saudi-arab-and-pakistan-start-new-releation-after-imaran-khan-visit

سعودی عرب اور پاکستان ساتھ ساتھ ہیں

سفارتی تعلقات کی دنیا میں اُتار چڑھاؤ، اونچ نیچ اور نشیب و فراز ایک معمول کی بات ہوا کرتی ہے۔یعنی جب دوممالک رشتہ سفارت کاری کے بندھن میں ایک دوسرے سے منسلک ہونے کا حتمی فیصلہ کرتے ہیں تو اُن میں سے ہر ایک ملک کے پیش نظر دوسرے ملک سے زیادہ سے زیادہ سیاسی، معاشی اور سفارتی مفادات کشید کرنا ہی ہوتا ہے۔شاید یہ ہی وجہ ہے کہ جب دو ممالک کے درمیان مفادات کے توازن میں ذرا سی بھی تبدیلی واقع ہوتی ہے تو اُس کا سب سے پہلا منفی اثر سفارتی تعلقات پر ہی پڑتا ہے۔اِس عالمگیر سفارتی اُصول کا اطلاق اگر پاکستان اور سعودی عرب کے دیرینہ تعلقات پر بھی کیا جاتا ہے تو اس میں آخر مضائقہ ہی کیا ہے۔

سمجھنے والوں کو سمجھنا چاہئے کہ پاکستان اور سعودی عرب بھلے ہی اسلامی بھائی چارہ کے اُٹوٹ رشتے میں بندھے ہوئے ہیں لیکن بہر حال ہیں تو آخر،دو الگ الگ ملک ہی۔ جن کے مفادات اور ترجیحات کی نوعیت کسی بھی صورت بالکل ایک جیسی نہیں قرار دی جاسکتی۔دراصل کسی بھی ملک کی جغرافیائی اہمیت اور معاشی و عسکری طاقت ہی طے کرتی ہے کہ دنیا کے دیگر ممالک کے نزدیک اُس ملک کی سفارتی اہمیت کیا ہوگی؟۔مثلاً پاکستان جغرافیائی اور عسکری اعتبار سے تو بلاشبہ سعودی عرب کی ضرورت بن سکتا ہے لیکن اپنی کمزور معیشت کی بنا ء پر پاکستان کا سعودی عرب کی مضبوط معیشت پر انحصار کرنا بھی ایک ایسی بدیہی حقیقت ہے،جسے جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ اس لیئے اگر سعودی عرب اور پاکستان آپس میں مل جل کر ایک دوسرے کی ضروریات کو پورا کرتے ہیں تو اُن کا یہ طرز عمل سفارتی اُصولوں اور اخلاقیات سے عین مطابقت رکھتا ہے۔

مگر ہمارے ہاں بعض عاقبت نااندیش تجزیہ کار اور ینکر پرسنز الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا پر سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات کی مضبوطی کو خالص سفارتی پیمانے پر پرکھنے کے بجائے،اسلامی بھائی چارہ کی ”نادیدہ کسوٹی“پر جانچتے ہوئے اُمید رکھتے ہیں دونوں ممالک کے تعلقات ہرقسم کے سیاسی و معاشی مفادات کی علت سے پاک ہو کر،سراسر مبنی بر اخلاص ”اسلامی اُخوت“ کے سانچے میں ڈھل جائیں اور جب اُ ن کی یہ تمنا بر نہیں آتی تو وہ کبھی سعودی عرب اور کبھی پاکستان کو ہدفِ تنقید بنانا شروع کردیتے ہیں۔ ایسے افراد کے نزدیک جہاں سعودی عرب کا پاکستان کی عسکری صلاحیت پر انحصار کرنا ایک گناہ عظیم ہے، تو وہیں یہ دانش و بنیش ا فراد سمجھتے ہیں کہ پاکستان کاسعودی عرب سے معاشی فوائدسمیٹنا بھی ایک کارِ حرام ہے۔یعنی اگر سعودی عرب اپنے دفاع کے لیئے پاکستان کی جانب ملتفت دکھائی دے تو یہ لوگ فوراً ہی سعودی عرب کو ”عسکری کمزوری“ کے طعنے دینا شروع کردیتے ہیں جبکہ اگر پاکستان اپنی معیشت کی بہتری و استحکام کے لیئے سعودی عرب سے کوئی معاشی سہولت حاصل کرنے کا معاہدہ کرگزرے تو پھر یہ پاکستانی قیادت پر بھکاری یا کاسہ لیس ہونے کی پھبتی کسنا شروع کردیتے ہیں اور جب خداانخواستہ یہ ہی دونوں ممالک ایک دوسرے سے کھنچے کھنچے نظر آئیں تو اِن کی جانب سے پاکستان پر کمزور خارجہ پالیسی کا آوازہ سننے کو ملتا ہے۔

مصیبت تو یہ ہے کہ سعودی عرب اور پاکستان کی قیادت ایک دوسرے کے ساتھ باہم شیر و شکر دکھائی دے، تب بھی اِن کے سینوں پر مختلف طرح کی سازشوں اور وسوسوں کے سانپ لوٹنا شروع ہو جاتے ہیں۔مثال کے طور پر کل کو یہ ناقدین شکوہ کناں تھے کہ”اتنا عرصہ ہوگیا وزیراعظم پاکستان عمران خان سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے درمیان رابطہ کیوں نہیں ہورہا، لگتا ہے کہ سعودی شہزادہ پاکستانی وزیراعظم سے سخت ناراض ہے“۔ لیکن جب حالیہ دورہ سعودی عرب میں عمران خان کا ائیر پورٹ پر استقبال کرنے کے لیئے ولی عہد شہزادہ محمدبن سلمان خود ائیرپورٹ پر تشریف لے آئے تو انہیں فکر دامن گیر ہوگئی ہوجاتی ہے کہ اَب میاں محمد نواز شریف کی سیاست کا مستقل کیا ہوگا؟۔یوں سمجھ لیجئے کہ ایسے لوگوں کے پاس ہمیشہ کہنے کے لیئے تو بہت کچھ ہوتا ہے مگر سمجھنے اور سمجھانے کے لیئے ڈھنگ کی ایک دلیل بھی نہیں ہوتی۔

بہرحال ناقدین جو بھی کہیں لیکن سچ تو یہ ہی ہے کہ وزیراعظم پاکستان عمران خان کا حالیہ دورہئ سعودی عرب کئی حوالوں سے یاد گار رہا۔ خاص طور پر ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی جانب سے جس طر ح کی پذیرائی وزیراعظم پاکستان عمران خان کے لیئے دیکھنے میں آئی،اُس سے کم ازکم یہ اندیشے تو رفع ہوگئے کہ سعودی عرب اور پاکستان کے مابین کسی بھی قسم کے سنگین اختلافات پائے جاتے ہیں۔اچھی بات یہ ہے کہ وزیراعظم پاکستان کے حالیہ دورہ کی بدولت پاکستان کا سعودی عرب سے دفاعی تعاون بڑھانے پر بھی اتفاق ہواہے۔نیز وزیر اعظم عمران خان اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے درمیان ایک مفاہمتی یادداشت پر دستخط ہونا بھی دونوں ممالک کے سفارتی تعلقات میں بہتری کے لیئے ایک بڑی مثبت خبر ہے۔علاوہ ازیں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے وزیراعظم پاکستان عمران خان کو سعودی عرب کے ”وژن“کے خدوخال سے بھی تفصیلاً آگاہ کیا۔اس وژن کو عملی جامہ پہنانے کیلئے سعودی حکومت کو اگلے 10سال کے دوران، دس ملین، افرادی قوت درکار ہو گی۔شہزادہ محمد بن سلمان نے یقین دہانی کروائی ہے کہ پاکستانی ورک فورس کی گزشتہ خدمات کو مدنظر رکھتے ہوئے، اس مطلوبہ ورک فورس کا زیادہ تر حصہ پاکستان سے لیا جائے گا۔بلاشبہ روزگار کے مواقع کے حوالے سے یہ پاکستانیوں کیلئے ایک بہت بڑی خبر ہے۔

خوش آئند با ت یہ ہے کہ دونوں رہنماؤں کی ملاقات کے اختتام پر جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیے میں سعودی عرب کی جانب سے کشمیر پر پاکستانی موقف کی از سرنو واضح حمایت اور تنازع کشمیر سمیت پاکستان اور بھارت کے درمیان تمام باہمی اختلافات کو پُرامن مذاکرات سے حل کرنے پر زور دیا جانا اہلِ پاکستان کے لئے بلاشبہ سکون و اطمینان کا باعث ہے کیونکہ پچھلے سال جب حکومت پاکستان نے کوشش کی تھی کہ سعودی حکومت مودی سرکار کی غیرمنصفانہ کارروائیوں کے نتیجے میں رونما ہونے والے کشمیر کے بحران پر او آئی سی کے وزرائے خارجہ کے اجلاس کے ذریعے پاکستان کی حمایت کرے تو اس میں کامیابی نہیں ہوئی تھی۔ جبکہ مشترکہ اعلامیے میں افغانستان میں پائیدار امن کی خاطر تمام فریقوں کو سیاسی تصفیے کے موقع کو درست طور پر استعمال کرنے کی تاکید بھی کی گئی ہے اور یوں سعودی عرب اور پاکستان کی مشترکہ کوششوں سے افغانستان میں امن عمل کے تقویت پانے کے امکانات روشن ہوئے ہیں جبکہ لیبیا، شام، یمن میں بھی تنازعات کے سیاسی حل کی حمایت کی گئی ہے۔ نیزمشترکہ اعلامیے میں دونوں رہنماؤں نے عرب امن اقدام کے تحت فلسطینی عوام کے تمام جائز حقوق، خاص طور پر ان کے حقِ خود ارادیت اور ان کی خود مختار ریاست کے 1967سے قبل کی سرحدوں اور مشرقی یروشلم کے دارالحکومت کی حیثیت سے قیام کے اعادہ کی تصدیق کیا جانا بھی اہم بات ہے۔

وزیراعظم پاکستان کے حالیہ دورہ میں سعودی عرب اور پاکستان کے مابین دو معاہدے بالترتیب قیدیوں کے تبادلے اور جرائم کی بیخ کنی کے حوالے سے طے پائے ہیں۔ جن پر وزیر خارجہ شیخ رشید صاحب نے دستخط کئے،جبکہ دو معاہدوں پر دستخط وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے دستخط کئے۔ ان میں سے ایک معاہدہ انسداد منشیات کے حوالے سے تھا جبکہ دوسرے معاہدے کی رو سے سعودی عرب کی جانب سے فوری طور پر پاکستان کوسعودی ڈیولپمنٹ فنڈ سے 500 ملین ڈالر کی رقم فراہم کی جائے گی۔ اس رقم کو پاکستان میں انفرااسٹرکچر ڈویلپمنٹ کی بہتری، آبی وسائل کی ترقی اور ہائیڈرو پاور ڈویلپمنٹ کیلئے خرچ کیا جائے گا،جبکہ سعودی عرب پاکستان کو موخر ادائیگی پر تیل کی فراہمی بھی بدستور جاری رکھے گا۔سب سے خوش آئند بات یہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کو دورہ پاکستان کی بھی دعوت دی جو انہوں نے شکریہ کے ساتھ قبول کرلی ہے اور طے پایا ہے کہ عید کے فوراً بعد ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اور سعودی وزیر خارجہ کے دورہ پاکستان کے خدوخال طے کرنے کیلئے سعودی افسران اعلی سطح کا وفد پاکستان تشریف لائے گا۔ذرائع کے مطابق سعودی ولی عہد رواں برس ہی پاکستان کے خصوصی دورے پر تشریف لانے کا ارادہ رکھتے ہیں اور غالب امکان یہ ہے کہ وہ اپنے متوقع دورہ پاکستان میں سی پیک میں سعودی عرب کی شمولیت کا باضابطہ اعلان بھی فرمائیں گے۔

یاد ش بخیر!سعودی عرب کی سی پیک پروجیکٹ میں براہ راست شمولیت سے پاکستانی معیشت پر انتہائی دور رس اور مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ خاص طور پر گوادر میں اگر سعودی عرب اپنے سابقہ کیئے گئے وعدہ کے عین مطابق آئل ریفائنری کی تکمیل جلد از جلد کرنے میں کامیاب ہوجاتاہے تو اس عظیم الشان تجارتی منصوبہ کے مکمل ہونے سے گوادر کی بندرگاہ کی تجارتی اہمیت و افادیت میں کئی گنا اضافہ ہوجائے گا۔ واضح رہے کہ شہزادہ محمد بن سلمان کے سابقہ دورہ پاکستان کے موقع پر گوادر میں آئل ریفائنری کے قیام کا اعلان کیا گیاتھا۔ مگر چند ناگزیز وجوہات کی بنا پر یہ منصوبہ دونوں اطراف سے تعطل کا شکار ہوگیا تھا۔ اب شنید ہے کہ وزیراعظم پاکستان کے حالیہ دورہ سعودی عرب میں سعودی حکام کی جانب سے اس منصوبہ پر تیزرفتاری کے ساتھ کام شروع کرنے کا عندیہ دے دیا گیا ہے۔

اس کے علاوہ سعودی عرب پاکستان میں سیاسی استحکام میں بھی اپنا کلیدی کردار ادا کر سکتاہے۔ کیونکہ سعودی شاہی خاندان کا صرف مسلم لیگ ن کی اعلیٰ قیادت پر ہی نہیں بلکہ پاکستان کی کم و بیش تمام بڑی مذہبی جماعتوں پر بھی زبردست اثرو رسوخ پایا جاتا ہے۔ یقینا جب سی پیک میں شامل ہوجانے سے سعودی عرب اور پاکستان کے تجارتی و معاشی مفادات یکساں ہوجائیں گے تو پھر سعودی حکام کبھی بھی نہیں چاہیں گے کہ اُن کی پروردہ سیاسی و مذہبی جماعتیں پاکستان میں کسی سیاسی عدم استحکام کا سبب بنیں۔اس نقطہ نگاہ سے جائزہ لیا جائے تو یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ وزیراعظم پاکستان عمران خان کے حالیہ دورہ سعودی عرب نے، دونوں برادر اسلامی ممالک کے درمیان، پراعتماد اور مخلصانہ سفارت کاری کے کئی نئے در، وا کیئے ہیں۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے روزنامہ جرات کراچی کے ادارتی صفحہ پر 13 مئی 2021 کی اشاعت میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں