New PPP

سندھ میں پیپلزپارٹی مخالف قوتوں کی نئی صف بندی

ایم کیوایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کی جانب سے کراچی اور حیدرآباد پر مشتمل ایک الگ صوبے کی تحریک چلانے کا اعلان مہاجر دھڑوں کی سیاست کا رخ ایک نئی سمت متعین کرنے جارہاہے جو سندھ میں پیپلزپارٹی کے لیئے آنے والے دنوں میں ایک نئے سیاسی و انتظامی بحران کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کے اس غیر متوقع اعلان سے تاثر یہ ملتا ہے کہ اُنہوں نے اس اعلان کو کرنے سے پہلے مہاجر قومی موومنٹ حقیقی اور پاک سرزمین پارٹی کی حمایت بھی کسی نہ کسی سطح پرضرور حاصل کی ہے کیونکہ الگ صوبہ کی تحریک کو سندھ بھر میں بھرپور انداز میں چلانا اور پھر اسے کامیاب بھی بنانا تن تنہا خالد مقبول صدیقی کے بس کی بات نہیں۔ پچھلے دنوں میڈیا میں یہ خبریں تواتر کے ساتھ گردش کرتی رہیں ہیں کہ ایم کیو ایم اور پاک سرزمین پارٹی کے ایک رات کے سیاسی انضمام کے ختم ہونے کے باوجود بھی ایم کیو ایم کے تمام دھڑے آپس میں مسلسل رابطے میں ہیں اور تمام دھڑوں کی مرکزی قیادت اس بات پر پوری طرح متفق ہے کہ الطاف حسین کو مہاجر سیاست سے بے دخل کرنے کے بعد اُن کا الگ الگ مختلف سیاسی جماعتوں کی صورت میں رہنا سندھ میں روز بروز مہاجر سیاست کو بری طرح سے کمزور کر رہا ہے۔جس کا تمام تر سیاسی فائدہ سندھ کے شہری علاقوں میں پاکستان پیپلزپارٹی بھرپور طریقے سے اُٹھا رہی ہے جبکہ ایم کیو ایم کی تمام دھڑوں سے تعلق رکھنے والی قیادت صرف بیانات اور چھوٹے موٹے جلسوں کی حد تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ اس لیئے شنید یہ ہی کی جارہی ہے کہ بہت جلد سندھ میں ایک ایسی کانفرنس ہونے جارہی ہے جس میں ایم کیوایم کے تمام دھڑے آپس میں سیاسی اتحاد بنا کر ہی حصہ لیں گے جبکہ اس وقت اُن کی جانب سے ایک دوسرے کے خلاف دیئے جانے والے شدید ترین تنقیدی بیانات ایک نورا کشتی کے علاوہ اورکچھ نہیں۔ اکثر سیاسی تجزیہ کار بھی کم و بیش اس بات پر پوری طرح متفق ہیں کہ ایم کیو ایم کے تمام دھڑے جتنا چاہے ایک دوسرے سے الگ الگ ہونے کا تاثر پیش کرتے رہیں لیکن اصل میں وہ سب ایک ہی ہیں۔



ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کا جنوبی سندھ یعنی کراچی اور حیدرآباد پر مشتمل علاقوں پر نیا صوبہ بنانے کی تحریک چلانے کا اعلان اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔اس اعلان کے ذریعے ایم کیو ایم کی تمام جماعتیں پاکستان پیپلزپارٹی کو مسلسل دباؤ میں رکھنا چاہتی ہیں۔ایم کیو ایم کے رہنماو ئ ں کا خیال یہ ہے کہ مرکزمیں عمران خان کی حکومت آجانے، سندھ میں نیب کا دوبارہ سے پیپلزپارٹی کے رہنماؤ ں کے خلاف اپنی کارروائیوں کا آغاز،سندھ پولیس کے انتظامی معاملات میں سندھ حکومت کے ساتھ اختلافات پیدا ہونے والی خبروں اور سب سے بڑھ کر پاکستان تحریک انصاف کی سندھ میں سیاسی انٹری کی بھرپور کوشش ایسے طاقت ور سیاسی عوامل ہیں جن کی وجہ سے پاکستان پیپلزپارٹی کے مرکزی قائد اور سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری مستقبل میں اپنی متوقع طور پر ہونے والی گرفتاری کے امکانات کی وجہ سے اس وقت شدید ترین دباؤ میں ہیں۔ان حالات میں اگر ایم کیو ایم بھی اپنے تمام سیاسی دھڑوں کو ایک مشترکہ مقصد یا انتخابی نعرہ دے دیتی ہے تو سندھ کے نئے سیاسی منظرنامہ میں پاکستان پیپلزپارٹی کو شدید ترین مشکلات کا شکار کیا جاسکتاہے اور اِس تناظر میں ایم کیو ایم کے لیے نیا صوبہ بنانے کی تحریک سے بڑھ کر کوئی اورایسا پرکشش انتخابی نعرہ نہیں ہوسکتا جو سوکھے پتوں کی طرح بکھرے ہوئے مہاجروں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرسکے لیکن یہاں یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی بھی مستقبل میں اپنے خلاف بننے والے وسیع تر سیاسی محاذ اور اتحادوں سے بے خبر نہیں ہے۔پیپلزپارٹی کی سینیئر قیادت کو اچھی طرح ادراک ہے کہ پاکستان تحریک انصاف جس طرح کئی مہینوں سے سندھ میں متحرک ہے وہ ان کے لیئے کوئی نیک شگون نہیں ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ سندھ حکومت پوری طرح سے تحریک انصاف کے سیاسی ہتھکنڈوں سے نمٹنے کے لیئے نہ صرف تیار ہے بلکہ حفاظتی اقدامات کے طور پر سخت مزاحمت بھی کررہی ہے۔ جس کا ایک ثبوت پیپلزپارٹی نے سندھ اسمبلی میں ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی اور وزیراعظم عمران خان کے خلاف قرارداد منظور کروا کر دے بھی دیا ہے۔

اس کے علاوہ گورنر سندھ عمران اسماعیل اور تحریک انصاف کے دیگر اہم ترین رہنماؤں کی سندھ میں بڑھتی حالیہ سیاسی سرگرمیوں پر پیپلزپارٹی کے اندر اور باہر سخت اضطراب پایا جاتا ہے۔سیاسی تجزیہ کاروں کے نزدیک پیپلزپارٹی کی صفوں میں پایا جانے والا یہ اضطراب بے معنی نہیں ہے کیونکہ سندھ کی تمام سیاست زیادہ تر ”الیکٹبل“ یعنی چند بڑے سیاسی خاندانوں کے ارد گرد گھومتی ہے اور یہ الیکٹبل اپنا وزن جس پارٹی کے سیاسی پلڑے میں ڈال دیتے ہیں وہی پارٹی سندھ کی حکمرانی کا تاج اپنے سر پر سجالیتی ہے اور آج کل تمام بڑے بڑے سیاسی خاندان عمران خان سے رابطوں میں آچکے ہیں یا آنے والے ہیں۔اس لیئے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ پیپلزپارٹی کے بعض ناراض رہنماؤں کو سندھ حکومت گرانے کے لیئے استعمال کیا جاسکتاہے۔جبکہ سندھ کی دیگر جماعتیں بھی سندھ حکومت کو کڑی تنقید کا نشانہ بنا رہی ہیں۔پیپلزپارٹی پر مخالفین کی طرف سے سندھ میں اتنی کڑی تنقید کا گزشتہ تین چار سالوں سے تو رواج ہی ختم ہوکر رہ گیا تھا کیونکہ پیپلز پارٹی کی مخالف جماعتیں چاہیں اُن کا تعلق سندھ سے ہی کیوں نہ ہو اُن کے لیئے یہ ممکن ہی نہیں رہا تھا کہ وہ سندھ میں پیپلزپارٹی کے سامنے قابلِ قدر سیاسی طاقت کا مظاہر ہ کرسکیں۔ شنید ہے کہ فاطمہ بھٹو کو بھی سندھ میں پیپلزپارٹی کے خلاف سیاسی میدان اُتارنے کی تیاری کی جارہی ہے۔اگر سندھ میں پیپلزپارٹی کے خلاف نئے نئے سیاسی محاذ قائم کرنے کا سلسلہ پوری سرعت کے ساتھ یونہی جاری رہا تو پھر شاید مستقبل میں پاکستان پیپلزپارٹی سندھ میں اس قابل نہ رہ سکے کہ وہ ملکی سیاست میں اپنی شناخت قائم رکھنے کے لیئے سندھ کارڈ کو ماضی کی طرح استعمال کرسکے۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے ہفت روزہ ندائے ملت لاہور میں 17 اپریل 2018 کے شمارہ میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں