Palestinian mourners carry the body of boy,during his funeral in Gaza City,

فلسطینیوں کا نیا دورِ ابتلا۔۔۔!

فلسطینی علاقے غزہ پٹی کی طرف سے اسرائیلی سرزمین پر راکٹ فائر حملوں کا بہانہ بنا کر اسرائیلی افواج نے غزہ میں بہیمانہ عسکری کارروائیوں کا آغاز کردیا ہے۔ جس میں اَب تک دو درجن کے قریب معصوم فلسطینیوں کی شہادتیں ہوچکی ہیں۔ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ مقبوضہ فلسطین میں پیدا ہونے والی اِس کشیدہ صورت حال کو گزشتہ پانچ برسوں میں ہونے والے انتہائی سنگین اور خونی واقعات میں شمار کیا جارہا ہے۔ بدقسمتی کی بات تو یہ ہے کہ ہمارے ملک میں کسی صاحبِ دانش و بنیش تجزیہ کار اور اینکر پرسن کو معصوم فلسطینیوں کا بہتا ہوا پانی سے بھی ارزاں خون دکھائی نہیں دے رہا اور ہمارے میڈیا کی تمام تر خبروں اور تجزیوں کا مرکز و محور آج کل ایک نااہل سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی پراسرار بیماری کا علاج بنا ہوا ہے۔ کاش ہمارا میڈیا تھوڑی دیر کے لیئے سہی ہارلے اسٹریٹ کلینک لندن سے نکل کر سرزمین ِ فلسطین پر اپنی توجہ مرکوز کرے اور پاکستانی عوام کو فلسطینیوں پر ہونے والی حالیہ اسرائیلی بربریت سے آگاہ کرنے میں اپنا کردار اداکرے۔

یہ بھی پڑھیئے: اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کی بڑھتی قربتیں؟

اسرائیلی افواج کے تازہ ترین فضائی حملے میں بیالیس سالہ ابوالعطا مضبوط تنظیم اسلامی جہادکے عسکری ونگ القدس کے سربراہ بھی شہید ہوگئے ہیں۔ اسرائیلی فوج کے ترجمان نے ابوالعطا پر ہونے والے حملہ کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”ابو العطا ہم سب اسرائیلیوں کے لیئے کسی بھی وقت اچانک پھٹ جانے والا ایک بم تھا،جسے ہم نے وقت سے پہلے ہی ناکارہ بنا کر ہزاروں اسرائیلیوں کو ابو العطا کا نشانہ بننے سے بچا لیا ہے“۔اسرائیلی افواج نے باقاعدہ ٹارگٹ کر کے ابو العطا کو شہید کیا ہے۔جبکہ اِس حملے میں اسرائیل کا اصل نشانہ اسلامی جہاد تنظیم کے ایک اور اہم ترین رہنما اکرم العجوری تھے،جو خوش قسمتی سے اسرائیلی حملے میں محفوظ رہے ہیں لیکن اسرائیل نے اکرم العجوری کے تعاقب میں شامی دارالحکومت دمشق میں جس رہائشی عمات کو نشانہ بنایا اِس میں چھ فلسطینیوں کے ہمراہ العجوری کا بیٹا بھی شہید ہوگیا ہے۔ دوسری جانب ‘اسلامی جہاد‘ نامی تنظیم کے راکٹ داغنے کا سلسلہ منگل بارہ نومبر سے جاری ہے اور اب تک دو سو کے قریب راکٹ داغے جا چکے ہیں۔ اسرائیل میں بظاہر ان راکٹوں سے کسی جانی و مالی نقصان کو رپورٹ نہیں کیا گیا ہے۔

فضائی حملوں کے علاوہ اسرائیلی افوج کی اسلحے سے لیس اسرائیلی کشتیو ں نے محصور غزہ کی پٹی کے شمالی سمندر میں فلسطینی ماہی گیروں اور انکی کشتیو ں پر حملہ کر نے کی مصدقہ اطلاعات ہیں۔ایک غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق شمالی غزہ کے علاقے السودانیہ کے علاقے میں متعدد ماہی گیر کشتیو ں پر سوار تھے جب اسرائیلی بحریہ نے اچا نک ان پر فائرنگ شروع کر دی اور انہیں کنارے پر واپس جانے پر مجبور کر دیا۔اسلحے سے لیس اسرائیلی کشتیاں روزانہ کی بنیاد پر ماہی گیروں کے اردگرد موجود رہتی ہیں۔ ماہی گیر اور انسان حقوق کے گروپوں نے کہا کہ غزہ میں 2008-09 کی جنگ کے بعد اسرائیلی فوج باقاعدگی سے ساحل کے ساتھ حد نافذ کرتی جارہی ہے۔اقوام متحدہ کی طرف سے فلسطینی پناہ گزینوں کی بہبود اور ریلیف کے لیے قائم تنظیم”اونروا“نے غزہ کی پٹی میں اسرائیلی فوج کی وحشیانہ بمباری کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق”یو این“کے ڈائریکٹر آپریشنز ماتھیا شمالی نے ایک بیان میں کہا غزہ میں اسرائیلی فوج کا فلسطینی بچوں کو اور اسکول کے طلبا وطالبات کو براہ راست نشانہ نہ بنانا قابل مذمت اور ناقابل قبول اقدام ہے۔ اسلامی جہاد نے اسرائیلی فوج کے ہاتھوں غزہ میں بچوں کو بمباری کا نشانہ بنانے کے واقعے کی شدید مذمت کی ہے۔ ایک بیان میں اسلامی جہاد نے کہاکہ حالیہ ایام میں صہیونی فوج نے غزہ کی پٹی میں بچوں کو بمباری کا نشانہ بنا کر جنگی جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔

فلسطین اور اسرائیل کی اِس کشیدہ ترین صورت حال میں امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کی طرف سے فلسطینیوں کے زخموں پر نمک پاشی کرنے کے لیئے بطورِ خاص ایک دل دہلا دینا والا بیان سامنے آیا ہے کہ ”فلسطین کے علاقہ غربِ اردن میں اسرائیل کی طرف سے قائم یہودی بستیاں غیرقانونی نہیں ہیں اور غربِ اردن کی حیثیت کا فیصلہ کرنا اسرائیلیوں اور فلسطینیوں پر منحصر ہے۔“۔حالانکہ اقوامِ متحدہ کا مؤقف ہے کہ الااقوامی قوانین کے تحت یہودی بستیاں غیر قانونی ہیں۔ 1967 میں مشرقِ وسطی کی جنگ کے دوران اسرئیل نے جس زمین پر قبضہ کیا تھا اس پر یہ یہودی بستیاں بنائی گئی ہیں۔فلسطینی عرصے سے ان بستیوں کو ختم کرنے کا مطالبہ کرتے آرہے ہیں جہاں تقریباً چھ لاکھ یہودی آباد ہیں۔فلسطین کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں یہودیوں کی موجودگی کے سبب ان کے مطابق مستقبل کی آزاد فلسطینی ریاست کا قیام تقریباً ناممکن ہے۔اسرائیل نے غرب اردن اور مشرقی یروشلم میں 140 یہودی بستیاں قائم کی ہیں جنھیں بین الاقوامی قانون کے تحت غیر قانونی کہا جاتا ہے۔

واضح رہے کہ 1978 میں امریکی صدر کارٹر کی انتظامیہ بھی اس نتیجے پر پہنچی تھی کہ فلسطین میں قائم یہ یہودی بستیاں بین الاقوامی قوانین کے خلاف ہیں تاہم 1981 میں صدر ریگن نے کہا تھا کہ ان کی رائے میں یہ بستیاں از خود غیر قانونی نہیں ہیں۔کئی دہائیوں تک امریکی ان بستیوں کو ’ناجائز‘ کہتا رہا تاہم انھیں غیر قانونی کہنے سے اجتناب کرتا رہا، اور ساتھ ساتھ اسرائیل کو اقوام متحدہ میں مزاحمتی قراردادوں کا نشانہ نہیں بننے دیا۔تاہم اوباما انتظامیہ نے اپنے آخری دور میں امریکی روایتی موقف کے برعکس 2016 میں اقوام متحدہ کی ایک قرارداد کو ویٹو نہیں کیا جس کے تحت اقوام متحدہ نے اسرائیل کو ان غیر قانونی بستیوں کو ختم کرنے کے لیے کہا تھا۔تاہم ٹرمپ انتظامیہ کا موقف ہے کہ صدر ٹرمپ نے تمام پہلوؤں کا جائزہ لیا ہے اور وہ صدر ریگن کی رائے سے اتفاق کرتے ہیں۔ فلسطین اور اسرائیل تنازعہ کے چیف مذاکرات کارسائب نے امریکہ کے اِس بیان کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ”امریکہ نے چار دہائی پرانے اپنے اِس مؤقف کو تبدیل کر دیا کہ غربِ اردن میں یہودی بستیاں بین الااقوامی قوانین کی خلاف ورزی کے مترادف ہیں اور امریکہ کے اس اعلان سے بین الااقوامی قوانین کے جنگل راج میں تبدیل ہونے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے“۔تاہم اسرائیلی وزر اعظم بین یامن نتن یاہو نے امریکہ کے اس اقدام کی ستائش کرتے ہوئے کہا ہے کہ”امریکہ نے اپنی تاریخی غلطی کو درست کیا ہے“۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے ہفت روزہ ندائے ملت لاہور میں 28 نومبر 2019 کے شمارہ میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں