”بیٹا! ذرا جلدی سے بھاگ کر جاؤ اور دروازہ کھول دو۔۔۔ لگتا ہے تمہارے ابّا،عید الاضحی کی نماز پڑھ کر عید گاہ سے واپس آگئے ہیں۔۔۔اطلاعی گھنٹی بجانے کا یہ مخصوص انداز اُن ہی کا لگتا ہے“۔بیگم سلیم نے اپنی بیٹی انیلہ کوآواز لگائی۔
انیلہ دوڑتی ہوئی گئی اور جھٹ سے داخلی دروازہ کھول دیا۔ سامنے حسبِ توقع سلیم خان کھڑے تھے،انہوں نے انیلہ کے سرپر بڑے پیار سے ہاتھ پھیرا، اور اپنی جیب سے سو روپے نکال کر اُس کی ہتھیلی پر رکھ دیئے۔ عیدی پا کر انیلہ خوشی سے دیوانہ وار سو روپے کا نوٹ لہراتے ہوئے اندرونی کمرے کی جانب بھاگ گئی۔
سلیم خان نے گھر میں داخل ہوکر دروازہ اندر سے بند کیا اور چند لمحے صحن میں کھڑے ہوکر اچٹتی سے ایک نگاہ پورے گھر پر دوڑائی اور پھر خاموشی کے ساتھ سر جھکائے اپنے کمرے میں داخل ہوگئے۔
”کیا ہوا؟ آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے؟۔اتنے چپ چاپ تو آپ کو عید کے دن پہلے کبھی نہیں دیکھا۔۔۔ اور یہ آپ صحن میں کھڑے ہوکر حسرت بھری نگاہوں سے چاروں جانب کیا دیکھ رہے تھے“۔مسز سلیم نے کمرے میں داخل ہو تے ہی فکر مند لہجے میں کئی سوالات ایک ساتھ ہی کردیئے۔
”ارے بیگم! زیادہ مت گھبراؤ۔۔۔ میری طبیعت بالکل ٹھیک ہے۔۔۔بس! دل پر اُداسی کا ایک غبار سا چھایا ہوا ہے کہ گزشتہ گیارہ برسوں میں یہ پہلی عید الاضحی ہے،جب ہمارے صحن میں نہ تو قربانی کا جانور بندھا ہے، نہ قسائی کی بک بک،جھک جھک سنائی دے رہی ہے اور نہ ہی چھری،بگدے چلنے کی آوازیں۔۔۔“ سلیم نے پلنگ کے سرہانے رکھے ہوئے گاؤ تکیے پر کمر کی ٹیک لگا کر بیٹھتے ہوئے حسرت آمیز لہجے میں جواب دیا۔
”انیلہ کے بابا۔۔۔ ہمارا رب جانتاہے، ہماری نیت تو اس برس بھی قربانی کرنے کی تھی اور ہم نے قربانی کا جانور خریدنے کے لیئے اپنی دانست میں پیسے بھی پچھلے سال کے مقابلے میں اچھے خاصے جمع کرلیئے تھے۔۔۔۔ساٹھ ہزار روپے کی رقم کم تو نہیں ہوتی ہے، قربانی کا جانور خریدنے کے لیئے“۔
”کہہ تو تم بالکل ٹھیک رہی ہو، مگر مہنگائی کے عفریت کے سامنے تو لاکھوں،کروڑوں بھی ٹکے برابر ہوچکے ہیں،ہمارے ساٹھ ہزار کی تو خیر سے وقعت ہی کیا تھی، اگر تم بھی میری طرح دس روز متواتر مویشی منڈی کی خاک چھانتی تو تمہیں بھی خوب اچھی طرح سے معلوم ہوجاتا کہ ہم جیسے سفید پوش متوسط طبقے کو مہنگائی کی حالیہ کاری ضرب نے کتنا زیادہ لہولہان کردیاہے۔۔۔بیگم!جیسا بکرا،پچھلی عید پر ہم نے چالیس ہزار میں خریدا تھا،اُس جیسا بکرا،اَب کی بار تو ایک لاکھ روپے میں بھی بیوپاری دینے کو تیار نہیں ہورہے تھے۔۔۔ مگر اس میں بیوپاری بھی اس لیئے قصور وار قرار نہیں دیئے جاسکتے کہ،پیٹرول اور ڈیزل بار،بار مہنگا ہونے کے بعد دور دراز علاقوں سے قربانی کے جانور مویشی منڈی میں لانے کے لیئے ٹرانسپورٹ والے کرایہ کی مد میں اُن سے اتنی زیادہ رقم لے رہے ہیں کہ جتنے پیسوں میں پچھلے سال وہ ایک بکرا بیچ دیا کرتے تھے“۔سلیم نے بیگم کو تفصیل سے سمجھاتے ہوئے کہا۔
”انیلہ کے بابا!میرے لیئے فکر مندی کی بات یہ نہیں ہے کہ ہم اِس برس قربانی کررہے ہیں یا نہیں۔۔۔ بلکہ میں تو اِس لیئے پریشان ہوں کہ اگر تھوڑی دیر تک،ہمارے گھر میں کہیں سے بھی قربانی کا گوشت نہیں آیا تو ہمارے بچے جو قربانی کے گوشت سے بنے پکوان کھانے کے انتظار میں بیٹھے ہیں،انہیں کیا کہہ کر بہلاؤں گی۔۔۔میرے خیال میں۔۔۔“ ابھی مسز سلیم کی بات مکمل نہیں ہوئی تھی کہ انیلہ نے کمرے میں داخل ہوکر کہا ”امی جان! باہر ماموں جان آئے ہیں۔۔۔۔آپ کو بلارہے ہیں“۔
سلیم اور اُن کی بیگم کمرے سے باہر آئے تو واقعی ممو بھائی، صحن میں کھڑے ہوئے مسکرا رہے تھے۔اُن کے دونوں ہاتھوں میں قربانی کے گوشت کے پارچوں سے بھرے ہوئے بڑے بڑے شاپر دیکھ کر سلیم اور اُن کی بیگم نے ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر اطمینان کی ایک لمبی سانس لی۔
دین اسلام کا فلسفہ قربانی
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے عید الاضحی کا تہوار مسلمانوں کو جذبہ ایثار و قربانی کے بھرپور اظہار کے لیئے بطور تحفہ عنایت کیا ہے اور شریعت مطہرہ میں عید قرباں منانے کا بنیادی مقصد وحید ہی یہ ہے کہ ہر مسلمان کے قلب و باطن میں وہی جذبہ ایثار اور قربانی پیدا ہوجائے،جس کا عملی مظاہرہ سیدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام اور سیدنا اسماعیل علیہ السلام نے ہزاروں برس قبل کیا تھا۔ یعنی عید الاضحی محض قربانی کا ایک مہنگا یا سستا جانور قربان کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ یہ روز ِ سعید تو اپنے آپ کو حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہ السلام کی حقیقی قربانی کے ساتھ مکمل طور پر جوڑدینے کا نام ہے۔ جیسا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ قرآن حکیم،فرقان ِ حمید میں ارشاد فرماتا ہے کہ ”اسے نہ تو قربانی کا گوشت پہنچتاہے اورنہ خون،اس کے پاس تو صرف تقویٰ پہنچتاہے(سورۃ: الحج،آیت:37)۔
احادیث مبارکہ میں عید الاضحی کے روز قربانی کی بے شمار فضیلتیں بیان کی گئی ہیں۔ایک حدیث مبارکہ میں حضرت عائشہ رَضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ”اِبن آدم (اِنسان) نے قربانی کے دِن کوئی ایسا عمل نہیں کیا، جو اللہ کے نزدِیک خون بہانے (یعنی قربانی کرنے) سے زیادَہ پسندیدہ ہو، اور قیامت کے دِن وہ ذبح کیا ہوا جانور اپنے سینگوں، بالوں اور کھروں کے ساتھ آئے گا، اورقربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے ہاں قبول ہوجاتا ہے، لہٰذا تم اس کی وَجہ سے (قربانی کرکے) اپنے دِلوں کو خوش کرو“۔ (مشکوٰۃ المصابیح)۔
نیز ایک دوسری حدیث میں حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رَضی اللہ عنہم نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! یہ قربانی کیا ہے؟ فرمایا: تمہارے باپ اِبراہیم علیہ السلام کا طریقہ (یعنی اُن کی سنت) ہے، صحابہؓ نے عرض کیا کہ پھر اس میں ہمارے لیے کیا (اجر وثواب) ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وَسلم نے فرمایا: (جانور کے) ہر بال کے بدلے ایک نیکی، اُنہوں نے عرض کیا کہ (دُنبہ وَغیرہ اگر ذبح کریں تو اُن کی) اُون (میں کیا ثواب ہے؟) فرمایا: کہ اُون کے ہربال کے بدلے ایک نیکی“۔(الترغیب والترہیب:2/277)
واضح رہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی خوشنودی اور سنتِ ابراھیمی کی پیروی کے علاوہ عیدالاضحی پر قربانی کرنے کا ایک اور عظیم الشان مقصد یہ بھی ہے کہ ہم عید ِقرباں کی خوشیوں میں عزیز واقارب اور آس پڑوس کے لوگوں کو بھی آگے بڑھ کر شامل کریں۔خاص طور پر غریب و مساکین کو۔جیسا کہ قرآن کریم میں، اللہ سبحانہ و تعالیٰ ارشاد فرماتاہے کہ”ان (قربانی کے جانور) میں سے خود بھی کھاؤاور ان کو بھی کھلاؤ جو قناعت کر بیٹھے ہیں اور ان کو بھی جو اپنی حاجت پیش کریں“۔ (سورۃ: الحج،آیت36)۔
دورِگرانی میں اِک امتحان ہے ہماری قربانی
ویسے تو ہمارے ہاں،عید ِ قرباں پر کی جانے والی قربانی کے حوالے سے یہ بات زبان زدِ عام ہے کہ قربانی کے گوشت کے تین حصہ ہوتے ہیں ایک قربانی کرنے والے کے لیے،دوسرا اُس کے رشتہ دار اور دوست احباب کے لیے اورتیسراحصہ غرباء و مساکین میں تقسیم کرنے کے لیے ہوتاہے۔لیکن گزشتہ چندسال سے عام مشاہدہ میں یہ ہی آرہاہے کہ قربانی کرنے سے پہلے ضرور ہماری یہ نیت ہوتی ہے کہ قربانی کے گوشت کی تقسیم کے وقت غریبوں اور مساکین کو سب سے مقدم رکھیں گے۔مگر جب جانور کے ذبیحہ کے بعد قربانی کا گوشت بننا شروع ہوتا ہے تو پھر ہمیں اچانک یاد آجاتا ہے کہ داماد کے گھر سالم ران نہیں گئی تو بیٹی کے سسرال میں اُس کی ناک کٹ جائے گی۔نیز بہو اور بیٹے کے لیئے روکھا گوشت ہمراہ سری پائے کے نہیں رکھا تو وہ ناراض ہوجائیں گے۔حد تو یہ ہے کہ ہم قربانی کا گوشت تقسیم کرتے وقت اُن پڑوسیوں،دوست اور قرابت داروں کو سرفہرست رکھتے ہیں کہ جن کے گھر سے ہر بقرعید پر باقاعدگی سے قربانی کا گوشت وافر مقدار میں آتا ہے۔علاوہ ازیں گھر کے فریج اور ڈیپ فریزر کو قربانی کے گوشت سے لبالب بھرنا بھی ہماری بڑی معاشی مجبوری ہے تاکہ آئندہ کئی ماہ تک گوشت خرید نے کی زحمت سے محفوظ و مامون رہ سکیں۔
قربانی کے گوشت کی اِس ”غیر منصفانہ تقسیم“ کے بعد بچ جانے والے گوشت کے چند پارچے اور ڈھیڑ سارے چھیچھڑے گلی،محلے کے غریب و مساکین میں تقسیم کر کے ہم خوش ہوجاتے ہیں،کہ ہم نے سنتِ ابراہیمی کی ادائیگی کرنے والوں میں اپنا نام سنہری حرفوں سے لکھوالیا ہے۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ اگر قربانی کے گوشت کی اِس ”طرزِ تقسیم“ پر خاندان کا کوئی فرد سوال اُٹھادے تو اُسے یہ دلیل دے کر چپ کروا دیا جاتا ہے کہ ایک سے زائد احادیث مبارکہ میں قربانی کا گوشت کھانے،کھلانے اور جمع کرنے کا حکم بھی آیاہے۔ یہاں سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ہمارے نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے وقت اور حالات کو دیکھتے ہوئے قربانی کے گوشت کی تقسیم کے متعلق اُمت کو مختلف احکامات دیئے ہیں۔ جن کی درست تفہیم صرف اُس وقت ہی حاصل ہوسکتی ہے جب ہم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کا انتہائی توجہ کے ساتھ مطالعہ کریں۔ مثال کے طور پر ایک بہت ہی خوب صورت اور ایمان افروز حدیث کچھ اس طرح سے روایت ہے کہ ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے تم میں سے قربانی کی تو تیسرے دن وہ اس حالت میں صبح کرے کہ اس کے گھر میں قربانی کے گوشت میں سے کچھ بھی باقی نہ ہو۔ دوسرے سال جب صحابہ اکرام رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ کیا ہم اس سال بھی وہی کریں جو پچھلے سال کیا تھا کہ تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت نہ رکھیں تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا: اب کھاؤ کھلاؤ اور جمع کرو، پچھلے سال تو چونکہ لوگ تنگی میں مبتلاء تھے تو میں نے چاہا کہ تم لوگوں کی مشکلات میں مدد کرو۔“(صحیح بخاری:کتاب الاضاحی)۔
مذکورہ حدیث مبارکہ کی روشنی باآسانی سمجھا جاسکتاہے کہ عید الاضحی کے دن، قربانی کے گوشت کی تقسیم کا فیصلہ اپنے اردگرد بسنے والے افراد کی ظاہری حالت یا اچھے،بُرے ملکی حالات کو مدِ نظر رکھ کر بھی کیا جاسکتاہے۔سادہ الفاظ میں یوں جان لیجئے کہ غیر معمولی حالات میں اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات ہم سے غیر معمولی ایثار اور قربانی کا تقاضا کرتے ہیں۔ یقینا شریعت مطہرہ میں قربانی کے گوشت کا بیشتر حصہ اپنے اور گھر والوں کے لیئے رکھنے کی قطعی طور پرکہیں ممانعت نہیں آئی ہے۔مگر اس کے باوجود ہمارے ملک کی معاشی فضاء پر چھائے مہنگائی کے سیاہ بادل ہم سے تقاضا کررہے ہیں کہ ہم حالیہ بقرعید کے تینوں ایام میں سب سے پہلے اپنے اردگرد بسنے والے اُن افراد کے بارے میں سوچیں،جن کی کمریں روز افزوں گرانی کے بوجھ سے دوہری ہوچکی ہیں اور وہ معروف اصطلاح میں غریب نہ ہوتے ہوئے بھی سنتِ ابراہیمی کی سعادت حاصل کرنے سے فقط ”گرمئی بازار“ کی کی شدت دیکھ کر رہ گئے ہیں۔ وگرنہ بقرعید پر قربانی کاجانور ذبیح کرنے کی اُن کی نیت بھی تھی اور اُن کے پاس پس انداز کی ہوئی رقم بھی موجود تھی۔ مگر ملک بھر میں اچانک سے آنے والے مہنگائی کے طوفان نے اُن کی جمع پونچی کو سستا اور قربانی کے جانور بہت زیادہ مہنگا کردیا اور یوں ہمارے معاشرہ کا ایک بہت بڑا طبقہ عید ِ قرباں پر قربانی کرنے کی اپنی برسوں پرانی روایت کو برقرار رکھنے سے قاصر رہا۔سچ پوچھئے! تو اِس عید قرباں پریہ ہی لوگ قربانی کے گوشت کے اصل حق دار ہیں۔
قربانی کی کھال بھی غربا و مساکین کا مال ہے
اِس حادثہ وقت کو کیا نام دیا جائے کہ ہمارے ملک میں ہرسال قربانی کی 90 فیصد سے زائد کھالیں مساجد،مدارس اور سیاسی و مذہبی تنظیمات کو بلا تحقیق ہی ہدیہ کردی جاتی ہیں یا پھر اُن کے نمائندے خود ہی گھر آکر لے جاتے ہیں اور لوگ بھی اتنے سادہ ہیں کہ قربانی کی کھال لے کر جانے والے شخص سے ایک بار بھی یہ پوچھنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ وہ قربانی کی کھال کن مصارف میں بروئے کار لائے گا۔یادرہے کہ قربانی کرنے والا جب اپنے جانور کی کھال کسی مسجد،مدرسہ اور سیاسی و مذہبی تنظیم یا ادارے کو دیتا ہے تو اُس ادارے کے نمائندے قربانی کرنے والے کے وکیل بن جاتے ہیں، اور وہ شرعی طور پر اس کو فروخت کرکے قربانی کرنے والے کی طرف سے مستحق لوگوں کو دینے کے پابند ہیں کیونکہ قربانی کی کھال یا اُس کی قیمت فروخت سے کسی بھی قسم کا تعمیراتی کام کروانا جائز نہیں ہے۔لہٰذا،اکثر فقہا کرام نے مساجد اور ہسپتال کی تعمیر کے لیے قربانی کی کھال بطور ہدیہ دینے کی سختی سے ممانعت کی ہے۔ یہاں سمجھنے کی بات یہ ہے کہ جب مختلف اداروں اور تنظیمات نے بھی آپ سے وصول کردہ قربانی کی کھال مستحق افراد کو ہی ہدیہ کرنی ہے توپھر یہ چھوٹی سی نیکی آپ خود کیوں نہیں انجام دے سکتے۔
اپنے ہاتھ سے قربانی کی کھال یا اُس کی قیمت فروخت سے اپنے جاننے والے ایک غریب، مسکین شخص کی مالی امداد کرنے سے جہاں اطمینان قلب کی دولت میسر آئے گی،وہیں یہ اندیشہ اور فکر بھی دُور ہوجائے گی کہ آپ کے قربانی کے جانورکی کھال کسی غیر شرعی کام یعنی عسکریت پسند تنظیموں کی آمدن اور دہشت گردکارروائیوں کے لیئے بھی استعمال نہیں ہو گی۔ واضح رہے کہ شریعت اسلامی کی رو سے قربانی کی کھال جب تک فروخت نہ کی جائے قربانی کرنے والے کو اس میں تین قسم کے اختیارات حاصل ہوتے ہیں: (1) خود استعمال کرنا۔ (2) کسی کو ہدیہ کے طور پر دینا۔ (3) غربا اور مساکین پر صدقہ کرنا۔تاہم اگر قربانی کی کھال نقد رقم یا کسی چیز کے عوض فروخت کردی گئی تو اس کی قیمت غربا و مساکین میں صدقہ کرنا واجب ہے، اور کھال کی قیمت ِ فروخت سے حاصل ہونے والی رقم کا مصرف بالکل وہی ہے جو زکوۃ کے مصارف ہیں۔یعنی جن مستحق افراد کی زکوۃ کی رقم سے مالی امداد کی جاسکتی ہے،اُنہیں قربانی کی کھال بھی دی جا سکتی ہے۔
حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے روزنامہ جنگ کے سنڈے میگزین میں 10 جولائی 2022 کے خصوصی شمارہ میں شائع ہوا۔
- آزادی اظہار رائے کی آڑ میں -جون30, 2023
- عید قرباں کی حقیقی روح -جون27, 2023
- بلدیہ عظمی کراچی کا قلعہ پیپلزپارٹی نے کیسے فتح کیا؟ -جون19, 2023