Pak Army Chief in China

عساکر پاکستان کی اعلیٰ قیادت کا تاریخ ساز دورہ چین

پاکستان اور چین کے دوستانہ تعلقات کی عمر نصف صدی سے زائد عرصہ پر محیط ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ دونوں ممالک کے درمیان قائم معاشی، سیاسی،تہذیبی اور دفاعی شراکت داریاں نئی بلندیوں کی جانب محو پروازہیں۔شاید یہ ہی ایک ایسادُکھ ہے جو ہمارے بد خواہوں کو ہمیشہ پریشان کیئے رکھتا ہے اور وہ پاکستان اور چین کے رشتہ یگانگت کے بارے میں پاکستانی عوام کے اذہان میں شکوک و شبہات اور اندیشوں کا زہرِ ہلاہل اُنڈیلنے کا کوئی موقع اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ ویسے تو پاکستانی وچینی عوام کو پختہ یقین ہے کہ پاکستان اور چین کی ”دیوار ِ دوستی“ میں نقب لگاناآسان کام نہیں ہے لیکن کبھی کبھار ہمارے دشمن، ملک کے اندر اور باہر پاک چین دوستی کے خلاف اتنے منظم اور بھرپور انداز میں پروپیگنڈا مہم چلاتے ہیں کہ اچھے خاصے پڑھے لکھے اور سمجھ دار پاکستانی بھی پاک چین دوستی کے مستقبل کے بارے میں گہر ی فکر اور تشویش میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔

گزشتہ ایک دو ماہ سے قومی ذرائع ابلاغ بالخصوص سوشل میڈیا پر بیرونی سازش،امریکی مداخلت،سفارتی خط،تحریک عد م اعتماد اور سابق وزیراعظم پاکستان کے دورہئ روس کے مختلف النوع موضوعات کو آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ کچھ ایسے خلط ملط کردیا گیا ہے کہ سیاست کاری اور سفارت کاری کی گویا کچھڑی سے پک گئی ہے۔ مثال کے طورپرپاکستانی وزارت خارجہ کو کیسی سفارت کاری کرنی چاہیئے یا کس ملک سے اُنہیں سفارتی تعلقات رکھنے یا نہیں رکھنے چاہیے، اُس کے فیصلے اور مشورے سوشل میڈیا صارفین،فیس بک اور ٹوئٹر پر نمٹانے لگے ہیں۔ دراصل کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ لائک،ری ٹیوٹ،وائرل اور ٹاپ ٹرینڈ پانے کی ہوس نے سوشل میڈیا صارفین کو اتنا حواس باختہ کردیا ہے کہ وہ سچی اورجھوٹی خبر،یا افواہ اور مصدقہ خبر کے درمیان تمیز کرنا ہی بھول گئے ہیں۔ سب سے زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ بے لگام سوشل میڈیا میں ریاست پاکستان کے داخلی اور بیرونی معاملات کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ خاص طور پر چین اور پاکستان کے دوستانہ تعلقات کے بارے میں پورے شد و مد کے ساتھ منفی خبریں وائرل کی جارہی ہیں اور یہ پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ ریاست پاکستان چین کے ساتھ اپنے تمام تر سفارتی تعلقات منقطع کرکے، امریکا کے کیمپ میں شمولیت اختیار کرچکا ہے۔

پاکستان اور چین کے دوستانہ مراسم پر سنگین نوعیت کے سوالات اُٹھانے والی مذموم پوسٹوں اور ٹوئٹس کی سوشل میڈیا پر بہتات ہوجانے کی وجہ سے پوری پاکستان قوم اس وقت سخت ذہنی کرب اور فکری عذاب میں مبتلا ہے اور لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال کلبلانے لگاہے کہ آخرپاک چین دوستی کا مستقبل کیا ہوگا؟۔ واضح رہے کہ اِس اہم ترین اور مشکل سوال کا تسلی بخش جواب پوری قوم کو اُس لمحے حاصل ہوگیا،جب انہوں نے ذرائع ابلاغ پر یہ خبر پڑھی اور سنی کہ پاکستان کی تینوں مسلح افواج کے ایک اعلیٰ سطحی وفد نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی قیادت میں 9 سے 12 جون تک عوامی جمہوریہ چین کا شاندار دورہ کیا ہے۔واضح رہے کہ 12جون کو چین میں اپیکس کمیٹی کی میٹنگ ہوئی جس میں دونوں طرف کے اعلیٰ افسران شامل تھے اور اِس غیر معمولی اپیکس کمیٹی کی صدارت آرمی چیف قمر جاوید باجوہ نے کی جو پاکستان کے لئے ایک بہت بڑا اعزاز ہے۔ اس میٹنگ میں چینی وفد کی قیادت جنرل ژانگ یوشیا نے کی جو وائس چیئرمین سنٹرل ملٹری کمیشن ہیں۔ اِس دورے میں عساکر پاکستان کے وفد نے نہ صرف چینی فوج اور دیگر سرکاری محکموں کے اعلیٰ حکام کے ساتھ مختلف موضوعات پر بھرپور تبادلہ خیال کیا بلکہ اِس غیر معمولی دورہ کے اختتام پر پاکستان اور چین نے مشکل وقت میں سٹریٹجک پارٹنر شپ کو وسعت دینے کے عزم کا اعادہ بھی کیا۔

آئی ایس پی آر کے مطابق ایپکس میٹنگ میں پاکستانی وفد کی قیادت چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کی جبکہ چینی وفد کی قیادت چین کے سینٹرل ملٹری کمیشن کے وائس چیئرمین جنرل ژانگ یوشیا نے کی۔دونوں اطراف نے بین الاقوامی اور علاقائی سلامتی کی صورتحال پر اپنے اپنے نقطہ نظر پر تبادلہ خیال کیا اور دونوں ممالک کے درمیان دفاعی تعاون پر اطمینان کا اظہار کیا گیا۔جبکہ پاکستان اور چین نے مشکل وقت میں اپنی تزویراتی شراکت مضبوط بنانے اور دونوں دوست ممالک کی افواج نے تربیت، ٹیکنالوجی اور انسداد دہشت گردی تعاون کو بڑھانے کے عزم کا اظہار بھی کیا۔

آئی ایس پی آر کا اس غیر معمولی دورہ کے حوالے سے مزید کہنا تھا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید واحد فوجی رہنما ہیں جنہوں نے چینی صدر کی دعوت پر چین کا دورہ کیا ہے۔ اس سے پہلے پاکستان کے آرمی چیف اپنے چینی ہم منصب کی دعوت ہی پر چین کا دورہ کرتے رہے ہیں۔اس سے حالیہ دورے کی اہمیت کا بخوبی اندازہ ہوتاہے کہ پاک چین اسٹریٹجک پارٹنرشپ واقعی پہاڑوں سے اونچی، سمندر سے گہری، شہد سے میٹھی ہے، جبکہ ملٹری ڈپلومیسی اور ملٹری ٹو ملٹری تعاون بھی اعتماد کی نئی بلندیوں کو چھو رہا ہے۔یاد رہے کہ اپیکس کمیٹی کے ارکان آرمی چیف اور وائس چیئرمین سینٹرل ملٹری کمیشن ممبران ہیں، جبکہ ذیلی کمیٹیوں میں جوائنٹ کوپ ملٹری امور مشترکہ تعاون فوجی ساز و سامان اور تربیت شامل ہے۔پاک چین فوجی تعاون کمیٹی کے زیر انتظام ہونے والے اس دورے میں دونوں ممالک کی فوجی قیادت کے اس رابطہ کو عالمی ذرائع ابلاغ میں بھی بڑی اہمیت کا حامل قرار دیتے ہوئے کہا جارہا ہے کہ اس کے پاک چین دفاعی تعلقات پر مستقبل میں انتہائی دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔

سب سے اچھی بات یہ ہے کہ عساکر پاکستان کے وفد کے اس غیر معمولی دورہ چین نے گزشتہ چند ماہ سے سوشل میڈیا پر زیرگردش ایسی تمام افواؤں اور جھوٹی خبروں کی سختی کے ساتھ بیخ کنی کردی ہے، جن میں پاکستان اور چین کے سفارتی، سیاسی اور دفاعی مراسم کو شکو ک وشبہات کی نگاہوں سے جانچا جا رہا تھا۔علاوہ ازیں یہ دورہ اس بات پر بھی مہر تصدیق ثبت کرتا ہے کہ چین اور پاکستان یک جان دوقالب کی مانند ہیں اور شخصیات کے اقتدار میں آنے،جانے سے دونوں ممالک کے ریاستی تعلقات پر ذرہ برابر بھی فرق نہیں پڑتا۔ دونوں ممالک کے عوام ایک دوسرے کو کتنا پسند کرتے ہیں، اس کا اندازہ چین کی ایک یونیورسٹی کے رواں برس،ماہ مارچ میں ہونے والے اس سروے سے بہت اچھی طرح لگایا جا سکتا ہے۔ جس میں چین کے 73فیصد شہریوں نے پاکستان کے بارے میں انتہائی مثبت خیالات کا اظہار کیا ہے۔واضح رہے کہ پاکستان اور چین کی فقید المثال دوستی کے تین مضبوط حصار ہیں۔اوّل حکومتی روابط کا حصار،دوئم دفاعی تعلقات کا حصار اور سوئم عوامی محبت کا حصار، اور اُن میں کوئی بھی حصار اتنا کمزور،یابودا نہیں ہے کہ جس میں ہمارا بزدل اور سازشی دشمن نقب لگاسکے۔

حوالہ: یہ کالم سب سے پہلے روزنامہ جرات کراچی کے ادارتی صفحہ پر 16 جون 2022 کی اشاعت میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں