کوئی مانے یا مانے بہرحال یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ باغ جناح کراچی میں ہونے والا پاکستان تحریک انصاف کا جلسہ شہر قائد کی سیاسی تاریخ کا اب تک کا سب سے بڑا احتجاجی جلسہ تھا۔ نیز اس سیاسی جلسے میں اہلیان کراچی نے جس جوش اور جذبہ سے اپنی شرکت کو یقینی بنایا، یہ امر واقعہ بھی قابل دید تھا۔پاکستان کی روایتی سیاسیات کی حرکیات کو سمجھنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ عموما جلسہ گاہ تک شرکاء کو لانے کی ذمہ داری اُسی سیاسی جماعت کی سمجھی جاتی ہے، جو اپنی سیاسی قوت کا مظاہرہ کرنے کی مشتاق ہو۔ لیکن تحریک انصاف کا مذکورہ جلسہ اس لحاظ سے بھی یقینا ایک منفرد تجربہ تھا کہ جلسے میں شرکت کے لیئے کم و بیش تمام تر شرکاء اپنی ذاتی سواریوں کی وساطت سے جلسہ گاہ تک آئے تھے۔ مقام حیرت تو یہ ہے کہ جلسے میں شریک بعض افراد ذاتی سواری نہ ہونے کے باعث دو سے تین میل تک سفر پیدل اپنے اہلِ خانہ کے ہمراہ کر کے عمران خان کی تقریر سننے کے لیئے باغ جناح پہنچے تھے۔
واضح رہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے مذکورہ احتجاجی جلسہ کے منعقد ہونے سے قبل تک کراچی کی سیاسی تاریخ کے تمام بڑے جلسوں کے جملہ حقوق ایم کیو ایم کے نام دائمی طور پر محفوظ سمجھے جاتے تھے اور سچ بھی یہی ہے کہ کراچی کی عوام نے ایم کیو ایم کے علاوہ کبھی کسی دوسری سیاسی جماعت کو اپنی غیر مشروط عوامی حمایت و طاقت فراہم بھی نہیں کی۔ یعنی ایم کیو ایم کے بعد پاکستان تحریک انصاف، اَب وہ دوسری سیاسی جماعت ہے، جس کے قائد عمران خان کو اہلیانِ کراچی نے والہانہ اور فقیدالمثال عوامی حمایت مہیا کرنے کی ایک نئی روایت قائم کی ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کراچی کے عوام کے سیاسی شعور میں اچانک سے اتنی بڑی جوہری تبدیلی رونما ہونے کے بنیادی محرکات کیا ہوسکتے ہیں؟۔ میری دانست میں اس کی ایک وجہ تو سابق وزیراعظم پاکستان عمران خان کی جانب سے امریکہ کو للکارنا ہے۔ لیکن اس سے بھی بڑی وجہ جس نے کراچی کی عوام کو عمران خان کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھنے پر مجبور کیا ہے، وہ ایم کیو ایم کے 7 عدد نام نہاد قائدین کا تھوڑے سے ذاتی مفادات کے عوض پاکستان پیپلزپارٹی کی بدنام زمانہ قیادت کا اچانک سے حاشیہ بردار بن کر اپنے مقبول عوام سیاسی نظریے سے یکسر انحراف کرنا ہے۔
دراصل باغ جناح میں کراچی کی عوام نے اپنی غیر معمولی احتجاجی طاقت کا مظاہر ہ دکھا کر جہاں غیر ملکی مداخلت یا سازش کے بل بوتے پر سابق وزیراعظم پاکستان عمران خان کے اقتدار کے خاتمے کے خلاف اپنے غیض و غضب کا اظہار کیا ہے،تو وہیں انہوں نے ایم کیو ایم پاکستان کے جملہ قائدین کی اختیار کردہ حالیہ سیاسی پالیسیوں سے اپنی شدید ترین نفرت، غصہ اور بے زاری کا اظہار بھی کیا ہے۔ ویسے تو ایم کیو ایم پاکستان، کل کی متحدہ اپوزیشن اور آج کی متحدہ حکومت المعروف امپورٹڈ حکومت سے وزارتیں لینے میں روزِ اوّل سے ہی ہچکچاہٹ کا شکار تھی لیکن اب کراچی کی عوام نے پاکستان تحریک انصاف کے جلسے میں جس طرح کا اپنا احتجاجی موڈ دکھایا ہے۔اسے دیکھنے کے بعد عین ممکن ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی کے ساتھ کیے گئے معاہدے سے یکطرفہ طور پر علیحدگی اختیار کر کے اپنی رہی سہی ساکھ کو بچانے کی کسی ممکنہ سیاسی حکمت عملی پر غور کرنا شروع کردے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان میں اَب ایک بڑا حلقہ کھلے عام اپنی اِس رائے کا اظہار کرنے لگا ہے کہ اگر اپنی سیاسی غلطی کو سدھارنے یا اس سے رجوع کرنے میں ایم کیو ایم پاکستان کی قیادت جس قدر غیر ضروری تاخیر سے کام لے گی، اتنا ہی شہری سندھ میں اپنے تیزی سے بڑھتے ہوئے سیاسی خسارے کو مزید بڑھاتی جائے گی۔ کیونکہ ایم کیو ایم پاکستان میں ایک بات پر کم و بیش کامل اتفاق رائے پایا جاتاہے کہ ملک کا سیاسی منظر نامہ کسی بھی نہج پر پہنچ جائے، پاکستان پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت نے ایم کیو ایم پاکستان کے ساتھ کئے گئے معاہدے کی کسی ایک بھی شق کی پاس داری یا اُس پر عملدرآمد تو کرنا نہیں ہے اور اس بات کے واضح اشارے اَب تو پیپلزپارٹی کے مختلف رہنماؤں نے اپنے بیانات میں دینا بھی شروع کردیئے ہیں۔پیپلزپارٹی کے تبدیل ہوتے تیور کو دیکھتے ہوئے ایم کیو ایم پاکستان کے بعض رہنما اپنی جماعت کی قیادت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ اس سے پہلے کہ پیپلزپارٹی ”چارٹر آف رائٹس“ کو پرزہ پرزہ کر کے ایم کیو ایم کو اپنی بدترین سیاست کی ذلت کامزہ چکھائے،کیا بہتر نہیں ہوگا کہ ایم کیو ایم پاکستان ہی پیپلزپارٹی کو داغ مفارقت دے کر کم از کم سیاسی لٹیروں کے ہاتھوں سے اپنی لنگوٹی تو بچالے۔
دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے جلسے میں اہلیانِ کراچی کے بھرپور شرکت نے امپورٹڈ حکومت کے مفلوج حکم رانوں پر یہ بھی نہایت اچھی طرح سے واضح کردیا ہے کہ سابق وزیراعظم پاکستان، عمران خان کی جانب سے بیرونی مداخلت کے خلاف شروع ہونے والی مزاحمتی تحریک مستقبل قریب میں اَب چاہے جو بھی رُخ اختیار کرلے، کراچی کے عوام اس مزاحمتی تحریک میں ہر اوّل دستے کا کردار نبھانے کے لیئے دامے،ورمے،سخنے پوری طرح سے اپنے آپ کو تیار کرچکے ہیں۔ یقینا عمران خان کے نقطہ نگاہ سے بھی یہ بات انتہائی حوصلہ افزا ہے کہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے عوام نے اپنا تمام تر سیاسی حمایت کا وزن اُن کی مزاحمتی تحریک کے پلڑے میں ڈال دیا ہے۔ بظاہر ملک کی تمام سیاسی جماعتیں اور انتظامی ادارے عمران خان کو پاکستانی سیاست سے بے دخل کرنے کے لیئے متفق نظر آرہے ہیں لیکن عوام کی اکثریت عمران خان کے ساتھ قدم سے قدم ملاکر کھڑی ہوئی ہے۔اَب یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ اس سیاسی کشمکش میں جیت کس کے نام رہتی ہے۔بہرحال اگر طاقت کا سرچشمہ عوام ہے تو پھر جیت عمران خان کی ہی ہونی چاہیئے۔بقول وسیم بریلوی
تم گرانے میں لگے تھے تم نے سوچا ہی نہیں
میں گرا تو مسئلہ بن کر کھڑا ہوجاؤں گا
ساری دنیا کی نظر میں ہے میرا عہد وفا
اِک ترے کہنے سے کیا میں بے وفاہوجاؤں گا
حوالہ: یہ کالم سب سے پہلے روزنامہ جرات کراچی کے ادارتی صفحہ پر 18 اپریل 2022 کی اشاعت میں شائع ہوا۔
- آزادی اظہار رائے کی آڑ میں -جون30, 2023
- عید قرباں کی حقیقی روح -جون27, 2023
- بلدیہ عظمی کراچی کا قلعہ پیپلزپارٹی نے کیسے فتح کیا؟ -جون19, 2023