Pak Army and Pakistani Students

پاک فوج اور طلباوطالبات کا باہمی تعلق

گزشتہ دنوں جیسے ہی ہماری نظر سے یہ خبر گزری کہ آئی ایس پی آر نے اپنے سالانہ انٹرن شپ پروگرام میں طلباء و طالبات کو پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجودہ اور دیگر افسران کے ساتھ براہِ راست مکالمہ کا زبردست موقع فراہم کیا ہے تو ہم بھی یک لخت میکانکی انداز میں ماضی کی اُن جانی پہچانی یادِ رفتگاں میں جاپہنچے۔جب ہم اسکول کی چھوٹی سی چاردیواری سے نکل کر کالج کی وسیع و عریض دنیا میں نئے نئے وارد ہوئے تھے اور یہاں ہمارا واسطہ جن بے شمار نئی نکور دلچسپیوں سے پڑنے والا تھا۔اُن میں سے ایک این سی سی کی ٹریننگ بھی تھی۔ ہوسکتا ہے آج کے نوجوان طلباء و طالبات کے لیئے یہ لفظ بالکل ہی اجنبی ہو لیکن ہمارے سنہرے تعلیمی دور میں طلباء طالبات اور اُن کے والدین کے لیئے سب سے پُرکشش لفظ بس یہی تھا۔ لفظ این سی سی (نیشنل کیڈٹ کور) کا مخفف ہے۔ نوے کی دہائی کے اختتام تک پاکستان کے ہر سرکاری کالج میں این سی سی کے نام سے طلباء و طالبات کو اُن کی نصابی تعلیم کے ساتھ ساتھ کم و بیش دو ماہ تک ابتدائی نیم فوجی تربیت فراہم کی جاتی تھی۔ بظاہر این سی سی کی یہ تربیت لازمی نہیں بلکہ اختیاری تھی۔مگر اِس کے باوجود شاید ہی کوئی طالب علم ایسا ہو جو یہ تربیت حاصل کرنا ضروری خیال نہ کرتا تھا۔ جب کہ اِس تربیت کو مکمل کرنے والے طلبا و طالبات کو حوصلہ افزائی کے لیئے20 اضافی نمبرز بھی تفویض کیئے جاتے تھے۔پاک فوج کی زیرِ نگرانی فراہم کی جانے والی اِس تربیت کا بنیادی مقصد طلباء و طالبات کو غیر معمولی حالات میں اپنے اور اپنے اردگرد رہنے والے افراد کا دفاع کرنا اور اُنہیں ابتدائی طبی امداد فراہم کرنے سمیت جنگی حالات کی صورت ِ احوال میں اختیار کی جانے والی تمام ضروری احتیاطی تدابیر اور چھوٹے بڑے ہتھیار چلانے کی تربیت بھی فراہم کی جاتی تھی۔

اَب آپ اِسے پاک فوج کے ساتھ ہماری والہانہ عشق و محبت کہیں یا پھر کچھ اضافی نمبروں کا لالچ۔بہر حال دونوں آرزوؤں نے مل کر ایسا چوکھا رنگ جمایا کہ مجال ہو جو این سی سی کی پوری تربیت کے دوران ہم یا ہمارے کسی ہم جماعت نے غلطی سے بھی اپنے فوجی اُستاد کے حاضری رجسٹر میں ایک غیر حاضری بھی درج ہونے دی ہو۔ سچی بات تو یہ ہے کہ صبح سویرے جب ہم خاکی وردی پہن کر آئینے میں خود کو دیکھتے تھے تو ایک لمحہ کے لیئے ہی سہی اپنے آپ پر ایک مکمل فوجی ہونے کا ہی گمان ہونے لگتا تھااور کچھ رہی سہی کسر ہماری والدہ ماجدہ یہ کہہ کر پوری کردیتی تھیں کہ ”لے بھئی! میرا فوجی بیٹا تو ہوگیا تیار۔۔۔ محاذ پر جانے کے لیئے“۔ یہ جملہ سننے کے بعد ہمارا خیال ہی نہیں بلکہ ہماری چال بھی فوجیوں کی مانند ہوجاتی تھی۔گھر سے کالج تک راستہ ہم اور ہمارے ہم جماعت ایسے طے کرتے تھے کہ جیسے واقعی ہم سچ مچ کے فوجی ہوں اور کسی محاذ کو سر کرنے جارہے ہوں۔ کالج پہنچ کر تو ہمارے جسم وفورِ جذبات سے گویا اپنی جون ہی بدل لیتے تھے۔ کبھی کبھار تو ہمیں خود بھی حیرت ہوتی تھی کہ گھر میں پانی کا گلاس بھی چھوٹے بھائی کو آواز دے کر طلب کرنے والے کالج کے پریڈ گراؤنڈ میں اِس جان فشانی سے اپناخون پسینہ کیسے بہا لیتے ہیں؟ فوجی اُستاد کی گرجتی آواز جس میں زیادہ حصہ ہمیشہ سے ڈانٹ ڈپٹ کا ہی ہوا کرتا تھا، اتنی دلفریب لگتی تھی کہ بیان سے باہر ہے۔ حالانکہ دورانِ پریڈ ایک ساتھ اپنے بازو اور قدم ملانے کی ہماری کوشش خال خال ہی کامیاب ہوتی تھی، مگر پھر بھی ہم ہمت نہیں ہارتے تھے۔



ہمارے فوجی اُستاد نشانے بازی کی مشق کو چاند ماری کہتے تھے اور وہ بالکل درست ہی کہتے تھے کیونکہ فائرنگ رینج مین خود کار رائفل پکڑکر جس طرح سے ہم اور ہمارے دوست ہدف پر نشانے مارتے تھے،اُس کے لیئے چاند ماری جیسا لفظ بولنا عین قرین انصاف تھا۔ بہر حال اِس ساری جسمانی و جذباتی مشقت اور اپنے فوجی اُستاد کی کوششوں سے ہم نے جوکچھ دو ماہ میں سیکھ لیا تھا اِس کا تصور بھی آج کا پاکستانی طالب علم نہیں کرسکتا۔ این سی سی کی تربیت نے ہمیں پورا فوجی بھلے ہی نہ بنایا ہو مگر آدھا فوجی ضرور بنا دیا۔سب سے بڑھ کر ہمیں یہ جان کاری دی کہ پاک فوج کے ایک سپاہی کو رنگروٹ سے فوجی جوان بننے میں کن مشکل،صبر آزما اور کھٹن مراحل سے گزرتا پڑتا ہے۔

فیس بک،واٹس ایپ اور ٹوئیٹر پر فقط جنگی طیاروں کی تصویروں کا اسٹیٹس اَپ ڈیٹ کرنے والے بھلا کیا جانیں کہ پریڈ گراؤنڈ میں خاکی وردی زیب تن کر کے قدم سے قدم ملا کر لیفٹ رائیٹ پریڈ کرنے میں کیسا لطف آتا ہے۔یقین مانیئے یہ وہ لذتِ لافانی ہے کہ جس کاخمار تمام زندگی قلب و نظر پر چھایا رہتا ہے۔ میرا وجدان کہتا ہے کہ اکیسویں صدی میں پاکستان کے طلباء و طالبات کو این سی سی کی تربیت کی نوے کی دہائی کے طالب علموں سے زیادہ ضرورت ہے۔آج پاکستان اور اِس ارد گرد کا خطہ جس قسم کے عدم استحکام اور غیرمرئی جنگی صورتحال کا شکار ہے،ایسے میں این سی سی کی تربیت کا ازسرِ نو احیاء طالب علموں کو نامساعد جنگی حالات میں زندہ رہنے،ایک دوسرے کا مددگار و غمگسار بننے،زخمیوں کو ابتدائی طبی امداد فراہم کرنے اور جب دشمن کے ساتھ دو بدو پنجہ آزمائی کرنے کی نوبت آجائے تو ہتھیار اُٹھا کر اُسے پسپائی اختیار کرنے کی غیرمعمولی طاقت فراہم کرسکتاہے۔این سی سی کے بیش بہا فوائد کے پیشِ نظر اشد ضرورت ہے کہ اِسے ایک بار سے کالجوں کی سطح پر بطور ایک اختیاری مضمون کے شاملِ نصاب کر دیا جائے۔اگر وزیراعظم پاکستان عمران خان چاہیں تو وہ پاکستان کے تعلیمی نظام میں فور ی طور پر این سی سی کو بحال کر کے طلباء و طالبات کو پاک فوج کے ساتھ عملی تعلق کی ایک مضبوط لڑی میں پرو سکتے ہیں۔

حوالہ: یہ کالم سب سے پہل روزنامہ جرات کراچی کے ادارتی صفحہ پر 14 اگست 2019 کی اشاعت میں شائع ہوا

راؤ محمد شاہد اقبال

پاک فوج اور طلباوطالبات کا باہمی تعلق” ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں