Afghan Taliban

پاکستان اور افغان طالبان، توقعات، خدشات اور امکانات

طالبان اگر آج کابل کے تخت پر حکمران ہیں تو اُنہیں اس مقام تک پہنچانے میں سب سے زیادہ کردار پاکستان کا ہے۔نیز سقوط کابل کے بعدروزِ اوّل سے ہی اسلام آباد افغان طالبان کا حق اقتدار عالمی برادری سے تسلیم کروانے کے لیئے سفارتی محاذ پر بھی خوب سرگرم عمل رہا ہے۔جبکہ پاکستانی حکومت نوزائیدہ طالبان حکومت کی راہ میں حائل تمام تر سیاسی، انتظامی و معاشی مشکلا ت دور کرنے کے لیئے اپنی جانب سے ہرممکنہ مددو و اعانت بھی فراہم کرتی رہی ہے۔ تاکہ افغانستان میں طالبان کی حکومت کو جلد از جلد سیاسی و معاشی استحکام میسر آسکے۔ مگر بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ اسلام آباد کی جانب سے اتنا بہت کچھ کیئے جانے کے باوجود بھی کابل میں اقتدار کے مزے لوٹنے والی طالبان قیادت نہ صرف پاکستان کے مثبت کردار سے یکسر انکاری ہے بلکہ وہ ایک طویل عرصہ سے پاکستان بھر میں دہشت گرد کاررائیوں میں ملوث کالعدم جماعت تحریک طالبان پاکستان کی بھرپور پشت پناہی کرنے کی بھی مرتکب ہورہی ہے۔

حالانکہ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا اور طالبان کو اقتدار سونپنے کے لئے عالمی برادری اور طالبان کے نمائندہ وفد کے درمیان مذاکرات کے جتنے ادوار بھی ہوئے تھے ان سب میں افغان طالبان کے وفد نے عالمی قوتوں کویہ یقین دہانی کروائی تھی کہ اگر وہ اقتدار میں آجاتے ہیں تو پھر وہ افغان سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال ہونے سے بذور قوت روکیں گے۔ نیز امریکی افواج کے انخلا کے دوران اور اس کے بعد تک افغان طالبان، عالمی ذرائع ابلاغ میں مسلسل اس بات کا اعادہ کرتے رہے ہیں کہ وہ اپنی سرزمین کسی ہمسایہ ملک کے مفادات کو نقصان پہنچانے کے لئے استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ مگر پاکستان کے خلاف افغان سرزمین سے ہونے والے دہشت گردی کے حالیہ واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ افغان طالبان کی حکومت امریکی افواج کے انخلا کے دوران کئے گئے اپنے کسی بھی وعدے کا پاس نہیں کر رہی ہے۔جس سے اِس اندیشہ کو تقویت مل رہی ہے کہ افغان طالبان اور دہشت گرد گروپوں کے درمیان رابطے اور تعاون کی بدولت ہی پاکستان کے بڑے شہروں میں دہشت گرد کارروائیاں جاری ہیں۔

جس کا سب سے بڑا ثبوت 11 دسمبر 2022 کو چمن سرحد پر افغان سیکورٹی اہلکاروں کی بلااشتعال اور بلا امتیاز فائرنگ سے 6 پاکستانی شہریوں کی شہادت اور 17 افراد کا شدید زخمی ہوناہے۔ یاد رہے کہ چمن سرحد پر افغان سکیورٹی اہلکاروں کی بلا اشتعال اور بلا امتیاز پاکستان کے عام شہریوں پر فائرنگ پہلا واقعہ نہیں ہے۔دراصل،سقوط قابل جب سے ہوا ہے تب سے ہر دوسرے تیسرے مہینے پاک افغان سرحد پر افغان سیکورٹی اہلکاروں کی جانب سے جان بوجھ کر گڑ بڑ اور جھگڑے کیئے جارہے ہیں۔ابھی پچھلے مہینے ایسے ہی ایک دل خراش واقعہ میں پاکستان کا ایک بہادر سرحدی محافظ شہید ہوا تھا۔چونکہ بلوچستان کے سرحدی علاقے میں چمن کا باب دوستی 7قبائلی اضلاع کے لوگوں کے لئے پاکستان سے افغانستان آنے جانے کا راستہ ہے۔لہٰذا، افغان سیکورٹی اہلکار مذکورہ راستے پر اَمن و اَمان کی صورت حال کو خراب کرکے بلوچستان میں پاکستان مخالف تحریکوں کو دہشت گردکارروائیاں کرنے کے لیئے اُکسا رہے ہیں۔

تحریک طالبان پاکستان کو افغا ن حکومت کی جانب سے حاصل ہونے والی غیر معمولی عسکری پشت پناہی کی وجہ سے پاکستان بھرمیں دہشت گردی کی نئی لہر سر اُٹھانے لگی ہے۔جس کے نتیجہ میں گزشتہ ہفتہ بلوچستان کے ضلع کوہلو کے علاقہ کاہان میں فوج کے کلیئرنس آپریشن کے دوران بارودی سرنگ پھٹنے سے پاک فوج کے ایک کیپٹن سمیت 5 جری جوان شہید ہوگئے۔نیز اسی دوران دہشت گردوں کے ایک گروہ نے افغانستان سے پاکستان میں ژوب کے علاقے سمبازا کے راستے داخل ہونے کی کوشش کی، وہ خیبرپختونخوا میں تخریب کاری کیلئے جانا چاہتے تھے مگر سکیورٹی فورسز نے ان کا پتہ چلا لیا اور فائرنگ کے تبادلے میں ایک دہشت گرد ہلاک جبکہ ایک جوان شہید ہو گیا۔ جبکہ عین اسی وقت کوئٹہ سمیت بلوچستان کے مختلف شہروں میں دستی بموں سے بیک وقت 5 حملے بھی ہوئے۔جن کے نتیجے میں تین سیکورٹی اہلکاروں، ایک خاتون اور ایک بچی سمیت 15افراد زخمی ہو گئے۔

اکثر تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ چند ہفتوں کے دوران پاکستان بھر میں دہشت گردی کے جتنے بھی اندوہناک واقعات رونما ہوئے ہیں۔اِن سب میں تحریک طالبان پاکستان براہ راست ملوث پائی گئی ہے او ر غالب امکان ہے کہ دہشت گردی کی یہ تمام کارروائیاں ٹی ٹی پی نے افغان حکومت کو اپنے اعتماد میں لے کرہی کی ہوں گی۔ شاید یہ ہی وجہ ہے کہ جب بھی پاکستان نے افغان حکومت کو تحریک طالبان پاکستان کو لگام ڈالنے کے لیئے کہا، طالبان قیادت نے پاکستانی حکام کے مطالبہ کوسُنا اَن سُنا کردیا۔اُصولی طور پر ہمیں نوزائیدہ افغان طالبان حکومت کے خطرناک تیور کا اندازہ اُس وقت ہی ہوجانا چاہیئے تھا،جب کابل کی جانب سے خطرے کے اشارے دکھائی دینا شروع ہوئے تھے۔ خطرہ کا پہلا اشارہ تب ظاہر ہوا تھا،جب افغان طالبان نے حکومت سنبھالتے ہی پاکستان کے مفادات کی پروا کئے بغیر افغان جیلوں سے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے خطرناک مجرموں کو بھگا دیا تھا۔ چونکہ جیلوں سے بھاگنے والے تمام دہشت گرد پاکستان میں دہشت گرد ی کی سنگین کارروائیوں میں مطلوب تھے۔ اس لیے ہمارے اربابِ اختیار کو تب ہی سمجھ جانا چاہئے تھا،افغان جیلوں سے بھاگنے والے کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے دہشت گرد اپنی کارروائیوں کا مرکز ایک بار پھر سے پاکستان کو ہی بنائیں گے۔

خطرے کا دوسرا اشارہ تب ملا،جب سوات میں ایک بار پھر سے کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے شریعت کو بحال کرنے کے نام پر اپنے آپ کو منظم کرنے کی کوششوں کا آغازکیا۔ چونکہ خیبر پختونخواہ میں قائم تحریک انصاف کی حکومت خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہی تھی،لہٰذا،صوبائی حکومت نے نہ تو تحریک طالبان پاکستان کو منظم ہونے سے روکنے کی کوئی کوشش کی اور نہ ہی اُن کے خلاف موثر حکمت عملی بنانے کی زحمت گوار اکی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تحریک انصاف کی صوبائی حکومت عمران خان کے نازنکھرے اُٹھانے میں مصروف رہی اور اِسی دوران تحریک طالبان پاکستان نے خیبرپختونخواہ میں دہشت گردی کی کارروائیاں کا آغاز کردیا۔ ملک بھر میں جاری حالیہ دہشت گردی کی لہر بظاہر تو بلوچستان اور خیبرپختونخواہ تک محدود نظر آتی ہے لیکن مستقبل قریب میں اس کا دائرہ کار ملک کے دیگر علاقوں میں بھی بڑھ سکتا ہے۔ جس کاسیدھا سادا سا مطلب پاکستان کو ایک بار پھر سے غیر مستحکم کرنا ہی ہوگا۔ اگر اس ضمن میں تحریک طالبان پاکستان اپنے ایجنڈا میں کامیاب ہو جاتی ہے تو ملک کی پہلے ہی سے لاغر معیشت، مزید جان بلب حالت میں پہنچ سکتی ہے۔

دوسری جانب ملک سے ماہانہ 2 ارب ڈالر افغانستان جا رہے ہیں۔یاد رہے کہ اگست 2021 میں جب افغانستان میں طالبان حکومت آئی تھی تو ڈالر 155 روپے کا تھا۔لیکن امریکی افواج کے انخلاکے بعد افغانستان میں امریکی ڈالر کی رَسد بند ہوئی،جبکہ دنیا بھر سے دیگر تجارتی سامان بھی کی آمد و رفت بھی منقطع ہوگئی تھی۔جس کی وجہ سے پاکستان سے 3 ہزار کنٹینرز،درآمد کرنے والا افغانستان عالمی پابندیوں کے بعد 15ہزار کنٹینرز منگوا رہا ہے۔ افغان تاجر یہ سامان پاکستان میں فروخت کرکے بدلے میں ڈالر لے جاتے ہیں اور پاکستان سے سامان کی خریداری میں وہ سالوں سے جمع پاکستانی روپے کا استعمال کر رہے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ افغان تاجر پاکستانی روپے سے ڈالر کی خریداری کیلئے اوپن مارکیٹ سے 30 روپے تک زیادہ دے رہے ہیں جس سے پاکستانی ایکسچینج کمپنیوں کے پاس اپنے صارفین کو فروخت کرنے کیلئے امریکی ڈالر نہیں ہیں۔ایک محتاط اندازے کے مطابق افغان شہری پاکستان سے یومیہ 50 لاکھ سے 70 لاکھ ڈالر خرید رہے ہیں،چونکہ ان کے پاکستان آنے جانے پر پابندی نہیں ہے اور ہر افغان شہری کو ایک ہزار ڈالر لے جانے کی اجازت ہے۔لہٰذا، پاکستان سے بڑی تعداد میں امریکی ڈالر افغانستان منتقل ہورہا ہے۔ جس کے سنگین نتائج پاکستانی معیشت کو بھگتنا پڑرہے ہیں۔

جبکہ خیبر پختونخواہ کی حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کی غیر سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ وہ اپنے صوبے میں سر اُٹھانے والے تحریک طالبان پاکستان کے دہشت گردوں کو کچلنے کے بجائے اُلٹا پاکستان کے تحفظ کے ضامن سیکورٹی ادارے کے خلاف نفرت آمیز اور طعن و تشنیع سے بھرپور، ٹرینڈز سوشل میڈیا پر چلارہی ہے۔نیز پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان جلد ازجلد اقتدار حاصل کرنے کی ہوس میں مسلسل پاک فوج کو اپنی مدد کیلئے پکار رہے ہیں اور اِس حوالے سے وہ تجویز دے رہے ہیں کہ عسکری انٹیلی جنس کو انسداد بد عنوانی کے لیئے بھرپور انداز میں استعمال کیا جائے۔

حالانکہ ہم سب جانتے ہیں کہ عسکری اداروں کی پہلی ترجیح دہشت گردوں کا تعاقب کرکے اُن کا قلع قمع کرنا ہونا چاہئے۔اَب یہ بات کسی فرد بشر سے ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ ہماری مشرقی اور مغربی سرحدوں پر واقع دو ممالک پاکستان کے خلاف دہشت گردی اور سازشوں کا گڑھ بن چکے ہیں اور ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے دہشت گردی کی اِن محفوظ پنا ہ گاہوں کو نیست و نابود کرنے کے لیئے دن رات سرگرم ِ عمل ہیں۔یہاں ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ وطن کی سلامتی اور بقا کے لیئے پاک فوج مخالف پروپیگنڈے کو سختی کے ساتھ رَد کیا جائے اور پاکستانی عوام آگے بڑھ کر عسکری اداروں کے خلاف سوشل میڈیا پرمعاندانہ مہم کی پشت پناہی کرنے والے سیاسی قائدین کا سختی کے ساتھ محاسبہ کرے۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے روزنامہ جرات کراچی کے ادارتی صفحہ پر 02 جنوری 2023 کی اشاعت میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں