Sharifs-Sicilian-mafia

خوب و دہشت کی علامت، پاکستانی سسلین مافیا

اَب کوئی مانے یانہ مانے لیکن حقیقت یہ ہی ہے کہ پانامہ فیصلہ کے آنے سے پہلے ننانوے فیصد پاکستانی عوام لفظ ”سسلین مافیا“ سے قطعی طور پر ناآشنا تھے، پاکستانی عوام کی اکثریت نے پہلی بار لفظ ”سسلین مافیا“ اُس وقت ٹی وی چینلز پر سُنا اور اخبارات میں پڑھا جب پاناما کیس میں اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے شریف خاندان کو گاڈ فادر اور سسلین مافیا کی اصطلاح سے تشبیہ دی گئی۔پانامہ فیصلہ میں اِس لفظ کا تذکرہ آجانے کے بعد ٹی وی چینلوں پر مختلف سیاسی تجزیہ کاروں کی طرف سے ”سسلین مافیا“ کی جو مختلف تاریخی اور واقعاتی تشریحات پیش کی گئیں۔اُن سب کا مختصر سا خلاصہ کچھ یوں بنتا تھا کہ ”سسلی اٹلی کا ایک جزیرہ ہے اور سسلی کے سب سے بڑا جرائم پیشہ گروہ کو دنیا ”سسلین مافیا“کے نام سے جانتی ہے۔”سسلین مافیا“کی بنیادکب رکھی گئی حتمی طور پر کچھ بھی کہنا ممکن نہیں کیوں کہ مافیا اپنے ماضی کا ریکارڈ نہیں رکھتا تھا تاہم 1865 میں پہلی بار لفظ مافیا کو سرکاری سطح پر استعمال کیا گیا۔یہ”سسلین مافیا“ منشیات، قتل و غارت گری، سمگلنگ، ڈکیتیاں، قمار بازی، اغوا، جسم فروشی اور منی لانڈرنگ سمیت ہر قسم کی غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث رہا۔اپنی بے تحاشہ دولت کے بل بوتے پر یہ مافیا اٹلی، برطانیہ اور امریکہ سمیت یورپ کے متعدد ممالک کی نہ صرف حکومتوں میں شامل رہا بلکہ بین الاقوامی معیشت میں بھی اس کازبردست اثر و نفوذ پایا جاتا تھا۔سسلین مافیا کے خلاف ایک طویل عرصے تک کارروائی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اس کے خلاف کارروائی کرنے والے افسران اور کیسز کی سماعت کرنے والے ججوں کو یا تو خرید لیا جاتاتھا یا پھر قتل کر دیا جاتا تھا۔”سسیلن مافیا“کے سربراہ Toto Riina کو Boss of the Bosses بھی کہا جاتا تھا۔ سینکڑوں قتل اور دیگر سنگین جرائم میں ملوث اس ڈان کو 1993 میں گرفتار کیا گیا اور اسے 26 بار عمر قید کی سزا سنائی گئی تاہم وہ 17 نومبر2017 کو جیل میں کینسر کے ہاتھوں زندگی کی بازی ہار گیا۔اس کی موت کے بعد کہا جاتا ہے کہ اس جیسا طاقتور ڈان اب کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا۔ سالہا سال سے خوف اور دہشت کی علامت بنے رہنے والے اس مافیا کے متعلق متعدد کتابیں لکھی گئیں۔ بطورِ خاص اطالوی مصنف ماریو پوزو کا ناول اور اس پر بنائی گئی مارلن برانڈو کی مشہور زمانہ فلم گاڈ فادر نے لفظ ”سسلین مافیا“ کو دنیا بھر میں شہرت دوام بخشنے میں اہم ترین کردار ادا کیا۔

پانامہ کیس کے فیصلے کے بعد پاکستانی عوام نے ”سسلین مافیا“ کی بیان کی گئی درج بالا تشریحات سُنی اور پڑھی تو ضرور لیکن عوام کی ایک بڑی اکثریت اِس تشریح کو نہ تو مکمل طورپر سمجھ پائی اور نہ ہی اِسے شریف خاندان کے ساتھ نتھی کر سکی۔کیونکہ ”سسلین مافیا“ کے طریقہ واردات کو سمجھنے کے لیئے جس قسم کی عملی مثالوں کی ضرورت تھی،اُن کی تفصیلات فی الحال اُس وقت شریف خاندان کی سیاست میں دستیاب نہیں تھیں۔شاید اِسی وجہ سے لفظ ”سسلین مافیا“ پاکستانی سیاست میں اُس طرح سے زبان زدِ عام ہونہ سکا جس طرح کے اِسے بطور ایک ”سیاسی اصطلاح“ کے مشہور ہو جانا چاہیئے تھا۔یادش بخیر کہ مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز نے احتساب عدالت کے معزز جج ارشد ملک کے خلاف مبینہ ویڈیو پیش کر کے اِس راز سے بھی خود ہی پردہ اُٹھا دیا کہ شریف خاندان کا ”سسلین مافیا“ پاکستان میں کس طرح سے کام کرتا رہا ہے۔ پاکستانی سسلین مافیا کے طریقہ واردات کی ساری عملی مثالیں احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے اپنے حلف نامے میں تفصیل سے بیان کردی ہیں۔حلف نامے میں بیان کئے گئے واقعات و حقائق پڑھنے کے بعد منکشف ہوتا ہے کہ پاکستانی سسلین مافیا ملک کے اہم ریاستی اداروں کو اپنے زیرِ نگین یا بلیک میل کرنے کے لیئے اپنی دولت،طاقت،خوف اور دھونس کے ہتھیاروں کو کس قدر منظم انداز میں کب سے اور کس خاموشی کے ساتھ استعمال کرتا آرہاتھا۔من حیث القوم ہمیں مریم نواز کا شکر گزار ہونا چاہیئے کہ اُنہوں نے نادانستگی میں ہی سہی بہرحال اپنے خاندان کے چہرے سے گزشتہ چار دہائیوں سے چڑھا ہوا دیانت داری کا نقاب اُتار پھینکا ہے،جس کی آڑمیں شریف خاندان ”شکل مومناں“ کے نیچے اپنے ”کرتوتِ کافراں“ چھپائے اقتدار کی مسند پر سالہا سال سے براجمان چلا آرہا تھا۔



یہاں ہمیں معزز چیف جسٹس آف پاکستان جناب آصف سعید کھوسہ کی دوراندیشی کو بھی کھل کر داد دینی چاہیئے کہ جنہوں نے دو برس قبل ہی پانامہ کیس کی سماعت کے دوران بھانپ لیا تھا کہ پاکستانی شاہی خاندان کی جنم کنڈلی کہیں نہ کہیں ”سسلین مافیا“ اور ”گاڈفادر“ سے میل میلاپ ضروررکھتی ہے اور آج چیف جسٹس آف پاکستان جناب آصف سعید کھوسہ کی جانب سے پانامہ کیس کا لکھا گیا ابتدائیہ حرف بہ حرف سچ ثابت ہوچکا۔یعنی ”سسلین مافیا“ کے اسرارِ جرائم کا کوئی ادنی سا پہلو بھی ایسا نہیں ہے جو پاکستانی ”سسلین مافیا“ نے اپنے خاندانی اقتدار کو دوام بخشنے کے لیئے کمال مہارت سے استعمال نہ کیا ہو۔ہاں! منشیات اسمگلنگ ضرور ایک ایسا قبیح جرم تھا، جس میں مسلم لیگ ن کے ملوث ہونے سے متعلق خواب و خیال میں بھی کبھی سوچا نہ جاسکتاتھا۔ مگر حنیف عباسی کی ایفیڈرین کیس میں گرفتاری اور پھر رانا ثناء اللہ کی 15 کلو منشیات کے ہمراہ اے این ایف کے ہاتھوں ہونے والی گرفتاری کے بعد یہ حسنِ ظن بھی بھاپ کی طرح ہوا میں تحلیل ہوگیا ہے کہ پاکستانی سسلین مافیا نے منشیات اسمگلنگ کو اپنے اقتدار کی ”جنتِ ارضی“ کو گل وگلزار بنانے میں استعمال نہیں کیا ہوگا۔ واقفانِ حا ل تو یہ بھی بتاتے ہیں پاکستانی سسلین مافیا کے جرائم کی ظاہر ہونے والی حالیہ فہرست تو فقط”کرپشن کی دیگ“ کے چند دانے ہیں،ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستانی سسلین مافیا نے اقتدارکی مسند پر بیٹھ کروہ وہ جرائم ایجاد کیئے ہیں کہ جن پر آنے والے وقتوں میں مورخ کو کئی ضخیم کتابیں تصنیف کرنا پڑیں گی۔جنہیں پڑھ کر ہماری نسلیں آپس میں ایک دوسرے سے تاسف کا اظہار کرتے ہوئے کہا کریں گی کہ”ہمارے آباء اجداد کا بھی کیا ہی بُرا نصیب تھا کہ جو اُنہیں پاکستانی سسلین مافیا کا دورِ حکمرانی اپنی آنکھوں سے دیکھنا پڑا“۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے ہفت روزہ ندائے ملت لاہور میں 25 جولائی 2019 کے شمارہ میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

خوب و دہشت کی علامت، پاکستانی سسلین مافیا” ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں