابق آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) بنی 2002میں، مگر اُسے چلانے کیلئے قوانین نافذ ہوئے 2016میں، یعنی 14سال ایڈہاک، عارضی حکم ناموں سے کام چلایا جاتا رہا یعنی ایک ریگولیٹری اتھارٹی بغیر کسی قانون کے ”قانونی احتساب“ کا مکمل قانونی ڈرامہ کرتی رہی اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوسکی۔

المیہ ملاحظہ ہو کہ کمیشن رپورٹ کے مطابق اوگرا قوانین کے تحت کوئی بھی آئل کمپنی مقررہ مقدار میں آئل ذخیرہ یقینی بنائے بغیر کام ہی نہیں کر سکتی تھی مگر ہماری 25آئل کمپنیوں کے پاس آئل ذخیرہ ہی نہیں تھا۔ یہ ہمارانہیں کمیشن کی رپورٹ کا کہنا ہے۔ویسے تو ہماری قوم کے تاجر آٹا، دال،چاول اور چینی سمیت شاید ہی کوئی ایسی شئے ہو جس کی ذخیرہ اندوزی جیسا قبیح گناہ نہ کرتے ہوں۔مگر حیرت کی بات ہے کہ جس شئے کا ذخیرہ کرنا قوم اور ریاست کے مفاد میں ہو، اُس قیمتی شئے کا ذخیرہ فقط اس لیئے نہیں کیا جاتاہے کہ اِن آئل کمپنیوں کے مالکان کو مستقبل میں مالی نقصان کا اندیشہ لاحق ہوتاہے۔ یعنی تیل بحران کی وجہ یہ تھی کہ آئل کمپنیوں نے ہنگامی صورتحال کیلئے 20دن کا تیل کا ذخیرہ رکھنا تھا جو نہیں رکھا گیا۔کیونکہ اُس وقت تیل کی قیمتیں نیچے آرہی تھیں، سب کمپنیاں اِسی چکر میں تھیں کہ جب قیمتیں زمین پر آگریں گی تب تیل خریدیں گے، اور ایسا نہ ہو سکا۔

پس! جب تیل کی قیمتیں اوپر جانے لگیں تو پی ایس او کے علاوہ تمام کمپنیوں نے ذخیرہ اندوزی کرکے تیل کا مصنوعی بحران پیدا کر دیا۔یہاں سوال یہ نہیں ہے کہ تیل کمپنیوں نے تیل کی گنگا میں کس طرح سے اشنان کیا بلکہ سوال تو یہ ہے کہ اُس وقت اوگرا کے افسران کون سی ”لالچی جنت“ میں محوخرام تھے۔ کیونکہ جو کچھ بھی غلط ہو رہا تھا، اُسے اوگرا نے ہی تو روکنا تھا مگر اوگرا کے سفارشی افسران آئل کمپنیوں کے مالکان کے ”دام دار“غلام بن کر اپنے بنک اکاؤنٹ کا گراف بڑھاتے رہے۔جب اُن سے اس بابت باز پرس کی گئی تو انہوں نے سب کچھ وزارتِ پٹرولیم پر ڈال دیا اور وزارتِ پٹرولیم نے سب کچھ اوگرا پر ڈال کر خود کو بر ی الذمہ قرار دے دیا۔ قصہ مختصر یہ ہواکہ اوگر ا، اور وزارت پٹرولیم کی اِس آنکھ مچولی میں عوام ہی چور قرار پائے اور عوام ہی لُٹتے رہے، ملک کا نقصان ہوتا رہا اور آئل کمپنیاں دھڑا دھڑ مال بناتی رہیں۔

لطیفہ ملاحظہ ہو کہ پٹرولیم کمیشن رپورٹ کے مطابق 2002 تک ہمارے ملک میں 4آئل کمپنیاں تھیں، آج 66ہیں اور مزے کی بات کاغذوں میں سب آئل کمپنیاں خسارے میں، جی ہاں! ایک ایسا کاروبار جو 18برسوں میں 4کمپنیوں سے 66کمپنیوں تک جا پہنچا۔ مگر بدقسمتی سے ہے خسارے میں۔ اب جب 66کمپنیاں ہیں ہی خسارے میں تو بیچاری یہ کمپنیاں ٹیکس بھی نہیں دے پاتی ہوں گی، اندازہ لگائیے، ہم سے دس گنا بڑے ملک بھارت میں صرف 7آئل کمپنیاں، سری لنکا میں 3، بنگلہ دیش میں 6جبکہ ہمارے ہاں یہ کاروبار اتنا منافع بخش کہ 66کمپنیاں وجود میں آچکی ہیں۔مگر کاغذوں میں سب کی سب خسارے میں ہیں۔

یہ آئل کمپنیاں نقصان میں اپنا کاروبار کرنے والے کن دیالو یا حاتم طائی قسم کے افراد کی ہیں؟۔ سب جانتے ہیں مگر کوئی نام لینے کی ہمت نہیں کرسکتا بلکہ یہ کہنا درست ہوگا کہ ملک کا کوئی شعبہ ایسا نہیں بچا جس کے بڑے کی ایک عدد ذاتی آئل کمپنی نہ ہو۔زیرک،چالاک اور گھاگ سیاست دان سے لے کرمعصوم،غریب اور پریشان حال تاجران تک سب ایک ہی صف میں تیل کی کمپنیوں کے عین بیچ میں کھڑے ہوئے پائے گئے ہیں۔ پٹرولیم کمیشن رپورٹ بتاتی ہے کہ یہ آئل کمپنیاں ملک و قوم کو سالانہ ڈھائی سوا ارب کا ٹیکہ لگاتی ہیں لیکن جب اِن کمپنیوں کے غریب مالکان بیمار بھی ہو جائیں تو انہیں ٹیکے ملک سے باہر جاکر لگوائے جاتے ہیں۔ بہرحال جب تک عوام اُلو بنتے رہے گے آئل کمپنیاں بھی اسی تیزرفتاری کے ساتھ خود رو پودوں مانند وجود میں آتی رہیں گی۔ کیونکہ یہ تمام کاروبار سراسر خسارہ کا ہے اور ہمارے سیاست دان اور تاجر حضرات عوام کے لیے پورے دل و جان سے یہ خسارے آئندہ بھی برداشت کرتے رہیں گے۔

اصل مزے دار کہانی تو اَب سنیے، قوانین کے حساب سے ڈی جی آئل کے اہم ترین منصب پر براجمان ہونے کے لیئے انجینئر یا تیل ایکسپرٹ ہونا چاہئے۔ لیکن ہمارا ڈی جی آئل ڈنگر ڈاکٹر ہے۔ مذاق میں نہیں بالکل حقیقت میں۔ جی ہاں!ہمارا ڈی جی آئل جانوروں کا ڈاکٹر ہے۔ اَب ایک جانوروں کے ڈاکٹر کا تیل کے ادارے سے کیا براہ راست تعلق ہوسکتاہے۔ یہ سب باتیں عوام کے سوچنے کی ہیں۔کیونکہ اگر یہ باتیں ہماری حکومت میں بیٹھے ہوئے وزراء کے سوچنے کی ہوتی تو ایک جانوروں کا ڈاکٹر، ڈی جی آئل بنتا ہی کیوں؟۔اور کچھ بعید نہیں کہ جانوروں کی فلاح و بہبود اور دیکھ بھال کے لیئے قائم کسی سرکاری محکمے میں ڈی جی کے عہدے پر واقعی کوئی تیل ایکسپرٹ اور یاقابل انجینئر اپنی خدمات انجام دے رہاہو۔ بہرحال یہ ایسے راز ہیں جن کا تذکرہ آپ کو کسی داستانِ امیر حمزہ میں بھی پڑھنے کو نہیں ملے گا۔ دلچسپ کہانی کا دوسرا حصہ سنیے!پٹرولیم کمیشن رپورٹ نے ایک ایسے سیکشن افسر کی نشاندہی بھی کی ہے جس کا بس ایک ہی کام ہے کہ آئل کمپنیوں سے رشوت کے پیسے اکٹھے کرکے افسروں میں بانٹنے کاالتزام کرنا۔ یعنی رشوت بھلے ہی ہمارے افسران کے لیئے ایک آسان کام ہوگا لیکن رشوت کی تقسیم ایک ایسا مشکل اور جاں گسل کام ہے کہ اس کے لیئے باقاعدہ کل وقتی ملازم رکھنا پڑتا ہے۔

پٹرولیم کمیشن رپورٹ میں تو یہ بھی لکھا ہے کہ کورونا وائرس کی مہلک وبائی ایام میں ایک طرف عوام تک تیل کی سپلائی 44فیصد تک کم ہو گئی تھی مگر تیل کمپنیوں نے کاغذوں میں اپنی تیل کی فروخت کو زیادہ سے زیادہ ظاہر کیا، مثلاً لاک ڈاؤن کے سبب جب خیبر پختونخوا کے ضلع دیر میں سیاحت سمیت سب کام ٹھپ پڑے ہوئے تھے تب کاغذوں میں وہاں پٹرولیم کھپت ریکارڈ دکھائی گئی۔گجرات میں ایک پٹرول پمپ پر 3ملین کی ڈلیوری دکھائی گئی جبکہ وہاں پٹرولیم ذخیرہ کرنے کی گنجائش صرف 31ہزار لیٹر ہے، کاغذوں میں اِس شعبدے بازی کے ذریعے کروڑوں کے فائدے اُٹھائے گئے، پٹرولیم کمیشن رپورٹ کے مطابق تمام بڑی آئل کمپنیاں صرف اپنے لیئے،ریاست کے لیئے نہیں، اوگرا قوانین کے برعکس مسلسل ذخیرہ اندوزی کر رہی ہیں، اوگرا نے اُنہیں ذخیرہ کرنے کے جتنے آؤٹ لٹس کی اجازت دی ہوئی ہے، کئی آئل کمپنیوں کے آؤٹ لٹس اِس سے کہیں زیادہ ہیں، جیسے ایک بڑی آئل کمپنی کوتیل ذخیرہ کرنے کیلئے 70آؤٹ لٹس کی اجازت دی گئی لیکن اِس کے پاس 6سو آؤٹ لٹس ہیں۔

شرمناک با ت تو یہ ہے کہ تیل کی ترسیل کیلئے استعمال ہونے والے آئل ٹینکروں کے پاس کیوکیٹگری کا لائسنس ہونا چاہئے مگر تادم تحریر ایک بھی آئل ٹینکر کے پاس یہ لائسنس سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔واضح رہے کہ 168صفحاتی رپورٹ کے یہ صرف چند مندرجات ہیں۔دلچسپ با ت یہ ہے کہ پٹرولیم کمیشن رپورٹ میں پٹرول بحران پیدا کرنے ذمہ داروں کو قرار واقعی سزا دینے کے لیئے،رپورٹ میں درج شواہد کی فورینزک تحقیقات کرنے کے لیئے ایف آئی اے کو اختیارات تفویض کر کے وزیراعظم پاکستان کے معاون خصوصی ندیم بابر سے استعفی بھی لے لیا گیا ہے۔مگر نہ جانے کیوں ہمیں یقین واثق ہے کہ پٹرولیم کمیشن کی اس رپورٹ کی سفارشات پر کبھی عمل درآمد نہیں ہوگا لیکن اس کے باوجود ہمارا اصرار ہے کہ قارئین کم ازکم ایک بار ہی سہی بہرکیف پٹرولیم کمیشن کی رپورٹ کو پوری توجہ اور انہماک سے ضروری پڑھیں تاکہ اندازہ ہوسکے کہ گزشتہ چالیس برسوں میں ہمارے ملک میں کرپشن کی سائنس کیونکر اوجِ ثریا تک جاپہنچی ہے۔

حوالہ: یہ کالم سب سے پہلے روزنامہ جرات کراچی کے ادارتی صفحہ پر یکم اپریل 2021 کی اشاعت میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں