Brain Drain

برین ڈرین یا مین پاور ایکسپورٹ۔۔۔؟

’کاشف اپنے دوست، کامران سے خاص طور پر ملاقات کی غرض سے گیا اور علیک سلیک کے بعد اس کے فون پر بتائے گئے ارادے سے متعلق استفسار کیا ۔ ”ایک بار پھر اچھی طرح سے سوچ لو،کیا واقعی تم ماسٹر آف آکنامکس کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد بھی پلمبرنگ کا کورس کرنا چاہتے ہو؟“۔ جواب میں کامران نے مسکراتے ہوئےکہا۔ ”ہاں! بھئی،میں واقعی پوری طرح سے سنجیدہ ہوں اور تمہاری اطلاع کے لیئے عرض ہے کہ میں نے پلمبرنگ کے کورس میں داخلہ بھی لے لیا ہے اور کل میری پہلی کلاس ہے“۔ کاشف نے حیرت و استعجاب سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا،۔ ”کس قدر جان جان جوکھم کے بعد ہمیں شہر کے اچھے ادارے میں معقول ملازمت ملی ہے اور تم اسے چھوڑ کر پلمبرنگ کا کورس کررہے ہو۔ آخر اچانک ایسا کیا ہو گیا ہے؟” کاشف سخت تذبذب کا شکار تھا اُسے کامران کے اِس فیصلے کی کوئی تُک سمجھ نہیں آرہی تھی۔ ”دراصل میرے انکل قطر میں ملازمت کرتے ہیں، وہ سالانہ چھٹیوں میں گزشتہ ہفتہ ہی وطن واپس آئے ہیں اور انہوں نے مجھے بھی اپنے ساتھ قطرلے جانے اور وہاں ملازمت کی پیشکش کی ہے۔ چونکہ میں بیرون ملک روزگار حاصل کرنے کا سنہری موقع ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا۔لہٰذا، میں نے انہیں فوری طور پر ہاں کر دی ہے۔ اَب میں چند ماہ پلمبرنگ کا کورس کرکے تھوڑی بہت کام کی سمجھ بوجھ حاصل کروں گا اور اِس دوران میرے انکل بیرون ملک جانے کے لیئے درکار تمام ضروری کارروائی مکمل کروادیں گے، جس کے بعد میں اُن کے ساتھ قطر چلاجاؤں گا”۔
”کیا تمہیں اکاؤنٹنٹ اور پلمبر کی ملازمت میں کوئی فرق نظر نہیں آتا، جو تم نے پلمبر بننے کا فیصلہ کر لیا“۔ کاشف کو اَب بھی یقین نہیں آرہا تھا۔ اُس نے کامران کو اُس کے ارادے سے باز رکھنے کے لیئے دونوں شعبوں کا فرق واضح کرنا چاہا۔ تو جواباً کامران بڑے عزم سے بولا،۔ ”فرق صاف صاف دکھائی دے رہا تھا،تب ہی تو میں نے قطر میں پلمبر کی ملازمت کرنے کی پیشکش کو قبول کیا ہے۔ کیونکہ میں بخوبی جانتاہوں کہ پاکستان میں اکاؤنٹنٹ کی ملازمت پر رہتے ہوئے ساری زندگی میں جتنا روپیہ کما پاؤں گا،اُس سے کہیں زیادہ روپیہ میں قطر میں پلمبرنگ کا کام کرکے چند برسوں میں کمالوں گا۔ اَب تم میرے انکل کو ہی دیکھ لونا،وہ بھی قطر میں پلمبرنگ کا ہی تو کام کرتے ہیں اور اپنے اِسی کام کی بدولت وہ جتنا روپیہ اکھٹا کر چکے ہیں، شاید وہ تمہارے خواب و خیال سے بھی باہر ہو“۔ کامران نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔ جب کاشف کو کامران کی گفتگو اور اُس کی آنکھوں میں سجے روشن مستقبل کے سہانے خواب دیکھ کریقین ہوگیا کہ اُس کا فیصلہ کسی صورت تبدیل نہیں ہوگا، تو اُس نے بھی مزید بحث و تکرار مناسب نہیں سمجھی اور اُسے خدا حافظ کہہ کر اپنے گھر چلا آیا۔ اور یہ کسی ایک نوجوان کی کہانی نہیں، آج ملک کا ہر دوسرا، تیسرا نوجوان ایسے ہی شارٹ کٹ، جیک پاٹ کی تلاش میں سرگردان ہے۔

کیاہرپاکستانی ملک چھوڑنا چاہتاہے؟
سچ کا بیان بولنے والے کے دہن کا ذائقہ ہی نہیں خراب کرتا بلکہ سننے والے کے ذہن میں بھی تلخی بھر دیا کرتا ہے۔ لیکن حقیقت چاہے جتنی بھی کڑوی کسیلی ہو،اُس کا بیان ضرور کردینا چاہیے اور آج کی سب سے تلخ سچائی یہ ہے کہ شاید ہم میں سے ہر شخص کے دل کے نہاں خانے میں اپنا وطن چھوڑ کر بیرون ملک جانے کی تمنا مچل رہی ہے۔ ہاں! اَب وہ الگ بات ہے کہ ہرکسی کے پاس بیرون ملک جانے کا جواز اور بہانہ دوسرے سے یکسر جداگانہ ہو گا۔ اگر ایک شخص اچھے اور بہتر روزگار کے لیئے اپنا ملک چھوڑکر، دیارِ غیر منتقل ہونا چاہتا ہے تو دوسرا شخص اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیئے بیرون ملک جانے کی خواہش رکھتاہوگا۔نیز ہمارے ہاں ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں ہے،جو فقط اپنا معیار زندگی بلند سے مزید بلند تر کرنے کے لیئے کسی ترقی یافتہ اور امیر کبیر ملک میں آباد ہونے کے فراق میں مبتلا ہیں۔ جبکہ بے شمار افراد اپنے اہل خانہ کی تقدیر بدلنے کی”نیک نیتی“ کے ساتھ وطن عزیز سے ہجرت کرکے اپنی قسمت آزماناچاہتے ہوں گے۔ علاوہ ازیں بعض شعبہ جات سے منسلک کچھ عاقبت نااندیش لوگ ایسے بھی ہیں جو وطن عزیز میں اَمن و اَمان کی مخدوش صورت حال کو جواز بنا کر سیاسی پناہ یعنی Asylum کی درخواستیں لیئے صبح و شام مغربی ممالک کے سفارت خانوں کے سامنے باہر اپنی جوتیاں چٹخا رہے ہیں اور مقصد تو اِن کا بھی بیرون ملک آباد ہو کر اپنے لیئے تاب ناک مستقبل کی صورت گری کرناہی ہے۔ من حیث القوم ہمارے حسبِ حال معروف شاعر افتخار عارف نے کیا خوب شعر کہا ہے کہ ”شکم کی آگ لیئے پھر رہی ہے شہر بہ شہر۔۔۔ سگِ زمانہ ہیں، ہم کیا ہماری ہجرت کیا“۔

پاکستانی عوام میں بیرون ملک منتقل ہونے کا رجحان کتنا توانا اور بھرپور ہے، آپ اس کا ہلکا سا اندازہ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اکنامکس (PIDE) کے ایک حالیہ سروے کے نتائج سے با آسانی لگا سکتے ہیں۔جس میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ 62 فیصد پاکستانی اپنا پیارا وطن چھوڑنے کی شدید خواہش رکھتے ہیں۔یعنی کم و بیش دو تہائی پاکستانی، بیرون ملک اُڑان بھرنے کے لیئے کسی سنہرے موقع یا بہترین پیشکش کے ہمہ وقت منتظر ہیں۔پی آئی ڈی ای کی جانب سے ملک بھر میں منعقد کیئے گئے سروے میں سامنے آنے والے اعداد و شمار کے مطابق پاکستانی سرزمین چھوڑ کر دوسرے ملک جانے کی خواہش 15 سے 24 برس کی عمر کے نوجوانوں کے نوخیز ذہنوں میں سب سے زیادہ پنپ رہی ہے۔سروے میں شرکت کرنے والے نوجوانوں کے نزدیک اپنا ملک چھوڑنے کی بڑی وجوہات میں اعلیٰ تعلیم کا حصول اور بہتر مستقبل کی تلاش ہے۔نیز بعض نوجوانوں نے برسرِ روزگار ہوتے ہوئے بھی پرکشش تنخواہ اور کیریئر بنانے کے لیئے یورپی و مغربی ممالک جانے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ جبکہ سروے میں شریک بڑی عمر کے افراد کی بڑی اکثریت بیرون ِ ممالک آباد اپنے بچوں کے ساتھ بقیہ زندگی گزارنے کی وجہ سے ملک چھوڑ کر جانا چاہتی ہے۔اگر ملک کے تمام صوبوں میں آباد لوگوں کے الگ الگ ذہنی رجحانات کا جائزہ لیا جائے تو درج بالا سروے میں ملک چھوڑنے کی خواہش کی کچھ بہت ہی دلچسپ تفصیلات بھی سامنے آئی ہیں۔مثلاً صوبہ سندھ اور بلوچستان کے زیادہ تر لوگ عزتِ نفس کے حصول کے لیے ملک چھوڑ کر جانا چاہتے ہیں۔جبکہ خیبر پختون خوا میں اکثر لوگوں نے ملک چھوڑ کر جانے کی وجہ صوبہ میں روا رکھی جانے والی صنفی تفریق کو قرار دیا ہے۔ دوسری جانب گلگت بلتستان کے لوگوں کے ملک چھوڑ کر جانے کی زیادہ تر وجوہات کا تعلق بہتر رہائش اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے سے ہے۔

بہتر روزگار کے لیئے وطن چھوڑنے والے
ویسے تو ہمیشہ سے ہی اکثر پاکستانیوں کے ملک چھوڑ کر بیرون ممالک جانے کی سب سے بڑی وجہ اچھے روزگار کی تلاش رہی ہے۔لیکن گزشتہ برس تلاش ِرزق کے لیئے بیرونِ ملک جانے والے پاکستانیوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ کی جاری کردہ سرکاری دستاویز کے مطابق سال 2022 میں بہتر روزگار کے لیے8 لاکھ32 ہزارافراد پاکستان چھوڑ گئے۔جبکہ 2021 میں 2 لاکھ 88 ہزار اور 2020 میں 2 لاکھ 25 ہزار افراد نے بیرون ِ ملک ملازمت کو ترجیح دی تھی۔ یعنی ایک محتاط اندازہ کے مطابق گزشتہ برس حصول ِ روزگار کے لیئے دیارِ غیر جانے والے پاکستانیوں کی تعداد 3 گنا بڑھی ہے۔سب سے زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ بیرون ملک جانے والوں میں اعلیٰ تعلیم یافتہ ڈاکٹر، انجینئر، آئی ٹی ماہرین، اکاؤٹنٹس، ایسوسی ایٹ انجینئر، اساتذہ، نرسز وغیرہ بھی بڑی تعداد میں شامل ہیں۔ حالانکہ ماضی میں پاکستان سے زیادہ تر مزدور پیشہ طبقہ تلاش رزق کے لیئے دوسرے ممالک منتقل ہواکرتا تھا جبکہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور برسرِ روزگار افراد اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیئے تو بیرون ِ ملک جاتے تھے مگرروزگار کے لیئے وہ شاذو نادر ہی ملک چھوڑنے کا فیصلہ کرتے تھے۔

سرکاری دستاویزات کے مطابق گزشتہ برس 92 ہزار سے زائد گریجویٹس، ساڑھے 3 لاکھ تربیت یافتہ اور 3 لاکھ سے زائد غیرتربیت یافتہ نوجوان بیرون ملک گئے۔بیرون ملک جانے والوں میں 5 ہز ار 534 انجینئرز، 18 ہزار ایسوسی ایٹ الیکٹریکل انجینئرز، اڑھائی ہزار ڈاکٹرز، 2 ہز ار کمپیوٹر ماہرین، ساڑھے6 ہز ار سے زائد اکاؤٹنٹس، 2 ہزار600 زرعی ماہرین، 13 ہزار سپروائزر، 16ہزار منیجرز، 900 سے زائد اساتذہ، 12ہزار کمپیوٹر آپریٹر، 16سو سے زائد نرسز، 21 ہزار 517 ٹیکنیشنز،10 ہزار 372 آپریٹر، ساڑھے 8 ہزار پینٹرز، 783 آرٹسٹس، 5 سو سے زائد ڈیزائنرز شامل ہیں جبکہ 2 لاکھ 13 ہزار ڈرائیورز اور 3 لاکھ 28 ہزار مزدور بھی سمندرپار چل دیے۔نیزرپورٹ کے مطابق تلاش ِ روزگار کے لیئے7 لاکھ 36 ہزار پاکستانی نوجوان خلیجی ممالک جبکہ 40 ہزار پاکستانی یورپی اور ایشیائی ممالک گئے۔سب سے زیادہ 4 لاکھ 70 ہزار پاکستانی نوجوان سعودی عرب، 1 لاکھ 19 ہزار متحدہ عرب امارات، 77 ہزار عمان، 51 ہزار 634 قطر جبکہ 2 ہزار پاکستانی کویت گئے۔

برین ڈرین یا مین پاور ایکسپورٹ؟
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اکنامکس کے سروے نتائج اور بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ کے مذکورہ اعدادو شمار کے ذرائع ابلاغ کی زینت بننے کی دیر تھی کہ ہمارے ہاں الیکٹرانک میڈیا پر بالعموم اور سوشل میڈیا پر بالخصوص ایک نئی بحث چھڑ گئی کہ کیا پاکستان”برین ڈرین“کا شکار ہونے جارہاہے؟۔ واضح رہے کہ انگریزی اصطلاح ”برین ڈرین“ (Brain Drain)سے مراد، ایک ملک سے تربیت یافتہ، باصلاحیت یا لائق افراد کی کثیر تعداد کا دوسرے ممالک کی طرف ہجرت کر جاناہے۔اگر کسی ملک میں واقعی ”برین ڈرین“ کی سنگین علامات ظاہر ہونا شروع جائیں تو پھر ایسی صورت حال میں متاثرہ ملک کئی اقسام کے سیاسی،سماجی، علمی،فکری اور خاص طور پر اقتصادی مسائل کا شکار ہوجاتاہے۔ کیونکہ ”برین ڈرین“ کے باعث کسی ملک کے ایسے باشندے جو اپنے ملک کی اقتصادی نمو،تعلیم وتربیت اور تعمیر و ترقی میں بھرپور حصہ ڈالنے کی کلیدی حیثیت رکھتے ہیں،اُن کی اکثریت یک لخت اپنا وطن چھوڑ کر کسی دوسرے ملک میں آباد ہو جانا شروع جاتے ہیں۔جس کی وجہ سے اُس ملک کی افرادی قوت کی تمام ترعلمی قابلیت،ہنرمندی اور صلاحیتیں اپنے ملک کے بجائے کسی دوسرے ملک کی تعمیر و ترقی میں بروئے کار آجاتی ہیں۔جبکہ معمولی قابلیت اور لیاقت کے حامل افراد پیچھے رہ جانے کی وجہ سے وہ ملک ہر شعبہ میں روبہ زوال ہونا شروع ہوجاتاہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اقتصادی ماہرین کی اکثریت سمجھتی ہے کہ ”برین ڈرین“ کی اصطلاح کا پاکستان پر کسی بھی صورت اطلاق نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ ”برین ڈرین“ کی منفی اصطلاح کسی ملک کے لیئے فقط اُسی صورت میں استعمال کی جاسکتی ہے۔جب کسی ملک کے قابل،باصلاحیت اور ہنرمند لوگوں کی اکثریت دیگر ممالک کا رُخ کرلے اور اُس ملک میں باصلاحیت افراد کاشدید بحران یا قلت پیدا ہوجائے۔ یاد رہے کہ پاکستان میں صورت حال یکسر مختلف ہے۔ کیونکہ ہمارے ملک میں ہرشعبہ سے متعلق تعلیم یافتہ اور ہنر مند افراد کی کثرت ہے اور ملک میں روزگار کے تیزی کے ساتھ کم ہوتے ہوئے مواقع اور تعلیم یافتہ نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی تعدادکے درمیان کس قدر تفاوت پیدا ہوچکا ہے۔اس کا اندازہ صرف اِس ایک واقعہ سے لگالیں کہ چند ہفتے قبل وفاقی حکومت نے اسلام آباد پولیس میں 16سو، کانسٹیبل کی بھرتی کا فیصلہ کیا اور حیران کن بات یہ ہے کہ کانسٹیبل کی چھوٹی سی ملازمت،جس کی تنخواہ بہت قلیل اور ڈیوٹی انتہائی مشکل ہوتی ہے،کی صرف 16سو، اسامیوں کے لیئے ملک بھر سے کم وبیش ڈیڑھ لاکھ نوجوانوں نے آن لائن درخواستیں دیں، جن میں بڑی تعداد میں اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان شامل تھے۔ اسکروٹنی کے کئی سخت مراحل سے گزرنے کے بعدبھی 28 ہزار اُمیدوارباقی بچ گئے،جن سے بیک وقت تحریر ی امتحان لینا کسی سرکاری دفتر یاتعلیمی ادارے کے امتحان ہال میں لینا ممکن نہ تھا۔لہٰذا، اسلام آباد اسپورٹس کمپلیکس میں 16سو، اسامیوں کے لیئے عظیم الشان اجتماع منعقد کرنا پڑا۔

مذکورہ، صورت حال کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتاہے کہ پاکستانیوں کا دوسرے ممالک میں تلاش ِ روزگار کے لیئے جانا ملکی معیشت کے لیئے انتہائی سُود مند ہے۔ اگر پڑھے لکھے اور ہنر مند پاکستانی نوجوان بڑی تعداد میں بیرون ِ ملک روزگار کے لیے ہجرت کریں گے تو اُس سے ملکی معیشت پر انتہائی مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ یعنی سرِ دست پاکستان کو ”برین ڈرین“ کے کسی سنگین خطرے کا سامنا نہیں ہے اور اس بات کی تصدیق گلوبل اکانومی ڈاٹ کام کی جانب سے جاری کردہ ”برین ڈرین“ کا شکار ممالک کی تازہ ترین فہرست سے بھی بخوبی ہوتی ہے۔ گلوبل اکانومی ڈاٹ کام نے سال 2007 سے 2022 تک کے جمع کردہ اعدادو وشمار پر مبنی177 ممالک کی عالمی ”برین ڈرین“رینکنگ میں پاکستان کو 79 درجہ اور سکور 5.9 دیا ہے۔یاد رہے کہ مذکورہ رینکنگ میں سرفہرست ملک سمووا نے 10 اسکور حاصل کیا ہے۔

دوسری جانب عالمی معاشی نظام میں ”مین پاور ایکسپورٹ“ (Manpowr Export) کی اصطلاح بھی رائج ہے۔یہ اصطلاح اُن ممالک کے لیئے بطور خاص استعمال کی جاتی ہے، جن کے پاس ہنرمند اور تربیت یافتہ افراد کثرت سے موجود ہوں اور وہ اپنے قابل ہنرمند افراد کو دیگر ممالک میں روزگار کے مواقع فراہم کر کے کثیر زرِ مبادلہ کما رہے ہوں۔ ورلڈ بنک کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہنرمند افرادی قوت کے حامل ممالک کی فہرست میں پاکستان کاشمار چھٹے نمبر پر ہوتا ہے۔ شاید یہ ہی وجہ ہے کہ معاشی ماہرین کی اکثریت پاکستانی نوجوانوں کا تلاش ِ روزگار کے لیے بیرون ملک جانا ”مین پاور ایکسپورٹ“ کی ذیل میں شمار کرتی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ سابق حکم ران جماعت پاکستان تحریک انصاف کے جو رہنما آج سوشل میڈیا پر 8 لاکھ 32 ہزار پاکستانیوں کے بیرون ملک بسلسلہ روزگار جانے کو ”برین ڈرین“قرار دے رہے ہیں۔

صرف ایک برس قبل اِسی سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والے ایک رہنما نے بحیثیت وفاقی وزیر سرکاری دستاویزات کی تصاویر آفیشل سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر شیئر کرتے ہوئے اپنے تین سالہ دورِ حکومت میں 10 لاکھ پاکستانی نوجوانوں کو بیرون ِ ملک روزگار ملنے کی خبر کو ”مین پاور ایکسپورٹ“قرار دے کر اپنی حکومت کی بڑی کامیابی کے طور پر پیش کیا تھا۔ نیز موصوف نے اُسی ٹویٹ میں اس عزم کا اظہار بھی کیا تھا کہ اُن کی حکومت اگلے دو سال میں کم ازکم 20 لاکھ پاکستانیوں کو بیرونِ ملک بھیجے گی۔اَب جبکہ گزشتہ برس ریکارڈ پاکستانیوں کے تلاش ِ روز گار کے لیئے بیرونِ ملک جانے کے سرکاری اعدادوشمار سامنے آئے ہیں تو سابق حکمران جماعت کے اکثر رہنما اُنہیں ”برین ڈرین“قرار دے کر حکومت ِ وقت کے خلاف عوامی ردعمل قرار دے رہے ہیں۔ یہاں سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر پاکستانیوں کا بسلسلہ روزگار ملک چھوڑ کر بیرونِ ملک جانا ایک سال قبل ”مین پاور ایکسپورٹ“ تھا تو پھر اُسے ہم آج ”برین ڈرین“ قرار دے کر بہتر زندگی اور روشن مستقبل کی تلاش میں دیارِ غیر جانے والوں کو طعن و تشنیع کا نشانہ کیوں بنا رہے ہیں؟۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے روزنامہ جنگ کے سنڈے میگزین میں 29 جنوری 2023 کے شمارہ میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں