Pakistan Eid al Adha

عید قرباں کے ڈیجیٹل انداز

عید الاضحی کا تہوار چودہ سوسال سے مسلمانانِ عالم حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت کی پیروی کرتے ہوئے ہر سال ذوالحج کی دس تاریخ کو پورے مذہبی جوش و خروش اور عقیدت و احترام سے مناتے آئے ہیں۔عیدا الاضحی کا سب سے اہم وظیفہ قربانی ہے۔یاد رہے کہ قربانی تاریخ انسانی کی سب سے قدیم ترین مذہبی عبادت ہے اور تمام مذاہب کی الہامی کتب و صحائف میں قربانی کرنے کا حکم صراحت کا ساتھ موجود ہے۔اَب وہ الگ بات ہے کہ تحریف زمانہ کے باعث سوائے اسلام کے ہر مذہب میں قربانی کی اِس عظیم عبادت کو مدت ہوئی ترک کردیا گیا ہے۔ دین اسلام میں قربانی نام ہے اللہ کے حکم پر اُس کی راہ میں اپنے مال، اپنی خواہشات، حتی کہ اپنی جان بھی قربان کر دینے کا۔اِسی جذبہ کے عملی اظہار کی علامت کے طور پر صاحبِ استطاعت افراد کی جانب سے عیدالاضحی کے دن جانوروں کی قربانی کی جاتی ہے۔واضح رہے کہ قرآن و حدیث میں عید الاضحی کے بابر کت یوم پر قربانی کرنے کی بے حد فضیلت بیان کی گئی ہے۔قرآن حکیم،فرقانِ حمید میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ ”اور ہم نے ہر اُمت کے لیے قربانی اس غرض کے لیے مقرر کی ہے کہ وہ ان مویشیوں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انہیں عطا فرمائے ہیں۔“(سورۃ الحج،آیت 34)۔جبکہ ایک حدیث النبی صلی اللہ علیہ وسلم میں اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ ”اللہ کے نزدیک قربانی کے دن بندوں کے تمام اعمال میں پسندیدہ ترین عمل جانور کا خون بہانا ہے اور بندہ قیامت کے دن اپنی قربانی کے سینگوں، کھروں اور بالوں سمیت حاضر ہوگا۔ قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے پہلے اللہ کی بارگاہ میں شرف قبول حاصل کرلیتا ہے، لہٰذا تمہیں چاہیے کہ خوش دلی سے قربانی کرو۔“ (ترمذی شریف: 1/ 180)۔

مگر عید الاضحی کا تہوار چونکہ امسال کورونا وائرس کے وبائی ایام میں منایا جارہاہے۔لہٰذا ماضی کی بہ نسبت اِس بار عیدالاضحی کے موقع پر دنیا بھر میں سنجیدہ نوعیت کے خصوصی اقدامات بھی ترجیحی بنیادوں پر اٹھائے گئے ہیں۔کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے انسداد کے لیئے احتیاط کتنی زیادہ ضروری ہے۔اس کا اندازہ صرف اِس واقعہ سے لگایا جاسکتاہے کہ ذی الحج کی سب سے اہم ترین عبادت حج کے شرکا کی تعداد کو انتہائی محدود رکھنے کے لیے صرف سعودی عرب میں مقیم افراد کو ہی حج کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ سعودی حکوت کی جانب سے یہ مشکل فیصلہ عازمین حج کی حفاظت اور سلامتی کے پیش نظر خطبہ حجتہ الوداع کے موقع پر ہمارے پیارے نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علی وسلم کے دیئے گئے خطبہ میں شامل اُن سنہری الفاظ کی روشنی میں صادر کیا گیا ہے۔جس میں خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مسلمان کے خون کی حرمت کو شہر مکہ سے بھی افضل قرار دیا تھا۔(صحیح بخاری،6043)۔یاد رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ جب وبائی امراض کے پھیلاؤ کو روکنے اور اِن کے مضر اثرات سے عازمین حج کو بچانے کے لیئے حج محدود یا پھر منسوخ کیا گیا ہو۔سعودی عرب میں قائم شاہ عبدالعزیز فاؤنڈیشن فار ریسرچ اینڈ آرکائیوز میں چھپنے والی ایک رپورٹ میں معروف اسلامی تاریخ دان اور علومِ احادیث کے ماہر الذہبی کی کتاب ”اسلام کی تاریخ‘‘کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ316 ہجری میں بھی قرامطہ نامی ایک وبائی مرض کے باعث حج کو منسوخ کردیا گیا تھا۔ نیز 357 ہجری میں بھی الماشری نامی بیماری کی وجہ سے مکہ میں بڑی تعداد میں اموات ہونے کے باعث حج کو محدود کیا گیا تھا۔اس کے علاوہ 1831 میں ہندوستان سے شروع ہونے والی ہیضہ کی وبا کی وجہ سے بھی حج کی عبادت محدود ہو چکی ہے۔جبکہ ایک بار 417 ہجری میں شدید سردی اور سیلابوں کی وجہ سے بھی حج کا عظیم الشان فریضہ متاثر ہوا تھا۔اِن حقائق کو بیان کرنے کا بنیادی مقصد وحید یہ ہے کہ ہمارے قارئین اچھی طرح جان لیں کہ خصوصی حالات میں اجتماعی و انفرادی عبادت پر عمل پیرا ہونے کے لیئے خصوصی اقدامات کرنا ہر گزخلاف اسلام نہیں بلکہ فقہائے اسلام کی بیان کردہ تعلیمات کے عین مطابق ہیں۔لہذا رواں برس عید الاضحی کا تہوار پاکستان میں کورونا وائرس کی بڑھتی ہوئی وبا کے باعث ہم سب سے بھی خصوصی احتیاط اور اقدامات کا تقاضا کرتاہے۔زیرِنظر مضمون میں عید الاضحی کے بابرکت ایام کی برکتیں اور سعادتوں کو”کووڈ 19“بیماری کی ہلاکت خیزی سے محفوظ و مامون رکھنے کے لیئے چند تجاویز پیش خدمت ہیں۔



بہر صورت اجتماعی قربانی کو ترجیح دیں
شریعت اسلامی میں اجتماعی قربانی کا مطلب یہ ہے کہ گائے،بھینس،اونٹ وغیرہ بڑے جانورکی قربانی میں سات افراد کاشریک ہوجانا۔اِس وقت تو خیر سے کورونا وائرس کے باعث اجتماعی قربانی کرنے کی ایک خصوصی اہمیت ہے لیکن عام حالات میں بھی شرعاً اس بات کی مکمل اجازت ہے کہ بڑے جانور کی قربانی میں سات افرادباہم مل جل کر قربانی کرسکتے ہیں۔البتہ اس کے لئے چند شرائط پر عمل پیرا ہونا ضروری ہے جیسے قربانی کا جانور ذبیحہ کی تمام شرعی شرائط پر پورا اُترتا ہو، قربانی کے لیئے خریدے گئے جانور میں سب حصہ داروں کی رقم برابر ہو،کم وزیادہ نہ ہو، سب کا ارادہ اللہ تعالی کے نام پرقربانی کرناہواور جانور کو قربان کرنے کے بعد اُس کا گوشت برابر،برابر حصہ داروں میں دیانت داری کے ساتھ تقسیم کیا جائے۔اگر اِن تمام مذکورہ بالا نکات پر عمل پیرا ہوتے ہوئے ملک بھر میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیئے ترجیحی طور پر انفرادی قربانی کے بجائے اجتماعی قربانی کا مستحسن راستہ اختیار کیا جائے تو وہ کئی حوالوں سے زیادہ بہتر اور مناسب ہوگا۔ مثلاً اجتماعی قربانی سے اُن افراد کو بھی قربانی کا آسان موقع میسر آسکتا ہے جنہیں لاک ڈاؤن کے منفی اثرات نے معاشی طور پر شدید متاثرکیا ہے اور اَب اُن میں انفرادی طور پر قربانی کا جانور خریدنے کی مالی سکت باقی نہیں رہی۔ اس لیئے ہماری گزارش تو یہ ہی ہے کہ اگر آپ تن تنہا انفرادی قربانی کرنے کی مالی استطاعت بھی رکھتے ہوں،تب بھی اپنے اردگر موجود دوست،احباب اور عزیز و اقارب کو اپنے خریدے گئے قربانی کے جانور میں حصہ لینے کی ترغیب ضرور دیجئے گا۔آپ کے اِس طرز عمل سے یقینا بارگاہِ خداوندی میں قربانی کے ثواب کے ساتھ ساتھ، آپ کے جذبہ ایثا ر کو بھی نیک اعمال کی صورت میں شمار کرلیا جائے گا۔اس کے علاوہ ملک بھر میں زیادہ سے زیادہ اجتماعی قربانیوں کے منعقد ہونے سے حکومت کے انتظامی اداروں کے لیئے کورونا وائرس کی خاطر ترتیب دیئے گئے خصوصی ایس او پی یعنی احتیاطی تدابیر کو شہر شہر، قریہ قریہ نافذ کرنے میں بھی آسانی ہوگی۔ نیز قربانی کے بعد ہمارے گلی، محلوں میں جو قربانی کے جانور کا خون اور دیگر آلائش ماحول کو متعفن زدہ بناتی ہیں،اُنہیں سمیٹ کر سڑکوں کی صفائی،ستھرائی کرنے میں بھی بلدیاتی اداروں کو کافی سہولت میسر آسکتی ہے۔

آن لائن قربانی،وقت کی ضرورت بھی، جائز سہولت بھی
”کیا آن لائن قربانی اسلامی تعلیمات کی رو سے جائز ہے؟“۔آن لائن قربانی کا نام پہلی بار سُن کر یا پڑھ کسی کے بھی ذہن میں اس سوال کا آجانا، ایک بالکل فطری سی بات ہے اور اِس سوال کے جواب کے لیئے آپ اگر کسی مستند دینی دارالافتاء یا ممتاز اسلامی ادارہ سے رجوع کریں تو آپ کی تسلی و تشفی کے لیئے زیادہ بہتر ہوگا۔ بلکہ آپ ایسا کریں کہ اپنی آن لائن قربانی کے لیئے بکنگ بھی پاکستان کے کسی اچھی سے دینی یا فلاحی ادارے میں ہی کروالیں تو کیا ہی بہتر ہوگا۔جی ہاں! کورونا وائر س کے باعث آن لائن قربانی کا اہتمام پاکستان کے کم و بیش تمام دینی و مذہبی اداروں کی جانب سے خصوصی طورپر کیا جارہا ہے۔ اس حوالے سے آپ کسی بھی رفاعی یا فلاحی ادارے کی ویب سائیٹ،موبائل اپلی کیش،فیس بک پیچ یا واٹس ایپ نمبر سے رجوع کرسکتے ہیں۔ ہرادارہ آن لائن قربانی کے ایک سے زائد پیکج فراہم کررہاہے۔ آپ نے صرف اپنا مطلوبہ پیکج کے مطابق پیسوں کی ادائیگی کرنا ہے اور باقی سارا کام اِن فلاحی اداروں سے منسلک تربیت یافتہ عملہ اسلامی تعلیمات کے عین مطابق سر انجام دے دے گا۔ سب سے اچھی بات یہ ہے کہ اِن اداروں کی طرف سے قربانی کا گوشت انتہائی اچھی پیکنگ میں غریب اور مستحق لوگوں میں تقسیم کیا جاتا ہے جبکہ جانوروں کی کھالوں کی فروخت سے حاصل ہونے والی آمدنی فلاح عامہ کے کاموں میں صرف کی جاتی ہے۔ آن لائن قربانی کے تین مقاصد فور ی طور پر حاصل ہوجاتے ہیں یعنی ایک تو مذہبی فریضے کی احسن طریقے سے ادائیگی ہوجاتی ہے دوسرا بنا کسی پریشانی کے قربانی کا گوشت ضروت مند خاندانوں تک پہنچ جاتا ہے اور تیسرا قربانی کے جانور کی کھال بھی کسی سیاسی و لسانی جماعت کے ہاتھ لگنے کے بجائے نیک کام میں خرچ ہوجاتی ہے۔ بلا شبہ پاکستان میں دینی اداروں کی جانب سے آن لائن قربانی کی سہولت مہیا کرنا ایک بہت بڑا انقلابی قدم ہے،جس پر آنکھیں بند کر کے اعتبار کیا جا سکتا ہے اور کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیئے آن لائن قربانی کی سہولت کا استعمال دانشمندی بھی ہے اور وقت کا تقاضابھی۔

مذہبی و فلاحی اداروں کے علاوہ پاکستان کے کم و بیش تما م بڑے شہروں میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کی کئی نجی کمپنیاں بھی مثلاًآن لائن قربانی،سیکریفائس ڈاٹ کام وغیرہ جیسے ملتے جلتے ناموں سے ویب سائیٹ،فیس بک پیچزپر عید الاضحیٰ کے موقعہ پر قربانی ادا کرنے کے خواہش مند افراد کے لیئے عید کے روز گھر بیٹھے آن لائن قربانی کی سہولت فراہم کر رہی ہیں۔صرف یہ ہی نہیں بلکہ اِن ویب سائٹس پر آپ اپنی قربانی کو انٹرنیٹ پر لائیو وڈیو سٹرمنگ (streaming video live) کے ذریعے براہ راست بھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔یہ ویب سائٹس بیرونِ ملک مقیم افراد کو بھی آن لائن قربانی کرنے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔ خاص طور پر وہ مغربی ممالک جو اپنے ملک میں قربانی کے جانور حلال یا قربان کرنے کی اجازت نہیں دیتے یا ایسی کچھ جگہیں جہاں اگر مذبح خانوں میں قربانی کر بھی دی جائے تو پھر وہاں قربانی کا گوشت غریب و مساکین تک پہنچانا حد درجہ دشوار ہوتاہے۔آن لائن قربانی کی اِن ویب سائٹس پر بکنگ اور دائیگی سے لے کر قربانی تک کے تما م کام ڈیجیٹل انداز میں نمٹائے جاتے ہیں۔مثلاً قربانی کے جانور کی خریداری یا آرڈر کی تصدیق بذریعہ فون کال کردی جاتی ہے اور پھر صارف کو ای میل کے ذریعے قربانی کا وقت، پاس ورڈ اور اس ویب سائٹ کا پتا جہاں پر وڈیو سٹریمنگ کے ذریعے براہ راست انٹرنیٹ پراس جانور کی قربانی نشر کی جائے گی ارسال کر دیا جاتا ہے۔

”بار بی کیو“ کی یہ ہے ڈیجیٹل پارٹی
عید الاضحی پر زیادہ تر افراد قربانی اور دیگر امور سے فارغ ہو کررات کو دوستوں اور اپنے عزیز و اقارب کے ساتھ بار بی کیو پارٹیوں کا اہتمام کرتے ہیں۔ہمارے ہاں یہ روایت برسوں پرانی ہے لیکن گزشتہ کئی سالوں سے بقرعید پر پاکستان میں باربی کیو پارٹیوں کا رواج اس قدر بڑھ گیا ہے کہ اَب تو عیدالاضحی اور باربی کیو ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہوچکے ہیں۔ ویسے تو باربی کیو پارٹیاں کرنے میں قطعاً کوئی قباحت یا ممانعت عائد نہیں کی جاسکتی لیکن جب ملک میں کووڈ 19 بیماری جگہ جگہ آفت ڈھا رہی ہو تو ایسے غیر معمولی حالات میں عید الاضحی کے کسی بھی دن باربی کیو پارٹی کا اہتمام کرکے دوستوں یا عزیزوں کو دعوتِ طعام دینا،در حقیقت اجل کو دعوتِ عام دینے کے ہی مترادف سمجھنا چاہئے۔ اِس لیئے عقلمندی اور دور اندیشی کا تقاضا تو یہ ہی ہے کہ باربی کیو پارٹی کے نام پر گھر یا گھر سے باہر کسی بھی مقام پر اجتماع منعقد کرنے سے حتی المقدور گریز سے ہی کام لیا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا۔ کیونکہ باربی کیو پارٹی کے علاوہ بھی بے شمار ایسی مصروفیات ہوسکتی ہیں جن سے عیدالاضحی کی خوشیوں کو اپنی اور اپنے خاندان کی حفاظت کے ساتھ دوبالا کیا جاسکتاہے۔ بہرحال اِس کے باوجود بھی اگر کوئی ناعاقب اندیش باربی کیو بنانے اور کھانے پر ہی بضد ہوتو وہ یہ کام انفرادی حیثیت میں یا دو،چار افراد کی موجودگی میں سماجی فاصلہ کے بنیادی اُصول پر عمل پیرا ہوکر بھی بحسن و خوبی کر سکتاہے اور جہاں تک باربی کیو پارٹی میں یار دوستوں کو شامل کرنے کا سوال ہے تو اِس کے لیئے آپ کے ہاتھ میں موجود یہ تین،تین کیمروں والا اسمارٹ فون آخر کس مرض کی دوا ہے۔ تھوڑی سے اپنی عقل استعمال کریں اور کچھ اسمارٹ فون میں موجود انٹرنیٹ پیکج اور پھر جتنے چاہیں دوستوں کو ویڈیو کا ل یا کانفرنس کی صورت میں اپنی آن لائن باربی کیو پارٹی کا باقاعدہ حصہ بنالیں۔ یقین مانیئے آن لائن بار بی کیو بھی اُتنا ہی مزہ دے گی جتنا کہ کوئی عام بار بی کیو پارٹی آپ کو لطف پہنچا سکتی ہے اگر آپ کو پھر بھی یقین نہ آئے تو ذرا ایک بار ڈیجیٹل باربی کیو پارٹی کا انعقاد کرکے تو دیکھیں۔ہمیں کامل اُمید ہے کہ اِس بقرعید ہماری یہ بظاہر مختصر اور بے ضرر سی تجویز کورونا وائرس سے لڑنے اور بچنے کے لیئے ایک تیر بہدف نسخہ ثابت ہو گی۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے روزنامہ جنگ کے سنڈے میگزین میں 26 جولائی 2020 کے شمارہ میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں