Pakistan economic future is bright under Shahbaz Sharif government

نئی متحدہ حکومت کا مستقبل؟

جن لوگوں کا یہ خیال تھا کہ بیرونی مداخلت اور تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے نتیجے میں بننے والی نئی حکومت عوامی نقطہ نگاہ سے امپورٹڈ ہونے کی وجہ سے درست انداز میں حکومتی نظم و نسق نہیں چلا پائے گی۔ایسے تمام افراد کے لیئے عرض ہے کہ وزیراعظم پاکستان شہباز شریف کی قیادت میں نئی نویلی ”امپورٹڈ حکومت“ اپنی36 رکنی ”ملزمانہ کابینہ“ کی تشکیل کے فوراً بعد انتہائی برق رفتاری کے ساتھ حکومتی اُمور کی انجام دہی میں مصروف عمل ہوچکی ہے۔جس کا پہلا بین ثبوت یہ ہے کہ وزارتِ داخلہ نے مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلزپارٹی کی جملہ قیادت کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے باہر نکال کر اپنے بدخواہوں پر یہ ثابت کردیا ہے کہ متحدہ حکومت”عوامی خدمت“ کے جس عظیم الشان مقصد کے حصول کے لیئے معرض وجود میں لائی گئی تھی، اپنی اُس منزل کی جانب تیزی کے ساتھ گامزن ہے۔ یقینا نئی متحدہ حکومت کااَب اگلا ہدف جلدازجلد احتساب کے ادارے نیب کا خاتمہ ہوگا، کیونکہ نیب کو ختم کرنے کے بعد ہی وزیراعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف، صحیح معنوں میں سکون کا سانس لے کر دیگر اہم اور ضروری حکومتی اُمور پر اپنی توجہ مرکوز کرسکیں گے۔مثلاً انتخابی اصطلاحات کے نام پر اگلے انتخابات میں الیکٹرانگ ووٹنگ مشین کا استعمال اور بیرون ِ ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ ڈالنے کے حق سے روکنے کے لیئے قانون سازی کرنااور سابق وزیراعظم پاکستان عمران خان کو قومی انتخابات میں شکست سے دوچار کرنے کے لیئے اپنی مرضی کی نگران حکومت اور فیلڈنگ ترتیب دینا۔

واضح رہے کہ نئی حکومت کے لیئے ملک میں فوری طور پر مہنگائی کی شرح میں کمی کا ذرہ برابر بھی امکان نہیں ہے،کیونکہ مہنگائی عالمی سطح پر روز افزوں بڑھ رہی ہے اور مہنگائی کے بین الاقوامی ٹرینڈز سے بچنا، پاکستانی معیشت کے لیئے ممکن نہیں ہے۔اسٹیٹ بینک نے بھی اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا ہے کہ عالمی منڈی میں تیل و اجناس کی قیمتوں میں فوری طور پر کمی آنے کا کوئی امکان نہیں ہے جس کی وجہ سے مرکزی بینک نے شرح سود میں بھی اضافہ کیا ہے۔ معاشی ماہرین کے مطابق نئی حکومت کو غیر ملکی طاقتوں کی جانب سے چاہے کتنی مرضی معاشی امداد حاصل ہوجائے تب بھی اس حکومت کے لیے دودھ، چینی، گندم، خوردنی تیل اور دالوں کی قیمتیں کم کرنا مشکل ہوگا۔نیزدالیں، گندم اور خوردنی تیل ملک میں درآمد ہو رہے ہیں اور اس پر سبسڈی دینا موجودہ معاشی صورتحال کے تناظر میں نئی حکومت کے لیے مشکل ہو گا کیونکہ خزانے میں پیسے نہیں ہیں۔جبکہ نئی حکومت کے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے آئی ایم ایف سے پیٹرول اور بجلی سمیت تمام اشیاء پر حکومتی سبسڈی ختم کرنے کا وعدہ بھی کرلیاہے۔کیا اِس طرح آناً فاناً آئی ایم ایف کے قدموں میں بچھ جانے سے نئی حکومت عوام کی نظر مقبولیت حاصل کرسکے گی؟۔

علاوہ ازیں متحدہ حکومت ایک نئے میثاقِ جمہوریت کو بھی طے کرنے جارہی ہے،جس کے لیئے مسلم لیگ (ن) کے رہنما میاں محمد نواز شریف اور پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے لندن میں دن،رات کام کررہے ہیں۔ باخبرذرائع کا دعویٰ ہے کہ اِس نئے میثاق جمہوریت کے تحت ملک میں آئین کی حکمرانی اور حسن حکمرانی کے قیام کو یقینی بنانے کے لیئے نہ صرف مقتدر اداروں میں اپنی مرضی کی ادارہ سازی کی جائے گی بلکہ اقتصادی پالیسیوں کو بھی مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے قائدانہ رجحانات کے مطابق ازسرِ نو ترتیب دیا جائے گا۔ تاہم گورننس، اقتصادیات اور آئین کی حکمرانی کے بنیادی نکات گزشتہ میثاق جمہوریت سے ہی مستعار لیئے جائیں گے،جوسابق وزراء اعظم بے نظیربھٹو اور نواز شریف کے درمیان طے پایا تھا۔سادہ الفاظ میں یوں سمجھ لیجئے کہ تازہ ترین مجوزہ میثاق جمہوریت پرانے معاہدہ کی جدید اور ترقی یافتہ شکل ہوگا، جس میں پاکستان تحریک انصاف کے علاوہ ملک کی دیگر تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ تحریری طور پر طے کیا جائے گا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ مذکورہ میثاق جمہوریت کو زیادہ سے زیادہ اپنے مفید بنانے کے لیئے بلاول بھٹو زرداری آنے والے سیاسی منظر نامہ میں پیپلزپارٹی کے لئے کلیدی عہدے حاصل کرنے کے لیئے لندن میں موجود ہیں،جہاں دونوں رہنماؤں کے درمیان صدر مملکت،گورنر اور چیئرمین سینٹ کی تقرری کے علاوہ اگلے قومی انتخابات میں پنجاب میں 10 قومی اسمبلی کی نشستیں اور 20 صوبائی اسمبلی کی نشستیں بھی پیپلزپارٹی نے مسلم لیگ (ن) سے حاصل کرلی ہیں۔ فی الحال تو ذرائع ابلاغ کویہ ہی بتایا جارہاہے کہ انتخابی نشستوں کے معاملے پر دونوں رہنماؤں میں کوئی بات نہیں ہوئی لیکن قوی امکان ہے کہ اگلے قومی انتخابات سے قبل دونوں جماعتوں کی جانب سے اعلان کردیا جائے گا کہ بلاول بھٹو زرداری،پیپلزپارٹی کے لیئے پنجاب میں مسلم لیگ (ن) سے کتنی انتخابی نشستوں سیاسی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ بہرحال حالیہ سیاسی تناظر میں مسلم لیگ (ن)سے پنجاب میں قومی و صوبائی اسمبلیوں کی نشستیں حاصل کرلینا بلاول بھٹو زرداری کا ایک غیر معمولی سیاسی کارنامہ ہے۔ لیکن یہاں اہم ترین سوال یہ ہے کہ بلاول بھٹو زرداری نے پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کے ساتھ جن انتخابی نشستوں پر سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی ہے،کیا اُن نشستوں پر پیپلزپارٹی،تحریک انصاف کے اُمیدواروں کے خلاف جیت حاصل کرسکے گی؟۔ہماری دانست میں جن انتخابی نشستوں پر پیپلزپارٹی نے مسلم لیگ (ن) کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی اُن پر پیپلزپارٹی کے اُمیدواروں کا انتخاب جیتنا بہت مشکل ہوگا۔

دراصل پنجاب میں پاکستان پیپلزپارٹی کا سیاسی وجود نہ ہونے کے برابر ہے،اس لیئے یقین سے کہا جاسکتاہے کہ پنجاب میں قومی و صوبائی اسمبلی کے نشستوں پر مسلم لیگ (ن) کا انتخاب جیتنا تو پھر بھی ممکن ہے لیکن اگر اِن انتخابی نشستوں پر پیپلزپارٹی کے اُمیدوار،اگلے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کا مقابلہ کرنے کی کوشش کریں گے تو اُن اُمیدواروں کی شکست کم و بیش یقینی ہی ہوگی۔اس لیئے مناسب تو یہ ہی ہوگا کہ عمران خان کی مخالف جماعتیں اگر واقعی اگلے انتخابات میں تحریک انصاف کے خلاف غیر معمولی برتری کے خواہاں ہیں تو پھر مسلم لیگ (ن) کو پنجاب میں کسی بھی صورت پیپلزپارٹی کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ نہیں کرنی چاہیئے اور متحدہ حکومت میں شامل ہر سیاسی جماعت کو تن تنہا اگلے انتخابات میں حصہ لینا چاہیئے۔ تاکہ متحدہ حکومت میں شامل جماعتوں کے بارے میں پنپنے والے اِس تاثر کی نفی ہوسکے کہ ملک کی تمام سیاسی جماعتیں کسی غیر ملکی طاقت کے اشارے پر سابق وزیراعظم عمران خان سے برسرِ پیکار ہیں۔

حوالہ: یہ کالم سب سے پہلے روزنامہ جرات کراچی کے ادارتی صفحہ پر 25 اپریل 2022 کی اشاعت میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں