Shahbaz Sharif

وزیراعظم شہباز شریف اور اہل کراچی کی امیدیں

بالآخر میاں محمد شہباز شریف وطن عزیز پاکستان کے 23 ویں وزیراعظم منتخب ہونے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور اُن کی اِس کامیابی میں سب سے فیصلہ کن کردار ایم کیو ایم پاکستان کے 7 عدد قیمتی ووٹوں نے ادا کیا ہے۔ مگر بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ میاں شہباز شریف نے وزیراعظم بننے کے بعد اپنی پہلی تقریر میں متحدہ اپوزیشن اور ایم کیو ایم پاکستان کے درمیان طے پانے والے اُس غیر معمولی معاہدے کا ذکر تک کرنا مناسب نہ سمجھا،جس کی وجہ سے عمران خان کے خلاف قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی اور اُنہیں وزیراعظم پاکستان کی کرسی پر بیٹھنا نصیب ہوا۔

ویسے تو میاں صاحبان اپنے سیاسی محسنوں اور اُن کے احسانات کو بھولنے کی شہرت ِ عام رکھتے ہیں لیکن ایم کیو ایم پاکستان کے رہنماؤں کو یہ اُمید تو ہرگز نہیں ہوگی کہ شہباز شریف صرف ایک دن پہلے اُن کی جانب سے فراہم کی جانے والی تمام تر سیاسی خدمات کو یکسر نظر انداز کردیں گے۔یقینا نومنتخب وزیراعظم کے اس معاندانہ رویے نے قومی اسمبلی کے ہال میں ایم کیو ایم پاکستان کی قیادت کو شدید اضطراب، کرب اور پریشانی میں مبتلا کیئے رکھا، جس کا اظہار ایم کیو ایم رہنما وسیم اختر نے صحافیوں سے مختصر گفتگو کرتے ہوئے کہاہے کہ ”وزیراعظم شہباز شریف اگر اپنی تقریر میں سندھ کارڈ کا تذکرہ کرسکتے تھے تو انہیں متحدہ اپوزیشن کے ساتھ ایم کیو ایم پاکستان کے طے پانے والے معاہدہ پر عمل درآمد کی یقین دہانی کے ساتھ ساتھ کراچی شہر کے لیئے کسی بڑے معاشی پیکیج کا بھی اعلان کرنا چاہیئے تھا“۔

خبر تو یہ بھی گرم ہے کہ نومنتخب وزیراعظم شہباز شریف کو دورانِ تقریر، ایم کیو ایم پاکستان کے ایک رہنما کی جانب سے یاد دہانی کے لیئے باقاعدہ پرچی پر لکھ کر بھی بھیجا گیا تھا کہ وہ اپنی تقریر میں کراچی پیکیج کے حوالے سے بھی ایک چھوٹا سا اعلان فرمادیں، تاکہ ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما کراچی واپس جاکر اپنے حلقے کے لوگوں کو باور کرواسکیں کہ انہوں نے تحریک عدم اعتماد کامیاب کروانے کے عوض میں کراچی شہر کی تعمیر و ترقی کے لیئے نئی وفاقی حکومت سے بہت کچھ حاصل کرلیا ہے۔مگر شہباز شریف نے کمال سیاست سے پرچی میں لکھے ہوئے مضمون کو اپنی تقریر کا حصہ بنانا مناسب نہ سمجھا۔ شاید اس کی وجہ یہ رہی ہو کہ شہباز شریف کراچی شہر کی معاشی و انتظامی محرومیوں کا تذکرہ کر کے جناب آصف علی زرداری کو ناراض نہیں کرنا چاہتے تھے۔ بہرحال قومی اسمبلی ہال میں نومنتخب وزیر اعظم پاکستان کی تقریر سے جہاں پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت خوشی سے نہال ہورہی تھی تو وہیں ایم کیو ایم پاکستان کے کئی رہنما شدید ناراض بھی دکھائی دے رہے تھے اور اُن کی یہ ناراضگی کچھ اس لیئے بھی بجا نظر آتی ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان نے اپنے ہزاروں کارکنان کی رائے کے یکسر برخلاف تحریک عدم اعتماد میں متحدہ اپوزیشن کی حمایت کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ وگرنہ ایم کیو ایم پاکستان کے زیادہ تر کارکنان کو متحدہ اپوزیشن کے ساتھ جانے پر شدید ترین تحفظات تھے۔

یاد رہے کہ پر ایم کیو ایم پاکستان کے اہم ترین رہنما فاروق ستار نے تو سوشل میڈیا پرجاری کردہ ایک ویڈیو میں مذکورہ معاہدہ طے پانے کے اگلے دن ہی اِسے ایم کیو ایم پاکستان کے تابوت میں آخری کیل تک قرار دے دیا تھا۔ جبکہ دیگر کئی اہم رہنما بھی اِس معاہدہ کو پیپلزپارٹی کی طرف سے ملنے والا اَب تک کا سب سے بڑا سیاسی دھوکا قرار دے چکے تھے۔ لیکن کارکنان کے تمام تر تحفظات کے باجود اس معاہدے کے حوالے سے خالد مقبول صدیقی کا اصرار تھا کہ یہ ایک بھرپور اور تاریخ ساز معاہدہ ہے، جس کی بدولت نہ صرف دیہی اور شہری سندھ کے درمیان پائی جانے والے برسوں پرانی سیاسی خلیج کا خاتمہ ہوگا بلکہ یہ معاہدہ ایم کیو ایم پاکستان کو زبردست سیاسی فوائد بھی پہنچائے گا۔بلاشبہ ”چارٹر آف رائٹس“ میں لکھی گئی شرائط سے تو یہ ہی ظاہر ہوتا تھا کہ ایم کیو ایم پاکستان نے اپنے تمام تر دیرینہ مطالبات پیپلزپارٹی کی قیادت سے تسلیم کروالیئے ہیں۔ لیکن اَب جس طرح سے پیپلزپارٹی کی قیادت آہستہ آہستہ معاہدہ پر عمل درآمد کے وعدے سے پیچھے ہٹتی جاری ہے،اُس سے تو یہ ہی اندازہ ہوتا ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان کو نہ تو خدا ہی ملا اور نہ وصال صنم۔

مثال کے طور پر ”چارٹر آف رائٹس“ کی سب اہم ترین شق یہ تھی کہ کراچی اور حیدرآباد کی ایڈمنسٹریٹرشپ ایم کیو ایم کو تفویض کردی جائے گی اور اس متعلق ذرائع ابلاغ پر اس طرح کی خبریں بھی شائع ہونا شروع ہوچکی تھیں کہ ایڈمنسٹریٹر کراچی مرتضی وہاب کسی بھی وقت مستعفی ہوسکتے ہیں۔مگر اَب وزیراعظم شہباز شریف کے حلف اٹھانے کے فوری بعد خبر یہ موصول ہورہی ہے کہ پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت نے کراچی و حیدرآباد کی ایڈمنسٹریٹر شپ کی تبدیلی کا فیصلہ موخر کردیا ہے۔ یعنی اَب ایڈمنسٹریٹر کی جگہ پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم پاکستان کو اگلے بلدیاتی انتخابات میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے ذریعے کراچی کی میئر اور ڈپٹی میئر شپ کی نشست دینے کی کوشش کرے گی۔ یعنی پیپلزپارٹی کی جانب سے ”چارٹر آف رائٹس“ کے معاہدہ میں درج ایک اہم ترین وعدہ کو منسوخ کرکے زبانی کلامی ایک نئے وعدے کا اعادہ کردیا گیا ہے۔ یہ تو ابھی ابتداء ہے،آنے والے ایام میں متحدہ اپوزیشن اور ایم کیو ایم پاکستان کے درمیان طے پانے والے معاہدہ میں درج اور کتنی شقوں میں ضروری ترمیمات ہوتی ہیں،کچھ یقین سے نہیں کہا جاسکتا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پوری طرح سے کامیاب ہوچکی ہے اورکل کی متحدہ اپوزیشن، آج اقتدار پر متمکن ہوکر مرکزی حکومت میں اہم ترین عہدوں کی بندر بانٹ میں مصروف عمل ہے۔اقتدار کے اِس غیر منصفانہ تقسیم میں ایک،دو وفاقی وزارتیں تو ضرور بطور سیاسی خدمت گزاری ایم کیو ایم پاکستان کو دی جاسکتی ہیں۔لیکن اگر ایم کیو ایم پاکستان کی قیادت یہ سوچ رہی ہے کہ اُسے نئی وفاقی حکومت کی جانب سے ”چارٹر آف رائٹس“ میں درج تمام سیاسی و انتظامی فوائد فراہم کردیئے جائیں گے تو ایں خیال اَست،محال اَست،جنوں اَست۔

حوالہ: یہ کالم سب سے پہلے روزنامہ جرات کراچی کے ادارتی صفحہ پر 14 اپریل 2022 کی اشاعت میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں