Parveen Rehman Case

پروین رحمن قتل کے اصل محرکات کیا ہیں؟

اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کی ڈائریکٹر پروین رحمن کے قتل کی تحقیقات کے لیے پانچ سال بعد ایک مرتبہ پھر مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بنادی گئی ہے جوکہ واقعے کی ازسر نو تحقیقات کرے گی۔اس سے قبل پانچ سالوں کے دوران متعدد مرتبہ تحقیقاتی کمیٹیاں بنائی گئیں لیکن بدقسمتی سے اب تک قتل کے اصل محرکات سامنے نہیں آسکے، محکمہ داخلہ سندھ نے جے آئی ٹی کا نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا گیا ہے، جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کی جانب سے محکمہ داخلہ کو جے آئی ٹی بنانے کی سفارش کی گئی۔جے آئی ٹی کا چیئرمین ایس ایس پی ویسٹ کو بنایا گیا ہے جبکہ ان سمیت دیگر آٹھ ارکان میں حساس اداروں کے ارکان کے علاوہ رینجرز، سی ٹی ڈی اور ایف آئی اے کا بھی ایک ایک نمائندہ جے آئی ٹی کا رکن ہوگا، نوٹیفکشین میں کہا گیا ہے کہ جے آئی ٹی کو 15روز میں محکمہ داخلہ میں رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔

اس سے پہلے بنائی گئی جے آئی ٹی میں اورنگی ٹاون پائلٹ پروجیکٹ کی ڈائریکٹر پروین رحمن کے قتل کے حوالے سے کئی لرزہ خیز انکشافات سامنے آچکے ہیں اور یہ بات بھی تفتیشی اداروں کے علم میں آئی ہے کہ انہیں اجرتی قاتلوں نے 40 لاکھ روپے کے عوض قتل کیا۔ پروین رحمن کے قتل میں گرفتار ملزم امجد حسین جے آئی ٹی کو دیے گئے بیان میں انکشاف کیا کہ ایک سیاسی جماعت کے عہدیدار پروین رحمن سے زمین مانگ رہے تھے اور انکار پر کالعدم تنظیم کو پیسے دے کر انہیں قتل کروا دیا گیا۔ڈائریکٹر اورنگی پائلٹ پروجیکٹ پروین رحمن قتل کیس میں گرفتار ملزم امجد حسین عرف امجد آفریدی نے جے آئی ٹی کے سامنے ایسے سنسنی خیز انکشافات کیے کہ تفتیش نے نیا رخ اختیار کر لیا۔ ملزم کے مطابق اس کیس میں پہلے سے گرفتار ملزم رحیم سواتی اور عوامی نیشنل پارٹی کے علاقائی عہدیدار ایاز سواتی پروین رحمن سے علاقے میں جِم کھولنے کے لئے زمین مانگ رہے تھے۔ پروین رحمن کے انکار پر جنوری 2013 میں رحیم سواتی کے گھر پروین رحمن کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا جس میں ملزم امجد حسین، ایاز سواتی، رحیم سواتی اور احمد عرف پپو شامل تھے۔ قتل کے لئے رحیم سواتی نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے موسٰی اور محفوظ اللہ عرف بھالو نامی دو علاقائی عہدیداروں سے رابطہ کیا جو 40 لاکھ روپے کے عوض پروین رحمن کو قتل کرنے کے لیے تیار ہو گئے۔ امجد حسین اور دیگر ملزمان نے دوماہ تک پروین رحمان کی ریکی بھی کی جس کی تفصیلات کالعدم تنظیم تک پہنچائی جاتی رہی۔ موسیٰ اور بھالو نے 23 مارچ 2013 کو پروین رحمن کو قتل کر دیا۔ ملزم امجد حسین نے جے آئی ٹی کو بتایا کہ رحیم سواتی کی جانب سے 40 لاکھ روپے نہ دینے پر کالعدم تنظیم نے رحیم سواتی کے گھر دستی بم حملہ بھی کیا تھا۔ پولیس نے 18 مارچ 2015 کو مانسہرہ سے قتل میں ملوث مرکزی ملزم احمد خان عرف پپو کشمیری کو گرفتار کیا تھا جبکہ پھر آٹھ ماہ قبل منگھو پیر سے رحیم سواتی کی گرفتاری بھی عمل میں آئی تھی۔

آج سے ٹھیک پانچ سال قبل 13 مارچ 2013 کی رات بنارس میں قائم اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کے دفتر سے نکلنے والی پروین رحمن کا قاتل چند گز کے فاصلے پر ان کا انتظار کررہا تھا اور دفتر سے نکلنے والا یہ سفر ان کی زندگی کا آخری سفر ثابت ہوا۔عبداللہ کالج کے قریب ان کی گاڑی پر فائرنگ کردی گئی جس سے وہ موقع پر ہی جاں بحق ہوگئیں، واقعے کے دوسرے ہی روز اس وقت کے ڈی آئی جی ویسٹ کالعدم تنظیم کے کارندے قاری بلال کی ہلاکت کا دعویٰ کرتے ہوئے اسے ہی پروین رحمن کا قاتل قرار دیا، عدالت میں رپورٹ جمع ہونے پر عدالت نے مسترد کردی۔بعدازاں کئی تحقیقاتی کمیٹیاں قائم کی گئیں لیکن کوئی نتیجہ نہ نکل سکا، پروین رحمن کے قریبی لوگوں نے سال 2013 کے آخر میں ہی سپریم کورٹ سے رجوع کیا جس کے بعد جوڈیشل کمیشن بنایا گیا۔کمیشن میں بتایا گیا کہ قتل کے محرکات میں زمینوں کے معاملات ہوسکتے ہیں جس کی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی بنائی جائے، اسی کمیشن کی سفارش پر پہلی مرتبہ جے آئی ٹی بنائی گئی لیکن اس کے بعد بھی کیس حل نہ ہوا۔اس دوران پولیس نے مانسہرہ سے رحیم سواتی، احمد خان عرف پپو کشمیری اور ریاض نامی افراد کو گرفتار کیا جنھوں نے اپنے اعترافی بیانات میں بتایا کہ ان کا کچھ زمینوں کے معاملے پر پروین رحمن کے ساتھ اختلاف تھا اور قتل کی منصوبہ بندی منشیات فروش محفوظ اللہ عرف بھالو کے ایک ٹھکانے پر کی گئی لیکن محفوظ اللہ کی ہلاکت کے باعث ان بیانات کے کوئی شواہد نہیں مل سکے ہیں۔

پروین رحمن نے اپنی تمام عمر غریبوں کی زندگیوں کو سہولتیں دینے کی کوششوں میں گزاری۔ وہ جنوری 1957 میں ڈھاکا میں پیدا ہوئیں، ابتدائی تعلیم ڈھاکہ ہی میں حاصل کی۔ 1982ء میں ڈاؤوکالج آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کراچی سے آرکیٹکٹ میں گریجوایشن کیا۔ 1983ء میں انہوں نے اورنگی پائلٹ پراجیکٹ پر کام شروع کیا۔ 1986 میں ہاؤسنگ اینڈ اربن پلاننگ میں پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ کیا، زندگی کا 30 سال سے زائد عرصہ اورنگی پائلٹ پراجیکٹ کو دیا۔اس پروجیکٹ کے تحت کم لاگت والے مکانات تعمیر کرکے غریب افراد کو دیے جاتے تھے جبکہ اس کے ساتھ ساتھ اورنگی ٹاؤن جیسے پسماندہ علاقے میں بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی بھی ان کا مشن تھی۔ غریبوں کے گھر آباد کرنے والی اس عظیم خاتون نے اپنا گھر آباد نہیں کیااورگلستان جوہر کراچی میں اپنی ضعیف والدہ کے ساتھ رہائش پذیر تھیں۔ ان کی ایک بہن امریکا میں مقیم ہیں لیکن وہ کبھی بھی امریکا منتقل نہیں ہوئیں، وہ چاہتیں تو ایک پرتعیش زندگی گزار سکتی تھیں لیکن انھوں نے اپنے ہم وطنوں کی خدمت کو زندگی کی اولین ترجیح بنایا۔ اورنگی پائلٹ پراجیکٹ کی ڈائریکٹر پروین رحمن کو کراچی شہر والوں نے ماں کا درجہ دیا ہوا تھا۔ ان کا قصور یہ تھا کہ وہ کچی آبادی کے غریب مگر عزت دار مکینوں کے حقوق کے لیے نہ صرف مختلف قسم کے مافیا گروپوں کے سامنے سینہ سپر تھیں بلکہ انھیں ”اپنی مدد آپ“ کے اصول کے تحت جینا اور زندگی برتنا سکھا رہی تھیں۔ پولیس حکام نے متعدد مرتبہ کیس حل کرنے کے دعوے ضرور کیے لیکن عدالت میں تمام تر کارکردگی کا پول کھلتا چلا گیا، مقتولہ کے قریبی لوگ بھی پولیس کی کارکردگی سے مکمل طور پر غیر مطمئن ہیں۔، اس کیس میں اب تک متعدد افراد کو بھی حراست میں لیا جا چکا ہے، واقعے کو 5 سال بیت گئے ہیں لیکن اب تک کیس کی گتھی نہیں سلجھ سکی۔کیا پروین رحمن کی پانچویں برسی کے موقع اُن کے چاہنے والے اُمید کر سکتے ہیں کہ اُن کے اصل قاتل اپنے انجام کو پہنچ سکیں گے؟۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے ہفت روزہ ندائے ملت لاہور 08 مارچ 2018 کے شمارہ میں شائع ہوا

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں