GDA Pir Pagara

کیا جی ڈی اے پیپلزپارٹی کے لیئے بڑا چیلنج ہے؟

پاکستان بھر کی طرح سندھ بھر میں بھی اس وقت مختلف سیاسی جماعتوں کی طرف سے الیکشن مہم زوروں پر ہے لیکن اس بار کراچی کے بجائے خاص طور اندرونِ سندھ الیکشن مہم میں مرکزِ نگاہ بنا ہوا ہے،جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پیپلزپارٹی نے جی ڈی اے کے خوف سے اپنی تمام تر توجہ اور توانائیاں اندرونِ سندھ کے انتخابی معرکہ پر مرکوز کردی ہیں اور اپنے آپ کو کراچی کی انتخابی سیاست سے بالکل قطع تعلق کرلیا ہے۔پیپلزپارٹی کے تمام مرکزی رہنما کم از کم اس بات پر تو متفق ہوچکے ہیں کہ اگر اس بار سندھ کارڈ بچانا ہے تو پھر اندرونِ سندھ انتخابی معرکہ میں بھرپور کارکردگی کا مظاہرہ کرناہو گا۔بصورتِ دیگر سندھ کارڈ ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے بلاک بھی ہوسکتا ہے۔اس وقت پی پی کا سب سے بڑا انتخابی امتحان سانگھڑ میں جاری ہے جہاں این اے215سے 217اور پی ایس 41سے46تک پی پی اور جی ڈی اے میں سخت مقابلہ توقع ہے۔پی پی کا مقابلہ کرنے کے لیے سندھ کی مختلف سیاسی تنظیمیں وبڑی شخصیات جی ڈی اے نامی اتحاد میں شامل ہو چکی ہیں،جس کے باعث2018 کے انتخابات میں اس مرتبہ پیپلز پارٹی کواندرون سندھ میں چھوٹی سیاسی جماعتوں، شخصیات اور گروپس پر مشتمل جی ڈی اے کے نام سے قائم اتحاد سے پریشانی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، اس اتحاد کی قیادت جی ڈی اے کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ فنکشنل و حر جماعت کے سربراہ پیر پگارا کررہے ہیں ضلع سانگھڑ کو اس جماعت کے سیاسی مرکز کا درجہ حاصل ہے جہاں انتخابات میں یہاں کے عوام قومی اسمبلی کے تین اور سندھ اسمبلی کے چھ نمائیندوں کا انتخاب کرنے جارہے ہیں ضلع سانگھڑ کے چھ تعلقوں میں مقیم20لاکھ70ہزار افراد اور9لاکھ57ہزار ووٹرزہیں۔ قومی اسمبلی کے تین اور صوباء اسمبلی کے ان چھ حلقوں میں موجود 73 یونین کونسلز11, ٹا ون کمیٹیز اور 4 میونسپل کمیٹیاں ہیں۔ امکان ہے کہ 2018 کے انتخابات میں این اے215،216،217اور پی ایس 41 سے 46 تک کی ان تمام 9 نشستوں پر جی ڈی اے اور پیپلز پارٹی کے امیدوار کی کامیابی متوقع ہے تاہم عوام کے مسائل حل ہونگے یا نہیں اس ضمن میں ووٹرز کچھ ذیادہ پر امید نہیں ہیں۔

دوسری جانب الیکشن کی تاریخ قریب آتے ہی تھرپارکر میں بھی انتخابی دنگل عروج پر پہنچ چکا ہے،ہمیشہ سے تھر کی سیاست پر حاوی ارباب خاندان دو حصوں میں بٹ گیا۔چچا اور بھتیجا آمنے سامنے آگئے ہیں۔این ای 222پرارباب غلام رحیم کی بڑے جلسے کی صورت میں دبنگ انٹری دے کر پی پی کی نیندیں حرام کرچکے ہیں۔ جبکہ تھر کے صحرائی راستوں پرسینکڑوں فور وہیل گاڑیوں کی بھاگ دوڑ شروع ہو چکی ہے۔ہمیشہ سے تھر کی سیاست پر حاوی ارباب خاندان کے دو حصوں میں بٹ جانے کے بعد اب تھر کی چار صوبائی اور دو قومی نشستوں پر تین رخی مقابلہ متوقع ہے۔سابق وزیر اعلی سندھ ارباب غلام رحیم کے بھتیجے ارباب لطف اللہ کی پی پی پی میں شمولیت کے بعد پی ایس 57پر مقابلہ انتہائی دلچسپ بنتا جا رہا ہے۔جی ڈی اے امیدوار ارباب رحیم کے سامنے ان کے بھتیجے کو جہاں برادری اور رشتے داروں کی حمایت حاصل ہے وہاں پیپلز پارٹی کا پلیٹ فارم بھی میسر ہے۔تاہم دیکھنا یہ ہے کہ تھر میں سڑکوں کا جال بچھانے کے حوالے سے مشہور ارباب غلام رحیم اپنے بھتیجے کو شکست دے پاتے ہیں کہ نہیں۔علاوہ ازیں پی ایس اسلام کوٹ پی ایس چھاچھرو پر بھی جی ڈی ای اور پی پی پی امیدواران میں سخت مقابلہ متوقع ہے جبکہ سرحدی تحصیل نگرپارکر میں پی پی پی دو حصوں میں تقسیم ہو گئی ہے جہاں پر مقامی رہنما ء عبدالغنی کھوسو تاحال آزاد امیدوار کی حیثیت سے مخالفت میں اپنی مہم چلا رہے ہیں جبکہ قاسم سراج سومرو پارٹی ٹکٹ سے مہم کے لیئے نکل پڑے ہیں یہاں پر جی ڈی ای امیداورارباب انورجبار قاسم سومرو اور عبدالغنی کھوسو میں مقابلہ ہو گا۔جس کے متعلق کہا جا رہا کہ مقامی امیدوار عبدالغنی کھوسو پی پی پی امیدوار کو خاصی مشکل میں ڈال سکتے ہیں۔ جس کا فائدہ جی ڈی اے کے امیدوار کو ہی ہو گا۔دریں اثناء چھاچھرو نگرپارکر پر مشتمل این ای 221پر تحریک انصاف رہنماء شاھ محمود قریشی اور پیر نور محمد شاھ میں مقابلہ ہو گا۔اس قومی حلقے پر گذشتہ ایک سال کے دوران پی پی پی میں نئی شمولیت کرنے والی شخصیات کا ووٹ بنک ہونے کے باعث پی پی پی امیدوار نور محمد شاھ،شاھ محمود قریشی کو ٹف ٹائم دے سکتے ہیں۔تاہم اس مرتبہ متحدہ مجلس عمل کے چار امیدوار بھی صوبائی و قومی نسشتوں پر انتخابی میدان میں موجود ہیں۔تمام سیاسی جماعتوں و آزاد امیدواران نے انتخابی مہم تیز کرنے کے ساتھ کئمپ آفیسز اور کارنر میٹنگز کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ حال ہی میں این اے 222پر جی ڈی ای رہنماء ارباب غلام رحیم نے اتحادی جماعتوں کے ساتھ بڑ انتخابی جلسہ منعقد کروا کر زبردست سیاسی پاور شو کا مظاہرہ کیا۔جہاں پر جی ڈی ای امیدوار ارباب ذکاؤاللہ اورپی پی پی امیدوار مھیش کمار ملانی میں مقابلہ ہونے جا رہا ہے۔ جس کے بعد انتخابی میدان میں مزید گرما گرمی پیدا ہو گئی ہے اور یہ گرما گرمی الیکشن کے آخری لمحہ تک جاری رہے کی توقع ہے۔

سندھ میں الیکشن کی تازہ سرگرمیاں دیکھ کر لگتا یہ ہی ہے کہ جس طرح سے ایوب خان کے صنعتی انقلاب کے دوران بائیس خاندان تشکیل پا گئے تھے، اسی طرح سندھ میں ڈیڑھ درجن خاندان سیاست پر مسلط ہوچکے ہیں۔ یہ خاندان صرف معاشی یا سماجی طور پر ہی وڈیرے نہیں بلکہ سیاسی وڈیرے بھی ہیں۔ ان خاندانوں کی سیاست پر اجارہ داری گزشتہ دو تین پشتوں سے چلی آرہی ہے اور اب ان کی اجارہ داری مسلّمہ ہے کہ ان کی موجودگی میں عام یا درمیانہ طبقے کا کوئی آدمی انتخابات جیت نہیں سکتا۔اس صورتحال میں انتخابی سیاست میں عام آدمی کے لیے موجود نہیں ہے۔ ماضی میں پیپلز پارٹی ہر الیکشن میں کارکن طبقے یادرمیانہ طبقے کے لوگوں کو بھی ٹکٹ دیتی تھی۔ مگر اب یہ دروازہ بند ہے۔ سیاست جاگیر بن گئی ہے جو ایک شخص سے دوسرے کو منتقل کردی جاتی ہے۔بدقسمتی سے سندھ کا سیاسی نظام اب ایسا ہوچکا ہے کہ آپ وڈیروں کو ووٹ دیتے رہیں کبھی آپ کو کوئی وڈیرہ ووٹ بھی کوئی ووٹ دے اس کی باری نہیں آئے گی۔ سندھ میں پارٹیاں اور سیاست ایک فیملی بزنس بن گیا ہے اور یہ بزنس الیکشن 2018 ء میں بھی پورے زور و شور سے جاری ہے۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے ہفت روزہ ندائے ملت لاہور 19 جولائی 2018 کے شمارہ میں شائع ہوا

راؤ محمد شاہد اقبال

2 تبصرے “کیا جی ڈی اے پیپلزپارٹی کے لیئے بڑا چیلنج ہے؟

اپنا تبصرہ بھیجیں